جامع قرطبہ مسلمانوں کی ملکیت، اسے عالم اسلام کے سپرد کیا جائے : شارجہ کے حاکم کا مطالبہ

شارجہ: (ملت ٹائمز) شارجہ کے حاکم ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے مسجد قرطبہ کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسپین میں مسجد قرطبہ مسلمانوں کی ملکیت ہے اسے مسلمانوں کے سپرد کیا جائے ۔ یہ مسجد چرچ کیلئے عطیہ کی گئی ہے جو غلط ہے ۔ مسجد قرطبہ ایسے شخص کی طرف سے عطیہ کی گئی ہے جو اس کا ملک نہیں ہے اور مسجد ایسے شخص کو عطیہ کی گئی ہے جو اس کا حقدار نہیں ہے ۔
متحدہ عرب امارات کے صوبہ شارجہ کے حاکم سلطان بن محمد القاسمی نے اپنا یہ مطالبہ ایک ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کیاہے ۔ ان کا مانناہے کہ اسپین میں صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت تھی جہاں کے صوبہ قرطبہ میں مسلم حکمرانوںنے شاندار مسجد بنائی تھی ۔ اس مسجد کے بارے میں ہم نے سناہے کہ میونسپلٹی نے اسے چرچ کیلئے عطیہ کردیاہے ۔ چرچ کیلئے عطیہ کرنا غلط ہے کیوں کہ وہ میونسپلٹی کی ملکیت نہیں ہے اور جس کو عطیہ کیاگیاہے وہ اس کا حقدار نہیں ہے ۔
جامع قرطبہ اندلس میں مسلمانوں کے عہد زریں کی ایک عظیم یادر گار ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سر زمین اندلس پر مسلمانوں کے عہد زریں میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال، تزئین و آرائش، نسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے۔ وہ ایسی دیدہ زیب عمارت تھی جسے بار بار دیکھنے کو جی چائے۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788) کو سب سے پہلے اس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سد باب کا بھی مناسب بندوبست کر لیا۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔
یہ عظیم مسجد وادی الکبیر کے قریب ہے ۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80 ہزار دینار خرچ کر دئے۔ مسجد کی بیرونی چار دیواری اتنی بلند و بالا اور مضبوط تھی کہ وہ شہر کی فصیل نظر آتی تھی۔ اس فصیل نما چاردیواری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اس کے باہر کی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پہل پشتیبان (Buttressess) بنائے گئے تھے جن پر کنگرے بنے ہوئے تھے۔مسجد کا بیرونی منظر؛ جس کو گوتھ طرزتعمیر سے داغدار بنا کر اس کا تعمیر کے وقت کا اصل اسلامی انداز نوچ کر پھینک دیا گیا ہے۔
مسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے جن کی ترتیب کچھ اس وضع پر ہے کہ ان کے تقاطع سے دونوں طرف کثرت سے متوازی راستے بن گئے ہیں۔ ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں (Horseshoe Arches) قائم ہیں۔ یہ نعلی محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کا وجہ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بن چکی ہیں۔ جامع قرطبہ کے ان ستونوں پر دوہری محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انہیں چھت سے ملا دیا گیا ہے۔ ان محرابوں پر کہیں کہیں قبےّ بنائے گئے تھے جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں۔ چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند تھی۔ جس کی وجہ سے مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں (Panels) سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا جھاڑ معلق تھا جس میں بیک وقت ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔