خبردرخبر(478)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان ایک ارب تیس کڑور آبادی والا ملک ہے ،دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے لیکن بنیادی سہولیات کے معاملے میں بہت پیچھے ہے ،یہاں صرف 53 فیصد لوگوں کے پاس بینک اکاؤنٹ ہے ،انٹر نیٹ استعمال کرنے والے صرف 34 فیصد ہیں، انٹرنیٹ بیکنگ استعمال کرنے والے تقریبا دس فیصد سے بھی کم ہیں ، آن لائن پیمنٹ کا رجحان یہاں بہت ہی محدود ہے ،بڑے شہروں کی بڑی دکانوں میں ڈیبٹ کارڈ وغیرہ سے پیمنت کے سہولت دستیا ب ہے ،گاؤں اور دیہاتوں میں بیکنگ نظام کی صورت حال بہت بدتر ہے ،20/25 کیلومیٹر کے فاصلہ پر کسی کسی گاؤں میں کوئی کوئی ایک بینک معمولی سی برانچ واقع ہے ،پیسہ نکالنے کیلئے اے ٹی ایم مشین جیسی کوئی سہولت نہیں ہے ۔
بیکنگ نظام کی انتہائی بد تر صورت حال والے ملک میں 8 اکتوبر کو رات 8 بجے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی پہلی مرتبہ قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ رات بارہ بجے کے بعد سے 500 اور 1000 نوٹ ممنوع قراردیئے جاتے ہیں ،9 نومبر سے ان کی حیثیت محض کاغذ کے ایک ٹکرے کی ہوگی ،اسی فیصلے میں وہ آگے کہتے ہیں اگلے دو دنوں تک تمام اے ٹی ایم بند رہیں گے ،ایک دن تمام بینک بند رہیں گے ،10 نومبر سے پرانے نوٹوں کا بینک میں اور ڈاک گھرمیں تبادلہ کیاجائے گا اور 2000 کا نیا نوٹ دیا جائے گا ،بینک سے صرف 4000 ہزارروپے کا تبادلہ ہوسکے گا جب کہ اے ٹی ایم سے صرف 2000 نکل سکیں گے ،آن لائن ٹرانزکشن ،چیک اور اے ٹی ایم کارڈ سے پیمنٹ کی مکمل اجازت ہوگی ۔ اس فیصلہ میں انہوں نے دو دنوں تک کچھ مقامات پر پرانے نوٹوں کے استعمال کی اجازت بھی دے دی جس کی مدت اب 24 نومبر تک بڑھا دی گئی ہے ۔
نریندر مودی کا یہ فیصلہ سنتے ہی پورے ملک میں قیامت برپا ہوگئی ،اول مرحلہ میں کسی کو یقین نہیں آیا ،شروع میں غریبوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ پہلا ایسا موقع ہے جب ہم غریب مسکرارہے ہیں اور امیر رورہے ہیں لیکن جب ایک دن بعد جیب میں موجود پیسے خرچ ہوگئے ،مارکیٹ میں کام ملنا بند ہوگیا ،نوٹوں کے بحران کی وجہ سے معمولی تاجروں،دکانداروں پر بندی کا اثر پڑنے لگا تب انہیں احساس ہواکہ اس فیصلہ سے سب سے زیادہ کس کا نقصان ہے ،متوسطہ طبقہ کو اس پریشانی کااحساس لائن میں لگنے کے بعد ہواجہاں آٹھ اور دس گھنٹے تک لائن میں لگنے کے باوجود بھی جب پیسے نہیں ملے تب بہت سے مودی بھکتو ں نے بھی گالیاں دینی شروع کی،مارکیٹ میں پیسہ نہ چلنے کے باعث بہت سے لوگوں کو بھوکے رہنا پڑا،کچھ لوگوں نے بھوک سے نڈھال ہوکر مختلف مقامات پر لوٹ مارشروع کردی ،معمولی اور اوسط درجہ کے تمام تاجروں اور کاروباریوں کا کام چوپٹ پڑاہواہے ۔پورا ملک اپنا کام چھوڑکر لائن میں لگاہواہے ،اب تک لائن میں لگنے کی وجہ تقریبا 30 اموات ہوچکی ہے ،متعدد شادیاں ملتوی ہوگئی ہیں ،ایک لڑکی نے شادی کینسل ہونے کی وجہ سے خود کشی بھی کرلی ہے ،اکثر جگہ پر ایم ٹی ایم مشینوں نے کام کرنا بند کردیا ہے،دودن بعد وزیر خزانہ نے یہ واضح کیا کہ ٹرے اور سسٹم کو تبدیل کرنے میں وقت لگے گا اس لئے تمام ایے ٹی ایم کے شروع ہونے میں دوہفتہ تک کا وقت درکارہے ۔ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی دودن بعد اس فیصلہ کے سلسلے میں نقصانات اور تکالیف کا ادراک ہواور انہوں نے دبے لفظوں میں بولنا شروع کیا ،البتہ اروند کجریوال نے اس سلسلے میں کھل کر مخالفت کی ،ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنر جی بھی اب حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی تاریخ میں اتنا بڑا فیصلہ لینے کی تین اہم وجہ بتائی تھی ،بلیک منی کا خاتمہ ،جعلی نوٹوں سے نجات اور دہشت گردی کے بڑھتے قدم کو روکنا ۔آئیے ہم ان تینوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
آر بی آئی کے مطابق مارکیٹ میں گردش کررہے 1000 اور 500 کے نوٹوں کی مالیت 14 لاکھ کڑورروپے تھی،اس رقم میں سے صرف 3 بلیک منی کا حصہ تھا یعنی 14 کڑور روپے میں سے صرف تین فیصد کا استعمال غیر قانونی طریقے پر ہورہاتھا ،آر بی آئی کی اس تفصیل سے واضح ہے کہ کالادھن ملک میں بہت ہی معمولی ہے ،اصل کالادھن بیرون ملک اور سوئزر بینک میں ہے ،اروند کجریوال ایسے تمام لوگوں کو تفصیلات بھی فراہم کرچکے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف آج تک کوئی ایکشن نہیں لیاہے ،جب کالادھن کی بات آتی ہے تو اس کامطلب یہی ہوتاہے کہ کالادھن ملک کے باہر جہاں سے اندرلانا ہے لیکن کانگریس کی طرح بی جے پی حکومت بھی یہ کام کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ۔
دوسری وجہ جعلی نوٹوں سے اجتناب بتایاگیا ہے ماہرین کا ماننا ہے کہ نئے نوٹ میں کوئی سیکوریٹی فیچر نہیں ہے بلکہ یہ پہلے والے نوٹ سے بھی گھٹیا ہے ،اس کا کلر بھی پھیکاپڑرہاہے ،سائز بھی چھوٹاہے اور کسی طرح کی کوئی کشش نہیں ہے اس لئے جعلی نوٹوں کو ختم کرنے والادعوی بے معنی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں 2000 کے نئے نوٹ آنے کے ساتھ ہی جعلی نوٹ بھی آچکے ہیں۔
حکومت کا دعوی ہے کہ اس سے دہشت گردی پر لگام لگے گی ،کیوں کہ پاکستانی دہشت گرد نقلی نوٹ کا استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی خصوصی فیچر نہ ہونے کی وجہ 2000 کا جعلی نوٹ بھی بنانا کوئی مشکل نہیں ہوگا بلکہ 2000 کے نوٹوں سے کرپشن اور کالادھن کو مزید فروغ ملے گا ،چھوٹے نوٹ کو بند کرکے اس سے بڑا نوٹ جاری کرنا کرپشن بڑھادینے کے مانند ہے ۔
اروند کجریول بہت سختی اور مدلل انداز میں کہ رہے ہیں کہ نریندر مودی نے اپنے تمام لوگوں کو نوٹ بندی کی اطلاع کرکے یہ فیصلہ لیاہے جس ان کے لوگوں کا کوئی نقصان نہیں ہے ،کجریوال کی یہ بات متعدد وجوہات کی بناپر مبنی برحقیقت ہے ،ایک بھی بی جے پی کا آدمی کہیں لائن میں لگا ہوانہیں نظر آرہاہے ،ایس بی آئی نے وجے مالیا کالون معاف کردیاہے ،گجرات میں چھ ماہ قبل یہ خبر شائع ہوگئی تھی ،اکتوبر میں ٹائمز آف انڈیا نے بھی ایک اسٹوری شائع کی تھی جس کے مطابق گذشتہ پانچ ماہ سے بڑی تعداد میں بینکوں سے روپے نکال کر جائیداد اور گولڈ کی خریدے جارہے ہیں،دینک جاگرن نے بھی چند روز قبل یہ خبر شائع کی تھی کہ آر بی آئی 2000 کا نوٹ جاری کرنے جار ہی ہے ،فیصلہ آنے سے تین روز قبل بی جے پی کے ایک قریبی نے 2000 کے نوٹ کی گدی والی تصویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھی۔مودی حکومت نے سرکاری افسران کو بھی چھوٹ دی ہے ،معتبر ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق مرکزی حکومت کے تمام ملازمین کو سی بی آئی اور دیگر جانچ ایجنسیوں کی تفتیش سے مستثنی قراردیاگیاہے،مندروں کو ڈونیشن بوکس کو بھی اس علاحدہ کردیاگیاہے مطلب وہاں کے کالادھن پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔
مودی حکومت کے اس فیصلہ سے غریب اور متوسطہ طبقہ پریشان ہے ،رفتارزندگی تھم گئی ہے ،ملک میں بحران کا ماحول ہے ،کہیں آناجانا،کوئی کام کرنا،علاج ومعالجہ ،شادی وتقریبات تقریبا سبھی پر بریک لگ گیا ہے ،بچہ بوڑھا ،جوان ،مردوعورت سبھی بیک زبان ہوکر اس فیصلہ کی مذمت کررہے ہیں،ملت ٹائمز نے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ایسی ایک ہزار ویڈیو کی تحقیق کی ہے جس میں عوام نوٹ بندی کے فیصلہ کے خلاف سخت زبان استعمال کررہی ہے بلکہ بہت سی ویڈیومیں بہت سخت گالیاں بھی دی گئی ہے ۔
(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com