معراج خالد ارریاوی
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر ایک کو اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے عطا کردہ مدت حیات پوری کرکے دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرنا ہے۔ یہی زندگی کی سچائی ہے۔ ازل سے اس دنیا میں آمد و رخصت کا سلسلہ جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ لیکن جو لوگ زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہو جاتے ہیں اور جذبہء خدمت خلق کے ذریعہ عوام الناس میں اپنی خدمات کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں یقینا ایسے لوگ تا دیر زندہ رہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں ایک نام نوجوان صحافی، سماجی کارکن، کامیاب مدرس، ملت ٹائمز ہندی ورژن کے ایڈیٹر، سیتامڑھی ٹائمز کے چیف ایڈیٹر برادرم قیصر صدیقی رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ کا ہے ، جنہوں نے کم عمری میں بہت سارے شعبہء حیات میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کی پیدائش سیتامڑھی کے ایک گاؤں میں جون 1996 کو ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی مدرسہ رشیدیہ میں حاصل کرنے کے بعد اسکول کا رخ کیا ۔ رائےپور ہائی اسکول سے میٹرک اور سائنس سے انٹر اور گوینکا میڈیکل کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایم اے میں داخلہ لی اس کے بعد مانو سے ڈپلومہ ان جرنلزم کورس کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں ایک کال سینٹر پر 9 مہینے تک اپنی خدمات انجام دی ۔ اس کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہی ملت ٹامز کے ہندی ورژن کی داغ بیل ڈالی اب تک ملت ٹائمز صرف اردو زبان میں خبروں کی تشہیر کر رہا تھا۔ہندی آنے کے بعد بہت جلد مقبولیت حاصل ہوئی۔ قیصر صدیقی ہی کی محنت تھی جو انہوں نے ملت ٹائمز ہندی کے لئے ایک الگ ٹیم تیار کی اور ملک بھر میں کامیابی کا پرچم لہرایا ۔ ضرورت تھی ملکی سطح کی پائیدان سے نیچے اتر کر علاقائی سطح پر سماجی مسائل کو منظر عام پر لانے کی جس کیلئے انہوں نے سیتامڑھی ٹائمز نامی ویب پورٹل اور یوٹیوب چینل کی شروعات کی
قدم چوم لیتی ہے خود بڑھ کے منزل
مسافر اگر اپنی ہمت نہ ہارے
مرحوم اپنے مشفق سرپرست بڑے بھائی مولانا شمس تبریز قاسمی اور ٹیم کی حوصلہ افزائی سے مزید ہمت اور حوصلے کے ساتھ میدان درس و تدریس میں بھی انٹری کی جس کا مقصد گاؤں کی ناخواندگی اور جہالت کی تاریکی کو دور کرنے کیلئے علم کی ضیاپاش کرنیں بکھیرنا تھا مرحوم سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے تھے لاک ڈاؤن کے موقع پر جہاں غریبوں کے پیٹ بھوک سے جل رہے تھے اپنے حلقہ احباب میں چندہ کرکے ان گھروں میں چولہا جلانے کا کام کیا گاؤں بھر میں بیماروں کو مفت انجکشن لگانا پانی سلائنگ کرنا چھوٹے موٹے مریضوں کیلئے دوائی تجویز کرنا خاص مشغلہ تھا لیکن افسوس شجرہائے سایہ دار کو زندگی کے دو جھٹکے نے ہم سے دور بہت دور کردیا
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
24 اکتوبر کی صبح معراج احمد نامی دوست کے گھر پر بات چیت کر رہے تھے اچانک ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا کلمہ پڑھنے لگے بے ہوشی طاری ہوگئی پھر دوسرا جھٹکا لگا آناً فاناً سیتامڑھی کے ایک اسپتال میں ایڈمت کروایا لیکن جانبر نہ ہوسکے اور ہم محبین کو داغ مفارقت دیکر اللہ کے پیارے ہوگئے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مرحوم کے بڑے بھائی مولانا شمس تبریز قاسمی نے اس خبر کی تصدیق فیس بک پر کی بدن پر سکتہ طاری ہو گیا ” لیکن خدا کی مرضی کے سامنے کسی کی کیا مجال ”
اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور صدقہء جاریہ بنائے آمین
موت ایسی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے