ململ کے دو مکینوں کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت

عمر فاروق قاسمی
(ریسرچ اسکالر للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ)
‘’ ململ کی مرغیاں بھی پڑھی لکھی ہوتی ہیں ‘’ یہ جملہ مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ مدہوبنی میں، اپنے زمانۂ طالب علمی میں بار بار سنا کرتا تھا ۔ بچپن کا زمانہ تھا بھلا مرغیاں بھی پڑھی لکھی ہوتی ہیں؟ اس جملہ کو ایک قسم کا مبالغہ یا مفروضہ مان کر ٹال دیا کرتا ، یہ 1999عیسوی کی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے درجہ عربی شسم میں داخلہ کے بعد اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول تھا کہ ایک دن کسی سینئر ساتھی غالباً مفتی عمر فرید چشتی یا مولانا عبدالرحمن دربھنگوی نے بتایا کہ ہفت روزہ ’ نقیب ‘ پٹنہ میں وفاق المدارس اسلامیہ بہار کے سالانہ امتحان میں جن طلبہ اور طالبات نے اول ، دوم ، سوم پوزیشن حاصل کی ان کا نام شائع ہوا ہے، جس میں درجہ عربی پنجم میں آپ بھی سر فہرست ہیں ، میرے کمرے میں ’نقیب‘ آیا ہے ، آکر دیکھ لیجئے گا، جاکر دیکھا تو نقیب کے کسی صفحہ میں عربی پنجم میں میرے حوالے سے ان کی خبر درست اور واقعہ کے مطابق تھی؛ لیکن اسی کالم میں ایک اور خبر تھی جو مضمون کے ابتدائی جملہ کی مکمل تائید اور تصدیق کرنے کی وجہ کر میرے توجہ کا مرکز بن گئی ، دورۂ حدیث (معلوم نہیں کہ اس وقت وفاق میں دورۂ حدیث تک کا کون کون مدرسہ شامل تھا ؟) میں اول پوزیشن میں جس خوش نصیب کا نام تھا وہ تھی چشمۂ فیض ململ کی صدف توحید فیضی ۔اس نام کو دیکھنے کے بعد پہلی مرتبہ ململ کی مرغیاں کا مطلب سمجھ میں آگیا، اور بچپن میں جس کو مبالغہ یا مفروضہ سمجھ کر ٹال دیا کرتا تھا، اس کی صحیح تعبیر یہ نکل کر آئی کہ مرغیاں سے مراد لڑکیاں ہیں۔ یہی صدف توحید فیضی اب توحید کی جگہ اقبال بن گئیں ہیں اور ہمارے سینئر دوست مولانا فاتح اقبال ندوی کی شریک زندگی بن کر ان کے اقبال کو بلند کرنے میں لگی ہوئی ہیں، پتہ نہیں کہ اب دونوں میں سے فاتح کون ہیں اور مفتوح کون؟ البتہ اس وقت انھوں نے دورۂ حدیث میں اول آکر یہ بتادیا کہ آج کی فاتح تو میں ہی ہوں اور جس پڑھی لکھی مرغیوں کو آپ سرزمین ململ میں تلاش کررہے ہیں اس سے مراد یہاں کی بیٹیاں ہیں، مرغیاں نہیں۔ خیر ململ کے حوالے سے یہ تاثر اس وقت قائم ہوا اور پھر ذہن دوسری طرف مشغول ہوگیا۔ ۲۰۰۲؁ء میں جب میں دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ تکمیلِ ادب میں تھا، سال کا اخیر ہورہا تھا، گھریلو معاشی پریشانی کی وجہ کر فراغت کے بعد ایک سال مل جانا ہی غنمیت تھا، میرے گھر والے مزید وقت دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے ذریعۂ معاش کے حوالے سے رمضان بعد کہاں جانا ہے سوچا کرتا تھا کہ شعبۂ انٹرنیٹ کے ذمے دار اور مضمون نگاری کے حوالے سے اس وقت کے ابھرتے ہوئے قلم کار، مربی دوست جناب مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے ایک دن کہا کہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ مدہوبنی کے مہتمم آپ کو عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے اپنے یہاں بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ میری ان سے اور مولانا غفران ساجد قاسمی سے بات ہوئی ہے، تقریباً دو ہزار تنخواہ ملے گی، آپ کو لکھنے پڑھنے کا شوق ہے (میرے بارے میں شاید یہ ان کی خوش گمانی تھی) آپ کے مزاج کے مطابق جگہ ہے ، میری رائے کہ وہاں علمی ماحول ہے، چلے جائیے ۔ دوسری طرف رفیق گرامی مولانا غفران ساجد قاسمی نے دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد سے اس ضمن میں کئی خطوط بھیجے جس میں انہوں نے آئندہ کیا ارادہ ہے،کس لائن میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،کس معیار کی کتابیں پرھانا چاہیں گے اور تحریری خدمت انجام دینا چاہیں گے یانہیں؟ایک مدرسہ ہے پہلے آپ اپنا ارادہ ظاہر کریں تو اس کی تفصیل بتاوں گا اس قسم کی باتیں انھوں نے لکھی تھیں ۔جس کے جواب میں ایک تفصیلی خط ان کو لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ “عربی انشا و ادب کے ساتھ ساتھ موجودہ نصاب کی جو کتابیں پڑھانے کو ملیں گی احقر اس سے پہلو تہی نہیں کرےگا،اور جو جگہ عربی لکھنے،بولنے اور اردو مضمون نگاری کے حوالے سے میری ترقی وتابانی کا ذریعہ بنے گی وہ میرے لیے قابل صد افتخار ہوگی”، بعد میں انھوں نے یہ واضح کیا کہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ سے ایک رسالہ جاری کرنے کا ارادہ ہے، جس میں بہ حیثیتِ مدیر آپ قلمی تعاون دیں گے، اور بہ حیثیتِ استاذ عربی ادب، آپ تدریسی خدمت بھی انجام دیں گے، یہاں کے ذمہ دار سے میری بات ہوگئی ہے، اس لیے رمضان بعد میرے ساتھ آپ ململ چلیے ۔
جہاں کی مرغیاں پڑھی لکھی ہوں تو مرغوں کا کیا حال ہوگا یہی سوچ کر میں نے دیوبند ہی میں ارادہ بنا لیا کہ پڑھی لکھی مرغیوں کی اس بستی میں مرغے بھی علم و ادب کے حوالے سے میرے مزاج کے موافق ہوں گے، اس لیے ذہنی طور پر تیار ہوکر شعبان میں اپنے گھر دملہ آگیا ۔رمضان کے بعد اتحاد پی سی او دیوبند کو اپنے قریبی گاؤں بھیروا – ڈبلو ایل ایل فون – (رابطہ کا اس وقت یہی واحد ذریعہ تھا اور بہت مہنگا تھا) سے لگاکر تکمیل ادب کا نمبر معلوم کیا تو انھوں نے کہا کہ اس مرتبہ تکمیلِ ادب سے افتا میں جانے والوں کے نمبرات 46 اور دورۂ حدیث سے جانے والوں کے نمبرات 45 اوسط کم ہی لڑکوں کے آئے ہیں، آپ صرف ایک پوائنٹ کم ہیں، افتا میں داخلہ ہوجائے گا، آپ درخواست ڈال دیں ، انھوں نے یہ خوش خبری تو سنا دی، لیکن ہماری معاشی کمزوری کا عالم یہ تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی دیوبند جانے کے لیے کرایہ کے بارے میں سوچنا پڑرہا تھا ، رمضان میں تراویح کے نذرانے گھر کی دگر ضرورتوں میں مصروف عمل ہوکر لباس نیستی پہن چکے تھے ۔ سامنے بقرعید میں ایک بہن کی شادی کا مسئلہ تھا، لڑکے کے والد ایک مہینہ بھی تاریخ بڑھانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ والد صاحب تکمیلِ ادب کے نام پر پڑھنے کے لیے پہلے ہی ایک سال دے چکے تھے، ان کا دوشِ ناتواں مزید تعلیمی بارگراں اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا، انھوں نے کہا کہ ” گھر کے حالات تم جانتے ہی ہو میں کیا مشورہ دوں ، جو بہتر ہے تم سوچ لو “ ۔ اِدھر مولانا غفران ساجد قاسمی نے کہا کہ آپ اگر ململ چلتے ہیں تو کچھ معاشی مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور وہاں کے مہتمم پیشگی بھی چند مہینے کی تنخواہ دے دیں گے، جس سے معاشی تنگی بھی کچھ حد تک دور ہو جائے گی اور آپ کے ذریعہ شادی میں ممکنہ حد تک تعاون بھی ہوجائے گا ۔ اس موقع سے کسی دن اپنے استاد اور کرم فرما حضرت مولانا مفتی اعجاز احمد قاسمی قاضی شریعت سے متعین کردہ تنخواہ کی قلت کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا مارکیٹ میں آنے سے قبل سامان کی قدر و قیمت کوئی نہیں جانتا، مدرسہ بھی ایک بازار ہے آپ کی قدر قیمت آپ کے پڑھانے کے بعد ہی متعین ہوگی، وہاں کے مہتمم خوش اخلاق اور اچھے آدمی ہیں آپ وہاں چلے جائیے، غالباً اسی قسم کی کچھ باتیں میرے ہم قریہ حافظ فیض الرحمن نے بھی کہی تھی ، بہرکیف میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی دیوبند جانے کا ارادہ ترک کردیا ، بعد میں جب مفتی ابو عبیدہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ آپ کو جانا چاہیے تھا اس سال آپ سے کم اوسط والوں کا بھی داخلہ ہوگیا۔ اللہ ہی صحیح اور درست جانتاہے ، میں اس سے زیادہ تحقیق نہ کرسکا ، شاید میرے مقدر میں یہی لکھا تھا کہ اس عظیم منصب پر فائز نہ ہوسکوں، بہرکیف بیک وقت معاشی پریشانیاں، بہن کی شادی کی تاریخ اور والدین کی طرف سے خاموش نفی کی وجہ کر اور پھر یہ کہ وہاں جاکر داخلہ ہوگا یا نہیں ، تقابل میں چھنٹ گیا تو اخراجاتِ سفر بھی برباد ہوجائیں گے، انھیں سارے وجوہات کی بنیاد پر شعبۂ افتا میں داخلہ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا اور ۲۰۰۳ کے شوال میں ۱۵ اور ۲۰ کے درمیان کسی تاریخ کو ململ کے لیے روانہ ہوگیا ، دیوبند نہ جانے کا غم ستائے جارہا تھا ؛ لیکن اب دل کو یہ کہہ کر سمجھانا پڑا کہ ململ کے اس ادارہ سے مل کر ہی اپنے تدریسی زندگی کا آغاز کیا جائے ۔ ململ سے تقریباً تین کلیو میٹر پہلے دکھن پورب کی جانب ایک چوک ’ کلواہی ‘ کے نام سے موسوم ہے، یہاں کے بس اسٹینڈ پر اترتے ہی رکشہ ڈرائیور آیا اور مجھے بیٹھا کر ململ کی طرف چل پڑا، تھوڑی دیر بعد ہی رکشہ تالاب سے پچھم ’ تینو ‘کے ایک درخت کے نیچے ایک عمارت کے دوازہ پر رک گیا، میں کسی وسیع عریض میدان میں عالی شان بلڈنگ کا انتظار کرتا ہی ریا کہ اچانک اس نے کہا یہی ”مدرسہ چشمۂ فیض ململ “ ہے۔ تقریباً پندرہ کمرے پر مشتمل سبز رنگ کی ایک دو منزلہ عمارت اور اس کے سامنے ایک چھوٹا سا آنگن ، بغل میں زیرِ تعمیر گاؤں کی ایک عالی شان جامع مسجد ضرور تھی؛لیکن مدرسہ کی چھوٹی سی جگہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، کہاں اس کی شہرت اور کہاں یہ چھوٹی سی عمارت ۔ کہیں ” تسمع بالمعیدی خیر من ان تراہ “ کا مصداق تو نہیں ہے ؟ اس ادارہ کو دیکھ کر پہلے پہل دل نے یہی کہا دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے ۔ چونکہ فراغت نئی تھی اس لیے میری کم عمری کے باعث وہاں پر موجود طلبا مجھے بھی داخلہ کا خواہشمند طالب علم سمجھ کر نظر انداز کرگئے، مولانا غفران ساجد قاسمی نے کسی طالب علم سے کہا ان کا سامان اتار کر دفتر میں رکھ دو، شاید اسی دن مولانا فاتح اقبال کے بڑے بھائی باصر اقبال شرفی کی شادی تھی ۔ اس لیے مہتمم صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ غالباً شادی کی مجلس میں ہی شام کو ملاقات ہوئی ؛ لیکن یہ ملاقات سرسری رہی ۔ دیکھنے میں حسین و جمیل گوارا رنگ ، کھڑی ناک ، چوڑی پیشانی، درمیانہ قد پر آسمانی رنگ کی شروانی اور اس پر کھڑی دیوبندی ٹوپی اور ان سب سے بڑھ کر مسکراتا چہرہ، استقبال کا والہانہ انداز، اور صدیوں پرانا شناسا جیسا السلام علیکم یا وعلیکم السلام کسی کو بھی مرعوب کرنے اور محبوب بنانے کے لیے کافی تھا۔ کسی نے کہا کہ یہی مدرسہ چشمۂ فیض ململ کے مہتمم حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی ہیں ؛ دو چاردن یوں ہی گذر گئے، مولانا فاتح اقبال کے گھر سے اس دوران کھانا آتا رہا ،کبھی مہتمم صاحب تو کبھی فاتح صاحب ہم نوالہ و ہم دسترخوان ہوتے رہے ۔ جب داخلے کی کاروائی مکمل ہوگئی تو مہتمم صاحب نے کہا آپ کو بہ حیثیت استاذ ادب عربی بحال کیا گیا ہے اس لیے عربی انشاء کی کتابیں آپ کے ذمہ تو رہیں گی ہی؛ دگر اور کن کن کتابوں کا سبق لینا چاہیں گے؟ اگرچہ ندوہ کے نصاب سے میری شناسائی نہیں تھی؛ لیکن میں نے بغیر سوچے ہوئے کہ دیا کہ فاضل دیوبند ہوں، آپ کے نصاب میں جو کتابیں شامل ہیں سبھی میرے ممکنات میں سے ہیں۔ بہرکیف اس کے بعدشروع سے آخر تک مختلف درجوں (اس وقت ثانویہ خامسہ کے بعد ہی عالیہ اولی تھا میرے زمانہ میں ہی خامسہ کے بعد ثانویہ سادسہ کا اضافہ ہوا تھا) کی مختلف کتابیں میرے ذمہ کی گئیں ، جن میں سے کچھ کتابیں، میرے لیے پڑھی ہوئی تھیں اور کچھ کتابوں (جیسے شرح شذورالذہب، شذالعرف فی فن الصرف) سے میں انجان تھا؛ لیکن چوں کہ اس فن کی دوسری کتابیں پڑھ کر آیا تھا، اس لیے بھی اور انھوں نے حوصلہ افزا کلمات بھی کہے ، میں نے درس دینا شروع کردیا۔ ابتداءً قدیم اساتذہ کی معاصرانہ چشمک — جو کم بیش ہر مدرسے کی خصوصیات میں داخل ہے اور شاید اس کے بغیر کوئی مدرس اپنی محنت سے بڑا مدرس بن ہی نہیں سکتا — کا سابقہ کرنا پڑا لیکن مہتمم صاحب کے حوصلہ افزا کلمات ہمیشہ مجھے اونچا اڑان بھرنے کے لیے توانائی بخشتے رہے، میرے حوالے سے میرے پیچھے میں یہ جملہ اکثر بولتے کہ میں کریم یعنی مکھن (اگرچہ میں دودھی کے لائق بھی نہیں تھا) لایا ہوں ۔ دوسرے اساتذہ کو اس سے اگرچہ جلن محسوس ہوتی لیکن یہی جملہ(جو اگرچہ مبالغہ آمیز تھا) میرے لیے یقیں محکم اور عمل پیہم کے ساتھ ساتھ ہمارے حوصلوں میں جان پیدا کردیتا ۔ ایک ایسا حوصلہ جو کبھی تھکنے کا نام نہیں لیتا ہو، ہردم رواں اور ہر دم جواں ہو ، میں ان کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ انھوں میری چھ سالہ تدریسی زندگی میں علمی صلاحیت کو ابھارنے کےلئے لڑکوں میں عالیہ اولی یعنی عربی پنجم تک کی اور لڑکیوں میں دورۂ حدیث تک کی اہم کتابیں (ہدایہ، البلاغہ الواضحہ، قطرالندی، شرح شذورالذہب، مسلم شریف، مشکوہ معلم الانشا اول دوم اور عربی ادب کی مختلف کتابیں) پڑھانے کا موقع فراہم کیا، جس کی وجہ سے مجھے مزید صلاحیت کو جلا بخشنے کا موقع ملا ۔ تقرری کے ڈیڑھ ماہ بعد بقرعید کی چھٹی کے موقع پر گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے ساتھ ساتھ ماہ ذی الحجہ کی پیشگی تنخواہ دے دی اور میرے گھر میں شادی کے حوالے سے مزید دس ہزار روپے قرض بھی دئیے ۔ یہ بھی میرے لیے ان کے حسنِ اخلاق کا نمونہ ہی تھا کہ ابھی ٹھیک سے شناسائی بھی نہیں ہوئی کہ وہ قرض دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ لکھنے کے حوالے سے ان کا اعتماد ایک ہفتہ بعد ہی میں نے حاصل کرلیا ۔ ململ میں حاجیوں کو الوداعیہ دینے کی روایت پہلے سے آرہی تھی۔ ہر سال شوال کے آخیر یا ذی قعدہ کے آغاز میں یہ پروگرام ہواکرتا تھا ، مولانا وصی احمد صدیقی بڑے والہانہ انداز میں ہمیشہ حج کے عاشقانہ پہلوؤں کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا کرتے ان کے بیان کی خوبی کہیے کہ حاجیوں کا قافلہ اسی مجلس میں ارکان حج اور مناظر حج سے نہ صرف واقف ہوجاتا بل کہ ایسا لگتا کہ خانہ کعبہ کو چشمہ فیض ململ کے صحن میں اتار دیا گیا ہے اور مولانا وصی احمد صدیقی صاحب لوگوں کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر کبھی حجرۂ اسود تو کبھی ملتزم،کبھی صفا تو کبھی مروہ،کبھی منیٰ و مزدلفہ تو کبھی عرفات،کبھی جنت البقیع تو کبھی روضۂ رسول کی سیر کرارہے ہیں،کبھی جھوم کر لبیک کی صدا تو کبھی مستی میں صلٰوۃ و سلام کی ڈالی نچھاور کررہے ہیں ۔ کسی (شاید مولانا غفران ساجد قاسمی یا مولانا علی حسن صاحب) نے رات میں بتادیا کہ کل حاجیوں کی رخصتی کا پروگرام ہے، ہوسکتا ہے کہ نقیب جلسہ آپ کو اچانک تقریر کے لئے دعوت اسٹیج دے دیں، اس لیے ذہنی طور پر آپ تیار رہیں، اور یہی ہوا بھی کہ نقیب محترم نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یہ جملہ کہتے ہوئے اچانک بلا لیا کہ اب آپ کے سامنے نئے خون، نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ آرہے ہیں مولانا عمرفاروق قاسمی۔ اور ساتھ میں یہ شعر بھی جڑ دیا
چلاؤ تیر جو بہتر تری کمان میں ہے
کسی کی آنکھ میں جادو تری زبان میں ہے
سچ پوچھیئے تو خون تو نیا ضرور تھا اور جوش و ولولہ بھی نیا تھا لیکن اگر رات میں کسی کرم فرما نے آگاہ نہیں کیا ہوتا تو نیا خون پانی بن کر منجمد اور نیا جوش بھی ٹھنڈا ہوجاتا کیوں کہ فی البدیہ تقریر اس وقت میرے لیے آسان نہیں تھی ، وہبی صلاحیت والے سے تو کچھ بھی ممکن ہے لیکن میرے پاس تو جو کچھ بھی تھا وہ کسبی تھا اور اس حوالے سے کوئی مواد اس وقت دستیاب نہیں تھا رات کو میں نے ذہن کو آمادہ کیا اور صبح میں دو تین صفحہ پر مشتمل ایک مضمون حج ایک عاشقانہ فعل تیار ہوگیا۔ یہ مضمون چند غیر مرتب جملوں کو محیط تھا ، نہ تو میری آنکھوں میں جادوئی اثر تھا اور نہ ہی میری زبان میں؛ البتہ یہ چند بے ترتیب جملے جو جلدی جلدی میں مضمون کی شکل اختیار کرگئے تھے ، مجلس میں واقعی ترکش کے تیر ثابت ہوئے اور بغیر کسی اطلاع کے اچانک ’ عزت افزائی ‘ سے نوازنے والے نقیب کے منفی مقاصد کو چھلنی کرتے ہوئے اپنے مقصد کو پہنچ گئے ۔ مجھے یاد ہے کہ اسی مجلس میں ململ کی مؤقر شخصیت اور عازم حج مولانا حامد فلاحی نے کہا تھا کہ میں چند روز سے ان کو دیکھ کر کوئی طالب علم سمجھ رہا تھا آج سمجھ میں آیا کہ یہ استاد ہیں، مولانا وصی احمد مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ اس مدرسہ کے لیے انھوں نے ان کا انتخاب کیا ہے ۔ مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نے اسی مجلس میں اپنے صدارتی تقریر میں مجھے کریم کے نام سے یاد کیا تھا ، یہ پروگرام میری تقرری کے بعد سب سے پہلا ثقافتی پروگرام تھا ، جو مہتمم صاحب اور اہالیان ململ کے درمیان میری دائمی عزت و سربلندی کا ذریعہ بن گیا ۔ افسوس کہ وہ مضمون ضائع ہوگیا ۔
اسی سال محرم سے سہ ماہی بصیرت نکالنے کا پروگرام طے ہوا، دارالعلوم دیوبند کے بزم سجاد اور تہذیب الافکار میں چونکہ حرف حرف مانگ کر ، لفظ لفظ کاٹ کر اور کہیں کہیں حسنِ چالاکی سے دوسرے کی تعبیر اپنی تعبیر بنا کر مضمون نگاری کے حوالے سے کچھ توڑ جوڑ کرنے آگیا تھا (اور میرے خیال میں شاید مضمون نگاری سیکھنے کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے اور مجھے کہنے دیجئے کہ ہر بڑا اکتسابی ادیب شروع میں یہی کرتا ہے) اور اخبارات والے اس کو چھاپ بھی دیا کرتے تھے اس لیے سارے لوگ مجھے منجھا ہوا قلم کار سمجھتے تھے؛ جب کہ میں منجھا ہوا سرقہ نگار تھا ۔میں اس خوبصورتی کے ساتھ دوسروں کا مضمون اپنا بنالیا کرتا کہ صاحب مضمون بھی مجھے سرقہ کا الزام نہیں لگا سکتے اگرچہ اس طرح کی ادبی چوری بھی ، ادبی شعور ، فنی مہارت اور دماغی ورزش کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہمارے عہد کے کچھ مشہور اہل قلم ادبی سرقہ تو خوب کرتے ہیں لیکن انھیں اتنا بھی شعور نہیں کہ دماغی ورزش کے ذریعہ کچھ ہیر پھیر کرلیں بس دو چار مضمون کاٹ چھانٹ کر ایک مضمون تیار کرلیتے ہیں، بل کہ کچھ لوگ تو صرف عنوان اور پہلا پیرا گراف تبدیل کر مایۂ ناز صحافی اور معروف قلم کار بن جاتے ہیں، جب کہ اس فن کے لیے بھی ’نقل را عقل باید‘ کے ضابطے پر عمل پیرا ضروری ہے ۔ خیر اسی سرقہ نگاری کو مہتمم صاحب نے مضمون نگاری سمجھ کر اپنے رسالے کی ادارت تھما دی ۔ یہ میدان میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہوا اس رسالے نے مجھے یہ احساس دلایا کہ تم دنیائے تحریر کے باعزت شہری بنو، یہاں سرقہ نگاری نہیں مضمون نگاری چلے گی ورنہ بال کاٹ کر گدھے کی پیٹھ پر گھمانے کا رواج یہاں بھی ہے ، مالیاتی چور کے لیے اس عمل کی جگہ گاؤں کا چوراہا ہے، جب کہ ادبی چور کے لیے اس کی جگہ اخبارات کا مراسلاتی صفحہ ہے ۔ بصیرت کا پہلا رسالہ قاضی مجاہد الاسلام نمبر نکلا ماشاءاللہ بڑی پذیرائی ملی ، اس وقت مولانا غفران ساجد قاسمی کو چیف ایڈیٹر، راقم الحروف کو ایڈیٹر، مولانا فاتح اقبال ندوی کو منیجنگ ایڈیٹر، مولانا عبدالروف اعجازی آزاد اور مولانا سیف اللہ خالد ندوی کو معاون ایڈیٹر بنایا گیا، اس کے بعد مولانا نافع عارفی کی دوبارہ بحالی عمل میں آئی اور کچھ دنوں بعد ان کو بھی سب ایڈیٹر بنادیا گیا، اس پیلٹ فارم کے ذریعہ جہاں مدرسہ کی نیک نامی اور مالی منفعت میں اضافہ ہوا، وہیں ایڈیٹران و حضرات اساتذہ کے لیے بھی مضمون نگاری ، انشا پردازی اور شہرت و ناموری کے حوالے سے بہت ہی مفید میدان عمل ثابت ہوا، بہت جلد اس کو خاص و عام کے درمیان مقبولیت مل گئی ، ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور منیجنگ ایڈیٹر سبھوں نے مل کر علاقے میں ممبر سازی کی، قریہ قریہ ، بستی بستی کہیں سائیکل سے تو کہیں پیدل جا جاکر بصیرت کی خریداری مہم چلائی، اہالیانِ اردو کو نہ صرف ’بصیرت‘ کا خریدار بنایا گیا بل کہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کے شوق کو جگایا بھی، بہت سے اہل علم اور مدارس کے کتب خانوں کو یہ رسالہ بلا معاوضہ ارسال کیا جاتا، براہِ راست تو اس پرچے کے ذریعہ مدرسہ کا مالی نقصان ہوتا لیکن بالواسطہ مدرسہ کے چندہ میں اس کا خاطر خواہ اضافہ ہوا، مہتمم صاحب اس کا بار بار اظہار کرتے کہ پرچہ نکلنے سے عام لوگوں میں عموماً اور خاص لوگوں میں خصوصاً اس بات کا احساس بڑھا ہے کہ یہاں قابل اساتذہ دستیاب ہیں۔
شروع شروع میں مضامین کی کمی کی وجہ کر مختلف ناموں اور عناوین سے مولانا غفران ساجد قاسمی ، مفتی محمد نافع عارفی اور راقم الحروف کو کئی مضامین لکھنے پڑتے جس کے مآخذ و مراجع کے لیے مختلف عربی اور اردو کتابوں کی ضرورت پڑی ، جب مہتمم صاحب کو اس حوالے سے کتابیں دستیاب کرانے کی درخواست کی گئی تو تقریباً لاکھوں روپے کی گراں قدر کتابیں ہند و بیرون ہند سے منگوانے کا آرڈر دیا، اس حوالے سے وہ بہت باذوق آدمی تھے، کتابوں کے منگوانے میں عام مہتمم کی طرح مالی تنگی کا شکوہ نہیں کرتے، بل کہ وہ اس سے خوش ہوتے ۔ چناں چہ اس وجہ کر مراجع اور مآخذ کی اہم نادر کتابیں مدرسہ چشمۂ فیض کی لائبریری میں جمع ہوگئیں تھیں، سینئر تدریسی رفیق اور ہر اعتبار سے مرتب زندگی گزارنے والے جناب مولانا معین احمد ندوی نے ترتیب دے کر کتب خانے کو آرائش و زیبائش بخشی تھی ، راقم الحروف اگر چہ کتب خانہ کا ذمہ دار نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی مہتمم صاحب نے ایک چابھی راقم کو بھی دے رکھی تھی ؛ تاکہ ان مراجع اور مآخذ سے بلاتحدید کسی وقت بھی استفادہ کیا جاسکے ۔ ململ کی زندگی میں معاشی استحکام تو بےشک مجھے نہیں مل سکا اور شخصی نظام کے کسی بھی مدرسہ میں اس کی کوئی امید بھی نہیں رکھی جاسکتی؛ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ادارہ میرے علمی استحکام کا ذریعہ بنا۔ اور یہاں کا چھ سات سالہ تدریسی دور میری زندگی کے دوسرے تعلیمی ادوار کے لیے بہترین زینہ ثابت ہوا ۔
مالیاتی فراہمی کے لیے سال کا زیادہ تر حصہ وہ ہند و بیرون ہند کے دورے پر ہوا کرتے؛ لیکن جب بھی سفر سے واپسی ہوتی تو مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کی نگرانی پر پوری توجہ برتتے، کلاس کے آغاز میں اساتذہ وقت پر پہنچے یا نہیں، دوران کلاس اساتذہ پڑھا رہے ہیں یا کلاس میں گپ بازی میں لگے ہیں، کمرے میں بسترِ استراحت پر آرام فرما ہیں، یابغیر بتائے گھر تشریف لے گئے ہیں، طلبہ کی گھنٹی اگر خالی ہے تو کیوں اور خالی پن میں وہ کیا کررہے ہیں؟ اس حوالے سے وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، یہی وجہ ہے کہ نسبتاً بہت ساری پریشانیوں کے باوجود یہاں کا تعلیمی معیار بہت اونچا تھا اور ندوہ کی شاخوں میں اس کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ تعلیمی اعتبار سے چشمۂ فیض اور جامعہ صرف ” دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے ” کا مصداق نہیں تھا بل کہ ” ہرچہ بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر ” اور ” مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار گویند ” کا مصداق تھا۔
سفر پر جانے سے پہلے اور سفر سے آنے کے بعد جامع مسجد میں اساتذہ اور طلبہ سے ضرور روبرو ہوتے ، اساتذہ اور طلبہ کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ۔ایک اہم اور بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عزم و حوصلہ کے دھنی انسان تھے، حالات کنتے ہی بلاخیز ہوں، مخالفتوں کا طوفان منہ پھاڑے نگل لینے کے لیے تیار ہو، الزامات و اتہامات کی ہر طرف سے بارش ہورہی ہو، بعض اوقات تو ایسا لگا گولیاں چلنے والی ہیں لیکن وہ ہمت و حوصلہ نہیں ہارتے ۔ پتہ نہیں کہ وہ الزامات و اتہامات میں حق پر تھے یا ناحق ؛ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اندر سے بہت مضبوط انسان تھے، مخالفتوں کے طوفان کو اپنا ہم نوا بنانے کا ہر ہنر جانتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 46 سال تک وہ اس مدرسہ کے مہتمم رہے، اس درمیان بہت سے حالات آئے لیکن وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے اور کوئی ان کو اس عہدے سے ہلا نہیں سکا ۔
ان کی خوبی کہیے یا خامی کہ اساتذہ کی تنخواہ کا معیار تو دگر دینی مدارس کی طرح روایتی اور تقلیدی ہی تھا مگر وقت پر ضرور دے دیتے، اس میں وہ دوسرے مدارس کی پیروی نہیں کرتے، اس معاملے میں انھیں امتیازی حیثیت حاصل تھی کہ شوال سے لےکر رجب تک بل کہ کہنے پر شعبان کی تنخواہ بھی دے دیتے تھے، بذات خود وہ اساتذہ کی صلاحیتوں کے قدر داں تھے اور کھلے لفظوں اعلانیہ اس کا اعتراف کرتے ، اس حوالے سے وہ کسی بخالت سے کام نہیں لیتے، وہ ’ انزلوالناس منازلھم ‘کے قائل تھے اور اساتذہ کے درمیان اس حدیث کی بنیاد پر فرق مراتب کا پورا خیال رکھتے، البتہ اس میں کبھی کبھی اعتدال کا دامن چھوٹ جاتا، جس کی وجہ کر کچھ اساتذہ کو اس حوالے سے کچھ شکایتیں بھی ہوجاتی تھیں ۔ زبان میں زبردست سلاست تھی اس لیے ان کی تقریروں میں بڑی روانی ہوتی۔ لوگوں کو اپنی طرف مائل اور متوجہ کرنے کے لیے مختلف اسالیب کا سہارا لیتے اور بالآخر یا تو منوالیتے یا خاموش کردیتے ۔ اس فن میں انھیں کمال حاصل تھا ۔ راقم الحروف کو ان کی تقریروں کی ہر باتوں سے اتفاق تو نہیں ہوتا تاہم ان کی بے ساختگی اور قوت کلامی کا قائل ضرور ہوجاتا کہ یہ فن اللہ تعالی کسی کسی کو دیتا ہے۔خوش کلامی اور الفاظ کی بمباری سے بہت خوش ہوتے، خصوصا جب مدرسہ چشمۂ فیض ململ، جامعہ فاطمہ الزہرا یا خود ان کی شان میں کوئی گفتگو چل رہی ہو اور اس حوالے سے کوئی شعر یا حسین تعبیرات میری زبان سے ان کی شان میں نکل جایا کرتیں تو قرضہ باقی نہیں رکھتے مجلس ختم ہونے سے قبل اپنی صدارتی تقریر میں خوش کن الفاظ کے ذریعہ وہ اپنا قرضہ ضرور چکادیتے ۔ بذات خود وہ اساتذہ کا احترام خوب کرتے تھے، اساتذہ کے مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے دیرینہ رفیق اور نائب مہتمم مولانا مکین احمد رحمانی کی طرف پھیر دیتے ۔ مولانا رحمانی ان کے پرانے رفیق، ہم مزاج بل کہ مزاج شناس بھی تھے ۔ آگر یہ کہا جائے کہ مولانا صدیقی کی کامیاب اہتمامت میں مولانا کی فطری صلاحیت کے ساتھ مولانا رحمانی کی مضبوط رفاقت کا بھی رول ہے تو کچھ بھی غلط نہ ہوگا، کیوں کہ مولانا کی موجودگی ہو یا غیبوبت مولانا رحمانی پوری ایمانداری کے ساتھ ان کی منشا کے مطابق مدرسہ کا نظام چلاتے، اساتذہ کی ناراضگی ہو یا ان کے مسائل مولانا رحمانی بہت ہوشیاری اور خوش اسلوبی سے نمٹ لیتے ۔
ہمارے زمانے میں اساتذہ اگر ان سے کبھی ناراض ہوئے بھی تو اس وقت کے قائم مقام مہتمم رفیق محترم جناب مولانا فاتح اقبال ندوی کی وجہ سے ، مولانا اس وقت نئے نئے فارغ ہو کر آئے تھے، نیا خون اور نیا جوش تھا، ہم جیسے لوگ بھی عمر کے اسی دور میں تھے جس کو طوفان کا دور کہا جاتا ہے، ہو سکتا ہے ادھر ان کو “پدرم سلطان بود ” پر ناز رہا ہوگا تو ادھر ان کو بھی اس بات پر ناز تھا کہ ” دنیائے تدریس کا سلطان میں ہوں ” ۔ اسی خاموش تفاخر کے درمیان ان کی زبان سے کچھ الفاظ ایسے نکل جاتے جو اساتذہ کی شان کے مناسب نہیں ۔بہرحال وہ جوانی کا تقاضا تھا اب ماشاءاللہ جامعہ فاطمہ الزہرا کی لمبے عرصے سے نظامت سنبھالنے کی وجہ کر تحمل اور بردباری آگئی ہے ۔ جہاں بھی ملتے ہیں حسنِ اخلاق اور خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ چشمۂ فیض سے نکلنے کے باوجود مہتمم صاحب کے ملنے کا والہانہ انداز ابھی تک باقی رہا، جہاں بھی ملتے مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے پیش آتے، عربی انداز میں بغل گیر ہوتے ، اپنے بغل میں بیٹھا لیتے ، چاہے جتنی بھی بھیڑ ہو والہانہ انداز میں مولانا عمر صاحب کہہ کر پکارتے، اس سے اپنائیت جو جھلکتی تھی وہ تادمِ حیات تڑپائے گی ۔
ململ پہنچنے کے بعد تہذیبی اعتبار سے دو چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا ایک نقاب اور دوسرا تلفظ ۔ اس وقت ہمارے علاقے بل کہ شمالی بہار کے اکثر حلقوں میں نقاب صرف شادی شدہ لڑکیاں ہی پہنتی تھیں اور وہ بھی گاؤں سے باہر دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے، غیر شادی شدہ لڑکیاں نقاب کا استعمال بالکل نہیں کرتی تھیں اور شادی شدہ عورتیں بھی اپنے محلے میں ایک دوسرے کے گھر جانے کے لیے نقاب کا استعمال پر توجہ نہیں دیتیں، گویا نقاب کا چلن باہر جانے کے لیے تھا محلے میں جانے کے لیے نہیں ؛ لیکن ململ کا ماحول اس حوالے سے بہت خوب صورت تھا۔ لڑکیاں جیسے ہی بالغ ہوتیں نقاب ان کے جسموں پر چڑھ جاتا ۔ وہ اپنے محلے کی رشتہ داروں کے یہاں بھی جاتیں تو نقاب میں ملبوس ہوکر۔ نقاب کو بحیثیتِ تہذیب ملک میں نافذ کرنے میں یہاں کی لڑکیوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ نقاب اسلام پسند لڑکیوں کی پہچان ہے نہ کہ شادی شدہ عورتوں کی ۔ یہ فکر کم از کم اس علاقے میں ململ کی دین ہے ۔ یہاں کی باشندوں کا عموماً اور لڑکیوں کا خصوصاً تلفظ بھی بڑا خوب صورت تھا ۔ یہاں کی مقامی زبان میتھلی آمیز ہے ، جو سننے میں ہمارے علاقے کی ہندوانہ زبان سے میل کھاتی ہے ، اسی وجہ کر جب میں لڑکیوں کی درسگاہ میں جاتا اور اس کی آپسی گفتگو سنتا تو مذاقاً میں کہہ دیتا کہ شاید میں اپنے گاؤں کے ” گوالا ٹولی ” میں بیٹھا ہوں ۔ لیکن جب وہ اردو بولتی تھیں تو پورے تلفظ ، اردو کی پوری شان اور مکمل آن و بان کے ساتھ بولتیں ۔ پانچ سات سال کی بچی بھی شین، اور سین، زا اور جیم، قاف اور کاف، حا اور ہا، عین اور ہمزہ کے درمیان واضح فرق کے ساتھ تلفظ کرتی ہوئی سنائی دیتی ۔ ایسا ماحول کم از کم اس وقت دوسرے علاقوں میں نظر نہیں آتا تھا ۔ اس تہذیبی فروغ میں مولانا وصی احمد صدیقی اور ان کے رفقائے کار کا اہم کردار رہا ہے ۔
مولانا انسان تھے کوئی فرشتہ نہیں، بےشک ان سے بھی اسی طرح غلطیاں ہوئی ہوں گی بل کہ ہوئیں جس طرح ہم آپ سے ہوا کرتی ہیں، ہندوستان کے موجودہ نظام میں مدارس چلانے میں جن مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں غلطیوں کے امکانات کچھ زیادہ ہی ہیں، پھر یہ کہ اجتماعی کام میں ہر ایک کو خوش رکھا بھی نہیں جاسکتا ہرایک کا زاویہ نظر الگ ہوتا ہے ، کوئی ضروری نہیں کہ آپ کے عمل سے ہر ایک انسان خوش رہے ، نیت اور اخلاص کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ ہم ظاہر پر ہی حکم لگا سکتے ہیں، منفی اور مثبت جہتوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مولانا ایک غیرمعمولی انسان تھے ، جس نے ۴۶ سال تک ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا اور ان کی وجہ کر سینکڑوں گھروں میں چولہا جلا ۔ جو چشمۂ فیض انھیں مکتب کی شکل میں ملا تھا ان کی وجہ سے اس کی شہرت نہ صرف پورے ہندوستان بل کہ اس سے باہر بھی پہنچی ۔ میدان عمل میں آنے والا کھلاڑی کبھی چوکے چھکا لگاتا ہے تو کبھی آوٹ بھی ہوتاہے ،بہت سارے بال اس سے یوں ہی ضائع ہوجاتے ہیں، اپنی حیثیت سے وہ خوب جانتا ہے کہ اس بال کو روکنا چاہیے تھا یا مارنا ؟کبھی اس کا فیصلہ صحیح ہوتا اور کبھی غلط ۔کبھی مارنے والے بال پر وہ نہیں مار پاتا ہے اور کبھی نہ مارنے والے کو مارنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ باہر کے ناظرین کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ میچ فکس تھا اس لیے بالارادہ ایسا کھیل کھیلا گیا ۔ جب کہ سچائی یہ نہیں ہوتی ہے ۔ مولانا بھی میدان علم عمل کے لمبے عرصے تک انتہائی تیز و تند کھلاڑی رہے جس میں غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں؛ تاہم ہمیں مذہب اسلام کی نشر اشاعت کے حوالے سے ان کے چھیالیس سالہ طویل خدمات پر نظر رکھنی چاہیے ، اس حوالے سے بلاشبہ وہ ایک کامیاب مہتمم تھے کہ وہ حالات موافق ہوں یا ناموافق میدان عمل میں ڈٹے رہے باہر نہیں ہوئے ۔
بھلے ہی دنیاوی سفر میں مولانا صدیقی اور مولانا رحمانی دونوں ایک دوسرے کے رفیق رہے لیکن زندگی بخشنے والے خدا سے راقم یہ دعا گو تھا کہ جانے کے سفر میں رفاقت (یعنی موت) سے انھیں محفوظ رکھے کہ آج مورخہ 29 جولائی 2020 مطابق سات ذی الحجہ کو صبح تقریباً ساڑھے دس بجے (جب کہ یہ مضمون فائنل مرحلے میں تھا) یہ خبر ملی کہ مولانا رحمانی کی وفا شعار رفاقت اپنے رفیق کی جدائیگی کو ایک ہفتہ بھی برداشت نہ کرسکی اور پچھلے بدھ کو تو آپ گئے ، تو اس بدھ کو میں بھی آرہا ہوں کہہ کر مولانا رحمانی بھی اپنے رفیق سے جا ملے ، انتظام و انصرام کی دنیا میں مہتمم نائب مہتمم کے درمیان اس قدر طویل موافقت شاید ہی کہیں ملتی ہو، مولانا وصی احمد صدیقی پر زندگی میں مختلف حالات آئے ، اچھے حالات میں دوستی تو سبھی نبھاتے ہیں لیکن برے حالات میں اپنے رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، مولانا رحمانی چاہتے تو موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے ، ہو سکتا تھا کہ وہ مفاد پرستی میں کامیاب بھی ہو جاتے؛ لیکن مولانا سے وفاداری کا حق انھوں نے پورا نبھایا، وہ ہر موقع پر ان کے دست و بازو بنے رہے دونوں میں رنگوں کا تفاوت اس قدر کہ منطق کا طالب علم اسے تباین قرار دے اور فکروں کا توافق اتنا کہ تساوی بھی شرمندہ ہوجائے، ایک منصوبہ ساز تو دوسرا ہرلمحہ اس پر عمل پیرا، البتہ دونوں میں ایک فرق ضرور تھا مولانا صدیقی میں جذباتیت کا عنصر غالب تھا تو مولانا رحمانی سنجیدگی سے مغلوب تھے، مولانا رحمانی ان کی جذباتیت کو اپنی سنجیدگی یا دوسرے لفظوں میں اپنی موافقت کے شبنم سے ہمیشہ ٹھنڈا رکھتے، کسی بھی ادارے کے ذمہ دار اور معاونین کے درمیان ایسی سمع و طاعت اور وفاداری ہو تو اس ادارے کو ترقی و تابانی اور عزت و شہرت سے کوئی نہیں روک سکتا ، بےشک مولانا رحمانی نے وفاداری کے حوالے سے ایک مثال قائم کی ہے ، زندگی تو زندگی مرنے میں بھی اس قدر وفاداری فلموں اور افسانوں میں تو ملتی ہے، حقیقی دنیا نے ایسی عاشقی کا ہے کو دیکھی ہوگی۔ خدا وصی و مکیں دونوں کو جنت نشیں کرے ۔ آمین
رابطہ: 9525755126