اپنی شاعری سے حکمرانوں کو للکارنے والے راحت اندوری کی پوری کہانی

نئی دہلی: (ملت ٹائمز)
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والاتھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والا تھا
اس طرح کے ہزاروں اشعار کے خالق اور معروف شاعر راحت اندوری کا آج 11اگست کوشام پانچ بجے انتقال ہوگیا ۔ راحت اندوری کووڈ-19 میں مبتلا تھے اور انہوں نے منگل کے روز ہی اس کی اطلاع دی تھی۔ مشاعرہ لوٹ لینے کی صلاحیت رکھنے والے 70 سالہ شاعر راحت اندوری کا اندور کے اسپتال میں علاج چل رہا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دوران علاج انہیں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا اور اس کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔
اندور کے کلکٹر نے راحت اندوری کے انتقال کی تصدیق کی۔ ضلع مجسٹریٹ منیش سنگھ نے بتایا، ”کووڈ 19 کے انفیکشن میں مبتلا اندوری کا اربندو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سیمس) میں دوران علاج انتقال ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اندوری دل کے عارضہ، گردے کی تکلیل اور ذیابطیس جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے۔
ٹویٹر پر اپنے آخری ٹوئٹ میں راحت اندوری نے مداحوں کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے اور اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے دعائے صحت کی اپیل تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں ٹوئٹر پر ہی آگاہ کرتے رہیں گے تاہم اجل نے مہلت نہ دی۔
احت اندوری کے انتقال کی تصدیق ان کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی کر دی گئی ہے۔ ان کے ہینڈل سے کئے گئے ٹوئٹ میں لکھا گیا، ”راحت صاحب کا دورہ قلب کے پڑنے سے شام 5 بجے انتقال ہو گیا ہے… ان کی مغفرت کے لئے دعا کیجئے۔
راحت اندوری کی کی پیدائش یکم جنوری 1950 میں ہوئی تھی ۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اندور کے اسکولوں میں پرائمری تعلیم احاصل کی ۔ برکت اللہ یونیورسیٹی سے انہوں نے 1973 میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ اور 1975 میں انہوں نے اردو زبان وادب میں ہی اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ۔
راحت اندوری کو طالب علمی کے زمانے سے شعرو شاعری کا شوق تھا اور اسے شوق نے انہیں اردو کا عظیم اور انقلابی شاعر بنادیا ۔ راحت اندوری نے تقریبا 50 سالوں تک شاعری کی ۔ ہندوستان اکثر ضلع اور علاقہ میں وہ شاعری پڑھ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ امریکہ ۔ برطانیہ ۔ متحدہ عرب امارات ۔ قطر ۔ سعودی عرب سمیت دسیوں ملکوں میں انہیں بطور شاعر کا جانے کا متعدد مرتبہ موقع ملا۔
راحت اندوری نے متعدد فلموں کیلئے گانا بھی لکھا ۔ وہ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ ان کی مشہورکتا بیں ہیں ۔
رت ۔
دو قدر اور صحیح
میرے بعد
دھوپ بہت ہے ۔
راحت اندور ی کی وفات کے بعد سبھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد غم کا اظہار کررہے ہیں ۔اس موقع پر راحت اندوری کے دسیوں مختلف اشعار بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں ۔
آئیے آپ کو یہاں کچھ سناتے ہیں ۔
زمزم وکوثر وتسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا ۔
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
راحت اندوری کا یہ قطعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہے ۔
اس کے علاوہ یہ شعر بھی وائرل ہورہاہے ۔
یہ سانحہ تو کسی دن گزر نے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والاتھا
میں مرجاﺅں تو میری ایک پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پر ہندوستان لکھ دینا
ایک اور شعر ہے ان کا
افواہ تھی کہ میری طبعیت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا ۔
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمین دار کردیا ۔
راحت اندوری کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ وقت کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنے اشعار میں مخاطب کرتھے ۔ انہیں نشانہ بناتے تھے ۔ اور یہی ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔