ایغوروں پر چینی مظالم اور مسلم دنیا کی بے حسی

پروفیسر اختر الواسع 

چین کا مسلم اکثریتی علاقہ سنکیانگ ان دنوں ایک بار پھر سے خبروں میں ہے۔ یہاں آباد ترکی النسل ایغور مسلمانوں پر ظلم و جبر کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ چین کی اس علاقے پر قبضے اور تسلط کی۔ انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں یہ علاقہ چین کے قبضے میں آیا اور اس وقت سے ہی اس علاقے میں آباد مسلمان کسی نہ کسی طور پر مختلف چینی حکومتوں کے عتاب کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ مختلف اوقات میں یہاں آباد مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور علاقے سے جبراً بے دخلی کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ اس دوران چین کی مسلسل یہ کوشش بھی رہی ہے کہ اس وسیع خطے میں مسلمانوں کی آبادی کا توازن بھی بگاڑ دیا جائے۔ اس مقصد سے دوسرے علاقوں سے چینی باشندوں کو یہاں لاکر آباد کرنے کی ایک مسلسل روایت بھی قائم ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سنکیانگ، جو پہلے مشرقی ترکستان ہوا کرتا تھا، میں ایغور مسلمانوں کا تناسب تقریباً نصف یا اس سے بھی کم ہوگیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کی خبریں تو مسلسل ذرائع ابلاغ میں کسی نہ کسی حوالے سے آتی رہتی ہیں البتہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر چین کے جبر و تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کم ہو پاتی ہے۔

سنکیانگ چین کا بڑا صوبہ ہے اور قانون کی رو سے تبّت کی طرح اسے خود مختاری بھی حاصل ہے، البتہ ایسا صرف کاغذات میں ہے، یہاں سخت ترین چینی قوانین نافذ ہیں اور یہاں کے باشندوں، خاص طور پر مقامی ایغور آبادی، کو برائے نام ہی حقوق و اختیارات حاصل ہیں۔ ان مسلمانوں پر چین کی مرکزی حکومت کی جانب سے سخت ترین پابندیاں عائد ہیں اور آزادی برائے نام ہے۔ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی مختلف ایجنسیوں کے جاری کردہ اعداد و شماراور رپورٹوں پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایغور نسل کے مسلمانوں پر چین کی مختلف سرکاری ایجنسیاں کڑی نظر رکھتی ہیں۔ انہیں نہ صرف یہ کہ اپنے علاقے سے نکلنے پر پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ ان کی نقل و حمل، بات چیت، مراسلت اور مواصلات پر بھی کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے۔ ان کی نئی نسل کو مذہب اور مذہبی تعلیمات سے دور رکھنے کے لیے سرکار کے ذریعے قائم کردہ تربیتی مراکز میں رکھا جاتا ہے اور اسی طرح جن کے بارے میں شبہ ہو کہ ان کے رجحانات مذہبی ہیں ان کے لیے متعدد حراستی مراکز قائم ہیں جہاں سخت اذیتتوں کے ذریعے انہیں مذہبی شعائر سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں جبراً چینی زبان یعنی مندیرین (Mandarin) سکھائی جاتی ہے۔ چین خاص طور پر اس کی قیادت سے وفاداری کے حلف نامے زبردستی حاصل کیے جاتے ہیں۔ اپنے مذہب کو چھوڑنے اور اس پر تنقید کرنے پر بھی ان حراستی مراکز میں مسلمانوں کو آمادہ کیا جاتا ہے۔ داڑھی رکھنے، حجاب کا استعمال کرنے اور انٹرنیٹ چلانے پر لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اس طرح کے حراستی مراکز میں قید ایغور مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

حالیہ دنوں میں ایغور مسلمانوں کا مسئلہ دو وجہوں سے عالمی ذرائع ابلاغ میں آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ایغور مسلمانوں کی آبادی کی تحدید کے لیے چین کی حکومت نے سنکیانگ کے علاقے میں مسلم خواتین کی جبری نسبندی شروع کر رکھی ہے یا پھر ان خواتین کو مانع حمل دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ چینی حکومت ایسا اس وقت کر رہی ہے جب اس نے تحدید آبادی کی اپنی پالیسی میں تبدیلی کرکے عام چینی باشندوں کو بھی اس حوالے سے رخصت دی ہوئی ہے۔ دوسری وجہ جس سے کہ ایغور مسلمانوں کا مسئلہ خبروں میں آیا وہ یہ ہے کہ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایغوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلاءکے بعض گروپوں اور تنظیموں نے ایغور مسلمانوں کے چینی حکومت کے ذریعے استحصال اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کو جرائم کی عالمی عدالت میں اٹھایا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ جرائم کی عالمی عدالت اس اقدام کے بعد اصولی طور پر چین کی حکومت سے اس بارے میں جواب طلب کرے گی۔ حالانکہ حقیقت میں اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا ہے کیونکہ چین کی حکومت اس طرح کے کسی بھی استحصال اور ظلم کو تشدد سے انکار کردے گی اور اسے اندرونی معاملہ قرار دے کر اپنا پلو بھی جھاڑ لے گی۔ اس طرح کی خبروں کے سامنے آنے پر انسانی حقوق کی تنظمیں، امریکہ اور مغربی یورپی ممالک روایتی بیانات تو دیتے ہیںلیکن جس طرح کے عملی اقدامات ہونے چاہئیں نہیں ہوتے۔

سنکیانگ میں آباد ایغور مسلمانوں کے مسئلے کے حوالے سے سب سے زیادہ تعجب خیز صورت حال مسلم دنیا کی ہے۔ مسلمان جو دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں، پچاس سے زیادہ آزاد اور خود مختار مسلم ممالک ہیں، ان کی متعدد علاقائی و دیگر تنظیمیں اور گروپ ہیں خاص طور پر اسلامی تعاون کی تنظیم او۔ آئی۔ سی ہے، اسی طرح مسلم دنیا کے پاس قدرتی و دیگر وسائل بھی ہیں۔ اور ان سب کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ چین پر نہ صرف یہ کہ دباﺅ ڈال سکیں بلکہ اسے مجبور بھی کر سکتے ہیں کہ وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں نرمی کا مظاہرہ کرے، ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کو روکے اور ان کے جائز حقوق و اختیارات کا احترام کرے۔ لیکن ابھی تک کے حالات کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ پوری مسلم دنیا اس حوالے سے کوتاہ دست ثابت ہوئی ہے۔ مسلم دنیا کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے ممالک ہوں یا وہ ممالک جنہیں واقعی مسلم دنیا میں کسی حد تک قیادت کی قوت حاصل ہے، کوئی بھی ایغور مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ او۔ آئی۔ سی اور پاکستان جو معمولی معمولی باتوں پر کشمیر کے مسلمانوں کے حوالے سے قراردادیں پاس کرتے اور احتجاج درج کراتے رہتے ہیں، انہیں سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کا استحصال اور ان کی نسلی تطہیر کے اقدامات بالکل بھی نظر نہیں آتے۔ واقعہ یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا موجودہ حالات میں اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کی اسیر ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم اور وہاں کی دیگر سیاسی قیادتوں کو کشمیریوں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آجاتا ہے لیکن سنکیانگ کے ایغوروں پر ڈھائے جانے والے مظالم اس لیے دکھائی نہیں دیتے کہ چین کے پاکستان میں پروجیکٹوں کو انہوں نے واحد رزق کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ او۔ آئی۔ سی کو ایغوروں پر ہونے والے مظالم اس لیے دکھائی نہیں دیتے کہ جن ملکوں کے ہاتھوں میں اس کی نکیل ہے، چین ان کے تیل کی پیداوار کا بہت بڑا خریدار ہے۔ اسی طرح اسلام، مسلمانوں اور مسلم قیادت کا دم بھرنے والے بعض دیگر مسلم ممالک بھی ہیں، جن کو ایغوروں پر ہونے والا چینی جبر و ظلم اس لیے نظر نہیں آتا کہ اس طرح ان کے ملکوں میں چینی سرمایہ کاری اور اقتصادی پروجیکٹ خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

اس میں شبہہ نہیں کہ چین اس وقت کی دنیا میں اقتصادی اور سیاسی دونوں سطحوں پر قائدانہ رول کا حامل ہے۔ ترقی پزیر ملکوں کو اس کی ٹیکنالوجی اور دیگر اشیاءکی ضرورت ہو سکتی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چین کی یہ ساری ترقی و قوت خود اس کے اپنے بل بوتے پر نہیں ہے۔ اس کی معیشت کی مشینری مغربی ایشیا کے تیل کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتی۔ اسی طرح معاشی طور پر دنیا کو فتح کرنے کا اس کا ون بیلٹ ون روڈ کا پروجیکٹ مسلم دنیا کے بغیر ادھورا ہی نہیں ناکارہ رہ جائے گا۔ اس کی مصنوعات جو اس کی اقتصادی اور سیاسی قوت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، مسلم دنیا کے بازاروں کے بغیر گوداموں میں دھری سڑ جائیں گی۔ اس لیے مسلم دنیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ چین کو ایغور مسلمانوں کے مسئلے پر نہ صرف یہ کہ کٹہرے میں کھڑی کر سکے بلکہ اس سلسلے میں اسے منصفانہ اقدامات پر مجبور بھی کرسکتی ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)