خبر در خبر (635)
شمس تبریزقاسمی
طلاق کے ایشو پر ایک مرتبہ پھر پورے ملک کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ معاملے دوبار ہ پہلے سے زیادہ چرچا اور بحث کا موضوع بننے جارہاہے ۔اس مرتبہ بھی نشانے پر مسلمان ۔ مسلم پرسنل لاءاور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ہے اور یہ پہلے سے کئی گنازیادہ سنگین نظر آرہاہے ۔ ایسا لگ رہاہے کہ اب بی جے پی نے پوری پلاننگ کے ساتھ مسلم پرسنل لاءکو بین کرکے کامن سول کوڈ نافذ کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے ۔آئیے پہلے جانتے ہیں کیا ہے پورا معاملہ ۔
بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے 16اگست کو سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کیا ۔ اس پی آئی ایل میں انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ دیش میں طلاق کے الگ الگ طریقوں کو ختم کرکے ایک کیا جائے ۔دیش کے سبھی شہری خواہ ہندوہوں ، مسلمان ہوں ، عیسائی ہوں ،پارسی ہوں ، سکھ ہوں ، بڈھسٹ ہوں سبھی ایک ہی طرح سے طلاق دیں ۔مطلب یہ کے شادی اور طلاق کے معاملے میں مسلم پرسنل لاءیا عیسائی پرسنل لاءکو بین کردیا جائے ۔ ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میرج ایکٹ سب کو ختم کردیا جائے اور ایک ایسا قانون بنایا جائے جو سب کیلئے برابر ہو ۔
اشونی کمار اپادھیائے نے مفاد عامہ والی عرضی میں کہاہے کہ سپریم کورٹ مرکزی حکومت کو یہ ہدایت دے کہ طلاق کے الگ طریقوں کو بین کرکے سبھی ذات ،دھرم اور قبائل کے لوگوں کیلئے طلاق کا صرف ایک طریقہ جاری کرے ۔ کورٹ یہ بھی واضح کردے کہ بھارت میں طلاق دینے کا الگ الگ طریقہ آئین کے آرٹیکل 14/15 اور 21 کی خلاف ورزی ہے ۔ اس کا وائلیشن ہے اور سبھی کیلئے یکساں طلاق کی گائیڈ لائن جاری کرے ۔ اس کے علاوہ کورٹ لاءکمیشن کو یہ ہدایت جاری کرے کہ وہ طلاق کے قانون کا جائزہ لے اور آئین کے آرٹیکل 14/15 اور 21 کی روشنی میں سبھی شہریوں کیلئے یکساں طلاق کا ڈرافٹ تیا کرے اور یہ کام لاءکمیشن صرف تین مہینے میں انجام دے ۔ اس ڈرافٹ میں انٹرنیشنل قانون کا بھی لحاظ رکھا جائے ۔
بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں نکاح اور طلاق کا طریقہ سبھی دھرم اور مذہب کے لوگوں کا الگ الگ ہے ۔ ہندو ، بڈھسٹ ، سکھ اور جین ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت طلاق کی درخواست کرتے ہیں ۔ مسلمان ، عیسائی اور پارسی کا اپنا پرسنل لاءہے جس کے مطابق وہ طلاق دیتے ہیں۔ کورٹ میں بھی مسلم پرسنل لاءکے مطابق ہی طلاق کی درخواست دائر کی جاتی ہے ۔مختلف دھرم سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی مطلب یہ کہ بیوی اگر مسلمان ہے اور شوہر ہندو ہے ۔ یا شوہر ہندو ہے اور بیوی مسلما ن ہے یا عیسائی تو تو وہ اسپیشل میرج ایکٹ 1956 کے تحت طلاق کی درخواست دائر کرتے ہیں ۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک غیر ملکی ہے ۔ ہندوستانی شہر ی نہیں ہے تو اس کے طلاق کا طریقہ بھی الگ ہے ۔ ایسے میاں بیوی فورین میرج ایکٹ 1969 کے تحت طلاق کی درخواست دائر کرتے ہیں ۔ اشونی کمار اپادھیائے نے اپنی پی آئی ایل میں کہاہے کہ طلاق کا یہ بھی طریقہ ہندوستانی مزاج ، آئین ہند اور مذہبی فطرت کے خلاف ہے۔ طلاق کا طریقہ سبھی کیلئے ایک ہونا چاہیے ۔
یہ تھی پوری خبر جو آگے چل کر بھارت میں ایک بہت بڑا مسئلہ بننے جارہاہے۔ 2016 2017 اور 2018 میں طلاق کا مسئلہ بھارت میں لگاتار موضوع بحث بنا ہواتھا ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے اشارے پر پانچ مسلم عورتوں نے سپریم کورٹ میں تین طلاق کے خلاف عرضی دائر کی تھی ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ بھی اس میں ایک اہم فریق تھا لیکن 22اگست 2017 کو سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا ۔ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کالعدم قراردے دیا ۔ یہ فیصلہ مسلم پرسنل لاءاور شریعت کے خلاف تھا ۔لیکن اس فیصلے میں صرف تین طلاق پر کورٹ نے بین لگایاتھا ۔ طلاق حسن اور طلاق بائن پرکوئی بین نہیں تھی ۔ اس کو آسان زبان میں آپ اسطرح سمجھیں کہ اگست 2017 میں سپریم کورٹ نے طلاق پر جو فیصلہ سنایاتھا اس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو کالعدم قراردیاگیاتھااور کہاتھا کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتاہے تو وہ ایک بھی طلاق نہیں ہوگی ۔ لیکن اگر کوئی ایک طلاق دیتاہے ۔یا تین الگ الگ مدت میں تین طلاق دیتاہے تو وہ طلاق ویلڈ اور معتبر ہوگی اور بیوی کو طلاق ہوجائے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ کا تین طلاق کو کالعدم قرار دینا اسلام کے خلاف تھا ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے 2019 کے آغاز میں کئی مرتبہ کی کوششوں کے بعد ایک قانون بھی پاس کردیا جس میں ایک ساتھ تین طلاق دینا کریمنل ایکٹ ماناگیاہے ۔ اس کے علاوہ تین طلاق دینے والوں کیلئے تین سال جیل کی سزا ہے اور طلاق بھی نہیں ہوگی ۔ لیکن ابھی سپریم کورٹ میں جو پی آئی ایل داخل کی گئی ہے اس میں طلاق کے سبھی اسلامی طریقہ اور اسلامی نظام کو ختم کرنے مطالبہ کیاگیا ہے ۔ یہ اپیل کی گئی ہے کہ ایک قانون بنایا جائے جس کے مطابق سبھی ایک ہی طریقہ سے طلاق دیں ۔ الگ الگ نہ ہو ۔ یہ پی آئی یونیفارم سول کوڈ کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے ۔ اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہ ہے کہ اب مسلمانوں کو ان کی شریعت پر عمل کرنے سے روکا جائے گا ۔ مسلمانوں کو اپنے پرسنل لاءپر عمل نہیں کرنے دیا جائے گا اور یہ مسلمانوں کیلئے اب تک کا سب سے بڑا جھٹکا ہوگا ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی بھی ایک نئی آزمائش یہاں شروع ہوجائے گی ۔ بورڈ کی بنیاد ہی اسی لئے پڑی تھی کہ وہ عائلی مسائل کی حفاظت کریں اور مسلم پرسنل لاءکے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔ بی جے پی لیڈر اشونی کمار نے یہ پی آئی ایل داخل کرے ڈائریکٹ پرسنل لاءکو ہی ختم کرنے کی مانگ کردی ہے ۔
تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ ا ور اس کے بعد پارلیمنٹ سے پاس ہوئے قانون کو ابھی تک مسلما ن فراموش نہیں کرسکے ہیں ۔ اس بیچ سرے سے طلاق کے مکمل اسلامی نظام کو ہی ختم کرنے مطالبہ اب سپریم کورٹ پہونچ گیا ہے ۔ یہ معاملہ اس لئے بھی سنگین ہے کہ مسلمانوں کیلئے عائلی قوانین میں شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ یہ ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے ۔ دیگر مذاہب اور دھرم والوں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ اسلامی نظام کے مطابق اگر کوئی مسلمان شادی نہیں کرتاہے یا غیر اسلامی طریقہ سے طلاق دیتاہے وہ معتبر نہیں ہوگااور ایک مسلمان کیلئے یہ عمل سراسر حرام ہے ۔ جبکہ دوسرے مذہب والوں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ جیسے ہندو دھرم کے لوگ 1955 کے میرج ایکٹ مطابق طلاق کا معاملہ حل کرتے ہیں ۔اسی طرح عیسائیوں کے یہاں بھی نکاح اورطلاق کو شریعت کا لازمی حصہ نہیں سمجھا جاتاہے ۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ سب سے الگ ہے ۔ یہاں عائلی قوانین یعنی نکاح اور طلاق بھی شریعت اور مذہب کا حصہ ہے ۔اسے اسی طرح انجام دینا ہوگا جس طرح شریعت نے حکم دیاہے ۔
( مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )