پروفیسر اختر الواسع
ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ میں رائج طرح طرح کے نصاب تعلیم کی یکسانیت پر تو کافی زور دیا گیا ہے لیکن اسی کے ساتھ مدارس سے جاری ہونے والی اسناد کی یکسانیت بھی ضروری ہے جس پر ارباب مدارس کو سنجیدگی سے غورکرناضروری ہے ۔یکساں نصاب اور یکساں اسناد سے ہم مدارس اور یونیورسٹیوں کے درمیان تعلیمی تبادلہ میں ہم آہنگی بھی لاسکتے ہیں اور عصری دانش گاہوں میں فضلائے مدار س کی ملازمت میں جو ان دنوں قیل و قال ہورہی ہے اس پر بھی قدغن لگ سکتا ہے ۔ اس موضوع پر نہ اہل مدارس سنجیدہ نظر آتے ہیں اور نہ یونیورسٹیوں کے ارباب حل و عقد کو کوئی فکر ہے ۔
قابل غوربات یہ ہے کہ ہندوستان کے وہ مدارس جہاں سے عا لمیت اورفضیلت کی ڈگری لے کر طلبہ نکلتے ہیں اور وہ یونیورسٹیوں میں جاکر مزید تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے کئی مسائل حائل ہوجاتے ہیں۔ایک تویہ کہ ان کا داخلہ محدود شعبوں میں ہی ہو پاتا ہے اور دوسری طرف دقت یہ ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں مدارس کی اسناد کو الگ الگ حیثیت حاصل ہے۔ کہیں عا لمیت کو بارہویں قرار دیا جاتا ہے تو کہیں فضیلت کی ڈگری کو وہی درجہ حاصل ہے ۔ کچھ جگہوں پر فضیلت کی ڈگری کو گریجویشن کے مساوی بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ بعض مدارس کی سند کو یونیورسٹیاں تسلیم تو کرتی ہیں مگر انگریزی سبجکٹ نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو داخلہ کے لیے ایک سال کا انتظار کرنا ہوتا ہے اور ان کا داخلہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ انگریزی مضمون کا امتحان پاس نہیں کرلیتے ۔ اس یسار و یمین کی صورتحال جب یو جی سی یا یونیورسٹیوں کے ذمہ داروں کے سامنے پیش ہوتی ہے تو وہاں بڑی جگ ہنسائی ہوتی ہے اور مدارس کے غیرمنضبط تعلیمی نظام پر طرح طرح کے فقرے کسے جاتے ہیں۔
مدارس کے فضلاء کو صرف عصری دانش گاہوں میں داخلہ کے لیے ہی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ جب وہ یونیورسٹیوں سے بی ایڈ، ایم ایڈ، ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر نکلتے ہیں تو انہیں کچھ حکومتیں اور یونیورسٹیاں یہ کہہ کر ملازمت سے محروم کردیتی ہیں کہ ان کے پاس دسویں اور بارہویں کی اسناد اور گیریجویشن کی ڈگری نہیں ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ فضلاء کو مدارس کی انتظامیہ صرف عا لمیت یا فضیلت کی ڈگری تفویض کرتی ہے ، اس کے نیچے کے درجات کی کوئی ڈگری ہی نہیں دیتی کہ اسے دسویں یا بارہویں کے مساوی قرار دی جائے یا اس کو تسلیم کرانے کی کوئی تحریک چھیڑی جائے۔ اس قسم کے درجنوں مسائل فضلائے مدارس کے سامنے بکھرے پڑے ہیں جن پر غور کرنے کی فرصت نہ حکومتوں کو ہے اور نہ اس کی فکر اہل مدارس کو ہے۔
خدا بھلا کرے بہار میں نتیش کمار کی سرکار اور ان کی انتظامیہ کے ذمہ دار افسروں کا جن کی کوششوں سے ایک برس قبل جب بہار میں بڑے پیمانے پر یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری ہوئی تو پھر بھی سیکڑوں فضلائے مدارس صرف اس لیے اس میں شامل نہیں کیے گئے کہ جن مدارس کے وہ فارغین تھے ان کی اسناد تسلیم شدہ نہیں تھیں ۔ ان کے پاس دسویں کی ڈگری نہیں تھی ۔ ایسی صورتحال میں ملک کا ایک صالح و صلاحیت مند طبقہ ملازمت سے محروم اپنی کم مائیگی پر آنسو بہارہا ہے، جسے میں اس ملک کے نظام اور ناروا ضوابط کی ناکامی تصور کرتا ہوں۔ دہائیوں تک تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے میرا تجربہ ہے کہ مدارس سے نکل کر باذوق و ذہین طلبہ جب یونیورسٹیوں میں آتے ہیں تو وہ صلاحیت اور فکرونظر کے اعتبار سے نہایت پختہ ہوجاتے ہیں اور انہیں میں اس ملک کا بہترین اثاثہ تصورکرتا ہوں ، لیکن جب وہ اہلیت کے باوجود کسی عذر لنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور بے روزگاری ان کا مقدر ہو جاتی ہے تو میں کس تکلیف و اذیت سے دوچار ہوتا ہوں، اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر کے اہل مدارس اس مسئلہ کی سنگینی پر غورکرنے کے لیے یکجا بیٹھیں اور اس کا حل پیش کریں۔
حکومتوں اور تعلیمی شعبوں کے ذمہ داروں کو سمجھنا چاہیے کہ مدارس کے فضلا جن مضامین میں یکتائے روزگار ہوتے ہیں انہیں ان مضامین کی تدریس کے لیے کیوں نہ منتخب کیا جائے، کیوں اہلیت رکھنے والوں کے مقابلے کم اہل لوگوں کا انتخاب کیا جائے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک بھرکے بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں پہلے عربی اور فارسی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی مگر رفتہ رفتہ پہلے یوپی ایس سی سے دونوں زبانوں کو نکالا گیا اس کے بعد اسکولوں اور کالجوں سے پہلے عربی پھر فارسی کو ختم کردیا گیا ہے۔ حکومتیں اردو کے فروغ کے بلندبانگ دعوے کرتی ہیں مگر اردو کو عربی اور فارسی کے ذریعے مضبوطی ملتی ہے اس سے وہ بے بہرہ ہیں ، انہیں جاننا چاہیے کہ اگر اردو کو فروغ دینا ہے تو عربی و فارسی کو بھی فروغ دینا ہوگا۔دوسری طرف جاننے والے جانتے ہیں کہ مدارس کے فضلا عربی، فارسی، اردو، اسلامیات اور سماجیات جیسے مضامین کی تدریسی صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں ، اگر ان کا انتخاب ہائی اسکولوں ، جونیئر کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کیا جائے تو تعلیمی معیار کو ہم بلندکرسکتے ہیں۔میرا تو ماننا ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکولوں میں جتنی تقرریاں ہوتی ہیں ان میں بھی فضلائے مدارس کی تقرری کو ہری جھنڈی دی جانی چاہیے کیونکہ تجربات بتاتے ہیں کہ فضلائے مدارس جس دلجمعی اور اخلاص کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کو انجام دیتے ہیں ویسی توقع ہم عصری دانش گاہوں کے فارغ التحصیل افراد سے نہیں کرسکتے۔
عجیب بات ہے کہ جو فضلائے مدارس اپنی صلاحیت اور محنت کی بدولت یونیورسٹیوں کے نصاب کو پڑھتے ہیں اور اپنے اپنے میدانوں میں درجہ کمال کو پہنچتے ہیں اور اس کے بعد وہ ملک کی تعلیمی و تدریسی ذمہ داریوں کو احسن طریقے پر انجام دےنے کے اہل ہوجاتے ہیں مگر انہیں اس کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ اس لیے میرامطالبہ ہے کہ جن مدارس کو یونیورسٹیوں نے داخلوں کے لیے تسلیم کررکھاہے ان فضلا کو ملازمتوں کا بھی اہل تسلیم کرناچاہیے۔اس سلسلے میں بعض یونیورسٹیوں کارویہ نہایت افسوسناک ہے۔ اس کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، مولانا مظہر الحق یونیورسٹی ، جامعہ ہمدرد اور عالیہ یونیورسٹی کلکتہ جیسے اداروں کو بھی ایک کورآڈی نیشن کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ ان کے یہاں سے فارغ التحصیل فضلائے مدارس کی ملازمتوں کی راہیں آسان ہوسکیں۔
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ اتنے سنگین مسئلہ پر نہ اہل مدارس نے کبھی فکر مندی کا اظہار کیا اور نہ ہی حکومتوں اور ارباب حل و عقد کے سامنے کسی طرح نمائندگی یا مطالبہ کیا گیا۔یونیورسٹیوں سے رہ رہ کر آوازیں اٹھیں مگر وہ دور تک نہ جاسکیں۔ کچھ یونیورسٹیوں میں مدارس کے فضلا کو ملازمت دی بھی گئی ہے لیکن رہ رہ کر فضلائے مدارس کے بڑھتے قدم پر قدغن بھی لگایا جاتا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں پوری تیاری اور استدلال کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے بڑے مدارس کے ذمہ داران کو آگے آنا ہوگا اور انہیں اسناد کی یکسانیت کو یقینی بنانا ہوگا ، اس کے بعد یونیورسٹیوں اور حکومت کے تعلیمی محکموں سے رجوع کرنا ہوگا ۔ اگر اہل مدارس سنجیدہ ہوتے ہیں تو پھر یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ذمہ داران بھی فضلائے مدارس کے حق کی ہرپیش قدمی میں ساتھ نظر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں بڑے مدارس اپنے نظام پر کسی کی مداخلت برداشت کرنے کے لیے بالکلیہ تیارنہیں ہیں لیکن نصاب کی سطح پر باہمی غور و فکر ضرور کرنا چاہیے اگراس میں بھی کسی کی آن کو دھچکا لگ رہا ہو تو کم از کم ایک وفاق ایسا ضرور بنانا چاہیے کہ جو اسنادکی یکسانیت پرغور کرے اور فضلائے مدارس کی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور ملازمت تک کے مسائل کو زیربحث لائے ۔ اگر بڑے مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماء، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعۃ السلفیہ بنارس، جامعہ نظامیہ حیدرآباد، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، مدرسة الاصلاح سرائے میر اور مدرسة الواعظین لکھنؤ کی کوئی کمیٹی تشکیل پا جائے جو یونیورسٹیوں کے ذمہ داروں سے ربط وہم آہنگی پیداکرے تو اس جانب مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے ۔ امید ہے کہ ہماری ان چندگزارشات پر اہل مدارس بھی غور کریں گے اور یونیورسٹیوں کے ذمہ داران بھی ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)