یہ مقدمہ جمہوریت اور سیکولرزم کی جنگ لڑنے والوں کے خلاف ہے صرف پرشانت بھوشن کے نہیں !

خبر در خبر (636)
شمس تبریز قاسمی
مشہور وکیل اور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ پرشانت بھوشن کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا مجرم قرار دے رکھاہے ۔ آج 20اگست کو انہیں سزاسنا یا جاناتھا لیکن یہ نہیں ہوا ۔ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے سزا پر سنوائی ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے ۔ فی الحال سپریم کورٹ نے مشہور وکیل پرشانت بھوشن کو اپنا بیان تبدیل کرنے کے لئے 2-3 دن کا وقت دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ پرشانت بھوشن اپنے بیان پر پہلے معافی طلب کریں ۔ اور اپنے بیان کے بارے میں از سر نو غور کریں ۔
پرشانت بھوشن بھارت کے مانے جانے اور چند مشہور وکیلوں میں سے ایک ہیں ۔وہ مشہور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ اور سماجی کارکن ہیں ۔ بھارت کی جمہوریت اور سیکولرزم کو باقی رکھنے کیلئے جو لوگ فرقہ پرست۔ شدت پسندہندو اور آر ایس ایس جیسی تنظیم سے لڑائی لڑرہے ہیں ان میں پرشانت بھوشن بہت نمایاں اور قابل ذکر ہیں ۔ دسیو ں معاملے میں وہ مفاد عامہ کی عرضی داخل کرچکے ہیں ۔ رافیل گھوٹالہ کا معاملہ بھی انہوں نے ہی اٹھایا تھا ۔ پرشانت بھوشن سپریم کورٹ اور ججز کے ان رویوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں جو جمہوری اقدار کے خلاف ہوتے ہیں ۔اسی طر ح کا ایک ٹوئٹ پرشانت بھوشن نے 27جون کو کیاتھا کہ ۔
”مستقبل میں مورخین جب گذشتہ چھ سالوں کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح بھارت میں ڈیموکریسی بغیر ایمرجنسی کے تباہ کی گئی تو وہ خاص طورپر ڈیموکریسی کی تباہی میں سپریم کورٹ کے کردار کا تذکرہ کریں گے اور اس سے بھی زیادہ گذشتہ چارچیف جسٹس آف انڈیا کا ۔“
یہ چارچیف جسٹس آف انڈیا جس کی طرف پرشانت بھوشن نے اشارہ کیا ہے وہ ہیں ۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر ۔ جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر یہ وہی ہیں جنہوں نے تین طلاق پر فیصلہ سنایاتھا ۔جسٹس دیپک مشرا یہ وہی ہیں جن کے خلاف کانگریس نے عدم اعتماد کی تحریک چلائی تھی اور جسٹس رنجن گگوئی جنہوں نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایا اور فور ا بعد راجیہ سبھا کے ایم پی بنا دیئے گئے ۔
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کے اس ٹوئٹ کی شدید تنقید ہوئی ۔ مطالبہ کیاگیا کہ وہ اسے ڈیلیٹ کردیں۔ پرشانت بھوشن نے کہاکہ ہم نے کچھ غلط نہیں لکھاہے ۔ اس لئے وہ ڈیلیٹ نہیں ہوگا ۔ کچھ دنوں بعد ٹوئٹر نے خود سے وہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیا ۔ معاملہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ سپریم کورٹ پہونچ گیا ۔ بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن کی ٹویٹس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے توہینِ عدالت کا مقدمہ شروع کردیا ۔
عدالت نے کہا ۔پہلی نظر میں، ہماری رائے یہ ہے کہ ٹویٹر پر ان بیانات سے عدلیہ اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے جو عوام کے ذہن میں سپریم کورٹ اور خاص طور پر انڈیا کے چیف جسٹس کے دفتر کے لیے ہے۔ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘جمہوریت کی تباہی والے بیان پر پرشانت بھوشن نے وضاحت کی کہ ’اس طرح کے نظریات کا اظہار ناپسندیدہ اور تلخ ہوسکتا ہے، لیکن اسے توہین عدالت نہیں کہا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے کہا اظہار رائے کی آزادی اور حقارت کے درمیان ایک پتلی لکیر ہے۔ ہم اظہار رائے کی آزادی کے حقوق اور جج کے وقار کے تحفظ کے لیے ایک ادارے کی حیثیت سے توازن قائم کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ ان پر بدعنوانی کا الزام مالی بدعنوانی کے بارے میں نہیں تھا بلکہ مناسب طرز عمل کے بارے میں۔اگر میرے بیان سے ججوں اور ان کے اہل خانہ کو تکلیف ہوئی ہے تو انھیں اس بیان پر افسوس ہے۔
پرشانت بھوشن پر حالیہ ٹوئٹ کے علاوہ توہین عدالت کا ایک اور کیس ہے اور یہ معاملہ تقریبا 11 سال پراناہے ۔
پرشانت بھوشن نے 2009 میں ’تہلکہ‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ بھارت میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہنے والے آخری 16 ججز میں سے نصف کرپٹ ہیں۔اس معاملے میں تین رکنی بینچ نے 10 نومبر 2010 کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس مہینے کی 10 تاریخ کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ’ججوں کو بدعنوان کہنا توہین ہے یا نہیں، اس کو سننے کی ضرورت ہے۔‘ پچھلے 10 سالوں میں یہ کیس 17 بار سنا گیا لیکن یہ ملتوی ہوگیا اور کوئی بھی فیصلہ نہیں آیا ۔
حالیہ معاملہ پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنا یا اور جسٹس ارون مشرا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیاگیا ۔سپریم کورٹ میں اس بات پر بحث ہوئی کہ پرشانت بھوشن کا کمنٹ عدالت کی تو ہین ہے یا نہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین نے بھی اس پر تبصرہ کیا ۔14اگست کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا کہ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن توہین عدالت کے مجرم ہیں ۔ اسی دن ججز نے یہ بھی کہاکہ 20 اگست کو سزا کا فیصلہ سنایاجائے گا
ماہر قانون فیضان مصطفی کا مانناہے کہ توہین عدالت سے زیادہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور دنیا کے زیادہ تر سیکولر ممالک میں اسی پرعمل ہورہاہے ۔
ہماچل پردیش نیشنل لا یونیورسٹی کے پروفیسر چنچل کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ ’آئین ہند کے آرٹیکل 129 اور 215 میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو ’کورٹ آف ریکارڈ‘ کا درجہ دیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان کی توہین پر سزا دی گئی ہے۔
’کورٹ آف ریکارڈ کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے احکامات پر تب تک عمل درآمد کیا جائے گا جب تک وہ احکامات قانون یا کسی دوسرے فیصلے سے مسترد نہیں ہوجاتے۔‘1971 کے پہلے ترمیمی ایکٹ میں پہلی ترمیم 2006 میں کی گئی تھی۔اس ترمیم میں دو نکات شامل کردیئے گئے تھے تاکہ جب توہین کے معاملے کی پیروی کی جارہی ہو تو ’سچائی‘ اور ’طے شدہ اصولوں‘ کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔
اس قانون میں دو طرح کے مقدمات ہیں – فوجداری اور سول۔ ’سول معاملات‘ میں وہ معاملات شامل ہیں جن میں عدالت کے کسی حکم، فیصلے یا ہدایت کی خلاف ورزی واضح طور پر نظر آتی ہے، جبکہ ‘فوجداری تنازعات‘ کے معاملات وہ ہیں جس میں ‘عدالت کو بدنام کرنے’ کا معاملہ درپیش ہو۔ پرشانت بھوشن کو جس مقدمہ کا سامناہے وہ ’فوجداری بدنامی‘کا ہے ۔پروفیسر چنچل کمار سنگھ کا کہناہے کہ آئین میں ایسا نظام موجود ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو ’عصرِ حاضر کی عدالت‘ کے لامحدود اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور اظہار رائے کی آزادی ثانوی ہوجاتی ہے۔
آج 20اگست 2020 کو سپریم کورٹ میں سزا پر بحث ہوئی ۔ جسٹس ارون مشرا نے کہا اس زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو غلطیاں نہ کر سکے۔ آپ سو نیکیاں کرسکتے ہیں ، لیکن وہ آپ کو 10 جرائم کا ارتکاب نہیں کرنے دیتے۔ جو ہوا وہ ہوا ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں اس شخص کو اس کے بارے میں کچھ افسوس ہونا چاہئے۔۔
پرشانت بھوشن نے کہا کہ ان کے بیان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اور یہ عدالتی وقت ضائع ہوگا۔اگر عدالت چاہے تو میں اس پر غور کرسکتا ہوں ، لیکن میرے بیان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر جسٹس مشرا نے کہا ، “بہتر ہے کہ آپ دوبارہ غور کریں ……… اور صرف قانونی ذہن کو یہاں استعمال نہ کریں۔”
جمعرات کو سپریم کورٹ میں ہونے والی بحث کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب سب حیران رہ گئے۔مودی حکومت کے سب سے بڑے وکیل ، اٹارنی جنرل ، کے کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ سے پرشانت بھوشن کو سزا نہ دینے کی اپیل کی۔وینوگوپال نے کہا کہ پرشانت بھوشن کو پہلے ہی سزا سنائی جاچکی ہے ، لہذا انہیں سزا نہیں دی جانی چاہئے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے پاس سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی فہرست ہے ، جو کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جمہوریت کو ناکام بنایا ہے۔ وینوگوپال نے مزید کہا کہ سابق ججوں کے بیانات کا ان کے پاس ایک اقتباس ہے ، جس میں ان کا کہنا ہے کہ اعلی عدالتوں میں بہت زیادہ بدعنوانی ہے۔
لیکن جسٹس ارون مشرا نے انہیں درمیان میں ہی روک دیا اور کہا کہ عدالت میرٹ کی سماعت نہیں کررہی ہے۔ پرشانت بھوشن کا بیان اور ان کا لہجہ عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہونچارہاہے ۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ جب تک پرشانت بھوشن اپنے ٹویٹ پر معذرت کرکے اپنے پہلے موقف پر نظر ثانی نہیں کرتے ہیں اس وقت تک عدالت ان کی اپیل قبول نہیں کرسکتی ہے۔
پرشانت بھوشن نے بدھ کے روز اس معاملے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور سزا پر سماعت ملتوی کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ “وہ نظرثانی درخواست دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب تک نظرثانی کی درخواست پر غور نہیں کیا جاتا ، سزا پر بحث کی تاریخ ملتوی کردی جانی چاہئے”۔
جسٹس ارون مشرا نے پرشانت بھوشن کے وکیل ڈشینت ڈیو کو بتایا کہ عدالت انھیں یقین دلاتی ہے کہ جب تک وہ درخواست داخل نہیں کریں گے تب تک انہیں کوئی سزا نہیں ملے گی۔’دشیانت ڈیو نے عدالت کو بتایا کہ ‘ہمیں تیس دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق ہے۔استغاثہ اور سزا دو الگ الگ معاملات ہیں۔ میری اپیل عدالتی کاروائی کے تحت بالکل ٹھیک ہے اور سزا کو موخر کیا جاسکتا ہے۔ سزا موخر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔”
لیکن سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کی سزا پر سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت نے کہا کہ جج کا فیصلہ بغیر سزا سنائے مکمل نہیں ہوسکتا۔ ابھی صرف قصور وار ٹھہرا یاگیاہے ۔ سزا سنانا باقی ہے ۔فی الحال ہم دو تین دن کا وقت دے رہے ہیں۔ پلیز آپ اپنے تبصرے کے بارے میں دوبارہ سوچیں۔ ہم ابھی سزا کا فیصلہ نہیں سنا رہے ہیں ۔اس دوران ، پرشانت بھوشن نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اپنی دلیل دی۔ انہوں نے کہا ۔۔
تکلیف اس بات کی ہے کہ مجھے اس عدالت کی توہین کا قصوروار ٹھہرایایا گیا جس کی عظمت کی تعریف میں نے ایک درباری یا واہ وہی لوٹنے کے طور پر نہیں کی بلکہ 30 برسوں سے ایک سرپرست کے طور پر بنائے رکھنے کی کوشش کی۔“
”میں صدمہ میں ہوں اور اس بات سے مایوس ہوں کہ عدالت اس معاملہ میں میرے ارادوں کا کوئی ثبوت پیش کیے بغیر نتیجہ پر پہنچ گئی۔ عدالت نے مجھے شکایت کی کاپی تک فراہم نہیں کی۔ میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ عدالت نے پایا کہ میرے ٹوئٹ نے ادارے کی بنیاد کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔“
پرشانت بھوشن نے کہا کہ ”جمہوریت میں کھلے طور پر تنقید ضروری ہے۔ ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب آئینی اقدار کو بچا کر رکھنا ذاتی سکون سے زیادہ اہم ہونا چاہیے۔ بولنے میں ناکام ہونا فرائض کی توہین ہوگی۔ یہ میرے لئے بہت ہی برا ہوگا کہ میں اپنے حقیقت پر مبنی تبصرے کے لئے معافی مانگتا رہوں۔“ پرشانت بھوشن نے مہاتما گاندھی کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”میں رحم کی درخواست نہیں کرتا۔ حقیقت پر مبنی میرے بیان کے لئے کورٹ کی طرف سے جو سزا ملے گی، وہ مجھے منظور ہے۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صحت مند جمہوریت کے لئے تنقید بہت ضروری ہے۔
“میرے ٹویٹس ، جو توہین عدالت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں ، وہ میرا فرض ہیں ، اور کچھ نہیں۔ انہیں اداروں کی بہتری کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ میں نے جو لکھا وہ میری ذاتی رائے ہے۔ ، میں یقین کرتا ہوں اور سوچتا ہوں ، اور مجھے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ “مہاتما گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے بھوشن نے کہا ، “مجھے نہ تو رحم چاہئے اور نہ ہی میں اس کا مطالبہ کررہا ہوں۔ میں سخاوت کی بھی طلب نہیں کررہا ہوں۔ عدالت جو بھی سزا دے گی ، میں اسے خوشی سے قبول کرنے کو تیار ہوں۔
جسٹس مشرا 2 ستمبر 2020 کو ریٹائر ہورہے ہیں یعنی ان کے پاس صرف 12 دن بچے ہیں۔ اس لئے یقینی طور پر اسی 12 دن کے اندر وہ سزا سنانا چاہتے ہیں ۔
سزا کیا ہوسکتی ہے ۔ ا س بارے میں قانون کے ماہرین اپنی الگ الگ رائے دے رہے ہیں ۔کہاجارہاہے کہ پرشانت بھوشن کو توہینِ عدالت کے ایکٹ 1971 کے تحت یا اس کے بغیر چھ ماہ تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔اس قانون کے مطابق اگر ملزم معافی مانگنا چاہتا ہے تو عدالت اسے معاف بھی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہوگا ہم اور آپ ا نتظار کریں کہ کیوں یہ ایک نظیر اور مثال بن گیا ہے ۔سپریم کورٹ اورججز پر تبصرہ جرم تسلیم کیا جاچکاہے ۔اب یہ معاملہ صرف ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کا نہیں رہ گیاہے بلکہ ہر ایک اس شخص کا معاملہ اور مقدمہ بن گیاہے جو جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کی جنگ لڑرہاہے ۔ جو ظلم کے خلاف بولتاہے ۔ جس میں اظہار رائے کی جرات اور حق بولنے کی ہمت ہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )