عنادلِ باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

پروفیسر اختر الواسع
ایک ایسے وقت میں جب اسلام اور مسلمان ساری دنیا میں اغیار کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں، یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ مسلمان جس طرح مملکتِ خدا داد یعنی پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت، عناد، اور فساد کا سبب بنے ہوئے ہیں، اس میں انہیں کیا واقعتا باہر سے کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ پاکستان میں ابھی حال ہی میں مسلمانوں کے ایک مذہبی فرقے کے خلاف جس طرح ایک جلوس نکالا گیا، اس فرقے کی عبادت گاہ پر پتھراؤ ہوا، جس طرح نعرے بازی اور دشنام طرازی ہوئی، اس سے ہر اچھے اور سچے مسلمان کا دل گرفتہ ہونا، شرم سار ہونا اور فکر مند ہونا لازمی ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس خطۂزمین پر ہو رہا ہے جسے اسلام کے نام پر ایک مذہبی مملکت کے طور پر حاصل کیا گیا تھا، جس کی تخلیق کے نتیجے میں پہلے برصغیر ہند کے دو ٹکڑے ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، کتنی ماؤں کی کوکھ اجڑی، کتنی بہنوں کا سہاگ چھن گیا، کتنی بیٹیوں کو اپنی عصمت و عفت گنوانی پڑی، کتنے معصوم بچے یتیم و یسیر ہو گئے اور یہ نو کشیدہ سرحد کے دونوں پار ہوا۔ اور دونوں طرف سے یہ سب کچھ شرمناک حد تک مذہبی جنو ن کے نام پر ہوا۔ پھر اس نوزائیدہ مملکتِ خدا داد میں لسانی تعصب، معاشی استحصال، سیاسی امتیاز کا وہ کھیل ساری دنیا نے دیکھا جس کے نتیجے میں یہ دو لخت ہوگئی لیکن اس سے قبل بھی انسانی جانوں کی وہ ناقدری دیکھنے کو ملی جس نے انسانیت کو سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔
پاکستان میں ایک بار پھر فسطائیت، مذہبی منافرت اور گروہی عصبیت کا وہ گھناؤنا کھیل شروع ہو گیا جو نہ صرف پاکستان کی سیاسی صحت اور اس کی سالمیت کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی سارے جنوبی ایشیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے۔
اسلام میں بلا شبہ کئی فقہی مذاہب بھی ہیں اور مختلف مسالک بھی۔ اور یہ سب اسلام کے جمہوری مزاج اور کردار کے آئینہ دار ہیں۔ اسلام میں اختلاف کو خیر اُمّت کہا گیا ہے۔ توحید، رسالت، آخرت وہ بنیادی عقائد ہیں جن پر مسلمانوں میں چہار دانگ عالم میں کوئی اختلاف نہیں، نماز، زکوٰة، روزہ اور حج پر سب یکساں طور پر متفق ہیں۔ اگر ان کی ادائیگی میں کہیں کوئی تھوڑا اختلاف ہے تو وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اللہ غریق رحمت کرے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کو جنہوں نے ’خطباتِ بہاولپور ‘ میں ایک جگہ اس کی بڑی لطیف تشریح اور وضاحت یوں کی ہے کہ ”اللہ کو اپنے آخری اور محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا اتنی پیاری تھی کہ کسی نہ کسی فرقے اور مسلک کے ذریعے اسے قیامت تک کے لیے دوام بخش دیا ہے“۔ ہماری کیسی محرومی ہے کہ ہم اپنی طاقت کو کمزوری میں بدلنے اور اپنے حسنِ عمل کو بدصورت بنانے پر تلے ہیں۔
اسی بیچ مصر کے سابق مفتیِ اعظم، مشہور عالم دین اور شیخ الازہر احمد الطیب کا ایک ٹی وی، انٹرویو بھی سامنے آیا اور خاصا وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے سنی اور شیعہ فرقوں کے بیچ اختلاف کو اسی طرح معمول کے مطابق قرار دیا ہے جیسا کہ سنی مذاہب فقہ میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مصر کے ایک جید عالم، بڑے فقیہ، اور دینی سربراہ شیخ احمد شلتوت کے اس فتوے کا یہ حوالہ دیا جس میں انہوں نے سنی مذاہب فقہ کی طرح فقۂ جعفری کو بھی جائز قرار دیا تھا۔ آج عالم اسلام کو اسی موقف کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
اختلاف جمہوریت کی روح بھی ہے اور اس کی اساس بھی اور یہ ہی اسلام کا اختصاص بھی ہے اور جوہر بھی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی وقت، مکتب فکر اور زبان میں الگ الگ قرآن کی تفسیریں لکھی گئیں اور تراجم کئے گئے اور شائع ہوتے رہے اور ایسا اس لئے ہوا کہ تعبیر اور تشریح میں ایک دوسرے سے اتفاق نہ ہونے کی صورت میں ہر مفسر اور مترجم نے اپنے انداز سے منشاء الٰہی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ اسی طرح ایک فقیہ نے ہی دوسرے فقیہ سے اختلاف نہیں کیا بلکہ ایک ہی فقہی مذہب میں الگ الگ رائے پائی گئیں اور اس کی سب سے روشن مثال امام ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کا وہ اختلاف ہے جو اسلام کے زندہ، متحرک اور فعال ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ لیکن متقدمین کی اعلیٰ ظرفی، وسعت ِ قلبی اور کشادہ ذہنی ایسی تھی کہ انہوں نے اس اختلاف کو عزت و حرمت ہی عطا کی، کفر کا ہتھیار کبھی نہیں بنایا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ملوکیت مسلمانوں میں موجود تو رہی پر وہ کبھی دین کے دائرے میں قبولیت نہ پا سکی اور اقتدار کو بچائے رکھنے کے لیے ملوکیت کے کار پردازوں کی سازشیں تھیں جنہوں نے مذہب میں بھی رخنہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مجھے اس موقع پر خلیفۂ ثالث حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شورش کے درمیان باغیوں کی سر کوبی کے لیے طاقت کے استعمال پر اپنے حامیوں کے مشورے کے جواب میں یہ قول کبھی نہیں بھولتا کہ” اگر ایک دفعہ مسلمانوں کے خلاف میری تلوار نیام سے باہر آگئی تو پھر مسلمانوں کی تلواریں کبھی ایک دوسرے کے خلاف نیام میں واپس نہیں جائیں گی۔“ اسی طرح مجھے ایران کے انقلابی دانشور، ماہر عمرانیات اور ایرانی شہنشاہیت سے نبرد آزما رہنے والے اور اس کے نتیجہ میں اپنی جان دینے والے ڈاکٹر علی شریعتی کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ”اے ایرانیوں! شیعت صفوی کو چھوڑ کر شیعت علویؓ کو اختیار کرو“۔
آج اسلامی دنیا جس طرح سر بہ گریباں ہو کر ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو رہی ہے، سیاسی مفادات کی بار آوری کے لیے اپنو ں کا خون بہانے میں اسے کوئی تکلف نہیں ہو رہا ہے ایسے میں ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے اور رسوائی بھی۔مزید صراحت کے لیے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج مشرق وسطیٰ میں یمن، شام، لیبیا اور صومالیہ جس آگ میں جل رہے ہیں اور اس خطے کے دوسرے ممالک بھی جس بحران سے دو چار ہیں اس آگ کو بجھانے اور دوچار بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے نہ کہ نفرت، تشدد اور کشاکش کو مزید آگے بڑھانے کی۔ افسوس یہ ہے کہ عرب لیگ ہو یا او آئی سی، سب عزم معطل بنے ہوئے ہیں اور عام مسلمان بے بس و لاچار کی حیثیت سے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔
ہم نے اسی کالم میں پہلے بھی دکھے دل کے ساتھ یہ لکھا تھا اور دل پر پتھر رکھ کر آج پھر اسے دوہرا رہے ہیں کہ اسپین میں مسلمانوں کا زوال اسی تفرقے، تعصب، منافرت اور عناد کے باعث ہوا۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم مسلمانوں کے زوال کی اسپین کی تاریخ کو دوہرانا چاہتے ہیں یا نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر،ؓ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت خالد ؓبن ولید اور امام حسینؓ کی طرح اسلام کی سر بلندی کا پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔
بات ہم نے پاکستان میں نکلنے والے زہر افشانی کرتے ہوئے، مذہبی جنون کا شکار لوگوں کے ایک جلوس سے کی تھی۔ پتہ نہیں وہاں کون سی قوتیں سرگرم ہیں جو تکفیر کا کاروبار کر رہی ہیں۔ مسلم سماج کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ دینے پر آمادہ ہیں اور خود پاکستان کے وجود کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ کیسی شرمندگی ہوتی ہے جب مسلمانوں کے بدخواہ یہ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کا مزاج جنگ جو، ان کی طبیعت میں تنفر اور ان کا کردار جارحانہ ہے اور انہیں جب کوئی دوسرا نہیں ملتا تو یہ خود ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کیا ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک کعبے کو ماننے والوں کا یہی طرزِ عمل ہونا چاہئے؟ کیا قرآن کی ہدایت کے مطابق یہی اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے؟ کیا پیارے رسول سراپا رحمت جنابِ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی جو پہچان بتائی تھی کہ ”مومن جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے“، کیا یہی اس کی عملی تشریح ہے؟ کیا یہی تخلقوا باخلاق اللّٰہ ہے؟ ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو حاضر و ناظر جان کر اس پر سوچنا چاہئے۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)