نئی قومی تعلیمی پالیسی: تاثر اور تجزیہ

پروفیسر اختر الواسع

قوموں کی زندگی میں سب سے کٹھن مرحلہ بقول اقبال وہی ہوتا ہے جب وہ آئین نو سے ڈرتی اور طرز کہن پر اڑتی ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں بدبو پیدا ہونے کی طرح ہی کسی بھی نظام میں فرسودگی اور جمود لازمی ہے، اس لیے تبدیلی سے ڈرنا نہیں چاہئے ۔یہی وہ اصول ہے جو ہمارے نصاب اور نظام تعلیم دونوں پر بھی پوری طرح لاگو ہوتا ہے ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ افکار تازہ سے ہی جہانِ تازہ کی نمود ہوتی ہے۔ اس لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کا اسی اصول کے تحت خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔

ہم اس نئی تعلیمی پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہیں اس لیے بھی کہ یہ بھارتی اقدار، افکار، تہذیب اور ثقافت کو فروغ دینا چاہتی ہے، یہ پری نرسری، پری پرائمری جیسی ان تعلیمی پالیسیوں کو جو صرف شہروں تک محدود ہیں، ان کو ہندوستان کے ہر گاؤں ، ہر قصبے تک پہنچانا چاہتی ہے اور ایک یکساں نظام تعلیم کی آئینہ دار ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ علوم کی حد بندی کے بھی خلاف ہے اور علوم کی مختلف شاخوں میں طالب علم کو انتخاب کی آزادی دیتی ہے۔

ایک اور اچھی بات جو اس نئی تعلیمی پالیسی میں بظاہر نظر آتی ہے وہ یہ کہ بچوں کی ذہنی و فکری نشو و نما کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابتدائی ذریعۂ تعلیم مادری زبان ،مقامی زبان یا گھریلو زبان (Home Language) ہوگی۔ ایک اہم وصف جو اس تعلیمی پالیسی کا ہے وہ ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں کی تعلیم و ترویج اور غیر ملکی زبانوں کے حصول کی حوصلہ افزائی ہے۔ اسی طرح تعلیمی مراحل سے گزرنے کے لیے جو درجہ بندی کی گئی ہے اور جس طرح مختلف کورسز کی مدت اور حجم کو ضم کیا گیا ہے یا ان میںتوسیع کی گئی ہے ، تجرباتی طور پر ان سے پیدا شدہ مسائل و امکانات کے بارے میںابھی یقینی طور پرکچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جہاں یہ بات قابل ستائش ہے کہ یہ بھارت پر منحصر ایک تعلیمی نظام کے ذریعہ ساری دنیا میں وطن عزیز کو ایک علمی طاقت اور وقار کا حامل بنانے کی بظاہر کوشش ہے، وہاں یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ بارہویں سے انیسویں صدی تک ہندوستان میں مسلمانوں نے اور بعد ازاں عیسائیوں نے علمی میدان میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ علم و دانش ہو یا صنعت و حرفت مسلمانوں نے ان میدانوں میں غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں ۔ انہوں نے علوم و فنون کو یہاں اس بڑے پیمانے پر ترقی دی کہ ہندوستان کو سمر قند و بخارا اور دمشق و بغداد کا ہمسر بنا دیا ۔ دفاعی طور پر اس ملک کی افواج اور سرحدوں کو ایسا مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیا کہ منگولوں کی قہر سامانیاں بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ پائیں۔ فن تعمیر میں ہندوستان میں مسلمانون نے جو بیش بہا عمارات تعمیر کیں ، وہ آج بھی ان کے افتخار و حشم کی گواہی دے رہی ہیں۔ یہ بات کبھی نہیں بھلائی جا سکتی کہ مسلم اقتدار کے آغاز سے انگریزوں کے تسلط تک یہ مدارس ہی تھے جو شمولیت پسند تعلیم دیتے تھے۔ جہاں سے صرف مفسر، محدث، فقیہ، متکلم، امام اور موذّن ہی نہیں نکلتے تھے بلکہ ایسے ماہرین فن بھی تیار ہو کر آتے تھے جنہوں نے اس ملک کو قطب مینار کی بلندی، تاج محل کا حسن، لال قلعے کی پختگی اور شاہ جہانی مسجد کا تقدس عطا کیا تھا ۔ اس نظام تعلیم کے فیض یافتگان ہی تھے جنہوں نے کتاب الہند کے ذریعہ ہندوستان کے دھرم ، سنسکار اور سنسکرتی سے دنیا کو متعارف کرا دیا تھا ۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ہندو اساطیر جیسے رامائن و مہابھارت کے فارسی زبان میں تراجم کئے اور دنیا کو ہندوستان کی مذہبی، تہذیبی و ثقافتی تکثیریت سے متعارف کرایا ۔

اسی طرح انگریزوں کی آمد کے بعد اس ملک میں جو تعلیمی انقلاب آیا اس میں اٹھارہ سو ستاون کے آس پاس تین یونیورسٹیوں کا قیام اور پھر نہ جانے جدید تعلیم کے کتنے اسکول و کالجوں کا سلسلے وار قیام وہ مہتم بالشان روایت ہے جس نے نئے ہندوستان کی ترقی اور تعمیر میں بڑا رول انجام دیا ہے۔ اور آزادی کے بعد ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم نئی ٹکنالوجی، سائنسی انکشافات، دفاعی قوت میں خود انحصاری ، کمپیوٹر انجینئرنگ اور سافٹ ویر کے میدانوں میں دنیا بھرمیں اپنی ایک پہچان بنا سکیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ساری دنیا میں مسلمانوں نے جدید تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے پہلا ادارہ ایم ۔ اے ۔ او کالج علی گڑھ میں قائم کیا اور اس بات پر ہندوستان جتنا بھی نازاں ہو کم ہے ۔ آپ قدیم ہندو دانشوروں کے ساتھ راجہ رام موہن رائے اور سوامی وویکانندکو جس طرح نہیں بھلا سکتے اسی طرح سر سید کی جدید تعلیم کے فروغ میں اور اس کے ذریعہ روشن خیالی، عقلیت پسندی اور معروضیت کو پھیلانے میں ان کے رول کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہ بات بڑی حد تک مضحکہ خیز لگتی ہے کہ 1206ء سے 1947ء تک ہندوستان میں یہ دکھایا جا ئے کہ خلا ہی خلا تھا۔ اس دوران یہاں نہ کوئی علمی سرگرمی تھی نہ کسی تمدن کا وجود اور نہ ہی ہندوستان کی عظمت کو دو بالا کرنے کا کوئی کام۔ بہتر ہوگا کہ اس طرح کی کمیوں کو اس نئی تعلیمی پالیسی سے دور کر دیا جائے، کیونکہ ہندوستان کی عظمت اور نیک نامی اس کی شمولیت پسندی، مشترکہ تہذیب کے فروغ اور باہمی اتحادِ فکرو عمل میں پنہاں ہے۔ اسی طرح جہاں دوسرے ہندوستانی اکابرین کے نام اس نئی تعلیمی پالیسی میں لیے گئے ہیں اس میں سر سید، پنڈت مدن موہن مالویہ اور عیسائی مشنریوں کی جدید تعلیم کے میدان میں سرگرمِ عمل رہے لوگوں کے نام کا اعادہ ایک احسان شناس قوم کی تعلیمی پالیسی بنانے والوں پر فرض تھا۔ جس طرح اس ملک میں آیوروید کی تعلیم ہوئی اسی طرح ہندوستان ساری دنیا میں اس امتیاز کا حامل ملک ہے کہ یونانی طریقۂ علاج کو سب سے زیادہ یہیں فروغ ملا اور دور جدید میں مجاہد آزادی، مہاتما گاندھی کے معتمد، انڈین نیشنل کانگریس کے صدر اور آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے اجلاس دہلی کے صدر استقبالیہ رہے حکیم اجمل خاں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

اب تک تعلیم جس قدر اور جیسے بھی عام ہوئی اس میں ایک دوئی نظر آئی اور وہ یہ کہ ہم نے تعلیم کے میدان میں گاندھی کے خوابوں کو پامال ہوتے دیکھا ۔ ہماری تعلیم کا مدار اور محور شہروں میں بسنے والے رہے۔ دیہاتوں میں تعلیم کو جو سہولتیں ملنی چاہئے تھیں ان کی عام طور پر بس خانہ پُری کی گئی اس کا نقصان یہ ہوا کہ بڑی تعداد میں بچوں اور ان کے ماں باپ نے بہتر اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہروں کا رخ کیا اور اس کی وجہ سے شہروں میں جو وسائل تھے وہ بھی چر مرا گئے۔ اس پالیسی میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شہر ہوں یا گاؤں سب جگہ تین سال سے اٹھارہ سال تک یکساں طور پر ایک طرح کی تعلیم ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اس کے لیے جس طرح کی عمارتیں اور باصلاحیت افرادی قوت چاہئے ہو گی وہ کہاں سے آئے گی، اس کے اخراجات کا بار کس طرح اٹھایا جائے گا اور کتنی مؤثر اور کار گر ہوگی؟ یہ دیکھنا باقی ہے

 اسی طرح اس تعلیمی پالیسی میں جس طرح بعض کو رسز کی تدریسی مدت کو گھٹایا بڑھایا گیا ہے اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن ایک سوال یہاں یہ ضرور اٹھتاہے کہ دو سال کے بی ایڈ کو اگر چار سال کا کریں گے تو اب تک جن لوگوں نے ایک سال اور دو سال کے بی ایڈ کر رکھے ہیں وہ کیا کریں گے، ان کی کھپت کہاں ہوگی؟ دوسرے اب بھی عام طور پر یہ رسانیت روزگار کے حوالے سے رہی ہے کہ دسویں کرکے بعض نچلی سطح کی سرکاری اور سینک نوکریاں لوگوں کو مل جاتی تھیں لیکن اب اگر اٹھارہ سال اور بارہویں کی شرط لازم ہو جاتی ہے تو یہ غریب غرباء کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہوگا۔

  اسی طرح انسانی علوم، سماجی علوم، اور سائنس کے مضمون لے کر جو ملغوبہ تیار ہوگا اس کو کھپانے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے آپ نے کس طرح کی اسکیمیں بنائی ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے؟ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں آپ نے لاء (قانون) ، بی ایڈ، ایم بی اے، اسپورٹس وغیرہ کی تعلیم کے جو سیکڑوں ادارے کھولنے کی اجازت دے دی ان کا انضمام اور ادغام کیسے ہوگا ؟ جن لوگوں نے ان کو قائم کرنے میں اپنی گاڑھی کمائی لگائی وہ کیا کریں گے ؟ آپ نے اس پالیسی کے مکمل نفاذ کے لیے 2040کو ہدف بنایا ہے، سوال یہ ہے کہ بیس سال کے اندر اس ملک میں جو سیاسی الٹ پھیر ہوں گے ان کا کیا اثر ہوگا یہ بھی ایک سوال ہے؟

موجودہ سرکار نظام تعلیم کو واحد ریگولیٹری اتھارٹی کے ہاتھ میں دینا چاہتی ہے، اس پر کس کو اعتراض ہو سکتا ہے؟ جو ابھی تک باضابطہ اور باقاعدہ کو نسل تھیں جو الگ الگ میدانوں میں نگرانی اور رہنمائی کا کام کر رہی تھیں، اب وہ ایک ہی ریگولیٹری اتھارٹی میں ڈپارٹمنٹ بن جائیں گی۔ کام تو انہیں کو کرنا ہے لیکن ابھی جس طرح وہ مؤثر ہیں اور اپنے اپنے اختصاص کے میدانوں میں جو اب دہی کے ساتھ کام کر رہی ہیں ، اس سے ان کی کارکردگی ضرور متاثر ہوگی۔ وزیر اعظم کے سرپران سب کی سربراہی کا تاج رکھنا اس لیے بے معنیٰ ہے کہ وزیر اعظم توکل کاپہلے ہی سے نگراں و مالک ہے اس کے نیچے کابینہ کے وزیر، محکمہ تعلیم، ان سے متعلق ادارے اور تنظیمیں سرکاری پالیسیوں کو رو بہ عمل لاتے ہیں لیکن اگر وزیر اعظم کی براہِ راست سربراہی سے نظام تعلیم ہندوستان کو ایک پر شکوہ اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتا ہے تو ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہی ہوگی۔

نئی تعلیمی پالیسی کا سب سے خوش گوار پہلو یہ ہے کہ اس میں پانچویں جماعت تک لازمی طور پر اور اگرممکن ہو تو آٹھویں جماعت تک مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مقامی (علاقائی) زبان اور اس کے ساتھ گھریلو زبان کے لاحقے لگا کرایک نیا اشکال پیدا کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پراکثر و بیشترریاستوں میں علاقائی زبان ہی مادری زبان ہوتی ہے یہ ہوم لینگویج (گھریلو زبان ) کیا ہوتی ہے اس کی کوئی تشریح نہیں ہے، سوال ان بچوں کی مادری زبان میں تعلیم کا ہے جو پیدا راجستھان ، مدھیہ پردیش ، اترپردیش یا ہریانہ اور بہار میں ہوئے لیکن جن کے ماں، باپ روزگار کی تلاش یا ملازمت کے پیش نظران ریاستوں میں رہنے اور بسنے پر مجبور ہیں جہاں کی زبان ہند ی نہیں ہے۔ اسی طرح اردو زبان کا مسئلہ ہے جو ایک ہندوستان گیر زبان ہے لیکن جس کا اپنا کوئی صوبہ نہیں ہے اور لے دے کر ایک کشمیرہے بھی تو وہاں کے بچوں کی مادری زبان کشمیری ہے۔ پھر ہندوستان کا دستور دفعہ 350A کے تحت ماں باپ کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کس زبان میں تعلیم دلائیں ؟نہ کہ سرکار کو ، اس لیے اگرچہ اس نئی پالیسی میں آٹھویں شیڈیول میں درج زبانوں کی بات کہی گئی ہے لیکن پچھلے 72سالوں سے زیادہ عرصے سے اردو پر جو مہربانیاں رہی ہیں، خاص طور پر یوپی میں جہاں اردو میڈیم اسکول کھولنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور اب بہار میں بھی اردو کو لازمی سے اختےاری زبان بنانے کا حکم جاری کیا گیا ہے، مہاتما گاندھی انٹر نیشنل یونیورسٹی وردھا میں اردو ڈپارٹمنٹ ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، سرکار کو نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کی جگہ اور حیثیت کے بارے میں ایک متعینہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا ۔

دسمبر 2013میں راقم الحرو ف نے مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کی طرف سے اپنی سربراہی میں قائم کردہ ایک کمیٹی کی رپورٹ اس وقت کے مرکزی وزیر شری پلم راجو کو پیش کی تھی جس میں دیگر سفارشات کے علاوہ ایک اہم اور بنیادی سفارش یہ بھی کی تھی کہ اسکولوں میں داخلے کے فارم میں تین خانے ہونے چاہئیں پہلا یہ کہ بچے کی مادری زبان کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ ماں باپ بچے کو کس زبان میں تعلیم دلانا چاہتے ہیں؟ اور تیسرا یہ کہ تیسری زبان کے طور پر وہ اپنے بچے کوکون سی زبان پڑھانا چاہتے ہیں ؟ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تیار ہونے والے ہر داخلہ فارم میںیہ تین خانے ضرور ہونے چاہئیں تاکہ سرکار یا سرکاری عملے پر کسی بھید بھاؤ یا گھپلے کا الزام نہ آنے پائے۔

ہمیں خوشی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں کلاسیکی ہندوستانی زبانوں میں فارسی کو جگہ ملی۔ فارسی اس ملک میں چھ سو سال تک سرکاری زبان رہی ہے۔ فارسی کا ایک روپ سبک ہندی کے نام سے فارسی دنیا میں اپنی اہمیت منوا چکا ہے لیکن ہمیں افسوس ہوا کہ اس میں عربی کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال میں عربی زبان کا جو ارتقا ہندوستان میں ہوا، اس میں جو علمی شاہکار سامنے آئے ہیں، ہماری لائبریریوں میں عربی کے جیسے نادر روزگار مخطوطے موجود ہیں، ساری دنیا کی نگاہیں ان کی طرف لگی رہتی ہیں۔ ہندوستان میں عربی صحافت کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ مدرسوں میں عربی متن کی آج بھی تدریس ہوتی ہے ۔ مدارس اور مختلف یونیورسٹیوں میں عربی زبان باقاعدہ سکھائی جاتی ہے اور اس کے شعبے قائم ہیں۔ مرکزی وزارت تعلیم کی سفارش پر صدر جمہوریہ ہر سال کم سے کم عربی زبان کے دو عالموں کو سند فضیلت اور وظیفہ کارکردگی سے سرفراز کرتے ہیں۔ اردو کے علاوہ گجراتی ہو یاکوکنی ، ملیالی ہو یا محلی ان سب میں عربی لفظیات اس طرح گھل مل گئی ہیں کہ جیسے ناخن کے ساتھ گوشت جڑا ہوتا ہے۔ پھر عربی قرآن اور مذہب اسلام کے حوالے سے صرف معاد کی زبان نہیں بلکہ 22عرب ممالک ،جن میں سے اکثر تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ،کے حوالے سے معاش کی زبان بھی ہے۔ اور اتنا ہی نہیں عربی مجلس اقوام متحدہ کی بھی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود عربی کو نہ کلاسیکی زبانوں میں رکھنا اور نہ غیر ملکی زبانوں میں جگہ دینا انتہائی تعجب خیزہے۔ ہماری اب بھی یہی رائے اور تجویز ہے کہ عربی کو بھی ہمیں ہندوستان کی کلاسیکی زبانوں میں شامل کر لینا چاہئے۔

نئی تعلیمی پالیسی پر ہماری یہ تمام معروضات مخالفت یا اعتراض کے زمرے میں نہ شمار کیے جائیں بلکہ درس و تدریس اور تعلیمی انتظامیہ سے جڑے رہنے کی صورت میں اپنے تجربات کی روشنی میں تجزیے اور تبصرے کے طور پر دیکھے جائیں۔ جمہوریت میں ملک صرف سرکار نہیں چلاتی بلکہ عوامی رائے کی اثر آفرینی بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ہمیں سرکار سے اگر ایک طرف یہ کہنا ہے کہ وہ اس پالیسی کو مخصوص نظریاتی چھاپ سے الگ رکھے تو بہتر ہے ۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ دو ضمنی تنظیموں ، ایک جس کا تعلق اتہاس کے سنکلن سے ہے اور دوسری جو شِکشک سنگھ کے نام سے جانی جاتی ہے کہ ذمہ داروں نے کھلم کھلا یہ کہا ہے کہ اس تعلیمی پالیسی میں اسّی فیصد ان کی باتیں تسلیم کر لی گئیں ہیں۔ اگر ایسا ہے، اور یقیناً ایسا ہے ورنہ سرکار اب تک اس کی تردید کر چکی ہوتی ، تو اس نئی ایجوکیشن پالیسی کی معروضیت، معنویت اور افادیت سب مخدوش ہو جاتی ہیں۔ ہمیں سرکار سے یہ کہنا ہے کہ وہ اس پالیسی کے نفاذ سے پہلے صرف پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ ریاستی اسمبلیوں میں بھی بحث کرائے کیونکہ تعلیم صرف مرکز کے تحت نہیں آتی ہے بلکہ وہ مرکز اور ریاستوں دونوں کے مشترکہ امور میں شامل ہے۔

ہمارا اقلیتوں کو بھی یہ مشورہ ہے کہ وہ اس نئی تعلیمی پالیسی کو محض مخالفت اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں آنے والی نسلوں کی تعلیم اور تربیت کے پیش نظر مثبت رائے کے ساتھ سامنے آئیں۔ ضرورت ہو تو جمہوری اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہ کریں۔ اس نئی تعلیمی پالیسی میں جو کچھ اچھا ہے اس کو نہ صرف خود اپنائیں بلکہ دوسروں تک بھی پہنچائیں ۔سرکار نے تعلیم کو جس طرح پرائیویٹ سیکٹر میں پہنچانے کا اہتما م اور انتظام کیا ہے، اس کا خود اس طرح فائدہ اٹھائیں کہ گلی گلی میں ، محلے محلے میں، ہر گاؤں اور قصبے میں ایسے نئے تعلیمی ادارے قائم کر یں جن میں مقدار بھی ہو اور معیار بھی۔ آنے والا کل انہیں کا ہوگا جو اپنے زمانے کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق اپنی آنے والی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ بحیثیت مسلم اقلیت اپنے بچوں کے لیے ،جن کی مادری زبان اردو ہے، اردو زبان میں تعلیم دلانے کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش ہم پر فرض ہے۔ کیا ہم اس فرض کو ادا کریں گے یا صرف سرکاروں کو برا بھلا کہتے رہیں گے۔ گزرے کل میں ہماری پہچان ہندوستان میں قطب مینار، تاج محل اور لال قلعے سے ہوتی تھی آنے وا لے ہندوستان میں ہماری پہچان ڈاکٹر ذاکر حسین، حکیم عبدالحمید، اے پی جے عبد الکلام، ڈاکٹر سید ظہور قاسم، پروفیسر اے ایم خسرو، ڈاکٹر سالم علی،جسٹس اے ایم احمدی،جسٹس فاطمہ بی وی، ڈاکٹر خلیل اللہ، پروفیسر عبید صدیقی ، ڈاکٹر احتشام حسنین ،ایم ایف حسین، استاد بسم اللہ خاں، ڈاکٹر ممتاز احمد خاںاور پروفیسر شمیم جے راجپوری جیسی ہستیوں سے ہوگی۔ ہم جتنے زیادہ ایسے لوگ پیدا کریں گے اتنی ہی زیادہ ہماری قدر بھی ہوگی اور عزت و تکریم بھی۔

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں