معصوم مرادآبادی
میں پچھلے چالیس پینتالیس برسوں سے دہلی کی شعری اور ادبی زندگی کا مشاہدہ کررہا ہوں۔ ایک طالب علم کے طور پر اس شہرکے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے۔ سبھی اپنی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کے دم سے دہلی کاادبی اور شعری منظر نامہ اتنابھرپور تھا کہ اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان ادبی محفلوں کی آن ، بان اور شان سمجھے جانے والے بیشتر ادیب اور شاعراپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ لیکن ان میں ایک ہستی ایسی ضرور تھی جس کی سر گرمیوں کو دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں یہ خوش فہمی تھی کہ وہ دیر تک اور دور تک ہمارے درمیان رہے گی۔ یہ شخصیت تھی پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کی ، جنھیں میں اکثر’ گل گلزار ‘کہہ کر پکارتا تھا ۔ افسوس کہ وہ بھی پچھلے 12 جون 2020 کو ہم سب کو اداس کرکے چلے گئے۔
آج میں گلزار دہلوی کے بغیر دہلی کے شعری اور ادبی منظر نامے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے ہر طرف بڑی ویرانی نظر آتی ہے۔ ہر محفل میں گرجتے برستے ، چہکتے اور چہچہاتے گلزار دہلوی ایک ایسی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے کہ ہر محفل ان کے ہی دم سے گل گلزار تھی ۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ تقریر کے فن پر بھی کمال حاصل تھا ۔ وہ جب ٹکسالی زبان میں مرحوم دلّی کے قصے سناتے تو محفل خوب جمتی تھی۔ وہ دلّی کی سینکڑوں برس کی تہذیبی روایات اور اس کی شعری، ادبی اور سماجی زندگی کے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے اورصحیح معنوں میں دلّی کے روڑے تھے۔ان کی سب سے بڑی شناخت ان کا وہ پرتو تھا جس میں وہ اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور عکاسی کرتے تھے ۔یہ مشترکہ تہذیب ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔
گلزار دہلوی کی سب سے بڑی جیت یہ تھی کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجودگھر نہیں بیٹھے اور آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کے قویٰ جواب دینے لگے تھے تو وہ ایک معاون کی مدد سے ہر اس محفل کی زینت بڑھاتے تھے ، جہاں انھیں عزت و احترام سے بلایا اور سرآنکھوں پربٹھایا جاتا تھا۔
وہ خالص دلّی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میں گزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے “اوراق مصور” سے تشبیہ دی تھی۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ مذہبی طور پر خالص ہندوبرہمن ہونے کے باوجود اپنے عادات واطوار اور بود وباش سے مسلمان نظر آتے تھے۔ حمدیہ اور نعتیہ نشستوں میں پورے خشوع وخضوع کے ساتھ سرخم کرکے شرکت کرتے تھے۔ یہ کوئی اداکاری نہیں تھی بلکہ اس ماحول کا فیض تھا جں میں انھوں نے تربیت پائی تھی ۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یا طاقت اردو زبان اور اس کی ملی جلی تہذیب تھی ، جس کی بقاءکے لئے وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔وہ اردوتعلیم کے سب سے بڑے وکیل تھے اور اس کے رسم الخط پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے۔ہر محفل میں وہ شرکاءسے یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے بچوں کو آٹھویں کلاس تک اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو زبان اور اس کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ کرنے کی انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔بقول خود
درس اردو زبان دیتا ہوں
اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں
میں عجب ہوں امام اردو کا
بتکدے میں اذان دیتا ہوں
گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی ، نواب سائل دہلوی اور علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔انھوں نے 1946 میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا اور وہ مولوی سمیع اللہ قاسمی کے کتب خانہ عزیزیہ میں ادبی محفلوں کی جان رہے۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں ” روزہ رواداری“ رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرکے خوش ہوتے تھے۔وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری ، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعرائے کرام گلزار دہلوی سے انسیت رکھتے تھے۔
گلزار دہلوی کا پورا نام پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تھا ۔وہ حضرت نظام الدین اولیاءاور حضرت امیر خسرو سے بے پناہ عقیدت کے سبب اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی لکھتے تھے ۔خط وکتابت میں اپنے نام کے بعد یادگار اسلاف لکھنا بھی نہیں بھولتے تھے۔وہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی منیجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے اور ہر سال عرس کے موقع پر وہاں بڑی عقیدت سے حاضری لگاتے تھے اور عرس کی تمام تقریبات میںشریک ہوتے تھے۔ان کے آباواجداد شاہجہاں کے دور میں دہلی آئے،جہاں وہ مغل شہنشاہ کے دربار میں شہزادوں کی تعلیم وتربیت کی خدمت پر مامور ہوگئے۔ یہ لوگ عربی ، فارسی ، سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان کے علمی وقار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ گلزار دہلوی کے خاندان کو یہ وصف حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں ہرکوئی شاعر تھا۔ ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے اور ان کا شمار مرزا داغ دہلوی کے جانشینو ںمیں ہوتا تھا۔ گلزار دہلوی کی والدہ محترمہ برج رانی زتشی بھی شاعرہ تھیں اور بیزار دہلوی تخلص تھا۔ وہ نواب سائل دہلوی کی شاگرد تھیں۔گلزار دہلوی کے دوبڑے بھائی پنڈت دیناناتھ زتشی اور رتن موہن ناتھ خار دہلوی بھی سائل دہلوی کے تلامذہ میں تھے۔ اس طرح ان کے خاندان میں زار، بیزاراور خار کے بعد گلزار دہلوی نے شاعری کا پرچم لہرایا اور دہلی کے شعری اور ادبی منظرنامے پر چھاتے چلے گئے۔
پیدائش و پرداخت
گلزار دہلوی کی پیدائش 13جولائی 1926 کو دہلی میں ہوئی۔ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی لڑکیوں کے اندر پرستھ کالج میں اردو اور فارسی کے استاد تھے اور’ مولوی صاحب‘ کہلاتے تھے۔ان کی شاگرد خواتین میں اردو کی بڑی نامی گرامی قلم کار اور دانشور گزری ہیں۔ گلزار دہلوی نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل یل بی کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور پنڈت دتاتریہ کیفی کی سرپرستی میں چلنے والے انجمن ترقی اردو کے اردو کالج سے اردو میں ادیب فاضل اور فارسی میں منشی فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ گلزار دہلوی کا بیان ہے کہ وہ مادر زاد شاعر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے سات آٹھ برس کی عمر میں شعر گوئی شروع کردی تھی۔ ان کا تخلص رکھے جانے کی باقاعدہ تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر شریک ہوئے تھے۔شروع میں انھوں نے اپنے والد علامہ زار دہلوی سے اصلاح لی۔ حضرت داغ دہلوی کے رشتے سے گلزار دہلوی اردو زبان اور کلچر کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ان کے بچپن کے بزرگوں اور اساتذہ میں نواب مرزا سراج الدین خاں سائل دہلوی، علامہ دتاتریہ کیفی ،مولوی عبدالحق، استاد بیخود دہلوی، نوح ناروی، احسن مارہروی اور جوش ملیح آبادی جیسے شعراءشامل ہیں۔ ابتدائی کلام اپنے والد زار دہلوی اور نواب سائل کو دکھایا اور سات برس کی عمر میں نواب سائل سے ہی مولانا روم،حافظ شیرازی،اسلامی دینیات اور تلمیحات اقبال پڑھیں۔1938 میں باقاعدہ علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی کے آگے زانوے تلمذ طے کیا۔
گلزار دہلوی کے بقول شروع میں انھوں نے کچھ دن اردو لیکچرر کی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد دہلی کلاتھ ملزکے مالک سرشنکر لال کے مشیر کی حیثیت سے آرٹ ، زبان اور کلچر سے متعلق امور دیکھتے رہے۔1970میں جب سی ایس آئی آر نے اردو ماہنامہ ’سائنس کی دنیا ‘ شروع کیا تو گلزار صاحب اس کے بانی ایڈیٹر بنائے گئے اور 1990 تک اس عہدے پر فائض رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انور جمال قدوائی کی قیادت میں انھیں سائنسی صحافت کو مقبول بنانے کے سلسلہ میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی تو اس کے بعد ان کے نام کے ساتھ’ ڈاکٹر‘ کا اضافہ ہوا۔گلزار دہلوی نے بحیثیت شاعر دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں کا دورہ کیا۔ ان میں یوروپ، مشرق بعید، وسط ایشیاء، روس، عرب اور امریکہ شامل ہیں۔ ان مشاعروں میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی اور انھیں انعام واعزاز سے نوازا گیا ۔ گلزار دہلوی بیان کرتے تھے کہ جب ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو پہلی بار سعودی عرب گئے تو انھیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یوں تو گلزار دہلوی نے اپنی زندگی میں کئی تنظیمیں اور انجمنیں قایم کیں ۔ مثال کے طور پر 1946 میں ادارہ نظامیہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء ، 1947میں انجمن تعمیر اردو، 1971 میں نیشنل رائٹر ایسوسی ایشن،1984 میں ڈاکٹر سیف الدین میموریل کونسل، 1989 میں آل پارٹی سینٹرل یوتھ اردو کونسل کے نام شامل ہیں، لیکن جو انجمن آخری وقت تک قایم و دائم رہی وہ دراصل انجمن تعمیر اردو ہی تھی جو انھوں نے 1947 کے ایسے پرآشوب دور میں قایم کی تھی جب دہلی کی ادبی ، سماجی اور تہذیبی زندگی اجڑچکی تھی۔ انجمن تعمیر اردو کے سرپرستوں میں مولانا حفظ الرحمن ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی ، حکیم عبدالحمید اور میر مشتاق احمد جیسی شخصیات شامل تھیں۔ میر مشتاق احمد کو اس انجمن کا صدر بنایا گیا تھا۔ اس انجمن کی سرگرمیاں 1956 کے آس پاس اپنے شباب کو اس وقت پہنچیں جب تقسیم کے زخم مندمل ہونے لگے تھے۔ انجمن تعمیر اردو کی ایک خصوصی نشست 1958کے اوائل میں اردو بازار میںکٹرہ نظام الملک میں اس مکان میں منعقد ہوئی جس میں مجاہدآزادی حافظ علی بہادر خاں (ایڈیٹر ہفتہ وار’ دور جدید‘) کا دفتر تھااور خود ان کی قیام گاہ بھی تھی۔اس کے بعد انجمن تعمیر اردو کی ہفتہ واری نشستوں کا سلسلہ ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ ارونا ہال ، اردو بازار میں اس جگہ ہونے لگاجو عرف عام میں میر مشتاق احمد کا کمرہ کہلاتا تھا اور جہاں بعد کو میرصاحب نے جنتا کوآپریٹیو بینک قایم کیا۔ یہ شعری اور تنقیدی نشستیں پابندی کے ساتھ سترہ اٹھارہ سال تک اس وقت تک چلتی رہیں جب تک ایمرجنسی کے زمانے میں وہاں بلڈوزر نہیں چل گیا۔ اس بلڈوزر نے نہ صرف جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کلچر کا صفایا کردیا بلکہ پورے اردو بازار کی ادبی اور تہذیبی فضا کو بھی تہہ و بالا کردیا۔اس خلفشار سے پہلے انجمن تعمیر اردو کی مخصوص نشستیں اردو بازار میں وہ رنگ جماگئیں، جو ہمیشہ یاد رہے گا۔گلزار دہلوی کی بدولت انجمن کی ان نشستوں میں ادب کی دنیا کی ہر محترم اور معتبر شخصیت نے ان محفلوں کا وقار بڑھایا۔ علامہ زار دہلوی، خار دہلوی، طالب دہلوی، حافظ علی بہادر خاں،گوپی ناتھ امن، انور صابری جیسی برگزیدہ شخصیتیں پابندی کے ساتھ ان نشستوں میں شرکت کرتیں اور ان نوجوان قلم کاروں کا حوصلہ بڑھاتیں جو تنقیدی نشستوں میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات پیش کرتے تھے۔ یہ گلزار دہلوی کا دم ہی تھا کہ انجمن تعمیر اردو کی ان نشستوں میں جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، شکیل بدایونی ، ساغر نظامی ، پروفیسر عبدالقادر سروری، پروفیسر محی الدین قادری زور، قاضی عبدالودود، فیض احمد فیض ،مولانا امتیاز علی عرشی، سجاد ظہیر، خواجہ غلام السیدین، مسعود حسین رضوی ادیب، سلام مچھلی شہری، ماہر القادری، پروفیسرآل احمد سرور، سید احتشام حسین، عصمت چغتائی، بیگم صالحہ عابد حسین، علامہ انور صابری، بسمل سعیدی اور عمیق حنفی جیسی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ پاکستان سے جو دانشور اور ادیب ہندوستان آتے تھے ، گلزار دہلوی ان کی بھی انجمن کی انہی محفلوں میں پذیرائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کا بیان ہے کہ ” 1975 کے بعد دہلی میں وارد ہونے والے ادیبوں کو چھوڑ کروہ تمام نوجوان ادیب اور شاعر جو مختلف مسالک فکر سے تعلق رکھتے انجمن تعمیر اردو کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے۔ ادبی تربیت ، نکتہ سنجی، نکتہ شناسی،سخن سنجی اور سخن فہمی کا جو سامان ان نشستوں نے مہیا کیا، اس سے ہماری نسل کے کتنے ہی نوجوانوں نے فائدہ اٹھایا۔ آج بھی گلزار صاحب کی انجمن تعمیر اردو تو زندہ ہے لیکن اس کا شیرازہ بالکل اسی طرح بکھرچکا ہے، جس طرح شہردہلی کے جغرافیہ اور اس کی تہذیب کا۔اس کے بعد نوجوانوں کی ادبی تربیت کا ایسا کوئی دوسرا مرکزدلّی میں دکھائی نہیں دیتا۔“
انجمن تعمیر اردو سے گلزار دہلوی کوقلبی لگاو تھا ۔ انھوں نے اسے ایک زندہ جاوید حیثیت عطا کی تھی۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے بعد بھی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ انھوں نے راقم الحروف کو کئی مرتبہ اس طرف متوجہ کیا ، لیکن میری صحافتی مصروفیات اس میں حائل رہیں۔اس کا اندازہ ان کے اس خط سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے 15 مئی 2016 کو خاکسار کے نام لکھا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں:
مائی ڈئیر میاں معصوم مرادآبادی سلمہ
زندہ پائندہ و تابندہ باد، دعائے نظامی وخسروی۔ سلامت
عزیزمن ، کبھی ہمارے گھر بھی ادبی دوستوں کو لے کر آو¿۔ ایسے اجنبی نہ بنو،
91 سال کے بزرگ اردو کوجس کی 82سال کی اردو کی تبلیغ وجہاد اور ادبی خدمت، اور قومی یکجہتی میں خصوصاًمسلم دوستی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے والے خیر خواہ کو بھول جاؤگے۔
70 سال سے انجمن تعمیر اردو چلا رہا ہوں۔ اب آؤ اور آگے 70 سال تم اس انجمن کو چلاؤ۔ 1946سے 1972 تک جب کہ کوئی دوسری انجمن ، اکاڈمی ، انسٹی ٹیوٹ، بزم یا مرکز نہیں تھا، صرف مجھے ہی انجمن کی جانب سے لڑنا مرنا پڑا تھا۔ اب مجھے مستقبل کے لئے اردو کا مجاہد درکار ہے۔ کچھ دوستوں کو لے کر آجاو۔اللہ توفیقات میں اضافہ کرے۔
چشم براہ، منتظر جواب۔
گلزار دہلوی عفی عنہ یادگار اسلاف
اردوکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندومسلم یکجہتی کا جذبہ محض نظر یاتی طور پرگلزار دہلوی کے مزاج کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔رمضان کے مہینے میں وہ ہر سال ایک روزہ رکھ کرمشترکہ تہذیبی قدروں کو تقویت پہنچاتے تھے۔ یہ روزہ عام طور پر الوداع کا ہوتا تھا ۔اسے انھوں نے ”روزہ رواداری “ کا نام دیا تھا۔ ان کی روزہ کشائی کے لئے احباب باقاعدہ چندہ کرکے ایک شایان شان افطار پارٹی منعقد کرتے تھے۔ گلزار صاحب کا کہنا تھا کہ اس روزہ رواداری کی شروعات انھوں نے حضرت مولانا احمد سعید مرحوم کی ہدایت پر کی تھی ،جسے انھوں نے بعد میں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کاایک حصہ بنالیا۔ گلزار صاحب کے اس ’ روزہ رواداری ‘ میں ہر برس بلا تفریق مذہب و ملت اہم شخصیات نے شرکت کی اور ان کے اس جذبہ خلوص کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی۔
سائنس اور شاعری
عام طور پر شاعری اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کے رسیا سائنس سے دور رہتے ہیں اور جو سائنس کے دل دادہ ہیں ، وہ شاعری سے دور کی راہ ورسم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گلزار دہلوی کا ہنر تھا کہ انھوں نے سائنس اور شاعری کے درمیان ایک پل تعمیر کرلیا تھا جس پر وہ بے تکان سفر کیا کرتے تھے۔ گلزار دہلوی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماہنامہ ”سائنس کی دنیا “ کی ادارت کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے ساتھ ہی وہ شعر وشاعری کا سفر بھی طے کرتے رہے۔ وہ شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود ایک سائنسی جریدے کے کامیاب مدیر ثابت ہوئے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ قطب شمال اور قطب جنوب قیامت کے دن ہی سہی مگر آپس میں مل سکتے ہیں، لیکن سائنس اور شعر وادب کبھی نہیں مل سکتے۔لیکن گلزار دہلوی نے مغربی مفکرین کے اس خیال کو اپنے عمل سے غلط ثابت کر دکھایا۔ ایک بار کچھ دوستوں نے گلزار صاحب سے پوچھا کہ ” سائنس حقائق کی تحقیق کرتا ہے اور ادب حقائق کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے، لہٰذا ایک شاعر وادیب کو’ سائنس کی دنیا ‘ کی کمان سنبھالنے میں دشواری پیش نہیں آئی؟ “ یہ سن کر گلزاردہلوی نے کہا کہ” ارے بھئی، سائنس میں بھی تو خورد بین سے چھوٹے چھوٹے ذرات ، خلیوں اور جراثیم کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے تاکہ سائنسی تحقیق آسانی سے کی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں سماجی، معاشی، ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی معاملات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین ، سامعین اور ناظرین کو دین و دنیا کا آئینہ آسانی سے دکھایا جاسکے، اس لئے سائنس اور ادب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔“
خواجہ احمد عباس نے سائنس اور شاعری کے حوالے سے اردو ہفتہ وار ’ بلٹز‘ میں ان پر باقاعدہ کالم لکھا ۔ اس کا عنوان تھا ” سائنس اور شاعری“۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ” اردو میں ’سائنس کی دنیا‘ سارے برصغیرمیںاپنی نوعیت کا واحداور بے مثل رسالہ ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ایک شاعر اور دانشور کی زیر ادارت نکلتا ہے۔ یہ شاعر اپنی لگن اور اردو میں سائنس کی واقفیت کی وجہ سے اس کے بانی ہیں اور اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت کے کتنے ہی اردورسالے ملک میں نکلتے ہیں، جن میں بہ آسانی ایک مشہور ادیب وشاعر کو جگہ مل سکتی ہے۔ مگر اردو کوسائنس کے علوم سے مالا مال کرنے کا یہ جذبہ اور کوشش ان کے ہی حصے میں آئی، جس کا انھوں نے لاجواب حق ادا کرکے دکھایا۔ یہ شاعر ہیں علامہ پنڈت زار دہلوی (یادگار داغ) کے صاحب زادے پنڈت گلزار زتشی دہلوی، جو کہ ساٹھ برس کے ہونے پر بھی خوب رو، جامہ زیب صاحبزادے معلوم ہوتے ہیں۔ نوجوانی ان کے سرخ وسفید چہرے پر لکھی ہوئی ہے۔حال ہی میں اودے پور کے ایک مشاعرے میںوہ نوجوان ترین شاعر معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ وہاں دس بارہ ان سے کم عمر شاعراور بھی موجود تھے، مگر گلزار صاحب باتوں کے انداز سے، پڑھنے کے اسٹائل سے اور اپنے خیالات کے باغیانہ اسلوب سے نوجوان ہی لگتے تھے۔“
خواجہ احمد عباس نے اردو ’ بلٹز‘میں یہ کالم اب سے کوئی 34 برس پہلے لکھا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلزار دہلوی 94 برس کی عمر تک اسی طرح تروتازہ رہے اور انھوں نے اس عمر میں بھی کورونا جیسے موذی مرض کو ہرایا تھا مگر اس کے چند روزبعد ہی وہ ہم سے رخصت ہوگئے ۔