ڈاکٹر کفیل خان ۔ جرم کوئی نہیں ۔ سزا سنگین

۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ سلینڈر کا انتظام کردینے سے تم ہیرو بن گئے ۔ دیکھتا ہوں اسے ۔۔۔۔
یوگی کے دورہ کے بعد اسی دن 13اگست کو ڈاکٹر کفیل کوہسپتال سے ہٹادیاگیا۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف فرضی نیوزچلائی گئی۔ٹوئٹر پر ان کے خلاف ٹرینڈ بھی چلا ۔ کئی ایک ٹی وی چینلوں نے بھی ڈاکٹر کفیل کے خلاف فرضی رپوٹ دیکھائی ۔ انہیں ہیرو سے زیرو بنادیا ۔ ایک ٹریٹر کے روپ میں ڈاکٹر کفیل کو پیش کیا
خبر در خبر (634)
شمس تبریز قاسمی
بھارت کی تصویر اتنی بدل گئی ہے کہ اب مسلمانوں کا اچھا کام بھی عوام اور سرکار کو پسند نہیں آتاہے ۔اگر کوئی مسلمان اپنی کوشش ، قربانی اور محنت کی وجہ سے ہیرو بنتاہے تو ایک طبقہ اسے مجرم بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتاہے ۔یہ افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ہندوستان کے سابق صدر جمہوریت ڈاکٹر اے پی جی عبد الکلام جنہوں ملک کو ایٹمی ہتھیار دیا ۔ انہیں اب ایک طبقہ غدار کہہ رہاہے اور الزام لگایا جارہاہے کہ انہوں نے پاکستان کو یہ تکینک بتائی تھی ۔ تازہ مثال ڈاکٹر کفیل احمد خان کی ہے ۔ اگست 2017 سے پہلے وہ ملک کے لاکھوں ڈاکٹروں میں سے ایک تھا ۔ ان کی کوئی خاص پہچان نہیں تھی ۔ کوئی نام اور چرچانہیں تھا لیکن 10اگست 2017 کو انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے سینکڑوں بچوں کی جان بچائی ۔ غریب عوام نے انہیں مسیحا کا ٹائٹل دے یا ۔ ماﺅں نے مہینوں نے ڈاکٹر کفیل کا شکریہ ادا کیا کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کے لال کی گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں جان بچی تھی ۔ میڈیا میں بھی ڈاکٹر کفیل خان کا خوب چرچا ہوا ۔ پہلی مرتبہ کسی ڈاکٹر کی کوشش کو میڈیا نے سہارا اور ان کے کاموں کی تعریف کی ۔ لیکن ڈاکٹر کفیل کی یہ تعریف اور عوام کیلئے مسیحا بننا اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو برداشت نہیں ہوسکا اور انہوں نے ایک فیصلہ کرلیا ۔اس فیصلہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کفیل ابھی تک جیل میں ہیں ۔ ان پر نیشنل سیکوریی ایکٹ لگایا جاچکا ہے ۔ یوپی حکومت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کا جیل سے باہر ٹھیک نہیں ہے ۔یہ ملکی سلامتی کیلے خطرہ ہے ۔
آئیے جانتے ہیں آج کے خبر در خبر میں یہ پورا معاملہ
اتر پردیش کے گورکھپور میں ایک ہسپتال ہے بی آر دی میڈیکل کالج ۔ یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اس لوک سبھا حلقہ سے لگاتار پانچ مرتبہ ایم پی رہ چکے ہیں ۔ 10 اگست کو گورکھپور کے بی آر دی میڈیکل کالج میں آکسیجن ختم ہوگیا۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تقریبا تئیس بچوں کی موت ہوگئی۔ ہسپتال کی انتظامیہ کو پتہ تھا کہ وہ ایمرجنسی سلینڈر یوز کرسکتے ہیں لیکن وہ صرف دو گھنٹہ چل سکتاہے۔ ڈاکٹر کفیل اس وقت آکسجین ڈپارٹمنٹ کے انچارج تھے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی مزید موت ہوگی اور ایک بڑی تباہی پھیل جائے گی ۔ ا س لئے انہوں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا اور بارہ آکسیجن سیلنڈر ہسپتال لیکر آئے اور اس کے ذریعہ بچوں کا علاج کیا۔ان کی اس کوشش کی وجہ سے ہسپتال کے نظام میں کچھ بہتری آئی او ر موت کا سلسلہ رک گیا۔ اگر ڈاکٹر کفیل باہر سے آکسجین نہیں لاتے تو بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہوجاتی۔
ڈاکٹر کفیل کے اس اقدم کی خوب تعریف ہوئی۔ میڈیا میں چرچا ہوا۔ لیکن یوپی حکومت کی بدنامی ہوئی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی خوب کرکری ہوئی ۔ وہ یہاں سے پانچ مرتبہ ایم پی بھی رہ چکے تھے اس لئے تنقید کی بوچھا ہوگئی ۔
13اگست کو یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور ہسپتال پہونچے وہاں انہوں نے ڈاکٹر کفیل سے بھی ملاقات کی۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے پوچھا ۔۔۔۔ تو تم ہو ڈاکٹر کفیل جس نے سلینڈر کا انتظام کیا ۔ میںنے کہا ۔ہاں سر !۔۔۔ اور وہ ناراض ہوگئے ۔ کہنے لگے ۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ سلینڈر کا انتظام کردینے سے تم ہیرو بن گئے ۔ دیکھتا ہوں اسے ۔۔۔۔
یوگی کے دورہ کے بعد اسی دن 13اگست کو ڈاکٹر کفیل کوہسپتال سے ہٹادیاگیا۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف فرضی نیوزچلائی گئی۔ٹوئٹر پر ان کے خلاف ٹرینڈ بھی چلا ۔ کئی ایک ٹی وی چینلوں نے بھی ڈاکٹر کفیل کے خلاف فرضی رپوٹ دیکھائی ۔ انہیں ہیرو سے زیرو بنادیا ۔ ایک ٹریٹر کے روپ میں ڈاکٹر کفیل کو پیش کیا ۔ اس دن ڈاکٹر کفیل کے علاوہ کچھ اور ڈاکٹروں کو بھی ہٹایاگیا ۔
15اگست کو گورکھپور میڈیکل کالج کے کچھ ڈاکٹر وں نے ڈاکٹر کفیل کی حمایت کی اور کہاکہ یوگی سرکار غلط کررہی ہے ۔ ڈاکٹر کفیل نے انعام کے حقدار ہیں لیکن انہیں بلی کا بکرا بنایا جارہاہے ۔ حکومت اس معاملے میں کو خود کو بچانے کیلئے کسی کو مجرم بنانا چاہتی تھی اور یہ ڈاکٹر کفیل کے ساتھ کیاگیا ۔23اگست 2017 کو ڈاکٹر کفیل کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی۔ دس دنوں بعد 2ستمبر 2017 کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کرلیاگیا ۔
نومبر 2017 میں پولس نے ان کے خلاف ایک چارج شیٹ ڈائرکی۔ 6مہینہ بعد 10 اپریل 2018 کوانڈین میڈیکل ایسوی ایشن نے ڈاکٹر کفیل خان کی حمایت کی اور ان کے ساتھ ہورہے مقدمہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ایسوسی ایشن نے کہاکہ ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے وہ بے قصور ہیں ۔
18اپریل 2018 کو ڈاکٹر کفیل خان نے دس پیج کا ایک لیٹر لکھا جس میں 10 اگست 2017 کے رات کا پورا واقعہ ذکر کیا اور بتایا کہ اس رات کیا ہواتھا۔ اسی لیٹر میں انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کا اس جملہ کا بھی تذکرہ کیا ۔۔تم کی سمجھتے ہو ۔۔۔۔سلینڈر کا انتظام کرنے سے ہیرو بن جاﺅگے ۔ میں دیکھتا ہوں اسے ۔۔۔۔
25اپریل 2018 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل کو بیل دے دیا۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف کسی طرح کسٹڈی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیکل میں ان کے خلاف کوئی ثبوت اور ایوڈینس نہیں ہے۔اور بالآخر 8ماہ بعد ڈاکٹر کفیل کو رہائی مل گئی ۔وہ جیل سے نکل کر اپنے گھر پہونچ گئے ۔ 11جون 2018 کو ڈاکٹر کفیل کے بھائی پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا۔ بائک پر سوار کچھ نامعلوم لوگوں نے فائرنگ کی۔ بہر حال اس حملہ میں بھائی کی جانب بچ گئی۔
جولائی 2018 میں ڈاکٹر کفیل کو ملازمت سے الگ ہوئے ایک سال ہوگئے۔ اس موقع پر میڈیا میں آکر انہوں نے کہاکہ ایک سال سے میرے پاس جاب نہیں ہے۔ مجھے معاشی تنگ کا سامنا ہے ۔
14اگست 2017 کو آر ٹی آئی ایکٹیویسٹ سنجے شرما نے ایک آر ٹی آئی داخل کیا تھا۔ ایک سال بعد اگست 2018 میںاس کا ریپلائی سامنے آیا۔ اس رپوٹ میں وہی بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر کفیل نے باہر سے آکسیجن سلینڈر ارینج کیا تھا۔ ہسپتال کا ختم ہوچکاتھا۔ اگر وہ باہر سے نہیں لاتے تو بڑی تعداد میں بچوں کی موت ہوتی۔مطلب یہ کہ ڈاکٹر کفیل نے ایک قابل فخر اور شاندار کام کیاتھا ۔ ان کی وجہ سے سینکڑوں ماں کو خوشی نصیب ہوئی تھی ۔ وہ اپنے بچوں سے محروم ہونے سے بچ گئی تھیں ۔
سچ سامنے آجانے کے باوجود یوگی حکومت خاموش نہیں بیٹھی ۔ ڈاکٹر کفیل کی بھی ایک نئی آزمائش اور پریشانی شروع ہوگئی ۔
ہوا یہ کہ 22ستمبر 2018 کو اتر پردیش کے بہرائچ میں کچھ بچوں کو مسٹری بخار آیا۔ ڈاکٹر کفیل نے وہاں پہونچ کر بچوں کا علاج کیا۔ میڈیا والے وہاں بڑی تعداد میں پہونچ گئے اور ڈاکٹر کفیل کی بائٹ لینے لگ گئے۔ ڈاکٹر کفیل نے جیسے میڈیا سے اڈریس کرنا چاہا یوپی پولس نے انہیں گرفتار کرلیا۔اس مرتبہ الزام لگایا دھوکہ دہی اور فریب کا ۔پولس نے وضاحت کی کہ 2009 میں انہوں نے فرضی ڈوکومینٹ دکھاکر ایک بینک اکاﺅ نٹ کھلوایاتھا اور دو کڑور روپیہ کا ٹرانزکشن دکھایاتھا۔ بہر حال اس معاملے میں جلدہی ڈاکٹر کفیل کوبیل مل گئی ۔
رہائی ملنے کے بعد ڈاکٹر کفیل نے سماجی سرگرمیاں شروع کردی ۔ کئی جگہوں پر انہوں نے فری میڈیکل کیمپ لگایا ۔ عمر خالد ۔ کنہیا کمار ۔ یوگیندر یادو ۔ پروفیسر اپروا نند جیسے سماجی کارکنان اور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ کے ساتھ متعدد اسٹیج شیئر یکا ۔
مارچ 2019 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی حکومت سے کہاکہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف جو مقدمہ چل رہاہے صرف تین ماہ میں اس کی انکوائری مکمل کی جائے۔ ستمبر 2019 کو میڈیا میں یہ خبر آئی کہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف جو الزامات تھے وہ سب فرضی تھے۔ایک انکوائری میں انہیں مکمل کلین چٹ مل گئی ہے۔اس نیوز کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اتر پردیش حکومت کا ردعمل سامنے آیا کہ اس چیز کو کلین چٹ نہیں کہاجاتاہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کو ابھی کلین چٹ نہیں ملی ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد 4اکتوبر 2019 کو اتر پردیش حکومت نے ڈاکٹر کفیل کے خلاف ایک نئی انکوائری شروع کردای۔ اس انکوائری کا سبب اور ریزن یہ بتایاگیا کہ ڈاکٹر کفیل خان نے انکوائری ٹیم کے ساتھ غلط معلومات شئر کی اور انکوائری ٹیم کو گمراہ کرنے کا کام کیا۔
ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف جس وقت یہ انکوائری شروع ہوئی ان دنوں ملک میں سے اے اے۔ این آرسی اور این پی آر کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ڈاکٹر کفیل خان نے بھی اس تحریک میں کھل کر حصہ لیا۔ اسی طرح کے ایک پروٹیسٹ میں شرکت کرنے وہ علی گڑھ گئے اور 13 دسمبر 2019 کو تقریر کرتے ہوئے کہا۔۔ موٹا بھائی سبھی کو ہندو یا مسلمان بننا سکھاتے ہیںوہ انسان بننا نہیں سکھاتے ہیں۔وہ آئین پر بھروسہ نہیں رکھتے ہیں۔ سی اے اے کے بعد مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے دیا جائے گا۔
اس تقریر کے بعد ان کے خلاف ایف آئی آ ر درج کر لی گئی اور 29 جنوری کو ایک مرتبہ پھر پولس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ دس دن تک جیل میں رہے۔10فروری کو علی گڑھ کی عدالت نے انہیں بیل دے دیا۔ لیکن بیل ملنے کے تین دن بعد تک بھی جیل سے ان کی رہائی نہیں ہوئی۔ تین دن بعد ان کے خلاف نیشنل سیکوریٹی ایکٹ لگادیاگیا۔کہاگیا کہ ان کا جیل میں رہنا ضروری ہے۔ باہر رہنے سے امن کو نقصان پہونچ سکتاہے۔
این ایس اے بہت خطرناک ایکٹ ہے اور یہ سرکار کو بہت زیادہ پاور دیتا ہے جبکہ جوڈیشری اس معاملے میں بے بس ہوجاتی ہے۔ این ایس اے کی مدت صرف تین ماہ ہے لیکن بارہ ماہ تک اس کو بڑھایا جاسکتاہے۔ 1980 میں سابق وزیر اعظم اندر ا گاندھی نے یہ ایکٹ پا س کیا تھا ۔
کروناوائرس کی خبر آنے کے بعد  19مارچ2020 کو ڈاکٹر کفیل خان نے پی ایم مودی کے نام ایک خط لکھ کر یہ درخواست کی مجھے جیل سے باہر نکالا جائے ۔ کووڈ 19 کے کرائسز میں میں علاج کرنا چاہتاہوں اور ملک کو اپنی خدمات دینے کا جذبہ رکھتاہوں ۔
30 مئی 2020 کو این ایس اے کی تین ماہ کی مدت پوری ہوگئی لیکن یوگی حکومت نے دوبارہ مدت میں اضافہ کردیا۔ 30جولائی کو انہوں نے جیل سے ایک خط لکھا جس میں بتایاکہ جیل کی حالت بہت زیادہ خستہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ 150 آدمی استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہے ۔حال ہی میں 10اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جس کی مدت اب 19اگست ہے ۔ اسی دوران ڈاکٹر کفیل کی والدہ اور اہلیہ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے مداخلت کی ریکویسٹ یک تھی ۔ 11اگست کو سپریم کورٹ میں اس عرضی سنوائی بھی ہوئی۔سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کو سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے کہاکہ پندرہ دنوں میں اس مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے ۔یوپی حکومت نے ایک مرتبہ پھر این ایس اے کی مدت میں اضافہ کردیا ہے ۔ یوگی حکومت کا کہناہےکہ ڈاکٹر کفیل ملک کیلئے سنگین خطرہ ہیں ۔ ان کا جیل میں ہی رہنا صحیح ہے ۔
یہ تھی پوری کہانی ڈاکٹر کفیل کی ۔ بی جے پی حکومت اور یوگی آدتیہ ناتھ 10 اگست 2017 کے بعد ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے انہیں جیل میں رکھنے کیلئے ہر طریقے اپنارہی ہے ۔ تین سالوں میں اب تک 484 دن جیل میں ڈاکٹر کفیل خان گزار چکے ہیں ۔ 38 سال ان کی عمر ہوچکی ہے ۔ تقریبا ایک سال تک وہ بالکل خاموش تھے ۔ ان کی فیملی بھی چپ تھی ۔ جیل سے دس پیج کا لیٹر لکھنے کے بعد ڈاکٹر کفیل نے اپنے خلاف ہونے والے مظالم کے بارے میں بولنا شروع کیا۔ اسی کے بعد ان کی وائف ڈاکٹر شبستاں خان ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر سرگرم ہوئی ۔ اپنے شوہر کی رہائی کیلئے مدد کی اپیل کرتی ہیں ۔ ان کی والد ہ نکہت پروین بھی سرگرم ہیں اور بیٹے کی رہائی کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رکھاہے ۔
ڈاکٹر کفیل کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے وہ سراسر ناانصافی ہے ۔ اس نا انصافی کے خلاف اب تک بڑے پیمانے پر اور مضبوطی کے ساتھ آو از نہیں اٹھی ہے ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE