مولانا نور عالم خلیل امینی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں ”کم یاب“ ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
(علی محمد شاد عظیم آبادی: ۶۴۸۱ — ۷۲۹۱ء)
چہار شنبہ وپنج شنبہ (بدھ – جمعرات) : ۲۲-۳۲ رجب ۱۴۴۱ھ مطابق ۸۱-۹۱ مارچ ۲۰۲۰ء کی شب میں عشا کی نماز کے بعد مفتی صاحب نے بخاری شریف کا آخری درس دیا۔ جب درس گاہ یعنی دارالحدیث: دار العلوم کے کتب خانے کی نئی عمارت کے زیریں ہال میں حاضری ہوئی، تو حسبِ معمول اُنھوں نے حمد وصلاة کے بعد، سبق کا خلاصہ ذکر کیا، اس کے بعد متعینہ طالب علم نے بخاری شریف کی متعلقہ حدیثیں پڑھیں۔ آپ نے حدیثوں کے مطلوب و مفہوم پر حسبِ توفیق گفتگو کی۔ پھر طالب علم نے آگے کی عبارت پڑھی اور آپ نے حسبِ منشا گفتگو کی۔ اُس کے بعد پھر طالب علم نے آگے کی حدیثوں کی خواندگی کی؛ لیکن اس کے بعد آپ نے جو کچھ کہنا چاہا، اُس پر قادر نہ ہوسکے، زبان و دماغ نے ساتھ نہیں دیا۔
خاصی دیر تک یہ ہوا کہ بخاری شریف کے صفحات آپ کے سامنے کھلے رہے؛ لیکن اُن کے اپنے اِرادے اور کوشش کے باوجود اُن کی زبان بندی ختم نہ ہوسکی، دیر تک خاموش نشستگی کی حالت میں جب اُن کا دل بہت متاَثر اور پرغم ہوگیا، تو یہ کیفیت چشمِ تر سے چہرے پر ٹپکتے ہوئے آنسوؤں سے عیاں ہونے پر ۱۵ سو طلبۂ دورۂ حدیث کی جماعت، جو شریکِ درس تھی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
دارالعلوم دیوبند کے اُستاذ مولانا ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی نے (جو مفتی صاحب کے محبوب اور ہمہ وقت حاضر باش، دکھ درد میں شریک رہنے والے شاگردِ رشید ہیں) جو مفتی صاحب کی زندگی کے اس آخری درس میں موجود تھے؛ مفتی صاحب سے گزارش کی کہ آپ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھالیں؛ تاکہ طلبہ خاموش طور پر آپ کے ساتھ دعا کرلیں؛ لیکن مفتی صاحب نے دھیمی آواز میں یہ آخری جملہ اِرشاد فرمایا ” اب جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا“۔
گویا درس گاہ میں اُن کے آخری درس کا یہ آخری جملہ تھا، جو اَب طلبہ کی زبان پر عرصۂ دراز تک جاری رہے گا اور وہ بہ طور ہدیۂ ثمینہ ایک دوسرے کو پیش کرتے اور غم کُشی کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے۔ پھر انتہائی شکستہ دلی کی حالت میں کتاب بند کرکے، فورًا کھڑے ہوگئے اور مسندِ درس سے اترکر، ہال کے باہر کھڑی کار میں بیٹھ اپنے گھر آگئے۔ مولانا اشتیاق نے کار میں بیٹھتے ہی اُن سے عرض کیا کہ حضرت! ابھی دارالعلوم میں تعلیمی سال کے ختم پر ہونے والی سالانہ تعطیلِ کلاں نہیں ہوئی ہے، آپ کل ممبئی تشریف لے جارہے ہیں، اِن شاءاللہ چند ہی روز میں شفایاب ہوکر جب تشریف لے آئیں گے، تو اِس آخری درس کا باقی ماندہ مکمل فرمادیں گے اور طلبہ کو جو آخری نصیحت کرنی ہوگی وہ بھی ان شاء اللہ کردیں گے۔ یہ سن کر اُن کے چہرے پر اطمینان و انبساط کی لکیریں ابھر آئیں۔
گھر (جو اندرون کوٹلہ میں واقع ہے) پہنچ کر اپنے دیوان خانے میں کرسی پر بیٹھتے ہی غم زدہ و اُداس لہجے میں فرمایا کہ لگتا ہے کہ میں آیندہ سال بخاری شریف کا درس نہیں دے سکوں گا۔ مولانا اشتیاق نے اُنھیں تسلی دی اور عرض کیا کہ حضرت! آپ خاطر جمع رکھیں، آپ اِن شاء اللہ آیندہ سال بھی اپنی تعلیمی وعلمی ذمّے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہیں، گزشتہ سال بھی آپ کو زبان بندی کا عارضہ لاحق ہوا تھا؛ لیکن دوا و علاج سے آپ بحمداللہ بہ عجلت صحت یاب ہوکر اپنے تدریسی و تحریری مشاغل اور دیگر واجباتِ زندگی میں سرگرم عمل ہوگئے تھے، تا آں کہ دوبارہ یہ صورتِ حال پیش آئی ہے، اِن شاءاللہ آپ اِس مرتبہ بھی جلد ہی شفایاب ہوں گے۔ مفتی صاحبؒ ہمت و حوصلے کے آدمی تھے، تسلّی دہندہ کی ان باتوں کو سن کر، بڑی حد تک مطمئن ہوگئے۔
آیندہ کل، یعنی جمعرات: ۳۲ رجب ۱۴۴۱ھ = ۱۹ مارچ ۲۰۲۰ءکو علاج کے لیے ممبئی تشریف لے گئے، جہاں اُن کی صاحب زادی، داماد، اُن کے اہل خانہ اور دیگر اعزا واقربا کی بود وباش ہے۔ دوسرے روز، یعنی جمعہ: ۴۲ رجب = ۲۰ مارچ کو اُن لوگوں کے مشورے سے، ممبئی کے ”مومن“ برادری کے ہسپتال ”ملت“ میں علاج کے لیے داخل ہوے۔ وہاں تشخیص ہوئی کہ کولسٹرول بہت بڑھا ہوا ہے اور موجودہ ساری پریشانیاں اسی کی وجہ سے ہیں۔ وہاں بھرپور توجّہ کے ساتھ علاج ہوا اور ۴ روز بعد ہی، یعنی دوشنبہ: ۲۷ رجب = ۲۳ مارچ کو شفایاب ہوکر ممبئی کی قیام گاہ واپس آگئے۔
۲۸ رجب = ۲۴ مارچ کو ہندوستان کے وزیر اعظم نے ”کورونا وائرس“ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے پہلے قدم کے طور پر ”جنتا لاک ڈاؤن “ کا اِعلان کیا، چناںچہ اُس دن باشندگانِ ملک نے اس فرمان کی مکمل تعمیل کی۔ اُسی روز، یعنی ۸۲-۹۲ رجب =۴۲-۵۲ مارچ کی رات میں وزیر اعظم نے ملک گیر مکمل لاک ڈاؤن کا اِعلان کردیا اور ۱۲ بجے رات سے اُس کا نفاذ عمل میں آگیا؛ لہٰذا پورے ملک میں جو جہاں تھا وہیں پھنس گیا؛ کیوں کہ آمد ورفت کے سارے ذرائع بالکلیہ موقوف کردیے گئے۔
مفتی صاحبؒ کو مجبوراً ممبئی ہی میں مقیم رہنا پڑا۔ اُنھوں نے وہاں کے قیام کو طبی ہدایات کے تحت آرام اور محض وقت گزاری کی نذر نہیں ہونے دیا؛ بل کہ پردیس میں مُیَسَّر وسائل سے کام لے کر علمی مشاغل کو بھی حتی الامکان جاری رکھا؛ کیوں کہ یہ اُن کی روح کی غذا اور بیماریوں کی دوا تھے۔ نیز رمضان مبارک کے آغاز سے ہی، اُنھوں نے نمازِ تراویح کے بعد،آن لائن مواعظ کا سلسلہ بھی شروع کیا، جس سے خلقِ خدا کو بہت فائدہ ہوا۔
دوشنبہ: ۱۷ رمضان = ۱۱ مئی کو اُنھیں بخار محسوس ہوا، جس سے خاصی کم زوری پیدا ہوگئی۔ جمعرات: ۱۸ رمضان = ۲۱ مئی کو اُنھیں ممبئی کے ”ملاڈ“ کے ”نیوسنجیونی“ ہسپتال میں داخل کردیا گیا، وہاں تشخیص ہوئی کہ پھیپھڑے میں پانی بھرگیا ہے، جس کی وجہ سے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے، چناںچہ سخت نگرانی کے یونٹ ”آئی سی او“ میں اُنھیں منتقل کردیا گیا۔ دو تین روز بعد اِفاقے کی کیفیت محسوس ہوئی؛ لیکن پھر بیہوشی کا عالم طاری ہوگیا اور بالآخر سہ شنبہ: ۵۲ رمضان = ۱۹ مئی کی صبح کو تقریباً 6:30 ساڑھے چھ بجے اُنھوں نے آخری سانس لی اور ربّ کریم کے جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون
۵۲ رمضان ہی کو اُن کی پہلی نماز جنازہ مذکور الصدر ہسپتال کے قریب ایک مسجد کے باہر ادا کی گئی جس کی امامت اُن کے صاحب زادے مولانا وحید احمد نے کی۔ دوسری نماز، جو تدفین سے قبل قبرستان میں ادا کی گئی، کی امامت اُن کے ایک دوسرے صاحب زادے حافظ قاری عبد اللہ نے کی۔ شام کے سوا چھ بجے اس گنجینہ ¿ علم وفضل کو ممبئی کے ”جوگیشوری“ کے ”اوشیورہ“ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود معتد بہ تعداد نے نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ اللہ اُن کی قبر کو نور سے بھردے اور شہدا و صالحین و صدیقین کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور تمام پس ماندگان ومحبین وتلامذہ و متعارفین کو صبرِ جمیل واجرِ جزیل سے بہرہ یاب کرے۔
ذرائعِ اِبلاغ کی برق رفتاری کی وجہ سے مفتی صاحب کی وفات کی خبر نہ صرف ہندوستان وبرّصغیر میں؛ بل کہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دارالعلوم اور قاسمی برادری کے حلقے کو خصوصاً اور دینی وعلمی حلقے کو عموماً اِس حادثۂ جاںگسل سے جو حزن و ملال ہوا، اُس کو کسی لفظی تعبیر کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دارالعلوم کو اُن کی وفات سے جو خسارہ لاحق ہوا ہے، اُس کی تلافی کی بہ ظاہر کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی، البتہ خداے قادر وہّاب کی رحمت سے ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ دارالعلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد فخرالدین احمد نور اللہ مرقدہ (۷۰۳۱ھ/ ۹۸۸۱ء— ۲۹۳۱ھ/ ۲۷۹۱ئ) کے بعد سے ہی شیخ الحدیث کا منصب اُن جیسے عالی مقام محدث کے لیے ترستا رہا ہے، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مفتی سعید احمد پالن پوری نے اپنے کئی پیش رووں کے بعد اپنے عہد میں اس خلا کو پُرکردیا تھا؛ لیکن یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اُن کی وجہ سے اُن کے فیض یافتگان کو خاصی علمی وفکری تسلّی محسوس ہوتی تھی، جس کی بنا پر اُن کے ذہنوں میں حضرت مولانا سید فخرالدین احمد قدس سرّہ العزیز جیسے عظیم الشان مشایخِ حدیث کی دھندلی سی تصویر گردش کرنے لگتی تھی۔
مفتی صاحب کی علمی شخصیت تعمیرِ ذات وصفات میں جہدِ مسلسل کے طفیل خاصی بھاری بھرکم اور باوقار وبااعتبار بن گئی تھی۔ وہ دارالعلوم کے موجودہ ماحول میں علم وفضل کی ترازو کا بہترین پاسنگ تھے، جس کی غیرمعمولی اہمیّت ہوا کرتی ہے؛ کیوں کہ وہ ترازو کے توازن کا ضامن ہوتا ہے۔
محنت، قدردانیِ اوقات، انہماکِ عمل، ذہانت وقوتِ حافظہ، سرعتِ فہم، کمال کی استنتاجی صلاحیت، مسائل کی تہوں تک زودرسی اور تقریر وتحریر میں ترتیب وانضباط اور تفصیل وتسہیل کا اہتمام جیسی صفات، اُن کو بہت سے معاصر علماءومدرسین سے ممتاز کرتی تھیں۔ تاثیری انفرادیت، زبردست ترسیلی قوت اور تفہیمی لیاقت اُن کی شناخت تھی۔ وسعتِ مطالعہ (جس کو پیہم وناآشناے تکان تدریسی وتحریری سرگرمیوں نے پختگی واستحضاری اور مزید وسعت پذیری عطا کی تھی) کی وجہ سے وہ علمی مسائل کے حوالے سے تازہ دم وتازہ کار رہتے تھے۔
خود اعتمادی وخدا اعتمادی، جرأت وبے باکی، صبر واستقامت، بیدار مغزی اور ہمت وحوصلے کی فراوانی؛ معرکۂ حیات میں اُن کی شمشیریں تھیں۔ کتاب وسنت کے گہرے مطالعے سے کشیدہ، اپنی علمی ودینی و اعتقادی آرا پر ثبات واِصرار اور دلائل وبراہین کی روشنی میں اہلِ علم سے اختلاف کا اِظہار اور بہ وقتِ ضرورت اُن کے علمی استنتاجات کی تردید وتصحیح میں وہ کبھی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ دینی واعتقادی مسائل میں شخصی روایات کی تقلید پر، کتاب وسنت کی اصلی تصریحات اور واضح ہدایات کی علمی ترجیح وتایید اور عملی توثیق میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔
اپنی علمی بلند قامتی کی وجہ سے نہ صرف دارالعلوم کے ماحول میں؛ بل کہ سارے دیوبندی حلقے اور عام علمی ودینی برادری میں، علمی وعملی رویّوں کے حوالے سے، بعض دفعہ رونما ہونے والی ناہم واریوں اور عدمِ توازن کی کیفیتوں کے بالمقابل؛ وہ توازن کا واضح استعارہ تھے۔
اُن کی قدآور علمی شخصیّت کے طفیل، دارالعلوم میں جو علمی ہل چل تھی، تحقیق وجستجو کے باب میں خوب سے خوب تر حد تک پہنچنے کی جو تگ وتاز رہا کرتی تھی، اُن کی علمی تحقیق کی چٹان سے بعض دفعہ نتائج مطالعہ وفکری اکتسابات کی موجیں جس طرح ٹکراکر پاش پاش ہوتی رہتی تھیں؛ اب اِس منظر کو دیکھنے کے لیے آنکھیں نہ جانے کب تک ترستی رہیں گی۔
درس گاہوں میں دیے گئے اُن کے تدریسی وعلمی محاضرات، فِرَقِ باطلہ کی تردید میں کی گئی اُن کی علمی وتحقیقی تقریریں اور عام مجلسوں میں اُن کے واعظانہ ارشادات بھی علمی نکتہ آفرینیوں، عالمانہ ژرف نگاہیوں اور متکلمانہ دراز نفسیوں کا نمونہ ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی عوامی تقریریں بھی خواص ہی کے لیے زیادہ مفید ہوتی تھیں۔ سنجیدگی وبالیدگی اور دانش ورانہ طرز ادا اُن کی ساری لسانی تخلیقات وبخشایشوں کی شناخت ہوتی تھی۔ اِس کے باوجود اُن کے عوامی خطابات سے عوام کو بہت فائدہ ہوا؛ کیوں کہ اُنھوں نے اُن میں سادہ وعام فہم الفاظ و تعبیرات سے کام لینے کی کوشش کی۔
علمی مسائل کو حل کرنے، یا سائل کو اُن کا جواب دینے میں، کبھی عجلت پسندی، تاویلِ ناروا اور کھینچ تان سے کام نہ لیتے۔ اگر کوئی بات واضح طور پر معلوم نہ ہوتی، یا اگر اُس کا کوئی گوشہ اُن کے ذہن میں واضح نہ ہوتا، تو وہ توقّف کرتے اور سائل سے فرماتے کہ مجھے اِس سلسلے میں تامّل ہے، یا میں اس سے ناواقف ہوں۔ پھر علمی مراجعے کے بعد ہی وہ تسلّی بخش جواب دیتے؛ اِسی لیے راقم کو اُن کے مطالعاتی اور علمی رویّے پر بڑا اعتماد تھا اور اُس کو اُن کے اِس طرزِ عمل سے بے حد خوشی ہوتی تھی۔
”اہل علم“ کی شناخت یا شہرت کے حامل افراد بالعموم علمی مسائل کا عاجلانہ جواب دینے اور مسائل کے گوشوں کے مُبہَم یا نامعلوم ہونے کی صورت میں بھی سائل کو تاویلاتِ بے جا کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کے ذریعے اپنی شخصیت کے حوالے سے بھی غیرمطمئن بنادیتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے (جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے): ” إنَّ من العِلمِ اِذا سُئِلَ الرَّجُلُ عَمَّا لا یَعلَمُ أن یَقُولَ: اللہُ أعلَمُ“ (طبقات الحنابلة، ج۱، ص۰۱)۔ یعنی یہ بھی علم ہے کہ کسی آدمی سے ایسی بات معلوم کی جائے جس سے وہ لاعلم ہے، تو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا زیادہ علم ہے۔
مفتی صاحبؒ سے راقم نے بارہا بہت سی حدیثوں کے متن یا شرح یا کسی خاص لفظ کا مدلول جاننا چاہا، تو مُتَعَدِّد مرتبہ اُنھوں نے فوراً جواب دینے سے گریز کرتے ہوے فرمایا: مولانا! میں آپ کو اِس سلسلے میں کل بتاسکوں گا؛ چناں چہ دوسرے دن یا اُس کے بعد وہ بہ ذریعہ فون راقم کو اس سلسلے میں اطمینان بخش جواب دیتے۔
خود راقم کا بھی اُن کے ساتھ یہی رویّہ رہا کہ اگر وہ کسی صرفی یا نحوی یا لغوی اِشکال کے متعلق تدقیق چاہتے، تو معلوم ہونے کی صورت میں، راقم اُنھیں اُسی وقت راہِ صواب بتادیتا؛ ورنہ مطالعے کے بعد، وہ اس حوالے سے گرہ کشائی کی توفیق پاتا، سچ یہ ہے کہ ہم دونوں اِس مشترکہ طرزِ عمل سے ایک دوسرے سے بے انتہا مطمئن تھے۔
دارالعلوم میں الحمد للہ، ذی علم وباکمال و اَصحابِ قال وحال اساتذہ کی کمی نہیں؛ لیکن مفتی صاحب کی ممتاز علمی شخصیت سے طلبہ کو اُن کے طویل تدریسی دورانیے میں جو علمی وفکری فائدہ ہوا، وہ مقدار ومعیار کے اعتبار سے مثالی رہا۔ دارالعلوم کا دارالحدیث، اُس کی درس گاہیں؛ بل کہ اُس کے دروبام اور وہاں وقتاً فوقتاً سجنے والے بڑے بڑے اجتماعات کے اسٹیج، اُنھیں عرصے تک ڈھونڈتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی ایسی علمی عظمت کا خمیر، بڑی مشکل سے، لیل ونہار کی دراز نفس گردشوں، غیر معمولی پاکیزہ پس منظروں اور والدین سمیت لاتعداد صلحا واتقیا کی دعاؤں اور نگاہ ہائے مومنانہ کے ساحرانہ فیضان اور سب سے بڑھ کر خداے کریم کی توفیقِ خاص سے اٹھتا ہے۔
اِس لیے اُن کی رحلت سے جو خلا دارالعلوم میں پیدا ہوا ہے، وہ غیرمعمولی ہے اور آسانی سے پُر ہونے والا نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ یہ درس گاہِ علم ودین خداے عظیم کے خصوصی فضل وکرم کا ثمرہ ہے، جو شب زندہ دار علماے ربّانیین کی آہِ سحرگاہی اور عرصۂ دراز تک اُن کی گریہ وزاری کی وجہ سے اِس خطۂ زمین کی طرف متوجّہ ہوکر ”مدرسہ اسلامی عربی، دیوبند“ کی شکل میں مُجَسَّم ہوا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمتِ واسعہ سے امید ہے کہ اِن شاءاللہ، اِس خسارے کی تلافی وہ غیب سے ضرور کرے گا۔ وَمَا ذَلِکَ علَی اللّٰہِ بِعَزِیز۔
مفتی صاحبؒ میں ایک بہت اچھی بات یہ تھی کہ علمی وقار واعتبار کے باوجود، اُن میں اِحساسِ برتری کی بُرائی نہ تھی، جو اہلِ علم میں عموماً پیدا ہوجاتی ہے، وہ تکلّفانہ رعب داب سے بھی کام نہ لیتے تھے؛ اِسی لیے طلبہ اُن سے خاصے مانوس رہتے تھے اور درس گاہوں کے علاوہ بھی، اُن کے لیے اُن سے استفادہ وفیض یابی آسان ہوا کرتی تھی۔ ہمہ وقتی مشغولیت کے باوجود عصر کے بعد اور دوسرے اوقات میں بھی ملنے جلنے کے لیے آنے والوں کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے، جو اُن کی وسعتِ ظرفی وتحمل مزاجی کی بات تھی۔
وہ عام زندگی میں بھی سادہ، بے تکلف اور حلیم الطبع تھے۔ سختی، کرختگی، ترش روئی، سخت گیری اور تلخ گوئی سے ہمیشہ بچتے تھے۔ بعض اہل علم بہ ظاہر خوش مزاج وخوش طبع وبذلہ سنج ہوتے ہیں؛ لیکن وہ نکتہ سنجیوں کے رویّے کی تہ دار یوں میں مخاطب کو بعض دفعہ اپنی ناوک افگینیوں سے بُری طرح گھائل کرجاتے ہیں۔ مفتی صاحبؒ کا اندازِ کلام اور زندگی کا عام طریقۂ کار ایسا رہا کہ کسی کو کبھی بھی اُن سے دلی تکلیف نہیں پہنچی۔
اسی کے ساتھ وہ زود رس، زود حِس، زود نویس اور زود فکر تھے۔ تردّد، اضطراب اور شش وپنج سے اُن کی بیاضِ حیات بالکل خالی تھی، پیش آمدہ کسی بھی مسئلے میں بروقت اور صائب فیصلہ لیتے اور اُس کو بروقت برپا کرنے کی کوشش کرتے۔ زود نویسی کا یہ عالم رہا کہ ہمہ گیر مشغولیتوں کے باوجود، انتہائی کارآمد وفیض بخش تصنیفات کا ڈھیر لگاگئے۔ راقم بھی چوںکہ قرطاس وقلم کی راہ کا ہی ناتواں مسافر رہا ہے؛ اِس لیے وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ کام کی چند سطریں بھی تحریر کرنی کتنی مشکل ہوتی ہیں؛ بل کہ بعض دفعہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے سیکڑوں صفحات کا مطالعہ بھی ناکافی ہوتا ہے۔ مفتی صاحبؒ پر یہ راقم اِس حوالے سے بہ طورِ خاص رشک کرتا تھا، وہ اُن سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ ”رجل مُوَفَّق“ یعنی باتوفیق آدمی ہیں، آپ کے وقت اور قلم دونوں میں بے پناہ برکت ہے۔ یہ راقم تمام تر عزلت نشینی؛ بل کہ مردم بے زاری کی حد تک علائق سے بالکلیہ پرہیز کے باوجود، اِس سلسلے میں اُن کی گردِ راہ کو بھی نہ پاسکا؛ کیوں کہ وہ سست نگار اور مطالعہ ونتائجِ مطالعہ سے فائدہ اُٹھانے میں سست قدم واقع ہوا ہے۔
اپنے مشہور تدریسی کارناموں کے ساتھ، اُنھوں نے مفید تر تصنیفات وتحقیقات کا اپنے پیچھے ایک بھراپُرا اسلامی کتب خانہ چھوڑا ہے، جو اُنھیں حیاتِ دوام دینے کے لیے کافی ہے، اُس کے ذریعے اُن کی یادوں کے چراغ دل ودماغ میں روشن رہیں گے اور استفادہ کرنے والوں کی زبانوں پر اُن کا تذکرۂ جمیل نغمۂ جاوید کی طرح مچلتا رہے گا اور وہ صدقۂ جاریہ بن کر اُن کی میزانِ حسنات کو باوزن بناتا رہے گا۔
اپنے سارے علمی وتعلیمی مشاغل کے باوجود، بال بچوں کے حقوق کی ادایگی، اُن کی تعلیمی وتربیتی ذمے داریوں کی کما حقہ انجام دہی میں چست رہنا اور خانگی امور سے ماہرانہ طور پر نمٹنا، اُن کا وجہِ امتیاز تھا۔ دسیوں سال پہلے کی بات ہے یہ راقم اُن کی طرف سے طے کردہ وقت کے مطابق، اُن کے گھر پہنچا، تو ڈھیر سارے بچے اُن کے سامنے اُن کی بیٹھک میں اپنے اسباق بلند آواز سے یاد کررہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ بڑا مکتب یا چھوٹا موٹا مدرسہ اُن کی نگرانی میں اُن کے گھر میں چل رہا ہے۔ راقم کے ساتھ جو صاحب تھے وہ اُن کے یہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے، اُنھوں نے راقم کو بتایا کہ یہ سب مفتی صاحب ہی کے بچے ہیں، مغرب تا عشا مفتی صاحب خود ہی سب بچوں کو پڑھاتے ہیں، چوں کہ کثیر الاولاد ہیں؛ اِس لیے آپ کو محسوس ہوا کہ اُن کے یہاں کوئی باقاعدہ مکتب چلتا ہے، جس میں اُن کے اور محلے کے بچے بھی پڑھتے ہیں۔
یہ راقم، مشاغلِ خیر سے اُن کی بھری پُری زندگی پر، اُن کے حینِ حیات بھی رشک کرتا تھا کہ توفیقِ اِلٰہی کے بغیر، اُن کی ایسی اِتنی پُر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اہل علم کے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ علمی سرگرمیوں کا حق تو بہ قدرِ توفیق ادا کرلیتے ہیں؛ لیکن امورِ زندگانی میں پھوہڑ ہوتے ہیں؛ بل کہ جو جتنا بڑا ذی علم ہوتا ہے، وہ زندگی کے معاملات میں اتنا ہی بدسلیقہ و بے ہنر ہوتا ہے۔
مفتی صاحبؒ کی ایک انفرادیت، جو اُنھیں دیگر معاصر علما سے ممتاز کرتی ہے، یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنی اولاد کو اپنے بعد، لوگوں کا دستِ نگر نہیں چھوڑا؛ بل کہ اُنھیں ”اغنیا“ چھوڑا ہے۔ اِس طرح اُنھوں نے ارشاد نبوی پر عمل کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تم اپنی اولاد کو اغنیا (مال دار و بے نیاز) چھوڑکر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اُنھیں محتاج چھوڑکر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۸۶۶۵)۔
مفتی صاحبؒ کی یہ خصوصیت اِس لیے قابلِ ذکر ہے کہ اُنھوں نے بہت سے معاصر ”علماے دین“ کی طرح اپنے کو سیم وزر کا غلام نہیں بنایا اور زرکشی کے لیے وہ ہتھ کنڈے نہیں اپنائے جو عام طور پر غلامانِ مال وزر اپنایا کرتے ہیں۔ اُن کے کسی طرزِ عمل سے کسی کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ وہ مال ومنال اندوزی کے لیے اسباب سازی کی تگ ودو میں لگے رہے ہوں اور زندگی کے گراں مایہ لمحات کا کوئی حصہ اس کوشش میں پامال کیا ہو۔ اُن کی شناخت ہمیشہ ایک خوگرِ علم عالمِ صالح، مطالعہ وتحقیق کے رسیا، قرطاس وقلم کے ساتھی، وسیع النظر محدث، دقیق النظر فقیہ ومفتی اور فنِّ تدریس کے ماہر مستری کی ہی رہی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے، اُن کے لیے کشادگیِ رزق کے دروازے وا کردیے، اُن کی تصنیفات بھی بہت مقبول ومتداول اور کثرت سے فروخت ہوتی رہیں، جو اُن کی آمدنی کا مستقل ذریعہ رہیں اور اُن کی وفات کے بعد، اُن کے بچوں اور پس ماندگان کے لیے بھی؛ اِن شاءاللہ خود کفالتی کا یقینی وسیلہ رہیں گی۔
اُنھوں نے کئی سال پہلے اپنے سارے بچوں کے لیے دیوبند ہی میں الگ الگ مکانات بنوادیے جن سے ایک محلّہ سا آباد ہوگیا ہے۔ یہی نہیں؛ بل کہ اُنھوں نے دارالعلوم اشرفیہ عربیہ راندیر (گجرات) جہاں اُنھوں نے ۴۸۳۱ھ سے ۳۹۳۱ھ تک تدریسی خدمت انجام دی اور دارالعلوم دیوبند جہاں شوال ۳۹۳۱ھ سے تاحیات ۱۴۴۱ھ تک سرگرم تدریس وفیض رسانی رہے، دونوں اِداروں سے جو تنخواہیں لی تھیں، وہ سب وَاپس کردیں۔ دارالعلوم دیوبند سے اُنھوں نے ۳۲۴۱ھ میں حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد، ۰۳ سال تین ماہ تک جو کچھ لیا تھا وہ ساری رقم لوٹادی، اس کے بعد سے تاحیات دارالعلوم کے لیے اُن کی ساری خدمات بلامعاوضہ رہیں۔ دارالعلوم اشرفیہ راندیر سے انھوں نے نوسالہ مدتِ تدریس میں تیئس ہزار دو سو پچاس روپے (۰۵۲۳۲) تنخواہ لی تھی، جو اس کے خزانے میں ۸۲ اپریل ۳۰۰۲ءکو جمع کرادی۔
دارالعلوم دیوبند سے ۳۹۳۱ھ سے ۳۲۴۱ھ تک تنخواہ کی شکل میں، اُنھیں کل نو لاکھ انچاس ہزار آٹھ سو چار روپے پچھتر پیسے (۵۷/۴۰۸۹۴۹) ملے تھے، جو اُنھوں نے متعدد مرتبہ میں اُس کو واپس کردیے۔ محرم ۴۲۴۱ھ سے وفات تک دارالعلوم سے کوئی تنخواہ لی نہ کوئی مادی فائدہ اُٹھایا۔ تَقَبَّل اللّٰہُ حَسَنَاتِہ، وکَثَّرَ اَمثَالَہ۔
ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اجتماعی دعوتوں میں شرکت سے بالکلیہ پرہیز کرتے تھے کہ اس سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور طے کردہ التزامات ومعمولات میں ضرور خلل واقع ہوتا ہے۔
اُن کی ایک قابلِ ذکر خوبی یہ تھی کہ وہ بڑے سے بڑے دل گداز واستخواں سوز حادثے کے وقت بھی، اپنے اعصاب پر جس طرح قابویافتہ رہتے تھے، اُس کی نظیر راقم نے بہت کم دیکھی ہے۔ وہ مشکل حالات کا ایک سچے مومن کی طرح جواںمردی سے مقابلہ کرتے اور کبھی جزع فزع کی کیفیتوں کا شکار نہ ہوتے۔ راقم نے پہلے بھی کہا ہے کہ وہ اعصاب شکن نازک حالات میں بھی صحیح اور بروقت عملی راے قائم کرتے اور چاک داماں ہونے اور سینہ کوبی کرنے کی بہ جاے مطلوبہ سمت میں پیش قدمی کرکے وہ کام کرتے جو وقت کا تقاضا اور مستقبل سازی کا ذریعہ ہوتا۔
۵۱۴۱ھ /۵۹۹۱ءمیں اُن کے سب سے بڑے صاحب زادے مولوی حافظ مفتی رشید احمد (جو ذی استعداد، ہونہار اور فرماںبردار ہونے کے ساتھ پہلی اولاد تھے) مظفرنگر کسی کام سے گئے واپسی میں ایک حادثے میں اچانک جاںبہ حق ہوگئے۔ مفتی صاحب اُس وقت لندن میں تھے، اُنھیں اس جاںکاہ حادثے کی خبر دی گئی، اُنھوں نے ٹھوس لہجے میں فرمایا: رشید احمد اللہ تعالیٰ کی امانت تھے، اللہ نے واپس لے لی۔ اہل خانہ کو ہدایت دی کہ اُن کی تجہیز وتکفین کا انتظام کرو اور علی الصباح نمازِ جنازہ وتدفین سے فارغ ہوجاو ¿، میرے آنے کا انتظار نہ کرو، میری آمد میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔
دارالعلوم میں اور اُن کے اہلِ خانہ میں طبعی طور پر اس واقعے کا بڑا غم تھا، لوگوں کو اندازہ تھا کہ مفتی صاحب کو بے حد صدمہ ہوگا اور وہ اس کا اظہار بھی کریں گے اور لندن سے اپنی بہ عجلت واپسی تک تدفین کو مُعَلَّق رکھنے کی بات کہیں گے؛ لیکن اُنھوں نے صبرِ جمیل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جو اُن کے ہی ایسے صبر شعار علماے کاملین کا شیوہ ہوتا ہے۔
۲۳۴۱ھ / ۱۱۰۲ءمیں اُن کی اہلیہ محترمہ کی رحلت کا حادثہ پیش آیا۔ یہ حادثہ اِس لیے بھی بڑا دل گداز تھا کہ اِس سے نہ صرف اُن کا گھر اجڑسا گیا؛ بل کہ امور خانہ داری کی جو ترتیب قائم تھی، وہ بالکل تِتَّر بِتَّر ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہوگئی۔ اُن کے بڑھتے ہوے علمی مشاغل کے پیشِ نظر، اُن کی سن رسیدگی میں، ہونہار ووفاشعار وپیکر انکسار وسمجھ دار اور امور خانہ داری میں ماہر حافظِ قرآن اور حفظ میں اپنے بچوں کی استاذ پڑھی لکھی بیوی؛ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت تھی؛ لیکن اُنھوں نے اِس صبر شکن موقع سے جس صبر وقرار کا مظاہرہ کیا اور اپنی مُتَاَہِّل وغیر مُتَاَہِّل اولاد کو جس خوش اندازی وہنرمندی سے سنبھالا اور خانہ بربادی کے منڈلاتے خطرے کو جس طرح خانہ آبادی؛ بل کہ خانہ سازی میں تبدیل کیا، وہ ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے کہ ایک ذی علم اور علمی وتعلیمی وتالیفی مشاغل میں بے حد منہمک عالم بھی اپنی کثیرالاولاد فیملی کو سلیقہ مندانہ انداز میں چلاسکتا ہے؛ ورنہ بالعموم ماہرینِ علم علما، نہ صرف گھریلو معاملات میں؛ بل کہ سارے انتظامی امور میں کورے اور نابلد ہوتے ہیں؛ کیوںکہ علمی مصروفیات کی جکڑبندی وارتکاز خواہی وانہماک طلبی، دیگر سمتوں کی طرف جھانکنے کا موقع نہیں دیتی۔
مفتی صاحبؒ کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ درسِ نظامی کے تحت چلنے والے مدارس (جن کا سرخیل اُمّ المدارس دارالعلوم دیوبند ہے) میں دینی عالم سازی کا جو مختلف العلوم نصاب رائج ہے، اُن کو اس نصاب کی تقریباً ساری کتابوں اور علوم میں دست گاہ حاصل تھی؛ کیوںکہ اپنے بھائیوں اور اپنی اولاد کو از ابتدا تا متوسطات خود ہی یہ کتابیں اُنھوں نے پڑھائیں اور مدرسہ اشرفیہ راندیر اور دارالعلوم دیوبند میں اُنھوں نے حدیث وفقہ کے علاوہ بھی متوسطات سے اوپر کی کتابوں کا درس دیا، نیز اس نصاب کی اکثر کتابوں کی تحریری تحقیق وتدقیق وشرح نگاری؛ اُن کی تالیفی زندگی کا اہم مشغلہ رہی؛ اِسی لیے منقولات ومعقولات اور عالیات وآلیات سے متعلق ہرطرح کے علوم وفنون، اُنھیں بالعموم مستحضر رہے، جس کی وجہ سے تدریسی وتالیفی عمل اُن کے لیے بہت آسان رہا۔
پھر یہ کہ توفیقِ الٰہی سے اُنھوں نے جہاں بھی جو کچھ بھی پڑھا، محنت اور لگن سے پڑھا اور رسمی فراغت کے بعد یا حصولِ تعلیم کے دوران، جس کو جو کچھ پڑھایا ہمہ تن مصروف رہ کر پڑھایا۔ اِس کے علاوہ اُن کی استعداد سازی میں ایک اور عامل نے بنیادی کردار ادا کیا، جس کاتذکرہ مفتی صاحبؒ کے برادرِ خُرد مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے، اپنی کتاب ”الخیر الکثیر“ کے شروع میں، اُن کے تعارف میں کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کے والد ماجد محمد یوسف صاحبؒ (متوفی ذی قعدہ۱۱۴۱ھ = جون ۱۹۹۱ئ) گو تعلیم مکمل نہ کرسکے؛ لیکن اُنھوں نے کچھ دنوں جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں اُس زمانے میں تعلیم حاصل کی جب وہاں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ (۵۰۳۱ھ /۷۸۸۱ء — ۹۶۳۱ھ / ۹۴۹۱ئ) مولانا محمد یوسف بنّوریؒ (۶۲۳۱ھ /۸۰۹۱ء — ۷۹۳۱ھ / ۷۷۹۱ئ) اور مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی ؒ (۶۱۳۱ھ / ۹۸۸۱ء — ۵۸۳۱ھ /۵۶۹۱ئ) پڑھاتے تھے۔ اُن بزرگوں کے علم وعمل اور فضل وکمال سے وہ حد درجہ متاثر تھے، گھریلو حالات کی وجہ سے خود تو عالم نہیں بن سکے؛ لیکن یہ آرزو اُن کے دل میں موج زن رہی کہ اُن کی اولاد، اُن علماے نام دار کے جیسے عالم بن جائے، اُنھوں نے اس کا اِظہار مولانا بدرعالم میرٹھی سے کیا، جن کے وہ خادمِ خاص تھے۔ مولاناؒ نے اُنھیں اُن کی آرزو کے برآنے کی راہ سمجھائی اور یہ نصیحت فرمائی:
”یوسف! اگر تم اپنے لڑکوں کو اچھا عالم بنانا چاہتے ہو، تو حرام اور ناجائز مال سے پرہیز کرنا اور بچوں کو بھی ناجائز اور حرام مال سے بچانا؛ کیوں کہ علم ایک نور ہے، ناجائز اور حرام مال سے جو بدن پروان چڑھتا ہے، اُس میں یہ نور داخل نہیں ہوتا۔“
مولانا مفتی محمد امین صاحب لکھتے ہیں:
”یہ نصیحت حضرت مولانا نے والد ماجد کو اس لیے کی تھی کہ اُس زمانے میں ہماری ساری قوم بنیوں کے سود میں پھنسی ہوئی تھی، اُسی زمانے میں ہمارے دادا نے بنیے سے سودی قرض لے کر ایک زمین کرایے پر لی تھی، والد صاحب اُس زمانے میں ڈابھیل کے طالبِ علم تھے، والد صاحب نے اِس معاملے میں دادا سے اختلاف کیا، تو دادا نے والد صاحب کو الگ کردیا، چناںچہ والد صاحب کو حرام سے بچنے کے لیے مجبوراً تعلیم چھوڑکر اپنا گھر سنبھالنا پڑا اور تہیّا کیا کہ چاہے بھوکا رہوںگا مگر حرام کو ہاتھ نہیں لگاو ¿ں گا؛ تاکہ میں نہیں پڑھ سکا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد کو علم دین عطا فرمائیں۔“ (الخیر الکثیر، ص۲۶)
الغرض اُن کے والد نے حرام غذا سے بچنے کا التزام کیا اور اپنی اولاد کو بھی اس سے بچائے رکھا، یقینا نماز روزے کی پابندی، جو اُن کے والد کی خصوصیت تھی، کے ساتھ حرام خوری سے مکمل اجتناب کی وجہ سے اُن کی اولاد عموماً اور بڑی اولاد خصوصاً عالم باعمل بنی جو علم وعمل کی بھرپور حصول یابیوں کا گہرا نقشِ دوام ثبت کرکے دنیا سے رخصت ہوئی۔اُن کے والد مرحوم کا یہ کارنامہ ان شاءاللہ اُن کی بخشش کا پروانہ ثابت ہوگا۔
مفتی صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے؛ لیکن وہ اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی زندہ، تابندہ اور پایندہ رہیں گے؛ کیوں کہ اُن کے علمی وتعلیمی کارنامے سوختگیِ خون جگر کا نتیجہ تھے: ایسے کارنامے انسان کی موت کے بعد زیادہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ نشور واحدی نے کیا خوب کہا ہے:
خاک اور خون سے اِک شمع جلائی ہے نشور موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی
خاک میں خاکی جسم تو چھپ جاتا ہے؛ لیکن انسان کے علمی وفکری کارنامے تہِ خاک ہوجانے کے بعد اور درخشاں ہوجاتے ہیں:
لَعَمرُکَ ما وَارَی التُّرَابُ فِعَالَہ وَ لٰکِنَّہ وَارَیٰ ثِیَابًا وَ اعظُمَا
ہاں افسوس رہے گا تو اِس کا مفتی صاحب جیسے شمعِ علم پر قربان ہونے والے مثالی پروانے ایک ایک کرکے رخصت ہوتے جاتے ہیں:
فروغِ شمع تو باقی رہے گا صبحِ محشر تک مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
مفتی صاحب باصلاحیت فضلا وعلما کے لیے مادی ومعنوی سطح پر بڑے ہم درد اور مددگار ہوتے تھے؛ اِسی لیے مفتی صاحب کی رحلت سے اُن سارے لوگوں کو بہ طورِ خاص بہت صدمہ ہوا ہے، جو جانتے ہیں کہ انسان ضعیف البنیان ہے اور نقائص ومعایب سے پر ہے؛ اس لیے معاشرتی زندگی میں جو ہرقسم کے انسانوں کا مجموعہ ہوتی ہے، معاشرتی خرابیاں ضرور ہوتی ہیں، اُن میں زیادہ عیاں حقوق رسانی کے حوالے سے ناہم واریاں ہیں، جس کے اندیشے سے بچنے کے لیے وہ مفتی صاحب کا سہارا لیتے تھے اور اُن کی عادلانہ ثالثی کے ذریعے، حق کی حق دار تک رسیدگی کا یقین رکھتے تھے؛ کیوں کہ محترم المقام ہونے کے وجہ سے، مفتی صاحب کی راے وزن دار اور ہمیشہ مسموع ہوتی تھی اور ایسا شاید وباید ہی ہوتاتھا کہ وہ کوئی تجویز یا مشورہ پیش کریں اور متعلقہ لوگ اُس کو روبہ عمل لانے میں آنا کانی کریں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسی واجب الاحترام ہستی، اس کی غیرمعمولی ضرورت ہوتی ہے۔
سوانحی نقوش
نام: مفتی صاحب کے والدین نے اُن کا نام ”احمد“ رکھا تھا؛ لیکن مفتی صاحب نے جب ۷۷۳۱ھ / ۸۵۹۱ءمیں مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ لیا، تو وہاں اپنا نام ”سعید احمد“ لکھوایا، اُس وقت سے آپ ”سعید احمد“ ہی سے جانے جاتے رہے۔ پورا نام سعید ا حمد بن یوسف بن علی بن جیوا (یعنی یحییٰ) بن نور محمد ہے۔
جاے پیدائش: موضع ”کالیڑہ“ ضلع ”بناس کانٹھا“ ہے، بناس کانٹھا نام سے کوئی شہر نہیں ہے؛ بل کہ یہ پورے علاقے کا نام ہے، ضلع کا صدر مقام شہر ”پالن پور“ ہے۔ ”کالیڑہ“ گاو ¿ں پالن پور سے جنوب مشرق میں تقریباً ۸۴ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کالیڑہ میں ”سلم العلوم“ کے نام سے ایک عربی مدرسہ بھی ہے، جہاں بہ وقتِ تحریر دورہ ¿ حدیث تک تعلیم ہوتی ہے، مفتی صاحبؒ کی طالب علمی میں یہاں متوسطات ہی تک تعلیم ہوتی تھی۔
تاریخِ پیدایش: اُن کی صحیح تاریخِ پیدایش محفوظ نہیں ہے، اُن کے والد نے جب ”ڈبھاد“ میں زمین خریدی، تو بیع نامے کی روشنی میں تخمینے سے، اُن کا سنہ پیدایش اواخر ۰۴۹۱/ ۰۶۳۱ھ بتایا، زمین کی خریدگی کے وقت، مفتی صاحب ڈیڑھ پونے دو سال کے تھے۔ مذکورہ خریدی ہوئی زمین پر ”مجاہد پورہ“ نام سے ایک گاو ¿ں آباد ہوگیا ہے، مفتی صاحب کے والد کی اولاد جو ”ڈُھکّا“ خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اب اسی گاؤں کی باسی ہے، مفتی صاحبؒ کا خاندان پالن پور کے علاقے کی مشہور ”مومن“ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔
مفتی صاحب کے اُن سے چھوٹے ۴بھائی اور ۴ بہنیں ہیں، مفتی صاحب اُن سب سے بڑے تھے، گویا وہ نو بھائی بہن تھے، بہنیں سب حیات ہیں اور متاہل ہیں۔ بھائیوں میں سے دو بھائی فوت ہوچکے ہیں۔ ایک عبد الرحمن جو مفتی صاحب کے معاً بعد کے تھے اور اپنے گاو ¿ں مجاہد پورہ میں کھیتی باڑی کرتے تھے، ۸۱ ربیع الآخر ۴۳۴۱ھ مطابق یکم مارچ ۳۱۰۲ ءکو اُن کا انتقال ہوگیا۔ اِن کے معاً بعد کے مولانا عبدالمجید تھے جو دارالعلوم اشرفیہ راندیر کے فارغ تھے، وہ ۹ ربیع الاول ۶۳۴۱ھ مطابق یکم جنوری ۵۱۰۲ءکو وفات پاچکے۔ ان کے بعد کے مولانا مفتی محمد امین پالن پوری ہیں، جن کی تاریخ ولادت ۷۱ ربیع الآخر ۱۷۳۱ھ مطابق ۵۱ جنوری ۲۵۹۱ءہے، دارالعلوم کے فاضل ہیں، ۲۰۴۱ھ / ۲۸۹۱ءسے دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہیں، اِس وقت دورۂ حدیث اور درجۂ علیا کی کتابیں ان سے متعلق ہیں۔ ذی استعداد اور صاحب تصنیفات ہیں۔ اللہ صحت وعافیت کے ساتھ عمر دراز سے نوازے۔ دیوبند کے محلہ قلعہ میں اپنے ذاتی مکان میں اپنے ا ہل وعیال کے ساتھ اُن کی بود وباش ہے۔ان سے چھوٹے مولانا حبیب الرحمن مولود ۹۷۳۱ھ/۰۶۹۱ءہیں جو مظاہر علوم سہارن پور سے فارغ ہیں اور دارالعلوم اشرفیہ راندیر میں صحیح بخاری اور جامع الترمذی پڑھاتے ہیں۔
تعلیم: مفتی صاحب نے مکتب کی تعلیم اپنے آبائی گاؤں ”کالیڑہ“ کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد اُن کے ماموں مولانا عبدالرحمن شَیراؒ اُنھیں دارالعلوم چھاپی لے گئے، جہاں اُنھوں نے ماموں صاحب سے اور دیگر اساتذہ سے چھ ماہ تک فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، چھ ماہ بعد ماموں نے مذکورہ مدرسے سے رشتہ منقطع کرکے اپنے گاؤں میں سکونت اختیار کرلی تو اُنھوں نے ماموں سے اُن کے گھر پر ہی فارسی کی کتابیں پڑھیں۔
عربی کی ابتدائی اور متوسط تعلیم مولانا محمد نذیر میاں پالن پوریؒ کے ”مدرسہ اسلامیہ عربیہ“ پالن پور میں حاصل کی، یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا مفتی اکبر میاں پالن پوریؒ اور مولانا ہاشم بخاریؒ تھے، جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد گجرات کے کئی مدرسوں میں مدرس رہے، بعد میں کئی سال دارالعلوم دیوبند کے استاذ رہے، پھر مدینہ ¿ منورہ ہجرت کرگئے اور اسی کی خاکِ پاک کا پیوند بنے۔
بعدہ ۷۷۳۱ھ / ۸۵۹۱ءمیں مظاہر علوم سہارن پور کا قصد کیا اور یہاں مسلسل تین سال تک تعلیم حاصل کی اور شرحِ جامی کے بعد اور جلالین سے پہلے کا مرحلہ طے کیا۔
۰۸۳۱ھ / ۱۶۹۱ءمیں دارالعلوم دیوبند میں جلالین اور ہدایہ اولین کی جماعت میں داخل ہوے۔ اور ۲۸۳۱ھ / ۲۶۹۱ءمیں دارالعلوم میں دورہ ¿ حدیث کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں مفتی صاحبؒ نے درجِ ذیل اساتذۂ کرام سے تعلیم حاصل کی:
مولانا سید اختر حسین دیوبندی (۶۱۳۱ھ / ۸۹۸۱ء-۷۹۳۱ھ/ ۷۷۹۱ئ) مولانا بشیر احمد خاں بلندشہری (متوفی ۶۸۳۱ھ/ ۶۶۹۱ئ) مولانا سید حسن دیوبندی (متوفی ۱۸۳۱ھ / ۱۶۹۱ئ) مولانا عبد الجلیل کیرانوی (متوفی ۸۸۳۱ھ/ ۸۶۹۱ئ) مولانا اسلام الحق اعظمی (۲۲۳۱ھ / ۴۰۹۱ئ-۲۹۳۱ھ / ۲۷۹۱ئ) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند (۵۱۳۱ھ/ ۷۹۸۱ء-۳۰۴۱ھ / ۳۸۹۱ئ) مولانا عبد الاحد دیوبندی (۷۲۳۱ھ / ۹۰۹۱ء- ۹۹۳۱ھ / ۹۷۹۱ئ) مولانا فخرالحسن مراد آبادی (۳۲۳۱ھ / ۵۰۹۱ء- ۰۰۴۱ھ/ ۰۸۹۱ئ) مولانا محمد ظہور دیوبندی (۸۱۳۱ھ / ۰۰۹۱ء- ۳۸۳۱ھ ۳۶۹۱ئ) علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (۴۰۳۱ھ / ۶۸۸۱ء-۷۸۳۱ھ / ۷۶۹۱ئ) مولانا مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاںپوری (۱۰۳۱ھ / ۴۸۸۱ء- ۶۹۳۱ھ /۶۷۹۱ئ) شیخ محمد عبد الوہاب محمود مصری مبعوث از جامعہ ازہر برائے دارالعلوم دیوبند، مولانا نصیر احمد خاں بلندشہری (۷۳۳۱ھ/ ۸۱۹۱ء-۱۳۴۱ھ / ۰۱۰۲ئ) شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین ہاپوڑی ثم المرادآبادی (۷۰۳۱ھ /۹۸۸۱ء- ۲۹۳۱ھ /۲۷۹۱ئ)۔
دورۂ حدیث میں مفتی صاحب نے اول نمبر سے کام یابی حاصل کی سواے مسلم شریف کے جس میں اُنھیں ۵۴ نمبر ملے، حدیث شریف کی ساری کتابوں میں ۰۵-۰۵ نمبر حاصل کیے۔ یاد رہے کہ دارالعلوم میں اُس وقت نمبرات کی آخری حد ۰۵ تھی، ابھی چند سال پہلے دنیا کے عام علمی اداروں کی طرح آخری حد ۰۰۱ نمبر ہوگئی ہے۔
۲۸۳۱ھ -۳۸۳۱ھ کے تعلیمی سال میں اُنھوں نے دارالعلوم میں افتا کیا، مستحکم صلاحیت کی وجہ سے ۳۸۳۱ھ – ۴۸۳۱ھ کے تعلیمی سال میں دارالافتا میں معاون مفتی کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہوا، حسنِ کارکردگی کی وجہ اُس وقت کے دارالعلوم کے مفتی، مفتی محمود حسن نانوتوی نے ۴۸۳۱ھ میں اُن کے مستقل تقرر کی سفارش کی، مہتمم دارالعلوم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ نے سفارش کو قبول فرماتے ہوے، افتا کمیٹی کے ممبران کو تحریراً پیش رفت کا حکم دیا؛ لیکن متعلقہ کچھ حضرات نے اُس تحریر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی نے اُنھیں یہ فرماتے ہوے اِس صورتِ حال کی اطلاع دی کی ”مولوی صاحب! گھبراو ¿ نہیں، اِس سے اچھے آو ¿گے“۔ چناںچہ ۹ سال بعد وہ دارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ خدمتِ تدریس کے لیے بلائے گئے اور دمِ واپسیں تک اِس سعادت سے بہرہ ور رہے۔
عملی میدان میں
ذی قعدہ ۴۸۳۱ھ / مارچ ۵۶۹۱ءسے شعبان ۳۹۳۱ھ / ستمبر ۳۷۹۱ءتک ۹ سال اُنھوں نے دارالعلوم اشرفیہ راندیر، سورت میں تدریسی خدمت انجام دی۔ وہیں سے تحریری وتالیفی کام کا آغاز بھی کیا اور مختلف کتابیں تصنیف کیں، نیز حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ (۸۴۲۱ھ/ ۲۳۸۱ء- ۷۹۲۱ھ/ ۰۸۸۱ئ) کے علوم ومعارف کی تفہیم وتشریح کا تحریری کام بھی شروع کیا، اِس سلسلے کی ایک کوشش ”اِفادات نانوتوی“ کے نام سے بالاقساط ”الفرقان“ لکھنو ¿ میں شائع ہوئی، جس کی اہل علم نے بہت پذیرائی کی۔
رجب ۳۹۳۱ھ / اگست ۳۷۹۱ءمیں منعقد شدہ مجلس شوریٰ نے مفتی صاحبؒ کو دارالعلوم کا استاذ منتخب کیا۔ شوال ۳۹۳۱ھ / نومبر ۳۷۹۱ءسے آپ نے دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمت انجام دینی شروع کی، پہلے سال اُنھوں نے مسلم الثبوت، ہدایہ اول، سلم العلوم، ملا حسن، ہدیہ سعیدیہ، جلالین نصف اول مع الفوز الکبیر کے اسباق پڑھائے۔ سال بہ سال ترقی کرتے ہوے حدیث شریف کی کتابوں کی تدریس تک پہنچے۔
۱۳۴۱ھ / ۰۱۰۲ءمیں شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خاں بلند شہری کی وفات کے بعد آپ دارالعلوم کے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوے اور ۱۴۴۱ھ / ۰۲۰۲ءکے تعلیمی سال کے ختم تک آپ نے مکمل بخاری شریف کا درس دیا؛ لیکن حضرت مولانا نصیر احمد خاں کی حیات میں ہی ان کی وفات سے دوسال پہلے سے یعنی سال تعلیمی ۸۲۴۱ھ – ۹۲۴۱ھ مطابق ۷۰۰۲ئ- ۸۰۰۲ءسے ہی،آپ کے ذمے بخاری شریف کردی گئی تھی؛ کیوں کہ حضرت مولانا نصیر احمد خان بہت کم زور اور رہین فراش ہوگئے تھے۔ دارالعلوم میں آپ شیخ الحدیث اور صدر مدرس بھی رہے، اسی کے ساتھ متعدد ذمے داریاں بھی اُن کے سپرد رہیں، مثلاً: ۵۹۳۱ھ / ۵۷۹۱ءاور ۲۰۴۱ھ / ۲۸۹۱ءمیں اُنھوں نے دارالافتا کی سرپرستی اور نگرانی کی خدمت انجام دی، نیز ”مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت“ کے ناظم اعلی رہے، اُنھوں نے اضافی خدمتوں میں سے کسی کا کوئی الاونس دارالعلوم کی پیش کش کے باوجود نہیں لیا۔
بیعت وخلافت:
اکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے، مفتی صاحب طلبِ علم کے زمانے سے اپنی باطنی ا ِصلاح کے لیے فکر مند رہے، چناں چہ تحصیلِ علم کے ساتھ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا قدس سرّہ (۵۱۳۱ھ/ ۷۹۸۱ء- ۲۰۴۱ھ/ ۲۸۹۱ئ) سے بیعت ہوکر اُن کی تعلیمات واِرشادات پر عمل پیرا رہے، نیز دیگر معاصر صالحین کی مجلسوں سے استفادہ جاری رکھا، بالخصوص حضرت مولانا عبدالقادر رائپوری نور اللہ مرقدہ (۰۹۲۱ھ/ ۳۷۸۱ء- ۲۸۳۱ھ /۲۶۹۱ئ) کی مجلسوں میں کثرت سے حاضر ہوتے رہے۔ ان بزرگوں کی وفات کے بعد حضرت مولانا مفتی مظفر حسین مظاہری رحمة اللہ علیہ (۸۴۳۱ھ/ ۹۲۹۱ء- ۴۲۴۱ھ/ ۳۰۰۲ئ) سے رجوع ہوے اور اُنھی سے ۸۱۴۱ھ میں اجازتِ بیعت واِرشاد سے بہرہ مند ہوے۔
تالیفات:
مفتی صاحب نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں مستقل تصنیفات اور شروحات اور مراجعات داخل ہیں، اُن کے صفحات مجموعی طور پر تینتیس ہزار چھ سو بیس (۰۲۶۳۳) ہوتے ہیں۔ ان میں بڑی، متوسط اور چھوٹی تقطیع کی کتابیں شامل ہیں، ان میں سے متعدد کتابیں کئی کئی ضخیم جلدوں میں ہیں، جب کہ اکثر کتابیں ایک یا دو جلدوں میں ہیں، جن کی فہرست حسب ذیل ہے:
۱- تحفة القاری، یہ صحیح بخاری کی شرح ہے، ۲۱ جلدوں میں ہے، ہرجلد ۰۳×۰۲ کی تقطیع پر تقریباً چھ سو صفحے کی ہے، ساری جلدوں کے صفحات بہتر سو دس (۰۱۲۷) ہیں۔
۲- تحفة الالمعی، یہ جامع ترمذی کی شرح ہے، مذکورہ تقطیع میں ۸ آٹھ جلدوں میں ہے، ہرجلد زائد از چھ سو صفحات پر مشتمل ہے، ساری جلدوں کے کل صفحات انچاس سو اکیاسی (۱۸۹۴) ہوتے ہیں۔
۳- تفسیر ہدایت القرآن، یہ قرآن پاک کی آسان تفسیر اور ترجمہ ہے، مذکورہ تقطیع میں اس کی آٹھ ۸ جلدیں ہیں، ہرجلد زائد از ۰۰۶ صفحات میں ہے، کل جلدوں کے مجموعی صفحات پینتالیس سو چھہتر (۶۷۵۴) ہوتے ہیں۔
۴- آسان بیان القرآن، یہ حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ (۰۸۲۱ھ/ ۳۶۸۱ – ۲۶۳۱ھ / ۳۴۹۱ئ) کی تفسیر مکمل بیان القرآن کی تسہیل ہے، جو دارالعلوم کے ایک فاضل مولانا عقیدت اللہ قاسمی نے کی ہے، مفتی صاحب نے نظر ثانی کے بعد، اُس کی طباعت واشاعت اپنے تجارتی مکتبہ: ”مکتبۂ حجاز“ دیوبند سے کیا ہے، مذکورہ تقطیع پر یہ ۵ پانچ جلدوں میں ہے، ہرجلد تقریباً چھ سو (۰۰۶) صفحات کی ہے، پانچوں جلدوں کے کل صفحات (۸۶۸۲) اٹھائیس سو اڑسٹھ ہوتے ہیں۔
۵- رحمة اللہ الواسعہ، یہ محدث دہلوی (امام احمد بن عبد الرحیم معروف بہ ”شاہ ولی اللہ دہلوی“ (۴۱۱۱ھ /۳۰۷۱ء-۶۷۱۱ھ/ ۲۶۷۱ئ) کی مشہور تصنیف ”حجة اللہ البالغہ“ کی اردو شرح ہے، جو مفتی صاحب نے بڑی جاں فشانی سے کی ہے؛ اِسی لیے اِس سلسلے میں کی گئیں سابقہ ساری کوششوں سے فائق اور مفید تر ثابت ہوئی ہے اور اہل علم نے اس کی بہت پذیرائی کی ہے۔ یہ کتاب پانچ (۵) جلدوں میں مذکورہ تقطیع میں ہے، مکمل جلدوں کے مجموعی صفحات چھتیس سو چودہ (۴۱۶۳) ہیں۔
۶- تحقیق وتعلیق حجة اللہ البالغہ، یہ عربی زبان میں حجة اللہ البالغہ کی تحقیق وتعلیق ہے، اس کو بڑے سائز پر دار ابن کثیر دمشق نے ۱۳۴۱ھ / ۰۱۰۲ءمیں بہت خوب صورت چھاپا تھا، یہ دو جلدوں میں ہے، پہلی جلد ۳۹۶ صفحات کی ہے اور دوسری جلد ۷۴۶ صفحات کی، دونوں جلدوں کے مجموعی صفحات (۰۴۳۱) تیرہ سو چالیس ہوتے ہیں۔ اِسی طباعت کا عکس مفتی صاحب کے ”مکتبہ ¿ حجاز“ سے اسی انداز میں چھپا ہوا، دیوبند میں دست یاب ہے۔
۷- ایضاح المسلم، یہ صحیح مسلم کی شرح کی پہلی جلد ہے، جو کتاب الایمان پر مشتمل ہے، مذکورہ تقطیع میں یہ جلد (۰۰۶) چھ سو صفحات میں ہے۔
۸- فیض المنعم، یہ مقدمہ ¿ صحیح مسلم کی شرح ہے، بڑے سائز کے (۶۷۱) ایک سو چھہتر صفحات میں ہے۔
۹- شرح علل الترمذی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ علل الترمذی کی عربی میں شرح ہے، کتاب بڑے سائز کے اسی (۰۸) صفحات میں ہے، مکتبۂ حجاز سے شائع ہوتی رہتی ہے۔
۰۱- زبدة شرح معانی الآثار (کتاب الطہارة) یہ امام طحاوی (ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ ازدی طحاوی : ۸۳۲ھ/ ۲۵۸ء- ۱۲۳ھ / ۳۳۹ئ) کی مشہور کتاب ”معانی الآثار“ کے کتاب الطہارة کی عربی شرح ہے۔ یہ متوسط سائز کے ایک سو انیس (۹۱۱) صفحات میں ہے۔
۱۱- مفتاح التہذیب، یہ منطق کی مشہور کتاب ”تہذیب المنطق“ مو ¿لفہ سعد الدین تفتازانی (۲۲۷ھ /۲۲۳۱ء-۲۹۷ھ/ ۰۹۳۱ئ) کی اردو شرح ہے، متوسط سائز کے (۲۵۱) ایک سو باون صفحات میں ہے۔ اس کتاب کی تدریس کی تقریر کو اُن کے پسرِ اکبر مولانا رشید احمد پالن پوری مرحوم (۶۸۳۱ھ/۶۶۹۱ء- ۵۱۴۱ھ /۵۹۹۱ئ) نے جمع کیا تھا اور دارالعلوم کے استاذ مولانا خورشید احمد گیاوی نے مرتب کیا تھا۔
۲۱- الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، یہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فارسی تصنیف کا عربی میں ترجمہ ہے، یہ ترجمہ ماضی میں ایک سے زائد لوگوں نے کیا تھا؛ لیکن وہ نقص آلود رہا، اِس لیے مفتی صاحب نے اس کی تہذیب وتصحیح کی اور حذف وتنقیح کے ساتھ، اس پر حاشیہ نویسی بھی کی۔ دارالعلوم دیوبند اور ملحقہ مدارس میں مفتی صاحب ہی کا یہ عربی ترجمہ داخل نصاب ہے، یہ کتاب متوسط سائز کے ایک سو بیس (۰۲۱) صفحات میں ہے۔
۳۱- العون الکبیر شرح الفوز الکبیر، یہ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر کی عربی میں شرح ہے، یہ متوسط سائز کے تین سو بارہ (۲۱۳) صفحات میں ہے۔
۴۱- الوافیة بمقاصد الکافیة، یہ عربی زبان میں علامہ ابن الحاجب (ابوعمرو عثمان بن عمر بن ابی بکر بن یونس دوینی اَسنائی معروف بہ ”ابن الحاجب“: ۰۷۵ھ /۴۷۱۱ء- ۶۴۶ھ/ ۹۴۲۱ئ) کی نحو میں معرکة الآراءکتاب ”الکافیہ“ پر حواشی وتعلیقات ہیں۔ یہ کتاب متوسط سائز کے دو سو پندرہ (۵۱۲) صفحات میں ہے۔
۵۱- ہادیہ شرحِ کافیہ، یہ اردو زبان میں کافیہ کی شرح ہے، چھوٹے سائز کے تین سو اٹھاون (۸۵۳) صفحات میں ہے۔
۶۱- مباد · الفلسفہ، یہ کتاب دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کی طلب پر مفتی صاحب نے ترتیب دی ہے، جو دارالعلوم میں داخل نصاب ہے، کتاب کا مقصد فلسفہ کی بڑی اور دقیق ومشکل کتابوں سے پہلے، طلبہ کو اس کے اصول ومبادی سے واقف کرانا ہے؛ تاکہ ان کے لیے، ان کتابوں کا پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوجائے۔ یہ کتاب متوسط سائز کے چالیس (۰۴) صفحات میں ہے۔
۷۱- معین الفلسفہ، یہ مباد · الفلسفہ کی اردو شرح ہے، جس سے میبذی کے حل میں بھی مدد ملتی ہے اور فلسفہ کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہ کتاب چھوٹے سائز پر (۴۶۱) ایک سو چونسٹھ صفحات میں ہے۔
۸۱- مبا · الاصول، یہ اصول فقہ کی بنیادی اصطلاحات پر مشتمل ہے، عربی زبان میں اصول الشاشی، نور الانوار اور کشف الاسرار وغیرہ اُصول فقہ کی کتابوں سے استفادے کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔ اِس کو پڑھ لینے کے بعد اصول فقہ کی مشکل کتابوں کو ہضم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب متوسط سائز کے چالیس (۰۴) صفحات میں ہے۔
۹۱- معین الاصول، یہ اردو زبان میں مباد · الاصول کی شرح ہے، چھوٹے سائز کے ایک سو بارہ (۲۱۱) صفحات میں ہے۔
۰۲- آپ فتویٰ کیسے دیں؟، یہ کتاب علامہ ابن عابدین شامی (محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین دمشقی معروف بہ ”علامہ شامی“ (۸۹۱۱ھ / ۴۸۷۱ء- ۲۵۲۱ھ / ۶۳۸۱ئ) کی مشہور کتاب ”شرح عقود رسم المفتی“ کا سلیس اردو ترجمہ ہے، مترجم نے مباحث کی ضروری وضاحت اور مفید عنوانات کے اضافے کے ساتھ، فقہا اور کتب فقہیہ کا مفصل تعارف بھی کتاب میں درج کردیا ہے۔ یہ کتاب متوسط سائز کے ایک سو ساٹھ (۰۶۱) صفحات میں ہے۔
۱۲- آسان صرف، یہ کتاب مفتی صاحب نے مبتدی طلبہ کے لیے لکھی ہے، یہ برصغیر میں اکثر مدرسوں میں داخلِ نصاب ہے۔ یہ کتاب تین حصوں میں ہے، چھوٹے سائز پر پہلا حصہ چالیس (۰۴) صفحے میں، دوسرا حصہ چونسٹھ (۴۶) صفحے میں اور تیسرا حصہ ایک سو چار (۴۰۱) صفحے میں ہے۔
۲۲- آسان نحو، یہ کتاب نحو کے مبتدی طلبہ کے لیے دو حصوں میں اردو میں لکھی گئی ہے، چھوٹے سائز پر، پہلا حصہ چالیس (۰۴) صفحے میں اور دوسرا حصہ ایک سو چار (۴۰۱) صفحے میں ہے۔
۳۲- آسان فارسی قواعد، یہ مبتدی طلبہ کو فارسی پڑھانے کے لیے بہت آسان کتاب ہے، دو حصوں میں ہے، پہلا حصہ چھوٹے سائز پر بتیس (۲۳) صفحے میں ہے اور دوسرا حصہ (۴۶) چونسٹھ صفحے میں ہے۔
۴۲- آسان منطق، یہ کتاب در اصل مولانا حافظ عبداللہ گنگوہیؒ کی تالیف تیسیر المنطق کی ترتیب وتسہیل ہے، جو مفتی صاحبؒ نے کی ہے۔ یہ چھوٹے سائز پر (۷۷) صفحے میں ہے۔
۵۲- تحفة الدرر شرح نخبة الفکر، یہ علامہ ابن حجر عسقلانی (شہاب الدین ابوالفضل احمد بن علی بن محمد کنانی عسقلانی مصری شافعی : ۳۷۷ھ/ ۱۷۳۱ء- ۲۵۸ھ / ۹۴۴۱ئ) کی اصول حدیث کی مشہور کتاب ”نخبة الفکر ف ¸ مصطلح اہل الاثر“ کی اردو میں شرح ہے، چھوٹے سائز کے (۴۸) چوراسی صفحے میں ہے۔
۶۲- مفتاح العوامل شرح مئة عامل، یہ کتاب امام عبدالقاہر جرجانی (ابوبکر عبد القاہر بن عبد الرحمن بن محمد جرجانی: ۰۰۴ھ / ۹۰۰۱ء- ۱۷۴ھ / ۸۷۰۱ئ) کی فن نحو کی مشہور کتاب ”شرح مئة عامل“ کی اردو میں گراں قدر شرح ہے۔ یہ شرح دراصل شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین احمد ہاپوڑی مرادآبادی نور اللہ مرقدہ نے کی تھی، اس کا مسودہ عرصے تک حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ (۹۵۳۱ھ/ ۰۴۹۱ء-۸۳۴۱ھ / ۷۱۰۲ئ) کے پاس محفوظ رہا، مفتی صاحب نے وہ مسودہ ان سے لے کر اس پر دیدہ ریزی سے نظر ثانی کیا اور مولانا خورشید انور گیاوی استاذ دارالعلوم نے اسے مرتب ومکمل کیا، النوع الاول کے نصف کے بعد کی ترکیب نحوی رہ گئی تھی، اس کا اضافہ کیا۔ یہ کتاب چھوٹے سائز پر دو سو بہتر (۲۷۲) صفحے میں ہے۔
۷۲- گنجینہ ¿ صرف، یہ اردو میں صرف کی مشہور کتاب ”پنج گنج“ کی شرح ہے، یہ شرح بھی حضرت مولانا سید فخرالدین احمد کے قلم سے ہے، مفتی صاحب نے اس کا مسودہ بھی حضرت مولانا ریاست علیؒ سے حاصل کرکے اس پر نظر ثانی کی اور اس کو مرتب ومکمل کرکے اپنے مکتبہ، مکتبہ ¿ حجاز سے شائع کیا، یہ کتاب چھوٹے سائز کے دو سو پچپن (۵۵۲) صفحے میں ہے۔
۸۲- علمی خطبات، یہ مفتی صاحب کی ان تقریروں کا مجموعہ ہے، جو اُنھوں نے رمضان المبارک کے مہینے میں بیرون ملک بالخصوص برطانیہ، کناڈا وغیرہ میں کیں، ان کے صاحب زادوں نے انھیں مرتب کیا اور مفتی صاحب نے لفظ لفظ ان کو پڑھا تھا، اس کے بعد یہ تقریریں شائع کی گئیں، گویا یہ بھی ان کی تالیف ہی ہے۔ پہلاحصہ چھوٹے سائز پر (۴۰۳) تین سو چار صفحات میں اور دوسرا حصہ (۱۷۲) دو سو اکہتر صفحات میں ہے۔
۹۲- تذکرہ ¿ مشاہیر محدثین وفقہاے کرام اور تذکرہ راویانِ کتبِ حدیث، اِس کتاب میں خلفاے راشدین، عشرہ ¿ مبشرہ، ازواجِ مطہرات، بناتِ طیبات، فقہاے سبعہ، مجتہدین امت، محدثین کرام، راویان کتب حدیث، شارحین حدیث، فقہاے امت، مفسرین عظام، متکلمین اسلام وغیرہ کا انتہائی اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے۔ یہ کتاب چھوٹے سائز کے اَسّی (۰۸) صفحے میں ہے۔
۰۳- دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت، یہ کتاب مفتی صاحب کی ان تقریروں کا مجموعہ ہے، جو اُنھوں نے غیرمقلدین کے ردّ میں لندن میں اور جون ۴۰۰۲ءمیں ہندوپور اور شہر مدراس میں کیں، پھر ان پر نظرثانی کی اور رحمت اللہ الواسعہ سے دین کی بنیادی باتوں کا اضافہ کیا، اب یہ مذکورہ نام سے چھوٹے سائز کے (۶۹) چھیانوے صفحے میں چھپتی رہتی ہے۔
۱۳- داڑھی اور انبیاءکی سنتیں، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں داڑھی پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات کے علاوہ انبیا کی سنتوں کو بیان کیا گیا ہے، جیسے ناخن تراشنا، بغل کے بال لینا، مسواک کرنا وغیرہ۔ یہ کتاب چھوٹے سائز کے ایک سو اٹھائیس (۸۲۱) صفحے میں ہے۔
۲۳- عصری تعلیم، ضرورت، اندیشے، تدبیریں، لڑکیوں کو سرکاری اسکولوں میں عصری تعلیم دلانے کے سلسلے میں مشکلات ونقصانات پر غور کرنے کے لیے، علاقہ ¿ پالن پور میں قائم اِصلاحی جماعت نے ۰۱ ربیع الآخر ۷۲۴۱ھ مطابق ۹ مئی ۶۰۰۲ءکو ایک اجتماع منعقد کیا اور مفتی صاحب کو مذکورہ مسئلے پر خطاب کے لیے مدعو کیا۔ اُنھوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کو کتاب کی صورت میں، شعبہ ¿ نشر واشاعت دار العلوم چھاپی، گجرات نے شائع کیا۔ یہ کتاب چھوٹے سائز کے پچپن (۵۵) صفحات میں ہے۔
۳۳- اسلام تغیر پذیر دنیا میں، یہ کتاب جو چھوٹے سائز میں ایک سو بارہ (۲۱۱) صفحات میں ہے، ان چار مقالات کا مجموعہ ہے، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سمیناروں اور جلسوں میں پڑھے گئے۔ پہلے مقالے کا عنوان ”اسلام تغیرّ پذیر دنیا میں“ ہے جو مفتی صاحبؒ کے قلم سے ہے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پڑھا گیا۔ دوسرے مقالے کا عنوان ”فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مسئلہ “ ہے، یہ بھی مفتی صاحب ہی کا لکھا ہوا ہے، یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سمینار میں پڑھاگیا۔ تیسرا مقالہ بہ عنوان ”فقہِ حنفی میں فہم معانی کے اصول“ ہے، یہ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کا تحریر کردہ ہے، یہ بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سمینار میں پڑھا گیا۔ چوتھا مقالہ جو ”نبوت نے انسانیت کو کیا دیا؟“ سے مُعَن ±وَن ہے، مفتی صاحب کا نتیجہ ¿ فکر ہے، یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں پیش کیا گیا۔
۴۳- حرمتِ مُصَاہَرَت ، یہ کتاب چھوٹے سائز کے اسی (۰۸) صفحے میں ہے۔ اس میں سسرالی اور دامادی رشتوں کے مکمل احکام اور ناجائز انتفاع کا حکم ذکر کیا گیا ہے۔
۵۳- حیاتِ امام طحاوی، یہ کتاب چھوٹے سائز کے چھیانوے (۶۹) صفحات میں ہے۔ اس میں امام طحاوی کے تذکرے کے ساتھ، شرح معانی الآثار کا تعارف اور اس کی شروح کا جائزہ شامل ہے۔
۶۳- حیاتِ امام ابوداود، یہ کتاب چھوٹے سائز کے اسی (۰۸) صفحات میں ہے، اس کتاب میں امام صاحب کے حالات، سنن ابی داود کا تعارف، اس کی شرحوں اور متعلقات کا جائزہ شامل ہے۔
۷۳- جلسہ ¿ تعزیت کا شرعی حکم، یہ کتاب چھوٹے سائز پر (۶۸) چھیاسی صفحات میں چھپی ہوئی ہے۔ رجب ۹۳۴۱ھ / اپریل ۸۱۰۲ءمیں حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ (۴۴۳۱ھ / ۶۲۹۱ء- ۹۳۴۱ھ / ۸۱۰۲ئ) پر دارالعلوم وقف دیوبند نے سمینار کیا جس میں کبار اساتذہ ومنتظمین دارالعلوم کو بھی مدعو کیا گیا، دیگر لوگوں نے شرکت کی لیکن مفتی صاحب نے دلائل کی روشنی میں مذکورہ سمینار کو جلسۂ تعزیت مانتے ہوئے، اس میں شرکت نہیں کی، جس سے علمی مناقشے کا سلسلہ شروع ہوگیا، مفتی صاحب نے اپنی عدم شرکت پر علمی انداز میں جو کچھ لکھا، نیز دیگر لوگوں نے تحریری طور پر جو کچھ کہا، اس کو اس کتاب میں جمع کردیا گیا ہے، جس سے کتاب دستاویزی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
۸۳- تسہیلِ ادلۂ کاملہ، یہ کتاب متوسط سائز کے دوسو بتیس (۲۳۲) صفحات میں ہے، یہ شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوتی ہے، یہ کتاب غیر مقلدوں کے دس سوالات اور ان کے تحقیقی جوابات پر مشتمل ہے، یہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ (۸۶۲۱ھ / ۱۵۸۱ء- ۹۳۳۱ھ / ۰۲۹۱ئ) کی تصنیف ہے، مفتی صاحب نے اس کی تسہیل کی ہے اور اُن کے برادر خرد مولانا مفتی محمد امین پالن پوری نے اس کی ترتیب وتزیین کی ہے۔
۹۳- تحقیق وتحشیہ ایضاح الادلہ، یہ کتاب متوسط سائز کے (۱۷۶) چھ سو اکہتر صفحات میں شیخ الہند اکیڈمی سے طبع ہوتی ہے، غیرمقلدوں کے دس سوالوں کے جوابات کی شرح ووضاحت خود شیخ الہندؒ نے کی تھی، مفتی صاحب نے تحقیق وتحشیہ کا کام کیا ہے اور مولانا مفتی محمد امین پالن پوری نے ترتیب وتزیین کی ہے۔
۰۴- کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟ ، یہ کتاب حضرة الامام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب ”توثیق الکلام والدلیل المحکم“ کی شرح ہے۔ یہ چھوٹے سائز کے ایک سو انسٹھ (۹۵۱) صفحے میں ہے۔
۱۴- اِرشاد الفہوم شرح سلم العلوم، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ قاضی محب اللہ بن عبد الشکور بہاری (متوفی ۹۱۱۱ھ /۷۰۷۱ئ) کی فن منطق کی مشہور ومتداول غیر معمولی کتاب ”سلّم العلوم“ کی اردو شرح ہے۔ یہ چھوٹے سائز کے (۴۸۳) تین سو چوراسی صفحات میں ہے۔
۲۴- کامل برہانِ اِلٰہی، یہ کتاب متوسط سائز میں چار (۴) جلدوں میں ہے، پہلی جلد پانچ سو چھیاسٹھ (۶۶۵) صفحات کی ہے، دوسری پانچ سو ساٹھ (۰۶۵) کی، تیسری بھی پانچ سو ساٹھ (۰۶۵) صفحات کی، جب کہ چوتھی (۴۱۶) چھ سو چودہ صفحات کی ہے، کل صفحات تیئس سو (۰۰۳۲) ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں وہ مضامین ہیں جو مفتی صاحب نے ”حجة اللہ البالغہ“ کی شرح ”رحمة اللہ الواسعة “ کے ہرمبحث کے شروع میں اس کے مشمولات کو سمجھانے کے لیے لکھے ہیں، قارئین کی خواہش پر ان کی راے ہوئی کہ ان مضامین کو علاحدہ کتاب میں شائع کردیا جائے، تاکہ جو لوگ ”حجة اللہ البالغہ“ میں شاہ صاحب کی عربی عبارت کی بہ جائے صرف شاہ صاحب کی مراد کو جاننا چاہیں وہ مفتی صاحب کے ان مضامین ہی کو پڑھ لیا کریں۔
۳۴- محفوظات، یہ کتاب چھوٹے سائز میں تین حصوں میں ہے، تینوں حصوں کے مجموعی صفحات (۲۱۱) ایک سو بارہ ہیں۔ اس میں مفتی صاحب نے طلبہ کو یاد کرانے کے لیے کچھ آیتیں اور احادیث مع ترجمہ اردو درج کی ہیں۔ پہلے حصے میں چھوٹی چھوٹی آیتیں اور احادیث ہیں، دوسرے میں پہلے سے کچھ بڑی اور تیسرے میں ان سے بھی بڑی؛ تاکہ تدریجاً طلبہ کی استعداد کے مطابق انھیں سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہو۔
۴۴- مسئلہ ختم نبوت اور قادیانی وسوسے، یہ کتاب چھوٹے سائز کے چونسٹھ (۴۶) صفحات میں ہے، ردّقادیانیت اور مسئلہ ختم نبوت پر یہ بہت قیمتی رسالہ ہے۔ دارالعلوم کا ”کل ہند تحفظ ختم نبوت“ شعبہ اس کی اشاعت کرتا رہتا ہے۔
۵۴- تعددِ ازواجِ رسولؐ پر ا عتراضات کا علمی جائزہ، یہ کتاب مفتی صاحب کی دورانِ تدریسِ حدیث مذکورہ موضوع پر تقریر ہے، جو بنگلہ دیش کے ایک فاضل دارالعلوم اور مفتی صاحب کے شاگرد مولانا کمال الدین شہاب قاسمی نے مرتب کرکے دارالنشر ڈھاکہ بنگلہ دیش سے چھوٹے سائز کے تریسٹھ (۳۶) صفحات میں شائع کی ہے۔
۶۴- تہذیب المغنی، ”المغنی“ علامہ محمد بن طاہر بن علی پٹنی (۰۱۹ھ / ۴۰۵۱ء-۶۸۹ھ/ ۸۷۵۱ئ) کی اسماءالرجال پر اہم کتاب ہے، مفتی صاحب نے اس کی عربی شرح لکھنی شروع کی تھی؛ صرف باب الراءتک لکھ سکے تھے؛ اِس لیے وہ شائع نہ ہوسکی۔
۷۴- زبدة الطحاوی، امام طحاوی کی ”معانی الآثار“ کی عربی تلخیص ہے، چونکہ مدارس میں یہ کتاب جہاں تک پڑھائی جاتی ہے، وہیں تک کام کرسکے تھے؛ اِس لیے اس کو شائع نہیں کیا۔
۸۴- مفتی صاحب کے بہت سے فتاوی اُن کے ذاتی رجسٹروں اور دارالعلوم کے دارالافتا کے رجسٹروں میں محفوظ ہیں۔ اُنھیں دیگر علمی کاموں سے فرصت نہیں ملی اِس لیے اُنھیں مُدَوَّن کرکے شائع نہ کرسکے۔
پس ماندگان
۴۸۳۱ھ / ۵۶۹۱ءمیں مفتی صاحب کی شادی اپنے ماموں مولوی حبیب الرحمن شَی ±رَا کی بڑی صاحب زادی سے ہوئی، مفتی صاحب نے اپنی اہلیہ کی نہ صرف صلاح وتقوی اور صبر وشکر پر پرورش کی؛ بل کہ اُنھیں جیّد حافظ قرآن بنایا جس کی وجہ سے یہ ہوا کہ اُنھوں نے امور خانہ داری کو بہ خوبی انجام دیتے ہوئے اپنے بچے اور بچیوں کو؛ بل کہ اپنی بہووں کی بھی حفظ قرآن کی سعادت عظمی سے نوازا۔ قابل ذکر ہے کہ وقتِ تحریر مفتی صاحب کی ۱۳ اولاد واحفاظ واسباط اور پانچ بہوویں حافظِ قرآن ہیں، یاد رہے کہ بہ راہ راست اولاد اور مفتی صاحب کے پوتوں، پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعداد ۳۳ ہے۔
پہلے لکھا جاچکا ہے کہ مفتی صاحب کی اہلیہ کا ۲۳۴۱ھ / ۱۱۰۲ءمیں انتقال ہوچکا، دو صاحب زادوں کی بھی وفات ہوچکی ہے، ایک پسرِ اکبر مولوی مفتی رشید احمد مولود ۴ جمادی الاخری ۶۸۳۱ھ مطابق ۰۲ ستمبر ۶۶۹۱ءکی جن کی ایک حادثے میں ۵ شوال ۵۱۴۱ھ مطابق ۷ مارچ ۵۹۹۱ءکو شہادت ہوگئی۔ ان کے دو لڑکے ہیں: مولوی مفتی مسیح اللہ فاضلِ دارالعلوم دیوبند جو ممبئی کے ایک مدرسے میں مدرس ہیں اور اپنی والدہ (جن کی دوسری شادی ہوچکی ہے) کے ساتھ ممبئی ہی میں سکونت پذیر ہیں، دوسرا لڑکا سمیع اللہ حافظِ قرآن ہے، وہ ممبئی کے ایک مکتب میں معلم ہے اور ممبئی ہی میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔
پسر ثانی مولانا حافظ سعید احمد مولود یکم ذی قعدہ ۷۸۳۱ھ مطابق یکم فروری ۸۶۹۱ئ، ہدایہ تک تعلیم یافتہ تھے اور سورت کے ایک مدرسے میں حفظ کے استاذ تھے، مدرسے کا نام دارالعلوم محلہ رام پورہ ہے۔ پانچ چھ سال سے راندیر کے کسی مدرسے میں مدرس تھے اور وہیں بہ روز منگل: ۸۲ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۶۲ نومبر ۹۱۰۲ءوہ اللہ کو پیارے ہوگئے اور وہیں مدفون ہوے۔
ایک صاحب زادی، جو چوتھے نمبر کی اولاد تھی اور جس کی تاریخ پیدایش ۳۱ جمادی الاولی ۱۹۳۱ھ مطابق ۷ جولائی ۱۷۹۱ءہے، بہت جلد بہ مقام راندیر، بہ روز جمعہ: ۶۱ ربیع الاول ۳۹۳۱ھ مطابق ۰۲ اپریل ۳۷۹۱ئ، داغِ مفارقت دے گئی۔
باقی اولاد الحمد للہ زندہ بخیر ہیں، جو مندرجہ ¿ ذیل ہیں:
۱- مولانا وحید احمد مولود ۷۱ جمادی الاولی ۹۸۳۱ھ مطابق ۲ اگست ۹۶۹۱ئ، فاضلِ دارالعلوم ہیں، ۵۱ سال سے دمن کے مدرسہ نورا لاسلام میں درس وتدریس میں مشغول ہیں۔
۲- مولانا حسن احمد مولود ۴۱ محرم ۳۹۳۱ھ مطابق ۸۱ فروری ۳۷۹۱ئ، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مفتی صاحب نے انھیں اپنی کتابوں کی کمپیوٹر سے ٹائپ کرنے کی ذمے داری سپرد کی، اب وہ اس کام کے ماہر بن گئے ہیں چناںچہ اُنھوں نے ”روشن کمپیوٹر“ کے نام سے کمپوزنگ کا باقاعدہ ادارہ قائم کرلیا ہے۔
۳- مولانا مفتی حسین احمد مولود ۲ جمادی الاخری ۴۹۳۱ھ مطابق ۴۲جون ۴۷۹۱ئ۔ دارالعلوم کے فاضل ہیں، ذی استعداد ہیں، مختلف مدرسوں میں تدریسی خدمت انجام دے چکے ہیں، جس کے دوران بخاری ومسلم وترمذی شریف پڑھاچکے ہیں۔ مفتی صاحب کی ترمذی کی شرح ”تحفة الالمعی“ اور بخاری کی شرح ”تحفة القاری“ انھی نے مرتب کی ہے اور اب مسلم کی شرح کو مرتب کررہے ہیں، جس کی ایک جلد مفتی صاحب کی زندگی میں آچکی ہے، اب اس کے بعد کی جلدوں پر کام کررہے ہیں۔ اپنے ذاتی مکان میں ”معہد الفقہ النعمانی“ کے نام سے ایک ادارہ کے بانی ومدیر بھی ہیں، جس میں فضلاے مدارس کے لیے فقہ وافتا میں مہارت یابی کا انتظام ہے۔
۴- مولانا محمد ابراہیم سعیدی مولود شعبان ۶۹۳۱ھ / اگست ۶۷۹۱ئ، دارالعلوم سے فارغ ہونے کے بعد سے ہی، ضلع ہاپوڑ کے ایک گاو ¿ں ”کورانہ“ میں مدرسہ نافع العلوم میں تقریباً بائیس ۲۲سال سے مدرس ہیں، وہاں کے صدر مدرس اور ناظمِ تعلیمات بھی ہیں اور فقہ وحدیث کی کتابوں کا درس بھی دیتے ہیں۔
۵- حافظ محمد قاسم مولود ۵ ربیع الآخر ۸۹۳۱ھ مطابق ۵۱ مارچ ۸۷۹۱ءدرجہ سوم عربی تک تعلیم حاصل کی، اب تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، دیوبند میں قاضی مسجد کے قریب ”مکتبہ ¿ حجاز“ کے منیجر ہیں۔
۶- حافظہ عائشہ مولود صفر ۹۹۳۱ھ /جنوری ۹۷۹۱ئ، بڑی صاحب زادی کا نام بھی عائشہ تھا، ان کا دو ڈھائی سال میں انتقال ہوگیا، تو مفتی صاحب نے اُس کے بعد متولد ہونے والی بچی کا نام بھی عائشہ ہی رکھا، جو اس وقت دو بہنوں میں بڑی بہن ہے، حفظِ قرآن کے بعد بنیادی دینی تعلیم حاصل کی، اپنی بچیوں کو عائشہ سلمہا نے خود ہی حفظ کرایا اور ان کی مزید تعلیم وتربیت کی ذمے داری ادا کررہی ہیں۔ مفتی اسامہ پالن پوری فاضلِ دارالعلوم کی اہلیہ ہیں، جو جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں درجاتِ متوسطہ وعلیا کی کتابیں پڑھاتے ہیں، فقہی ضوابط، مسائل المیزان، تحفة الفقہ، فقہی اصول اور ”تاسیس النظر“ کی شرح وغیرہ کے مصنف بھی ہیں۔
۷- مفتی محمد سعید مولود ربیع الآخر ۱۰۴۱ھ / فروری ۱۸۹۱ئ، دارالعلوم سے فراغت کے بعد، مفتی صاحب کے علمی خطبات کو مرتب کرنے کا کام کیا، مظفر نگر کے کشن پور کے مدرسہ بحر العلوم میں پانچ سال تدریسی خدمت کے بعد، گیارہ سال سے جامعة الامام محمد انور دیوبند میں درجاتِ علیا کی کتابوں کی تدریس ان کے سپرد ہے۔
۸- مولانا احمد سعید مولود ۴ صفر ۳۰۴۱ھ مطابق ۱۲ نومبر ۲۸۹۱ئ، دارالعلوم کے فاضل ہیں، پندرہ سال سے دیوبند کے مدرسہ جامعة الشیخ حسین احمد مدنی میں درجات علیا کے مدرس ہیں۔
۹- حافظہ فاطمہ سلمہا مولود ۱۱ جمادی الاولی ۵۰۴۱ھ مطابق ۲ فروری ۵۸۹۱ئ، حفظِ قرآن کے بعد بنیادی دینی تعلیم سے بہرہ ور ہیں۔ ”گھٹامن“ پالن پور کے مدرسہ جامعہ نور العلوم کے بانی ومہتمم مرحوم جناب حنیف صاحب کھروڈیہ کے صاحب زادے حافظ بلال کی اہلیہ ہیں، حافظ بلال کی بود وباش ممبئی میں ہے، جہاں وہ تجارت سے وابستہ ہیں۔ مفتی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام انھی صاحب زادی کے یہاں گزارے اور ممبئی کی خاک کا ہی پیوند بنے۔
۰۱- قاری حافظ عبد اللہ سعید مولود: ۷ رجب ۶۰۴۱ھ مطابق ۹۱ مارچ ۶۸۹۱ئ، حفظِ قرآن کے بعد مدرسہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ، سہارن پور سے تجوید وقراءت کی سند حاصل کی، اِس وقت دیوبند میں تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
۱۱- حافظ عبید اللہ مولود ۹ صفر ۹۰۴۱ھ مطابق ۲۲ ستمبر ۸۸۹۱ئ، حافظ قرآن ہیں اور بنیادی دینی تعلیم سے بھی بہرہ یاب ہیں، مکتبۂ حجاز دیوبند میں تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔
(مصنف عربی ماہنامہ “الداعی” کے چیف ایڈیٹر اور دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ عربی ادب کے سینئر استاذ ہیں)