امام حسین انقلاب کا ایک عالمی مدرسہ

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

٭ ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فیکلٹی آف آرٹس، عین شمس یونیوڑسٹی قاہرہ، مصر

حضرت امام حسین نے فرمایا: ” میں صرف اپنے دادا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں“ 

امام حسین پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی کے چھوٹے نواسے اور حضرت علی کے صاحبزادے ہیں، حضرت امام حسین کے ساتھ دیگر 72 افراد پر مشتمل اہل بیت کے ایک گروہ نے واقعۂ کربلا میں جام شہادت نوش فرما کر دین کو یزیدیوں سے پاک کیا، اور حضرت امام حسین وعدے کے پکے تھے اور شریعت محمدی کے علمبردار دین کی تبلیغ اور اس کی بقا کی خاطر قربانی دینے کے لئے تیار تھے ۔

معرکہء کربلا یا معرکۂ الطف صرف عام اسلامی ہی کا المیہ نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کا المیہ ہے_ جس میں تین دن اہلِ بیت پر پانی بند کرنے کا واقعہ انتہائی بھیانک اور ظالمانہ فعل تھا، تاریخ اس واقعے کی گواہ ہے، یزیدی لشکر کے ظالمانہ و جابرانہ باتوں کا جواب امام حسین نے بڑی معصومیت و دلیری سے دیا، اگر امام حسین چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، وہ اگرچہ سادگی پسند کرتے ہیں لیکن اپنے اصولوں اور دین کی بنیادی باتوں میں کوئی سودا یا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہ تھے_ وہ اپنے اہل و عیال کو قربان کر دینا پسند کرتے لیکن یزید کے ہاتھوں پر بیعت کرنا یا یزیدیوں کو حکمران تسلیم کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

کربلا کے واقعات تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم المیہ ہیں جن میں ایک طرف جور وجفا کی انتہا ہے تو دوسری طرف حسینیت کے روپ میں استقامت، عزم، قوتِ عمل، معیارِ قربانی، صبر و قناعت، استغنا وتوکل، صفائے قلب، سخاوت، شجاعت، راست بازی اور ثباتِ قدم کی انتہا ہے ۔

امام حسین سیاست اور اخلاق کے علمبردار تھے اور یہ دونوں معاملے اموی معاشرے میں پھیلے ہوئے کرپشن کے خلاف تھے_ وہ ایک ایسے عظیم انسانی معاملے کے علمبردار تھے جو اخلاق کا ایک اعلی نمونہ قائم کرتا ہے اور اس عہد میں ظلم وستم سے انکار کر دیتا ہے، چنانچہ وہ میدان جنگ میں اکیلے کھڑے ہوئے اور ان کے شیعی ساتھیوں نے جو بے حسی اور بے وفائی کا ثبوت دیا، وہ ہمارے زمانے کے ان لوگوں کی طرح تھے جو حق و بھلائی کی حمایت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔

حضرت حسین پر آنے والی آفت ومصیبت، جابر حکمرانوں کا دباؤ ، ناانصافی، ظلم وجور ، جبر و استبداد، حق و صداقت کی حمایت اور حق گوئی، یہ سب ایسے اقدار ہیں جو کسی بھی معاشرے کو متاثر کرتے ہیں، حق تلاش کرنے والے افراد آج بھی حضرت حسین کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوششیں کر رہے ہیں ، انہوں نے حسین سے دلچسپی ظاہر کی ہے اس لیے کہ وہ اکثر و بیشتر دھوکہ، استبداد ، ظلم وستم، اجنبیت کا شکار رہتے ہیں، وہ ان مسائل کے حل کے لیے ایک ایسی بہتر دنیا کی امید رکھتے ہیں جو صرف ورثے میں ملتی ہے_ وہ ماضی کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ آج کے معاشرہ کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی مناسب حل تلاش کرنے میں مدد دے، وہ ماضی کے نمونوں اور آزمائشوں سے سبق لیتے ہیں ۔ امام حسین ان کو ظالم حکمرانوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ثابت قدم رہنے کا سبق دیتے ہیں _ لوگ امام حسین کے انقلاب اور کربلا سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ مہاتما گاندھی کہتے ہیں : ” میں حسین سے سیکھا کہ مظلوم ہو کر فتح کیسے حاصل کی جاتی ہے، مجھے یقین ہے کہ اسلام کا فروغ اس کے ماننے والوں کی تلواروں کے سبب نہیں بلکہ حسین کی عظیم قربانی کے سبب ہوا “ ۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین انقلاب کا ایک عالمی مدرسہ ہے ۔

آج پوری دنیا میں مسلمان سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ عالم کا موجودہ عہد در اصل انتشار اور بد امنی کا عہد ہے ۔ ہر طرف تباہی اور بربادی کا دور دورہ ہے۔ سیاسی اور سماجی صورتحال بڑی تباہ کن ہے۔ بے شمار ممالک کو بہت سی پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ جن میں انقلابات بپا ہیں ۔ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی ماحول میں گراوٹ آئی ہے اور صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے ۔ آج کے حکمران نظام اسی طرح ہیں جس طرح واقعہء کربلا کے زمانے میں تھے ۔ صرف ان کے ناموں میں فرق ہے اور عدل و انصاف اور حق و صداقت کے فقدان میں دونوں یکساں ہیں ۔

حق اور باطل کے درمیان کشمکش ابتداءِ نسل انسانی سے جاری ہے اور ہو سکتا ہے کہ انتہاءِ نسل انسانی تک جاری ہے ۔ معرکۂ حق و باطل میں امام حسین نے یزید کے سامنے سر نہیں جھکایا اور شہادت کو ترجیح دی ۔ جس میں بھی حسین کے صبر اور یزیدیت کے جبر کی انتہا نظر آتی ہے ۔ آج کے دور میں ہمیں واقعہء کربلا اور حسین کی شہادت سے سبق لینا چاہئیے اور اپنے اندر حق، عزت اور انصاف کی سر بلندی کی خاطر جابر طاقتوں کے سامنے کلمہء حق کہنے کی ہمت پیدا کرنی چاہئیے ۔

حضرت امام حسین کی شخصیت مزاحمت، شہادت اور دلیری کی علامت ۔ ہمیں حضرت امام حسین اور ان کے جانثاروں کی قربانیوں سے سبق سیکھ کر مظلوم افراد اور اقوام کو پامال کرنے کی ضد سے باز آنا چاہئیے ۔ واقعات کربلا کے پس منظر اور اس کے کرداروں میں موجود صفات یعنی شجاعت، دلیری، سرفروشی کے جذبہء حق، ایثار اور قربانی اور عورتوں کے صبر وتحمل سے نتیجے نکالیں اور اس عظیم قربانی کا مقصد واضح کر کے اسے عہد و ماحول کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں ۔ حسین کو آئندہ اور موجودہ نسل کے لئے ایک نمونہ بننا چاہئیے، تاکہ وہ ان کے اندر بیداری کا جذبہ پیدا ہو اور اس مثالی کردار کی روشنی میں آج کے ظالمانہ نظامِ حکومت کے سامنے حق کی سربلندی کا فریضہ ادا کر سکیں ۔ ہم سب کو حسینی راستے پر چلنا چاہئیے تاکہ اللہ ہمیں راہ قربانی کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں