کاروانِ اردو قطر کے زیر اہتمام ” کورونا مریض کی ڈائری “ کی رسم اجرا اور شعری نشست

دوحہ، قطر: 19/نومبر 2020 کی شام حقیقی معنوں میں ایک خاص شام تھی ۔ کورونائی حدود و قیود سے بوجھل ایک طویل مدت گزارنے کے بعد، دوحہ میں اردو زبان و ادب کے شیدائی پہلی بار ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے تھے ۔ مطلوبہ جسمانی مسافت اور دیگر احتیاطی تدابیر کی رعایت کرتے ہوئے تقریباً (50) افراد کی شرکت کے ساتھ یہ ایک یادگار اور تاریخی لمحہ تھا۔ اس خوبصورت اور باوقار تقریب کا اہتمام “کاروان اردو قطر” کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں نے دفنہ میں اپنی رہائش گاہ “شاہد منزل ” میں کیا تھا۔ کووڈ 19 کے سبب پوری دنیا میں 2020 کا سال جیسا گزرا ہے اس سے سبھی واقف ہیں ، پوری دنیا پر سکوت چھایا رہا اور زندگی ایک جگہ پر ٹھہر سی گئی۔ قطر نے جزوی لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر کو سختی سے نافذ کر کے اس وبا کا مثالی مقابلہ کیا ہے اور غالبا یہی وجہ ہے کہ وبا کی دوسری لہر کا یہاں کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔رب کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جلد از جلد اس وبا سے نجات دے ، آمین۔
19 نومبر کی اس تقریب میں “کاروان اردو قطر” کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں کی قرنطینی یادداشتوں پر مشتمل “کورونا مریض کی ڈائری ” کا اجرا دوحہ-قطر کی ہر دلعزیز شخصیت جناب حسن عبد الکریم چوگلے کے دست مبارک سے انجام پذیرہوا، اس پرمسرت موقع پر ان کے ساتھ اسٹیج پر معروف شاعر جناب عتیق انظر ،ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی اور سید شکیل احمد بھی موجود تھے۔پروگرام کے فارمیٹ کے مطابق سب سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت سے تقریب کا آغاز ہوا، جس کی سعادت “کاروان اردو قطر” کے فعال ممبر جناب محمد فاروق آسامی نے حاصل کی۔ اس کے بعد تقریب کے میزبان اور صاحب خانہ جناب محمد شاہد خاں نے معزز مہمانوں ، شعرا کرام اور تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا ۔کتاب “کورونا مریض کی ڈائری ” کے تعلق سے ایک قیمتی مضمون جناب عبید طاہر نے پیش کیا جو ریڈیو قطر اردو میں سینر پروڈیوسر اور دوحہ کی ایک معروف علمی و ادبی اور سماجی شخصیت ہیں۔
ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو
یہ رُت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی !
مذکورہ برمحل شعر سے اپنے مضمون کا آغاز کرتے ہوئے جناب عبید طاہر نے اپنے مضمون میں وبائی امراض کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا ، انہوں نے واضح کیا کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی معاشروں نے جن وباؤں کا سامنا کیا ، آج کی یہ وبا ان سے کس طرح مختلف ہے ، اس کے اثرات کتنے دوررس اور ہمہ جہت ہیں اور بنی نوع انسان کو اس کے مقابلہ میں کس طرح کا ریسپانس دینے کی ضرورت ہے ۔ مضمون نگار نے زیر تبصرہ کتاب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے “یہ ڈائری بارہ مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے گیارہ ایک ماہ کی طبی حراست یعنی قرنطینہ کے دوران قلمبند کیے گئے اور آخری آرٹیکل قرنطینی شہریت واپس لیے جانے کے بعد لکھا گیا جو اس صبر آزما ایک ماہ کے احساسات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ ان مضامین کی ادبی اور دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن میرے نزدیک ان کا سماجی مرتبہ زیادہ بلند اور قابل احترام ہے ،کیونکہ یہ مضامین جس وقت لکھے جارہے تھے ، اس یاسیت اور بے یقینی کے عالم میں ستارۂ سحری ثابت ہورہے تھے۔ نفسیاتی خوف کی وہ چادر جو عام لوگوں کے دل و دماغ پر طاری تھی، اس ڈائری کے ہر نئے صفحے کے ساتھ اس کے دھاگے کسمساکر ٹوٹتے جا رہے تھے”۔
تقریب میں مہمان اعزازی کی نشست پر جناب مولانا عطاء الرحمن صدیقی صاحب رونق افروز تھے ، آپ کا شمار دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فضلاء میں ہوتا ہے ، ہندوستان کے ایک مایہ ناز علمی اور مذہبی گھرانہ کے چشم و چراغ ہیں ، دو دہائیوں سے زیادہ مدت سے قطر میں مقیم ہیں اور پیشہ ورانہ مشغولیت کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے رشتہ استوار رکھا ہے، اردو شاعری اور دیگر اصناف ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں اورتحقیق و تصنیف کا ستھرا ذوق بھی پایا ہے ،اکثر اپنی گراں قدر تقاریر اورمضامین و مقالات کے ذریعہ دوحہ کے علمی و ادبی اور ثقافتی پروگراموں کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔اس تقریب میں بھی آپ نے “کورونا مریض کی ڈائری ” کی اہمیت اور اس کے سماجی سروکار پر مدلل گفتگو کی اور اس کے مصنف جناب محمد شاہد خاں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی مستقل مزاجی اور حوصلہ مندی کی ستائش فرمائی، موصوف نے شعرو شاعری اور ان سے متعلق سرگرمیوں پر بھی اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔
مہمان خصوصی جناب حسن عبد الکریم چوگلے کودعوت سخن دیتے ہوئےتقریب کے ناظم جناب سید شکیل احمد نے سہل ممتنع کے ممتاز شاعر انور شعور کے چار مصرعے پڑھے :
ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
نہ آئیں آپ تو محفل میں کون آتا ہے
جلے نہ شمع تو پروانے تھوڑی ہوتے ہیں
جناب حسن عبد الکریم چوگلےکی شخصیت دوحہ میں بے حد احترام اور اعتبار کی نظر سے دیکھی جاتی ہے ، وہ ایک کامیاب بزنس مین تو ہیں ہی، تعلیم اور سماجی خدمات کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کے کارنامے قابل تقلید ہیں ۔ اپنی تقریرمیں انہوں نے جناب محمد شاہد خاں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قرنطینہ کی حالت میں کوئی کتاب لکھنا یقینا بڑے حوصلہ کا کام ہے ، میں نےخود کورونا پازیٹیو ہو نے کے بعد تیرہ دن اسپتال میں اور پانچ دن قرنطینہ میں گزارے ہیں ،ان دنوں میں اپنے حواس مجتمع رکھنا اور کسی مفید سرگرمی میں مشغول رہنا آسان نہیں ہوتا ، میرا حال تو یہ رہا کہ فون پر کسی سے بات کرنا بھی زہر لگتا تھا۔ انہوں نے تمام شعرا اور سامعین کو بھی مبارک باد پیش کرتے ہوئے انہیں اردو کا محافظ قرار دیا ۔ تعلیم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے ذریعہ اپنے مسائل حل کرنےکا مشورہ دیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں اس وقت مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں ان سے وہ اپنی طاقت یا باتوں کے ذریعہ پیش نہیں پا سکتے ، ان کا مقابلہ صرف تعلیم سے کیا جا سکتا ہے۔تعلیم فراہم کرنے والے لوگوں اور اداروں کو اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ معیاری تعلیم فراہم کریں اس لئے کہ زندگی کے میدان میں مقابلہ بہت سخت ہے اور غیر معیاری تعلیم کے ذریعہ اس مقابلہ میں سرخرو ہونا ممکن نہیں ہے۔
تقریب کی صدارت قطر کے استاد شاعر اور کاروان اردو قطر کے بانی صدر جناب عتیق انظر نے فرمائی جوکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، قطر کے علاوہ ہندوستان کے باوقار مشاعروں اور ادبی پروگراموں میں آپ مسلسل شریک ہوتے رہتے ہیں۔ 2020 کے اوائل میں ہی آپ کا نیا مجموعہ کلام “دوسرا جسم” منظر عام پر آیا ہے جسے ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ آپ نے کورونائی وبا سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک بہت ہی نازک دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں ، ہم میں سے سبھی کسی نہ کسی درجہ میں اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں ، اس سے متعلق جو ضروری اور غیر ضروری پروپیگنڈہ کیا گیا اس نے عام طور سے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو بڑی اندوہناک اور غیر انسانی صورتحال سامنے آئی ہے ، مثلا بعض لوگوں نے اپنے اعزہ و اقارب کی میتوں کو دفن یا ان کی آخری رسوم ادا کرنے سے منع کردیا ۔ اسی طرح ایک قابل غور امر یہ بھی ہے کہ طبی علوم کی تمامتر ترقیات کے باوجوداس وبا سے بچاؤ کے لئے بھی، ابتداءً ہمیں روایتی طور طریقوں پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ پروگرام کے حوالہ سے آپ نے فرمایا کہ یہ ایک کامیاب اور بھرپور تقریب رہی، سبھی شعرا نے عمدہ کلام سے محظوظ کیااور از اول تا آخرپورا پروگرام بڑے مربوط انداز میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ “کورونا مریض کی ڈائری ” کے مصنف جناب محمد شاہد خاں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ شاہد خاں صاحب مصائب کو مواقع میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں اور یہ کتاب “کورونا مریض کی ڈائری ” بھی ان کے اسی ہنر کا ایک مظہر ہے۔ قرنطینہ کے اعصاب شکن ماحول میں بھی قلم اور کتاب سے رشتہ بنائے رکھنا واقعی بڑی ہمت اور استقلال کی علامت ہے ، اس دور میں تو معمول کے حالات میں لوگ کتابوں کے لئے وقت نہیں نکال پاتے جیسا کہ سعود عثمانی نے اپنے ایک شعر میں کس خوبی سے کہا ہے :
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
آپ نے سامعین کو اس طرف متوجہ کیا کہ سوشل میڈیا سے وقت نکال کر کتاب و قلم اور اس طرح کی ادبی محفلوں سے اپنا رشتہ باقی رکھیں، شکیل اعظمی کے ایک شعر کے ساتھ آپ نے اپنی صدارتی گفتگو مکمل فرمائی :
دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے
سبھی سے پیار کرو زندگی بہت کم ہے
اس تقریب کی ایک مابہ الامتیاز خوبی جناب سید شکیل احمد کی کامیاب اور خوبصورت نظامت تھی۔ موصوف ایک پختہ شاعر، صحافی ، قلم کار اور مقرر ہیں۔ دوحہ کے ادبی افق پر ان کا وجود یہاں کی ادبی کہکشاں میں ایک روشن ستارہ کا اضافہ ہے۔ جس مہارت اور چابک دستی سے انہوں نے اس پروگرام کو چلایا اس کے لئے وہ واقعی شکریہ اور ستائش کے مستحق ہیں۔
دوحہ میں ایک معروف اور ماہرفن شاعر ہیں مظفر نایاب صاحب ، عروض ،شعرو شاعری کے دیگر فنون اور ان کی باریکیوں پر آپ کی گہری نظر ہے ، تاریخی قطعات نظم کرنا آپ کا ایک اور امتیازی وصف ہے ، اس موقع کے لئے بھی آپ نے ایک قطعئہ تہنیت نظم کیا تھا جس کے آخری مصرعہ سے علم الاعداد کی روشنی میں سن دو ہزار بیس (2020) عیسوی کی تاریخ نکلتی ہے، قطعہ ہے:
تخلیق زبان خامہ ہے شہکار محمد شاہد خان
اعجاز سخن کی عظمت سے سرشار محمد شاہد خان
صفحات کورونا ڈائری میں دلچسپ سخن آرائی ہے
حساس قلم کاری کے ہاں فنکار محمد شاہد خان
اسی طرح اس تقریب میں پہلی بار معلوم ہوا کہ معروف ادب دوست اور شاعر جناب طاہر جمیل صاحب ایک ماہر فن خطاط بھی ہیں، اس موقع پر انہوں نے اپنے دست ہنر سے تراشا ہوا یہ خوبصورت اور معنی خیز فن پارہ “کورونا مریض کی ڈائری ” کے مصنف جناب محمد شاہد خاں کی خدمت میں پیش کیا:
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ، یہ تقریب ایک طویل کورونائی وقفہ کے بعد منعقد ہو رہی تھی ، جس کا ایک فائدہ سامعین کو یہ ہوا کہ انہیں زیادہ تر تازہ کلام سننے کو ملا اور شعرا کرام نے بھی پوری دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ شرکت فرمائی ۔جن شعرا نے اپنے کلام سے اس تقریب کی معنویت میں اضافہ کیا ان کے اسماء گرامی ہیں : عتیق انظر، شاد آکولوی، عزیز نبیل، افتخارراغب ، ندیم ماہر، احمداشفاق ، اعجاز حیدر، آصف شفیع، قیصر مسعود ، مقصود انور مقصود، روئیس ممتاز، ، طاہر جمیل، اشفاق دیشمکھ ، راشد عالم راشد ، ڈاکٹر وصی الرحمن وصی۔ تقریب میں پیش کیا گیا بیشتر کلام یہاں ہم قارئین کی خدمت میں پیش کردیں گے تاکہ جو لوگ شریک بزم نہ ہو سکے وہ بھی محظوظ ہو لیں اور جو حضرات موجود تھے وہ قند مکرر کا لطف لیں۔
(1) عتیق انظر ، صدر مشاعرہ و بانی صدر کاروان اردو قطر:
(نظم بہ عنوان ‘نرلج’ )
تم جو کچھ بھی کہتے ہو
اس کا الٹا کرتے ہو
تم بالکل ہی نرلج ہو
سنسد کو مندر بولو گے
اس میں شیش جھکاؤ گے
پھر اس سنسد مندر میں تم
لوک تنتر کا قتل کروگے
سنودھان کا ریپ کرو گے
تم بالکل ہی نرلج ہو
کہا تھا سب کو نوکری دوگے
سب کو مالا مال کروگے
یعنی سب کی نوکری لوگے
جن جن کو کو کنگال کروگے
تم بالکل ہی نرلج ہو
بھک منگوں کی جھولی سے بھی پیسے چوری کر لوگے
پیداوار کی دگنی قیمت کاشت کار کو کیا دوگے
اب اپنے ان داتا کو بھی تم تو گروی رکھ دوگے
جس تھالی میں کھاتے ہو تم
اس تھالی میں چھید کرو گے
تم بالکل ہی نرلج ہو
بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ
نعرہ خوب لگاؤ گے
بیٹی کی عزت لٹوا کر
اس کا قتل کراؤ گے
آدھی رات میں چوری چوری
اس کی چتا جلواؤگے
سارے ثبوت مٹاؤ گے
سچ بولے گا جو بھی اس پر
غداری کا کیس کروگے
دوشی کو نردوش کہو گے
ریپسٹوں کا جشن کروگے
رام راج کا جھانسا دے کر
راون راج چلاؤ گے
بھکتوں کو مرکھ بناؤ گے
تم بالکل ہی نرلج ہو
تم بالکل ہی نرلج ہو
(نظم بہ عنوان ‘ روشنی کے پیمبر کے مجرم ہو تم’ )
ساری دنیا جہالت کی تاریکیوں میں تھی ڈوبی ہوئی
لوگ جکڑے ہوے تھے غلامی کی زنجیروں میں
جیتے تھے جانور کی طرح
چھوٹی چھوٹی سی باتوں پہ اک دوسرے کا بہاتے تھے خوں
اپنی معصوم سی بیٹیوں کو بھی
وہ زندہ ہی دفن کر دیتے تھے
اس گھٹاٹوپ میں
ایک ایسا حسیں چاند نکلا عرب کے افق پر
کہ سارا جہاں اس کی رحمت کے ٹھنڈے اجالے سے روشن ہوا
جس کے شیدائیوں عاشقوں جاں نثاروں کے قدموں کی برکت سے
بنجر زمینوں پہ انسانیت اور محبت کے گل بوٹے کھلنے لگے
ہر طرف علم و تہذیب کی شمعیں جلنے لگیں
رب کے اس خاص انعام پر شکر کرتے ادا
تم مگر کتنے بد بخت ہو
روشنی کے پیمبر کے دشمن ہو تم
تم نے دنیا کو جھونکا ہے دو دو بڑی جنگوں کی آگ میں
پوری انسانیت ہی کے قاتل ہو تم
آج آزادی رائے کے نام پر
اس حسیں چاند پر
خاک اڑاتے ہو تم
روشنی کے پیمبر کا خاکہ اڑاتے ہو تم
جب تمھاری حماقت پہ نادان کہتا ہے کوئی تمھیں
تو تمہیں اچھا لگتا نہیں
آگ میں اپنے غصے کی جل جاتے ہو
اک ریاست کے حاکم ہو
لیکن مرے اس حسیں چاند کے سامنے
ایک معمولی ذرہ بھی تم تو نہیں
پھر بھی تحقیر اپنی گوارا نہیں
اور امید کرتے ہو تم چاند کے عاشقوں جاں نثاروں سے
وہ اپنے محبوب کی شان میں
ساری دنیا میں
سب سے بڑے روشنی کے پیمبر کے دربار میں
ساری مخلوق میں سب سے بہتر کی خدمت میں
گستاخیاں سب تمھاری
خموشی سے سہتے رہیں
تم حقیقت میں نادان ہو
ایک مجرم ہو تم
روشنی کے پیمبر کے مجرم ہو تم
(2) محمد رفیق شاد آکولوی ، صدر بزم اردو قطر
نگاہ ناز کا دل پر کوئی اثر بھی نہیں
یہ کیسی آگ ہے جس میں کوئی شرر بھی نہیں
یہ راہ عشق بڑی پر خطر سہی لیکن
تمہارا ساتھ ہو تو حاجت خضر بھی نہیں
ضرر رساں ہو تو ہم اس کو علم کہتے نہیں
ضرر فشاں ہو ہنر وہ کوئی ہنر بھی نہیں
کلام شاد تو صاحب بہت ہی سادہ ہے
دوٹوک بات ہے جس میں اگر مگر بھی نہیں

لطف مے کچھ بھی نہیں آب و ہوا کچھ بھی نہیں
زندگی میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں
چاند بے داغ نہیں تجھ سا مری جان غزل
تیری زلفوں کے مقابل یہ گھٹا کچھ بھی نہیں
اک اچٹتی ہوئی ڈالی تھی نظر اس نے کبھی
آج تک یاد کی تختی سے مٹا کچھ بھی نہیں
بحرو بر ، شمس و قمر ، ارض و سما ، آب و ہوا
شاد اک کن کے اشارے کے سوا کچھ بھی نہیں
(3) عزیز نبیل ، جنرل سکریٹری انجمن محبان اردو قطر :
کچھ دیر تک صدائیں لگا کر چلے گئے
ہم خود سے باہر آئے اور آکر چلے گئے
وہ رات ایسی سخت اداسی کی رات تھی
جلتے چراغ خود کو بجھا کر چلے گئے

ہمارے دل کی زمیں پر کٹاؤ اور بڑھا
اسی سبب سے غموں کا بہاؤ اور بڑھا
میں نیند کیا ترے بازار شب میں لے آیا
پھر اس کے بعد تو خوابوں کا بھاؤ اور بڑھا
تمام دشت بدن میں مٹھاس جاگ اٹھی
رگوں میں موج خوں کا دباؤ اور بڑھا
یہ کیسے خواب زدہ راستوں میں آ پہنچے
کہ جتنا آگے بڑھے ہم گھماؤ اور بڑھا
یہ آگ مجھ میں اترنے سے ڈر رہی ہے نبیل
اسے ہوا دے مسلسل الاؤ اور بڑھا

شام کی رات بدن پر مل کر قشقہ کھینچ ستاروں سے
راج سنگھاسن اپنا ہی ہے کہہ دے ہجر کے ماروں سے
کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں کچھ سائے سے پھرتے تھے
آنکھیں موند کے گزرے تھے ہم دنیا کے بازاروں سے
اور اچانک جی اٹھتے ہیں بند کواڑوں والے لوگ
چھن چھن کر آواز سی کوئی آتی تھی دیواروں سے
(4) افتخار راغب
فرطِ جذبات کا تھا مارا میں
اب ہوں ٹوٹا ہوا ستارہ میں
لمس تیرا سنوار دیتا تھا
جب بھی ہوتا تھا پارہ پارہ میں
ذہن اور دل میں اتفاق نہیں
کیسے سمجھوں ترا اشارہ میں
خود سے اُتنا ہی میں ہوا بے زار
جتنا لگتا تھا تجھ کو پیارا میں
روز غم سے ترے لڑائی کی
روز تیری خوشی سے ہارا میں
روز اٹھتی تھی دل میں ایک ہی ٹیٖس
روز کرتا تھا استخارہ میں
جانے کب چل گیا تمھارا سحر
جانے کب ہو گیا تمھارا میں
اُس نے پوچھا کہ کون راغبؔ ہے
کہہ دیا میں نے کتنا سارا “میں”
( مزاحیہ کلام ، تضمین بر اشعار غالب)
وہاں دیکھ لیتے ہیں اک روز فتنہ
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
سنا ہے کہ وہ تیاگ کر اپنا گھر اب
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
لگاتے نہیں اب وہ پاور کا چشمہ
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تجھے کیا پتہ ائے وزارت کی کرسی
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
نہ ٹوٹے دانت کا غم ہے نہ سر کو دیکھتے ہیں
دعائیں کرتے ہیں باب اثر کو دیکھتے ہیں
پھٹا ہوا مرا سر دیکھتا ہے حیرت سے
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
(5) ندیم ماہر
بلائے ناگہانی ہو گئی ہے
کہانی اب زبانی ہو گئی ہے
تماشا بن گئیں آنکھیں ہماری
یہ بینائی پرانی ہو گئی ہے
وہ ہم کو یاد کرتا ہے مسلسل
یہ کیسی بدگمانی ہو گئی ہے
سبھی کردار اب مرنے لگے ہیں
کہانی اب پرانی ہو گئی ہے

تعبیر تھی اس رات جو خوابوں سے گری تھی
پھر ٹوٹ کر اک شام ستاروں سے گری تھی
آنسو تھا جو آنکھوں کی فصیلوں سے گرا تھا
آواز تھی جو ٹوٹ کے ہونٹوں سے گری تھی
وہ پیکر نرگس بھی کوئی چاند بدن تھی
خوشبو تھی کوئی تازہ گلابوں سے گری تھی
جو تجھ سے بچھڑ جانے کے منظر کی تھی شاہد
کل پھر وہی تصویر کتابوں سے گری تھی
(6) احمد اشفاق
وقت کا حکمران چہرے پر
جبر کی داستان چہرے پر
جسم پر ٹوٹتی حویلی ہے
ٹوٹتا خاندان چہرے پر
دشمنی کے لئے سجا لینا
آئینے کی دکان چہرے پر
تن پہ تہذیب کا لبادہ ہو
اور اردو زبان چہرے پر
شخصیت آئینہ بھی ہوتی ہے
بات کے درمیان چہرے پر
ٹوٹتا جسم ٹوٹتی امید
پیاس لب پر تھکان چہرے پر
جانے کس کے لئے پریشاں ہوں
جانے کس کا ہے دھیان چہرے پر
(7) اعجاز حیدر
تاج میں ہو بھی سکتا ہے
ہیرا کھو بھی سکتا ہے
جاگے بھاگ تو مان نہ کر
بخت ہے سو بھی سکتا ہے
آنکھ میں رہنے والے سن
اشک ڈبو بھی سکتا ہے
وہ قہار بھی ہے لیکن
بندہ رو بھی سکتا ہے

اب کوئی بات ملاقات پہ مت چھوڑیے گا
حال کہہ دیجے گا حالات پہ مت چھوڑیے گا
گاتے رہیے گا کڑی دھوپ میں بھی نغمہ عشق
اب جنوں موسم برسات پہ مت چھوڑیے گا
چشم حیرت میں نمی رکھیے گا وجدان کی بھی
راز سارے ہی کرامات پہ مت چھوڑیے گا
شہر میں رکھیے گا کچھ پیڑ لگانے کی جگہ
یہ فریضہ بھی مضافات پہ مت چھوڑیے گا
یار جب دھیان میں آجائے وہیں کیجیے رقص
جشن اب صورت حالات پہ مت چھوڑیے گا
بے سبب ٹوٹ بھی جاتی ہے کبھی بات کہی
دوست اچھا ہو تو اس بات پہ مت چھوڑیے گا
جو بھی ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا حیدر
یعنی دل وہم و خیالات پہ مت چھوڑیے گا
(8) آصف شفیع
گمان وحشت و آزار جانا چاہیے تھا
مجھے صحرا کے بھی اس پار جانا چاہیے تھا
خبر ملتی پس دیوار کتنی وحشتیں ہیں
مرا سایہ سر دیوار جانا چاہیے تھا
ابھرتی ڈوبتی آواز کی صورت ہی اس تک
محبت کا کوئی اظہار جانا چاہیے تھا
خبر سن کر کہ وہ مد مقابل آگیا ہے
تجھے آصف اسی دم ہار جانا چاہیے تھا

تمام ہونا ہے قصہ سکندری والا
قیام سب کا ہے دنیا میں عارضی والا
اٹھائے پھرتے ہو کاسہ جہان کے آگے
پڑھا رہے ہو سبق بھی ہمیں خودی والا
ٹھہر سکا نہیں اک پل بھی وقت کے آگے
وہ شخص خود کو سمجھتا رہا صدی والا
نہ پہرے دار کوئی اور نہ جان کو خطرہ
سکوں کی نیند تو سوتا ہے چھابڑی والا
یہاں پہ روز کئی خواب قتل ہوتے ہیں
یہ شہر لگتا نہیں مجھ کو زندگی والا
تمہارا درد بٹائے گا بس وہی آصف
وہ ایک شخص جو بیٹھا ہے بانسری والا
(9) مقصود انور مقصود
باب احسا س کھولتا ہوں میں
جو ہے دل میں وہ بولتا ہوں میں
غیر ممکن ہے جن کی پیمائش
ان کو لفظوں میں تولتا ہوں میں

خیال ہے مجھے اس کا اسے خیال نہیں
تماش بین ہے دنیا شریک حال نہیں
ہمارے سامنے تاریکیوں کا لشکر ہے
ہمارے پاس کوئی روشنی کی ڈھال نہیں
اسے تو دیر تلک آنسؤوں سے دھونا ہے
یہ اعتماد کا خوں ہے کوئی گلال نہیں
دیے جلانے کی خواہش مگر نہیں جاتی
میں جانتا ہوں مناسب ہوا کی چال نہیں
وہ تپتی ریت پہ ننگے بدن سلا ہی دیا
میں چیختا رہا مقصود ہوں بلال ہوں
(10) قیصر مسعود
گلے لگا کے وہ ایسے اداس چھوڑ گیا
بدن میں روح تلک اپنی باس چھوڑ گیا
بچھڑ تے وقت محبت کا آخری بوسہ
میرے لبوں پہ انوکھی مٹھاس چھوڑ گیا
اسے خبر ہے اکیلا ہوں میں اسی خاطر
وہ اپنا آپ مرے آس پاس چھوڑ گیا
اٹھا کے لے گیا مضمون سب محبت کے
ہمارے پاس فقط اقتباس چھوڑ گیا
وہ سانحہ تو بالآخر گزر گیا لیکن
ہمارے شہر میں خوف و ہراس چھوڑ گیا
پلٹ کے آئے نہ آئے مگر یہی ہے بہت
مرے لیے وہ پلٹنے کی آس چھوڑ گیا
ہر ایک چیز وہ ہمراہ لے گیا قیصر
بس ایک میں ہوں جسے وہ اداس چھوڑ گیا
(11) روئیس ممتاز
نظم ہے عریاں نگاری یعنی سب کچھ ہے عیاں
لطف ہے تو ہے غزل میں کچھ عیاں ہے کچھ نہاں
سیدھا رستہ تھا مگر الجھا دیا ہے شوق نے
ورنہ راہ زندگی میں موڑ ہوتا ہے کہاں
خود شناسی خود فریبی کون سا عالم ہے یہ
آئینہ خانہ لگے ہے مجھ کو پتھر کا جہاں
مجھ کو قرآں میں ملا ہے میرے ہونے کا ثبوت
کیوں کتاب آتی اگر ہوتا نہیں قاری یہاں
عشق کا جذبہ بہت سچا ہے ائے رومی مگر
جھوٹ سے پردہ اٹھانا بھی ہے کار عاشقاں
دیکھ کر روئیس تیری فکر کی گہرائی کو
پیر بھی کہتے ہیں آخر کون ہے یہ نوجواں
(12) اشفاق دیشمکھ (مزاحیہ کلام)
خود ہی کہا تھا اس نے وہ لکھا پڑھا نہیں
پی ایم بنایا تم نے یہ اس کی خطا نہیں
بالوں بنا یہ سر مجھے لگتا ہے اس طرح
جیسے ہو آسمان اور اس پر گھٹا نہیں

ایسا کہنا تھا اس کے شوہر کا
کھانا لگتا ہے اچھا باہر کا
یہ دکھاتا ہوں میں نہیں ڈرتا
حال کس کو پتہ ہے اندر کا
چھینک جب آگئی کورونا میں
پاس بیٹھا تھا جو ادھر سرکا
(13) راشد عالم راشد ، نائب صدر کاروان اردو قطر
تو اگر چاہے تو بس ایک اشارہ کر دے
ایک ذرے کو اٹھائے تو ستارہ کر دے
اب تو ساحل پہ ہے قزاق اجل کا خطرہ
ہم کو موجوں کے حوالے ہی دوبارہ کر دے

خود کو سورج وہ سمجھتا ہے سمجھنے دیجے
اپنی اوقات میں آ جائے گا ڈھلنے دیجے
یہ قیادت یہ سیاست یہ حکومت کا بار
آپ کے بس کا نہیں آپ تو رہنے دیجے
چاندنی چاہے ماہتاب کی ہے
جو بھی رونق ہے آفتاب کی ہے
ساری دنیا کی سیر کر آئے
پھر بھی حرکت وہی جناب کی ہے
میں تو بس نقل کر رہا تھا اسے
یہ عبارت تری کتا ب کی ہے
یہ جو حالت ہوئی گلستاں کی
یہ تو تعبیر تیرے خواب کی ہے

راہِ منزل میں کانٹے ہیں شعلے بھی ہیں اور ہم سب کا چلنا ضروری بھی ہے
مسئلہ ہے وجود اور آئین کا تو گھروں سے نکلنا ضروری بھی ہے
اژدہے نفرتوں کے نکلنے لگے شہر کے شہر کو اب نگلنے لگے
ہم کو جینا ہے امن و سکوں سے اگر تو سروں کو کچلنا ضروری بھی ہے
یہ جو آنکھوں میں آتش فشاں ہے جواں جب پھٹے گا قیامت ہی آ جائے گی
ظلم کی ٹہنیوں کو جلانا ہے تو آگ کا دل میں جلنا ضروری بھی ہے
حسن جانِ غزل حسن جانِ چمن حسن جلوہ فزا رونقِ انجمن
چاہتے ہو جو رنگیں بہارِ چمن شاخ گل کا مچلنا ضروری بھی ہے
کون سنتا ہے تیری یہ آہ و فغاں تم تو نوحہ گری سے مچاتے ہو غل
چاہتے ہو سنے گر زمانہ تمہیں اپنی صورت بدلنا ضروری بھی ہے
(14) طاہر جمیل:
چھپا کے دل میں غموں کا جہان رکھتا ہے
خوشی کے پھر بھی بظاہر گمان رکھتا ہے

بعد مدت کے ملے ہو تو گلے لگ کے ملو
ایسے لمحے کو حسیں یاد بنا دو صاحب

ہے وقت خوشی بات نہ کر رنج و بلا کی
خوشبو کی چلے بات تو کر بات صبا کی
میں دشمن اخلاص و مروت ہی سہی دوست
کچھ قدر تو کرتے مرے اظہار وفا کی
آنکھوں میں کٹی رات یہی سوچ رہا ہوں
اب فائدہ کیا نیند بھی گر آئے بلا کی
(15) ڈاکٹر وصی الحق وصی :
بلندیوں سے گراتا ہے بار بار مجھے
کوئی تو ہے جو بناتا ہے پائیدار مجھے
یہ سنگ و خشت کی دیوار ایک دھوکہ ہے
دکھائی دیتا ہے زنداں کے آر پار مجھے
اڑا کے لے گئی آندھی بدن سے پیراہن
لباس دے گیا اڑتا ہوا غبار مجھے
مزاج رکھتا ہوں خود میں ہی آفتاب سا میں
نہ راس آئے گا یہ نور مستعار مجھے
فراغ ہو تو کبھی جھانک میرے باطن میں
شہادتوں کے عوض کر نہ سنگسار مجھے
وصی زمانے سے رکھنی ہے مجھ کو اک دوری
تعلقات بھی رکھنا ہے استوار مجھے

حال ہوتا ہے شجر کا جو ثمر سے پہلے
تھا مرا حال وہی علم و ہنر سے پہلے
چاند کے قرب نے بدلا ہے سمندر کا مزاج
سادگی اور ہی تھی زیر و زبر سے پہلے
آج دنیا کو محبت کی ضرورت ہے بہت
آؤ آغاز کریں اپنے ہی گھر سے پہلے
شاخ مژگاں پہ دھویں کی ہیں لکیریں اب بھی
میں نے کچھ خواب جلائے تھے سحر سے پہلے