فوزیہ ربابؔ
راحت اندوری بھی سدا کے لیے روٹھ چلے۔وہ شاعر جس نے چالیس پینتالیس برسوں تک حرف و صوت پر حکمرانی کی۔ جس نے تمام رنگوں، رسوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کو پُر شکوہ شعری پیکر عطا کیا۔ جس نے ایوانِ مشاعرہ کے بہت سے مسلّمات کو رد کیا اور اپنی شرطوں پر عوامی سماعتوں کو ایک نیا ذوق بخشا۔ اب وہ چل بسا۔لیکن اس کی آواز قیامت تک گونجتی رہے گی۔
میں جب نگاہ اٹھا کر گزشتہ چند دہائیوں کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے راحت اندوری جیسا مزاحمت اور احتجاج کا توانا مردِ آہن نظر نہیں آتا ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ راحت اندوری یک سُرے اور یک رنگے شاعر نہیں ہیں۔ ان کا کلام زندگی کی طرح ہمہ رنگ ہے۔ ان کی آواز اور ان کے لفظ میں کہیں لطیف و نازک خیال و احساس کی آمیزش ہے، کہیں رومانی جذبات کی خوشبو، کہیں خارا شگافی کا عزم ہے، کہیں زندگی اور موت کا تصادم ، کہیں ندرتِ تخیل کی زرگری ہے، کہیں سفاک عہد کے وحشت خیز مناظر ، کہیں رندی و سرمستی کی پرکیف وادیاں ہیں تو کہیں فقر و درویشی کی بے نیازیاں ۔
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا:
میرے لیے راحت اندوری دراصل زندگی کی شکست خوردہ، مضمحل اور مایوس گھڑیوں میں حوصلوں اور امنگوں کا نام ہے۔ وہ حرکت و عمل کا پیامی ہے۔ سفر اس کی نظر میں حیات وکائنات کی فطرت ہے۔ ڈر، خوف اور تذبذب سے ان کی طبیعت بیزار ہے۔ وہ روایت شکنی کے بغیر ترقی کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ وہ کامرانی کے لیے وافر اسباب و وسائل کے بجائے سچے جنون کے مبلغ ہیں۔ وہ زندگی کی رزم گاہ میں معرکہ آرائیوں کو محبوب رکھتے ہیں۔ خطر پسندی ان کی سرشت ہے:
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے
جگنوو¿ں کو ساتھ لے کر رات روشن کیجیے
راستہ سورج کا دیکھا تو سحر ہوجائے گی
محبت کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
یہ پل صراط اگر ہے تو چل کے دیکھوں گا
اجالے بانٹنے والوں پہ کیا گزرتی ہے
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا
مجھے طوفانِ حوادث سے ڈرانے والو
حادثوں نے تو مرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے
سچ پوچھیے تو جدیدیت کے نام پر کچھ فیشن پرست فن کاروں نے شعر و ادب کو زندگی اور انسان سے کاٹ دیا تھا۔ ان کے لیے تخلیقی عمل لکھنو¿ امام باڑے کی بھول بُھلیّاں ہوگیا تھا۔ادب ایک عجیب پہیلی پن، مریضانہ نفسیات، قنوطی رویہ اور منفی تصورات کا پیش خیمہ بن گیا تھا، لیکن راحت اندوری نے اس حصار کو توڑ کر اپنا تخلیقی رشتہ ترقی پسندوں سے استوار کیا۔ گرچہ وہ نظریاتی سطح پر ترقی پسند نہیں تھے، لیکن ان کا حیات آفریں شعری آہنگ انھیں ترقی پسندوں سے ہم رشتہ کردیتا ہے۔
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے:
راحت اندوری نہ زندگی سے خوف زدہ ہیں، نہ موت سے خائف۔وہ ان دونوں کے تصادم کا تخلیقی شعور رکھتے ہیں اور گزرتے لمحات کو زندگی سے موت کی طرف سفر سے تعبیر کرتے ہیں۔
انھیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ جسم عارضی اور فانی ہے، جب کہ روح ابدی اور لازوال۔ ہر حساس فن کار کی طرح وہ بھی زندگی کے احسان آمیز قرض کو اپنی غیرت و خودداری کے خلاف سمجھتے ہیں:
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری کرو
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
راحت اندوری کا شعری خمیر بڑی حد تک مذہبی اقدار سے اٹھا ہے۔ وہ اس زندگی کی ناپائیداری کو تسلیم کرتے ہوئے اخروی بہتری کے تمنائی ہیں۔
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو:
میں نے پہلے لکھا ہے کہ راحت اندوری کو ترقی پسندی سے طبعی مناسبت ہے۔ لیکن اس سے یہ غط فہمی نہ پیدا ہوجائے کہ راحت اندوری اکہرے اور سپاٹ قسم کے شاعر ہیں، ان کے یہاں جدت و ندرت نہیں ہے اور وہ بس کھلی ڈلی راست بیان بازی کرتے ہیں۔
راحت اندوری اس عام مفہوم میں ترقی پسند رویہ نہیں رکھتے بلکہ ان کی لفظیات، استعاراتی کائنات اور تخیل و ادراک کی تازہ کاری انھیں جدیدیت سے ہم آہنگ کردیتی ہے۔ اس ضمن میں یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمھیں قیمت لگانی چاہیے
سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آگئے
کیوں یہ سیلاب سا ہے آنکھوں میں
مسکرائے تھے ہم، خیال آیا
زخم کا نام پھول کیسے پڑا
تیرے دستِ ہنر سے پوچھتے ہیں
” خواب “ جدیدیت کا ایک محبوب محوری عنصر ہے۔لیکن ” خواب “ جدیدیوں کے یہاں ایک وحشت، آشوب، شکستِ ذات اور عصری سفاکی سے وابستہ سنگین مسئلہ ہے۔ جب کہ راحت اندوری کے لیے ” خواب “ دراصل اعتبارِ ذات سے منسلک ہے۔ لہٰذا اس کو معیاری ہونا چاہیے۔شیشہ اور پتھر کے مابین جو تصادمی تعلق ہے اور اس مرکزی تصور کے انسلاکات جس طرح ہماری شعری روایت میں تواتر کے ساتھ برتے گئے ہیں۔ راحت اندوری کا مذکورہ شعر اس روایت کے گہرے شعور سے ظہور پذیر ہوا ہے۔کوچۂ محبوب میں عاشق کی رسوائی اور پتھروں سے اس کی تواضع کا مضمون بھی قدیم ہے۔ ذرا ناصر کاظمی کا وہ مشہور شعر یاد کیجیے:
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
راحت اندوری نے اسی روایتی مضمون میں ایک سیاسی حسیت جگا دی ہے۔ بازارِ مصر میں زلیخا نے یوسف کو خریدا، اس پرانی تلمیح سے شاعر نے کس طرح ایک نیا زاویہ پیدا کرلیا اور خودداری اور جذبۂ عشق کے درمیان جدلیاتی رشتے کو کس طرح شعری زبان عطا کردی ہے، یہ راحت اندوری کا کمال ہے۔اسی طرح منقولہ دیگر اشعار کی جدت طرازیاں بھی مسلّم ہیں۔
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب:
عام طور پر راحت اندوری کو گھن گرج اور جاہ وجلال کا شاعر سمجھا جاتا ہے۔بلکہ ان کی شبیہ ایک ”رومان مخالف کردار “ کی ہے۔ لیکن ان کے یہاں عشق و رومان کے امڈتے جذبات بھی خوب خوب ملتے ہیں۔حسن کی سرشاری، محبت کا وفور، والہانہ شیفتگی وفریفتگی اور ہجر کی کسک _____ سبھی کچھ راحت اندوری کے اشعار میں مل جاتا ہے۔ ان کی رگوں میں بغاوت اور مزاحمت کے شرارے ہی نہیں بلکہ دلکش ودلربا معشوق کی محبتیں بھی دوڑتی ہیں:
اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں
ہے جتنی پونجی پاس لگادینی چاہیے
تیری ہر بات محبت میں گوارہ کرکے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کرکے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزہ ذکر تمھارا کرکے
کبھی دماغ، کبھی دل، کبھی نظر میں رہو
یہ سب تمھارے ہی گھر ہیں، کسی بھی گھر میں رہو
سسکتی رت کو مہکتا گلاب کردوں گا
میں اس بہار میں سب کا حساب کردوں گا
مجھے بھروسہ ہے اپنے لہو کے قطروں پر
میں نیزے نیزے کو شاخِ گلاب کردوں گا
سحر تک تم جو آجاتے تو منظر دیکھ سکتے تھے
دیے پلکوں پہ رکھے تھے، شکن بستر پہ رکھی تھی
دنوں کے بعد اچانک تمھارا دھیان آیا
خدا کا شکر کہ اس وقت باوضو تھے ہم
تصور میں نجانے کون آیا
مہک اٹھے در و دیوار میرے
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھے، مجھ سے روٹھے روٹھے رہتے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
محبت اپنی معراج پر پہنچ کر عبادت بن جاتی ہے۔وہی پاکیزگی، وہی تقدس، وہی فنائیت اور وہی روحانی وابستگی جو بندگی کی صفات ہیں، عشق ان سے متصف ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راحت اندوری کا محبوب کوئی ماورائی اور مجرد مخلوق ہے۔ ان کے رومانی اشعار میں مجسم نسوانی سراپا بھی ابھرتا ہے۔ ان میں جذبات و احساسات کی حدت وحرارت بھی ہے اور حسن وعشق کا ناز و نیاز بھی۔
موت کا زہر ہے فضاؤں میں:
راحت اندوری کو اردو شاعری کا”نیل کنٹھ“ کہنا بیجا نہ ہوگا۔ انھوں نے اپنے عہد کے زہر کو اپنی تخلیقی سرشت میں جذب کرلیاہے:
موت کا زہر ہے فضاو¿ں میں
اب کہاں جاکے سانس لی جائے
یہاں اک مدرسہ ہوتا تھا پہلے
مگر اب کارخانہ چل رہا ہے
کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے
زندگی کی دعا نہ دی جائے
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے
آنگن کے معصوم شجر نے ایک کہانی لکھی ہے
اتنے پھل شاخوں پہ نہیں تھے، جتنے پتھر بکھرے ہیں
راحت اندوری کو دکھ ہے کہ زہریلی فضا سانس لینے کے قابل نہیں رہی۔ صنعتی اجارہ داری نے علم و معرفت کے مراکز ہڑپ لیے ہیں۔بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اب اندھیروں سے روشنیاں خوف زدہ ہیں اور دوسروں کو پناہ بخشنے والے سایہ دار درخت خود دھوپ سے پناہ مانگتے ہیں۔ معصومیت ستم رسیدہ ہوگئی ہے۔
ہم قلندر ہیں، شہنشاہ لقب کرتے ہیں:
راحت اندوری کی درویشی رشکِ سلطانی ہے۔ان کے دربارِ بے نیازی میں سلطنتیں کاسہ لیس نظر آتی ہیں۔ راحت اندوری دراصل ایک قلندرانہ تیور کا نام ہے:
ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے
ہم قلندر ہیں، شہنشاہِ لقب کرتے ہیں
مجھے بتوں سے اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
فقیر، شاہ، قلندر، امام کیا کیا ہے
تجھے پتہ نہیں، تیرا غلام کیا کیا ہے
میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو؟ لے آؤ! زمیں پر رکھ دو
(٭ مضمون نگار معروف شاعرہ ، اور مصنفہ ہیں )