جمہوریت اور آئین بچانے والوں کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو ان میں پرشانت بھوشن کا نام بھی یقینی طور پر شامل کیا جائے گا

خبر در خبر (646)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان کی جمہوریت ، سیکولرزم ،ڈیموکریسی اور آئین بچانے والوں کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو ان میں یقینی طور پرپرشانت بھوشن کا نام بھی شامل کیا جائے گا ۔سپریم کورٹ نے انہیں باربار کہاآپ غلطی تسلیم کرلیں ،معافی مانگ لیں آپ کو سزا نہیں ہوگی لیکن وہ اٹل رہے ۔ اپنے موقف پر قائم رہے اور جھکے نہیں ۔ بالآخر سپر یم کورٹ آف انڈیا نے پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کا مجرم قرار دینے کے بعد آج ان کی سزا سنادی ہے ۔ سپریم کورٹ نے دو طرح کی سزا دی ہے جس میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا اور اس کے بغیر پرشانت بھوشن کیلئے کوئی چارہ نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پرشانت بھوشن عدالت میں ایک روپے کا جرمانہ بطور سزا ادا کریں ۔ اگر وہ ایک روپے کا فائن نہیں دیتے ہیں تو انہیں تین ماہ کیلئے جانا ہوگا اور تین سالوں تک سپریم کورٹ میں وہ وکالت بھی نہیں کرسکیں گے ۔ ایک روپے کا جرمانہ ادا کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے انہیں 15ستمبر تک کا وقت دیاہے ۔
سپریم کا فیصلہ آنے کے بعد پرشانت بھوشن نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر تصاویر شیئر کی جس میں ڈاکٹر راجیودھون انہیں ایک روپیہ کا سکہ پیش کررہے ہیں ۔ اس تصویر کو ٹوئٹ کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نے لکھا ۔ میرے وکیل اور سینئر دوست راجیودھون نے آج سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مجھے ایک روپیہ ہدیہ دیا ہے ۔ میں نے بخوشی اسے قبول کیا ۔ بارے بجے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیاتھا اور تقریبا دو بجے پرشانت بھوشن نے یہ ٹوئٹ کیا ۔ بھوشن کا یہ ٹوئٹ اشارہ تھا کہ وہ ایک روپے کا جرمانہ ادا کریں گے۔ اس بیچ لوگ اندازہ بھی لگاتے رہے کہ پرشانت بھوشن کس پر عمل کریں گے ۔ جرمانہ دیں گے یا تین مہینہ کیلئے جیل جائیں گے ۔ شام چار بجے پریس کلب آف انڈیا میں پرشانت بھوشن نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں اپنی سز ا چو ز کرنے کا اعلان کیا اور کہا ۔ میں نے پہلے ہی کہاتھا کہ مجھے جو بھی سزا ملے گی وہ مجھے منظور ہے ۔ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور کرتاہوں اور ایک روپے سپریم کورٹ میں ادا کردوں کا ۔ پرشانت بھوشن نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ نے میرے ٹوئٹ کو اپنی توہین اورمیرا جرم تسلیم کیاہے لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے توہین نہیں ہے اورنہ ہی اس کے خلاف تھا ۔
پرشانت بھوشن نے یہ بھی کہاکہ اس معاملے کی وجہ سے لوگوں کو حوصلہ ملاہے ۔ ملک میں یہ بحث چھڑی ہے کہ فریڈ م آف اسپیچ کی کتنی اہمیت ہے ۔ یہ صرف میرا معاملہ نہیں بلکہ دیش کا معاملہ تھا ۔ دیش کے سابق ججوں ،وکیلوں ، ماہرین ، اکٹویسٹ سبھی نے ساتھ دیا اس کیلئے شکریہ ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر یہ اعتراض بھی ہورہاہے کہ سزا میں توازن نہیں ہے ۔ جب دومیں سے کسی ایک سزا کو چننے کا اختیار دیا گیا ہے تو دونوں میں موازانہ ہونا چاہیئے ۔ ایک طرف کہاگیا کہ صرف ایک روپے ادا کریں سزا کے طور پر ۔ دوسری طرف تین ماہ کی جیل اور تین سالوں تک پریکٹس کرنے پر پابندی کی سزا ہے ۔ یقینا یہ سزا سنگین ہے ۔تین ماہ جیل زیادہ مشکل نہیں ہے لیکن اصل معاملہ تین مہینہ تک سپریم کورٹ میں پریکٹس پر پابندی ہے۔ یہ سز ا صرف پرشانت بھوشن کیلئے نہیں ہے بلکہ اس سے عوام متاثر ہوں گے ۔ مفادعامہ کے مسائل متاثر ہوں گے ۔ کیوں کہ پرشانت بھوشن نے ایک ناموراور ماہر وکیل ہیں ۔ ان پر پابندی کی وجہ سے بہت سارے مسائل حل نہیں ہوپائیں گے ۔
سپریم کورٹ کے جج ارون مشرا جس طرح اس معاملہ میں سخت رویہ اپنا رہے تھے ۔ اسے عدالت کی توہین اور امیج خراب کرنے کا سنگین معاملہ بتارہے تھے ۔ بار بار دباﺅ بنارہے تھے معافی مانگنے کیلئے ۔ اس اعتبار سے جو فیصلہ سنایاگیاہے اس میں کوئی جوڑ نہیں دکھائی دیتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سزا سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے ٹوئٹ کیا ۔۔اسی کو کہتے ہیں کھود اپہاڑ نکلی چوہیا ۔
ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی نے بھی اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو میں اس سز ا کے تعلق قانونی نکات کی طرف رہنما ئی کی ہے اور دو سزا کے درمیان تواز ن نہ ہونے پر سوال اٹھایا ہے ۔ان کا مانناہے کہ متبادل سزا میں کوئی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اصل سزا ایک روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہی ہے ۔
پرشانت بھوشن سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور مشہور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ ہیں ۔ انہوں نے جون میں سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کیا تھا کہ ہندوستان میں ڈیموکریسی کی تباہی کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو سپریم کورٹ کے کردار کا خصوصی طور پر تذکرہ ہوگا اور بطور خاص سپریم کورٹ کے پچھلے چار چیف جسٹس آف انڈیا کا ۔ اس کے علاوہ بھوشن نے 2009 میں تہلکہ میگزین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ سپریم کورٹ کے پچھلے 16 ججز میں سے آدھے ججز کرپٹ اور رشوت خور ہیں ۔
ان دونوں معاملوں کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن پر کنٹمپٹ آف کورٹ کا مقدمہ دائر کردیا ۔14 اگست 2020 کو سپریم کورٹ کے جج ارون مشرا نے انہیں توہین عدالت کا مجرم قرار دے دیا اور کہاکہ سزا کا اعلان بعد میں ہوگا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ عدالت میں بحث ہوئی ۔سپریم کورٹ کے جج ارون مشرا نے پرشانت بھوشن سے کہاکہ آپ معافی مانگ لیں سزا ختم ہوجائے گی ۔ پرشانت بھوشن نے کہاکہ میں معافی نہیں مانگ سکتاہوں ۔ مجھے جو بھی سزا دی جائے گی وہ منظور ہے ۔ اگر آج سزا کے ڈر سے میں نے معافی مانگ لی تو میر اضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ میرا ٹوئٹ ہر گز سپریم کورٹ کے خلاف نہیں ہے ۔ میرے ٹوئٹ کا مقصد سپریم کور ٹ کے وقارکو بحال کرناہے ۔30اگست کو سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیاتھا اور31اگست 2020 کو سزا سنادی گئی ۔ تین ججوں کی بینچ تھی جس کی قیادت ارون مشرا کررہے تھے ۔ یکم ستمبر کو وہ ریٹائر ہورہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے جانے سے پہلے سزا سنادیا ۔
اس فیصلے میں سزا کیا ہوئی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک ٹوئٹ کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے کنٹمپٹ آف کورٹ یعنی عدالت کی توہین مان لیا اور اس بنیاد پر پرشانت بھوشن کو مجر م قرار دیاگیا ۔یہ ایک نظیر قائم ہوئی ہے ۔ مثال بنی ہے۔ آئین میں کنٹمپٹ آف کورٹ کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ مہینہ تک ہے ۔ جج کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ چاہے تو معاف کردے ۔ پرشانت بھوشن کو جج نے معاف نہیں کیا ۔ دوسری طرف پرشانت بھوشن ابھی تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ان کا ٹوئٹ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتاہے ۔ لیکن فیصلہ اور سزا انہیں منظور ہے ۔ پرشانت بھوشن پہلی سزا اختیار کررہے ہیں ۔ وہ ایک روپیہ ادا کریں گے لیکن رویو پٹیشن بھی عدالت میں دائر کریں گے ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )