مصر میں اردو ادب

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فیکلٹی آف آڑٹس، عین شمس یونیورسٹی قاہرہ ، مصر)

مصر میں اردو زبان میں تخلیقی ادب کے سلسلے میں تو میں کہہ سکتی ہوں کہ یہاں کے لوگوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان کی زبان عربی ہے اس لئے یہاں ادبی تصانیف کے معنی میں کم ملتے ہیں۔ مصر کی سات جامعات میں اردو ادب میں نہایت قابلِ قدر تحقیقی کام ہو رہا ہے، حالی اردو تحقیق کے فروغ میں یہ جامعات ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ ان میں جامعہ الازہر، جامعہ القاہرہ اور جامعہ عین شمس کے تحقیقی مقالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مصر میں اردو ادب میں تحقیق کا امتیاز یہ ہے کہ کسی ادبی تخلیق کا اردو سے عربی میں ترجمہ کرنا ہے۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ متن کی تنقید بھی مرکزی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے۔ تہذیبی نظریات و رجحانات اور ثقافتی و سماجی صورتحال کے حوالے سے ادب اور ادیبوں کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔
ان اردو شعبوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے ایسے تحقیقی مقالے لکھوائے گئے ہیں جو اردو میں تحقیق کی رفتار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید اور معاصر اردو ادب کے تحقیقی کام میں ان مقالوں کا علمی وزن بے حد وسیع ہے۔ ان شعبوں میں اردو زبان وادب کے مختلف رجحانات پر خاصا لکھا گیا ہے۔
اگر ہم اردو زبان وادب کے سلسلے میں حالی تحقیقی رجحانات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ رجحانات ان موضوعات پر ایک اہم مقام رکھتے ہیں : ۱۔ ادب کی تاریخ: اس میں ادیبوں کی زندگی، ان کی زندگی میں تاثیر وتاثر کے پہلو، متن کے خصائص، ادبی مسائل، ادبی مظاہر اور میلانات اور ادب کے ادوار شامل ہیں۔ ۲۔ شعری اور نثری متن: اس میں کلاسیکی اور جدید شاعری اور اس کے موضوعات، افسانوی اور غیر افسانوی ادب جیسے ناول، افسانہ، ڈرامہ، مضمون، وغیرہ شامل ہیں۔ ۳۔ نظریہء ادب: اس میں ادبی اصناف شامل ہیں۔ اور تقابلی ادب۔
مصر میں اکثر ریسرچ اسکالرز ریسرچ کے شرائط اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تحقیقی موضوع کے سلسلے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ اساتذہ شعبہ اردو میں ریسرچ اسکالروں سے نئے نئے موضوعات پر معیاری تحقیقی مقالے لکھواتے ہیں۔ ضروری ہے کہ کسی یونیورسٹی میں اس سے پہلے اس موضوع پر یا اس سے ملتے جلتے موضوع پر بھی کوئی مقالہ نہ لکھا گیا ہو۔ 
کسی بھی موضوع پر مقالہ سپرد قلم کرنے سے پہلے وہ اس موضوع سے متعلق تمام ضروری معلومات اور مواد جمع کر کے ان پر غور وفکر کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے ذوق اور شعورِ تنقید کی مدد سے اس موضوع سے متعلق جو تحقیقی و تنقیدی نتائج سامنے لاتے ہیں۔ ان میں جدت اور تازگی تو ہوتی ہی ہے۔ 
یہ بات نظر آتی ہے کہ تحقیق کے عنصر کے ساتھ ساتھ مقالوں کا ایک اہم پہلو سکالرز کی تنقید نگاری بھی ہے۔ ضرورت کے مطابق تحقیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ ان ہی مقالوں میں بہترین تنقید ملتے ہیں۔ ادبی کام کس اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ علامتی اسلوب میں، تجریدیت کی تکنیک یا میجک کی تکنیک میں۔ ہم جانتے ہیں کہ موضوع اور تکنیک پر نظر رکھنا ادبی کاموں کی تنقید کا اصل اور بنیادی جوہر ہے۔ اس کے علاوہ ان مقالوں میں ادیب کے برتاؤ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ادبی کام کی خوبیوں اور خامیوں کا بہترین تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
مصر میں ریسرچ سکالرز کا کمال یہ ہے کہ وہ پورا ادبی متن یا انتخابی نمونوں کا ترجمہ اردو سے عربی میں کرتے ہیں۔ اور تنقیدی تجزیوں کے ساتھ ساتھ مقالے میں متن سے شواہد اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریسرچ سکالر کو مقالے کے حقائق، اشارات، مقامات، اور شخصیات وغیرہ کے بارے میں حاشیہ لکھنا ضروری ہے۔
لیکن ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ تحقیقی مقالے کا مواد ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتا۔ ریسرچ کے لئے یہ کتابیں موجود نہ ہوتی جو تحقیقی اعتبار سے بے حد اہم ہیں جیسے ادبی متن یا تخلیق سے متعلق خارجی مواد۔
مصر میں تحقیقی رجحانات کی موجودہ صورتحال کے منظر نامے میں یونیوڑسٹیوں کے اردو شعبوں میں جاری تحقیقی سرگرمیاں، بحیثیت مجموعی اطمینان بخش ہی کہی جائیں گی۔ مقالوں سے تحقیق و تنقید کے سرمائے میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ مقالوں کی نوعیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے افسانوی ادب پر توجہ دی ہے۔ اگرچہ شاعری اردو ادب میں اہم صنف کا درجہ رکھتی ہے اس پر تحقیقی مقالوں کی تعداد کم ہے۔ نثر میں تحقیق زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ تحقیق افسانوی ادب پر ہی ہوتا ہے۔ دوسرے درجے پر شاعری کا نمبر آتا ہے۔
آخر میں کہہ سکتی ہوں کہ مصر میں اردو زبان کی وسعت کا اندازہ لگانے میں اردو ادب کا تحقیقی و تنقیدی کام بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اردو ادب کے حوالے سے تحقیقی مقالے کثرت سے لکھے جا رہے ہیں۔ اردو ادب کا معیار بلند کرنے میں ان مقالوں کا بھی اہم کردار ہے۔ جو تحقیقی رجحانات کا سرمایہ سامنے آ چکا ہے وہ نہ صرف اپنی مقدار کے لحاظ سے بلکہ معیار اور کیفیت کے اعتبار سے بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مصر کی جامعات کے اردو شعبوں کا سب سے  اڑا کارنامہ اردو زبان وادب کی تحقیق کی شمع کو اس طرح روشن کرنا اور ادبی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہونا ہے۔ اردو زبان وادب کے فروغ کے لئے ریسرچ اسکالرز سرگرم ہیں۔ تاریخ اور اردو زبان وادب کی مختلف اصنافِ نظم ونثر میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے، ترجمے پر ان کا ارتکاز رہا۔ مصر میں اردو  زبان کی موجودگی سے لے کر اب تک ریسرچ اسکالرز کی جتنی بھی تحریریں سامنے آئی ہیں۔ اردو زبان وادب میں تحقیقی مقالوں کے فروغ کے لئے بیسویں صدی کے آخری نصف سے کوشش جاری ہے۔ یہ مقالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ موضوعاتی، اسلوبیاتی، ادبی اور فکری پہلوؤں کے تجزیہ و تحقیق کے حوالے سے بصیرت مندی ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ریسرچ اسکالرز نے اردو ادب میں مختلف ادبی رجحانات پر تحقیقی کام کیا۔ جو اکثر و بیشتر اردو کے تحقیقی مقالوں میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اکثر و بیشتر مقالوں میں سماجی و ثقافتی حقائق اور مسائل کے حوالے سے تحقیقی کام ہوتا ہے۔ مصر میں ریسرچ اسکالرز اردو ادب کی تحقیق نئے زاویوں سے کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ موضوع کو روشن کرنے کا رویہ اپناتے ہیں۔ اس کے علاوہ متن میں موضوع کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ تنقید کے بھی عناصر ملتے ہیں۔ اس لئے کہ نہ تو تحقیق تنقید کے بغیر وجود میں آتی ہے۔ اسکالرز نے اپنے گہرے ادبی ذوق سے کام لے کر اردو تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔
یہ راقم الحروف کی خوش قسمتی ہے کہ مصر میں صرف ایک ادبی تصنیف ہے وہ ہے: (سمندر ہے درمیاں) ایک نظموں کا مجموعہ جس کا سہرا راقم کے سر جاتا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں