پروفیسر اخترالواسع
ہندوستان جس سماجی کشاکش اور سیاسی کشمکش سے دو چار ہے اس میں اس لیے صورتحال اور بھی سنگین ہو گئی ہے کیونکہ ہم نے صبروتحمل کھو دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ قوتِ برداشت کو کھو چکے ہیں۔ وہ ملک اور سرزمین جو کبھی جنت نشان تھی اسے ہم سب جہنم کا نمونہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو ماضی گزیدہ بتانے والے خود ماضی کے نام پر انتقام لینے کے لیے ہر روز نئی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔
ہندوستان ان عظیم اور پرکشش ملکوں میں سے ایک ہے جو صدیوں سے انسانی کاروانوں کو اپنی طرف کھینچتے رہے ہیں اور فراق گورکھپوری کے لفظوں میں کہیں تو:
کارواں آتے گئے، ہندوستاں بنتا گیا
یہاں کی سرزمین کا خمیر آویزش سے نہیں آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹکراﺅ اور تصادم بالکل نہ ہوئے ہوں لیکن ہمارے ملک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں انہیں لوگوں کو یاد رکھا گیا جو امن و آشتی کے نقیب تھے۔ یہاں ہمیشہ ظلم و ناانصافی سے پرہیز کیا گیا اور ظالم، جابر، غاصب، نفرت اور عداوت کے پیکر اپنے لیے کوئی جگہ نہ بنا سکے۔ اقبال کی زبان میں کہیں تو ایبک و غوری کے معرکوں کے مقابلے خسرو کی شیریں بیانی نوائی ہمیں زیادہ بھاتی ہے لیکن اِدھر کچھ سالوں سے لوگ تاریخ کے تاریک اندھیروں سے نکال کر ان چیزوں کو نمایاں کر رہے ہیں جو لوگوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کر رہی ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ میں سب کچھ یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوتا اور رنگ پر اب جو نہ آئیں ان فسانوں کو چھیڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔
ہم نے گزشتہ کچھ دہائیوں سے نفرت کی جو فصل بوئی ہے، فرقہ واریت کی تیزاب سے اس کو سیراب کیا ہے اورجس کے نتیجے میں عناد و فساد کی کاشت ہمارے حصے میں آئی ہے۔ ہم بھارت ماں کا دم بھرتے ہیں، اس کا بھرم رکھنے کے دعویدار ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان تبھی ترقی کرے گا جب نفاق کی جگہ اتفاق سے کام لیا جائے گا۔ ہندوستان سے محبت کا مطلب صرف اس کے پہاڑوں، دریاؤں اور سونا اگلنے والے کھیتوں سے نہیں ہے بلکہ یہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ پیار اور محبت کا رشتہ بنانے اور نبھانے میں ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ہم آج اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں نہ کوئی حاکم ہے نہ محکوم بلکہ سب اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔ جو بھی اس سرزمین پر پیدا ہوا ہے،یہاں کے کھیتوں کی پیداوار کھاتا ہے، دریاؤں کا پانی پیتا ہے، یہیں کی مٹی پر جلایا یا دفنایا جاتا ہے علی گڑھ کے پیرِ دانا سرسید کے لفظوں میں وہ ہندوستانی ہے اور اس کے ساتھ کسی کو کسی طرح کا بھید بھاؤ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی دھرم کا مول سار بھی ہے جسے وسودھیو کٹمبکم (تمام مخلوقات ایک کنبے کی مانند ہے) کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی روایت عورت کی عزت، کمزور کی مدد اور مظاہرِ فطرت کی حفاظت سے عبارت ہے۔ یہاں ستیہ (حق) کی پرستش ہوتی ہے۔ اس لیے اب یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم تاریخ کے گلیاروں میں گُم ان سچائیوں کو عام کریں جو پردۂ گمنامی میں چھُپا دی گئی ہیں۔ اس ملک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں دنیا کی تمام مذہبی روایات یکجا ہو گئیں ہیں اور اس طرح گھل مل گئی ہیں جیسے دودھ میں شکر، ہوا میں خوشبو اور آنکھ میں کاجل مزے، حسن اور ماحول کو انتہائی پرکشش بنا دیتے ہیں۔ ہندوستان میں یہودی اپنی مذہبی روایت کے آغاز کے فوراً بعد ہی آ گئے تھے۔ سیرین آرتھوڈاکس چرچ کیرالہ میں پہلی صدی عیسوی میں ہی تعمیر ہو گیا تھا۔ ایران سے پارسی مقدس آگ کو لے کر گجرات کے ساحل پر ساتویں صدی عیسوی میں ہی آ گئے تھے۔ ہندوستان جہاں سے اسلام کا رشتہ جنت سے اس سرزمین پر نزول آدمؑ سے جڑا ہوا اور جہاں سے رسول اکرم کو ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں اور کیرالہ میں پہلی مسجد کی تعمیر غمانِ اغلب یہ ہے کہ حیاتِ نبوی میں ہی تعمیر ہو گئی تھی۔ ہندو مت کی سناتن پرمپرا ہو یا بدھ مت کا اسٹھانگ مارگ، جین مذہب کی پرم اہنسا کی تعلیم اور بعد میں سکھ مذہب کا جنم اور عروج یہ ہمارے لیے بحیثیت ہندوستانی کے سرمایۂ افتخار ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی عظمت کو اپنے ہاتھوں سے مٹا کر ذلت کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ دیش دیوی دیوتاؤں کا دیش ہے۔ یہاں کی سرزمین پیروں اور سنتوں کی عرفان اور بھکتی کی امانت دار ہے۔ یہاں وصل خواہی اور صلح کل کا پیغام دیا جاتا رہا ہے۔ اس سرزمین پر ضروری ہے کہ ہم مانیں، جانیں اور یقینی بنائیں کہ:
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
اس لیے آج ہر اس ہندوستانی کی جو محب وطن بھی ہے اور انسان دوست بھی، یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فکری، نظری اور عملی سطح پر ان تمام روایتوں کا احیاءکرے جو کہ عزت و سربلندی کی ضامن رہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کو مسلمانوں کی مذہبی قیادت میں روز اوّل سے دارالحرب کی جگہ جو دارالصلح اور دارالمعاہدہ کا درجہ دیا۔ چچ نامے اور البیرونی کی کتاب الہند سے لے کر مسلمانوں کے تمام فرقوں کے مذہبی رہنماؤں نے ہندوستان کی شرعی حیثیت پر جو روشنی ڈالی ہے اور وطن سے محبت کو جس طرح جزو ایمان قرار دیا ہے اس کو عام کیوں نہ کیا جائے۔ امیر خسرو نے ہندوستان، اس کی ہندو مذہبی روایتوں، برہمنوں کے علم و فضل، یہاں کے رہنے والوں کے رنگ و روپ، موسم، ہوا اور شجر وحجر کے جو گُن گان گائے ہیں ان کو عام کیوں نہ کیا جائے۔ ہندوستان میں غیر مسلموں کو جو درگاہوں، خانقاہوں اور صوفیائے کرام سے عقیدت ہے اس کو کیوں نہ آشکار کیا جائے؟ اسی طرح شیخ عبدالقدوس گنگوہی، عبدالرزاق بانسوی، مولانا حسرت موہانی اور حضرت خواجہ حسن نظامی کی شری کرشن سے وارفتگی کو سامنے کیوں نہ لایا جائے؟ اسی طرح علامہ اقبال سمیت اردو کے مسلمان شعراء نے مریادا پروشوتّم شری رام اور بابا گرونانک دیو کو جس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اس کی چرچا کیوں نہ ہو؟ اسی طرح غیر مسلم فلاسفہ ، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے جس طرح اسلام کا انتہائی محبت، عقیدت اور معروضیت کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے لوگوں کو کیوں نہ واقف کرایا جائے؟ عربی، فارسی اور اردو زبان و ادب کی ارتقاء اور توسیع میں غیر مسلموں کی خدمات کو کیوں نہ دہرایا جائے؟ اسی طرح مسلمانوں نے ہندی زبان وادب کے جنم سے فروغ تک میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کو کیوں نہ نمایاں کیا جائے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور ہر مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ویسے بھی سمواد کے لیے ہوتی ہیں وِواد کے لیے نہیں۔ ہندوؤں اور دیگر غیر مسلموں نے قرآن اور جناب رسول اللہ کے لیے جس احترام، شغف اور تعلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے نثر ونظم میں لکھا ہے وہ کیوں نہ پھر چھاپا جائے۔ اسی طرح مسلمانوں نے ہندوؤں کے مذہبی صحائف جیسے رامائن، مہا بھارت، گیتا اور اُپ نشدوں کے تراجم کئے اور جنہیں داراشکوہ نے اپنی مذہبی بصیرت سے منتہائے کمال کو پہنچا دیا ان کا ایک بار تعارف کیوں نہ کرایا جائے؟
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ باتیں دیوانے کی بڑ، جیسی باتیں لگیں لیکن آج کے عناد اور فساد کے ماحول میں صرف یہی ایک تریاق ہے۔ گندھک کے تیزاب کی حِدّت کو آپ نمک کے تیزاب کی شدت سے تحلیل نہیں کر سکتے۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ان کی شدت اور حدت کو کم کرنے کے لیے ان پر پانی ڈالا جائے۔ بلاشبہ یہ کام صبر آزما بھی ہے اور اس کے لیے وقت بھی درکار ہوگا لیکن ہندوستان کو فرقہ وارانہ عفریت اور بغض و عناد کے گھنگھور اندھیروں سے بچانے کا یہی طریقہ ہے۔ بھارت ماتا غالب کے لفظوں میں اسی کی تمنّائی ہے اور ہمیں اس کے ساتھ خود بھی اس کا آرزومند ہونا چاہیے کہ:
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدراور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)