رامش فاطمہ
پچھلے دنوں ایک ڈرامے اڈاری کا بہت چرچا رہا، جس قدر سراہا گیا اس سے زیادہ تنقید ہوئی ، یہی حال آج کل ماریہ واسطی کے ایک ڈرامے کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ صاحبانِ عقل و دانش فرماتے ہیں کہ خاندانی روایات خطرے میں ہیں۔ تنقید کا مثبت پہلو بہرحال یہ تھا کہ تنقید کرنے والوں کے زاویہ نگاہ سے پھر سے ڈرامے کا جائزہ لینا پڑا کہ کون سی خاندانی روایات ہیں جو خطرے میں پڑ گئیں کسی ڈرامے سے۔ ایک ڈرامے یا کسی تحریر سے خاندانی روایات خطرے میں کیوں پڑ جاتی ہیں؟ ایسا کیا ہے خاندانی روایات میں یا ایسا کیا ہے جسے خاندانی روایات کا نام لے کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟
کیا ہماری خاندانی روایات یہ ہیں کہ کم سن بچیوں کو کسی سگے یا سوتیلے رشتے کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا یہ ہماری روایت ہے کہ بظاہر کوئی قابلِ بھروسہ انسان ہمارے بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنائے؟ کیا یہ ہماری روایت ہے کہ ہمارے بچے گھروں میں محفوظ نہ ہوں؟ کیا یہ ہماری روایت ہے کہ ٹیوشن یا قرآن پڑھانے کے نام پر ہمارے بچے اور بچیوں کو کوئی جبر اور استحصال کا شکار بنا ڈالے؟ یہ ہماری روایت ہے کہ ہم اپنے بچے کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا فرق نہ سکھائیں اور پھر کوئی تھڑدلا ان کو گودوں میں بٹھا کر اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لی؟یہ ہماری روایت ہے کہ پانچ سالہ بچہ گھر سے نکلے ، محلے کی دکان تک جائے اور دو روز بعد اس کی لاش ہی ملے؟ اگر تو یہ آپ کی روایات ہیں تو بھئی ان کو واقعی خطرہ ہے، ایسی روایات کو آگہی سے خطرہ ہے، شعور سے خطرہ ہے، مظلوم کی ایسی چپ سے خطرہ ہے جو ایک دن اسے کسی نفسیاتی الجھن کا شکار کر دے گی یا اسے سب کچھ بولنے پہ مجبور کر دے گی۔ اگر یہ آپ کی روایات نہیں ہیں تو آپ کو چاہیئے ایسے جبر کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یوں آنکھیں بند کرنے اور بول دینے سے کہ ایسا اکا دکا واقعات ہیں یہ کون سا روز ہوتا ہے کام نہیں چلے گا ۔ ابھی تو میں کہتی ہوں آپ کو خیر منانی چاہیئے کہ ایسا ہر واقعہ رپورٹ نہیں ہوتا۔ ہونے لگے تو آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔
دوسرا ڈرامہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس پہ بھی یہی تنقید ہے کہ آخر کوئی اپنے تایا کی طلاق یافتہ بیوی سے کیسے شادی کر سکتا ہے؟ اور اس کہانی میں بھی یہی دکھایا جا رہا ہے کہ اولاد اس تعلق کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ۔ اس تفصیل میں کوئی نہیں جاتا کہ وہ پہلی شادی کیوں ہوئی یا اب دوسری شادی اگر فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوئی تو ہمیں کیوں مسئلہ ہے کہ روایات خطرے میں ہیں۔ اولاد کی الجھن دکھائی گئی تو وہ بھی بہت واضح ہے۔ اولاد اور والدین اکثر و بیشتر ایک دوسرے پہ اپنا حق جتاتے ہیں، حق جتانا ایسی کوئی معیوب بات بھی نہیں مگر یہ حق شادی کے معاملے میں جی بھر کے جتایا جاتا ہے۔ جیسے بہت سے والدین پسند کا اظہار کرنے پہ سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ سخت ردعمل تب دیکھنے کو ملتا ہے جب والدین کی طلاق ہونے پر یا شریک حیات کی وفات پہ دوسرا فریق عقدِ ثانی کی جانب جانا چاہے۔ ہم اس بنیادی مسئلے کی جانب توجہ نہیں کرنا چاہتے کہ اولاد اپنے گھر میں مصروف ہے، اپنی زندگی میں مگن ہے، حال احوال پوچھنا خبرگیری کرنے کے سوا بھی انسان کو کچھ درکار ہے، کسی کا ساتھ درکار ہے، وہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کا خیال رکھنے والا ہو تو اس میں ایسی کیا برائی ہے؟ عمر کی یا رشتوں کی پابندی لگا کر غیر فطری زندگی جینے پہ مجبور کرنا اگر واقعی روایت ہے تو پھر اس پہ بھی آپ ہی کو سوچنا پڑے گا۔ اس ضرورت کا احساس اکثر لوگوں کو تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود یا اپنے کسی بہت قریبی کو ایسی تنہائی سے لڑتے ہوئے نہیں دیکھتے اور احساس نہیں کرتے۔ جس لمحے آپ کسی کے کرب کو سمجھ لیں آپ کیلئے روایات کی بحث بیمعنی ہو جاتی ہے اور انسان کی خوشی سب سے اہم۔
خاندانی روایات کے نام پر جبر سے کام لینا، کسی رشتے کا استحصال کرنا، جبری شادی سے لے کر جنسی زیادتی تک جو بھی روایات کے نام پہ کیا جائے وہ غلط ہی رہے گا۔ آپ اگر کسی غلط بات کو اپنی روایت کہہ کر خوش ہونا چاہتے ہیں تو شوق سے ہو لیں مگر اطلاعاً عرض ہے کہ اگر آپ شعور اور آگہی کو اپنا دشمن نہ سمجھیں تو یہی باشعور افراد آپ کی روایات زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتے ہیں ، رشتے خوشی سے نبھتے ہیں ، جبر سے گزارا ہوتا ہے۔ نہ سمجھنا چاہیں تو سب ڈراموں اور تحریروں پہ پابندی لگا دیں اور آنکھیں بند کر کے انتظار کریں جب تک یہ مسئلہ آپ کے گھر کی دہلیز پار نہیں کرتا۔ کیا اس روز بھی خاموش رہیں گے؟۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار پاکستان کی نوجوان کالم نگار ہیں )