حسن بن علی الصباح حشيشین کا قائد اور انسانیت کا قاتل

محمد انعام الحق قاسمی
مملکت سعودی عرب ، ریاض
جب سے یہ دنیا  معرض وجود میں آئی ہے اس کیلئے یہ قدرت کی طرف سے ایک آزمائشی نظام چلا آرہاہے کہ حق و انصاف کی بیخ کنی کرنے کیلئے سدا سے کچھ افراد یا کچھ جماعتیں ساتھ ساتھ جنم لیتی رہی ہیں۔ قابیل نے جلن و حسد کی وجہ سے اپنے حقیقی برادر ہابیل کو قتل کردیا، حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے کنعان نے حق کا ساتھ نہیں دیا بلکہ کافروں کی ہمت افزائی کرتے رہے اور حضرت نوح علیہ السلام کو ایذاء ونقصان پہنچاتے رہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو حق سے باز رکھنے کیلئے فرعون مصر نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کرنے کی سازش رچی گئی۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حق سے روکنے کیلئے ابوجہل اور اسکی جماعت نے ایڑی چوٹی کی طاقت صرف کردی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی ناپاک شازس کی گئی۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حق  کے راستے میں ناحق بلوائیوں کے ہاتھوں شہید کردیئے گئے۔ اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ناحق شہید کر دیاگیا۔
ان واقعات پر ہم اگر نظر ڈالیں تو اندازہ کرنا غلط نہ ہوگاکہ ہر پر زمانہ   میں حق و عدالت کے خلاف ہمیشہ سے ہی ایک باطل قوت موجود رہی ہے جس نے اس حق و انصاف کوقلع قمع کرنے کی بھر پور کوشش کی اور بسا اوقات یہ جماعتیں اپنے مقاصد میں ایک  حد تک کامیاب بھی ہوئیں۔
اس ضمن میں اگر عظیم اسلامی سلجوقی سلطنت کا ذکر بجا طوردرست ہوگا کیونکہ اس اسلامی سلطنت کی جڑیں کافی مضبوط تھیں۔ اس سنی سلطنت کو نیست و بابود کرنے کیلئے اسماعیلی نزاری شیعہ گروپ کے دہشت گرد و قاتل سردار حسن بن علی بن محمد الصباح نے اس سلطنت کواپنے حشيشین فدائیین کے منظم دہشت گردانہ حملوں سے کافی حد تک کمزور کردیا تھا۔ ان کے حملوں اور تخریب کاریوں کی وجہ سے یہ عظیم اسلامی سلطنت انتشار کا شکار ہوگئی۔
نام و نسب  اور مختلف علوم سے لگاؤ
حسن  الصباح کا   اصل  نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن حسین بن الصباح الحمیری تھا۔  اور وہ 1150 ءکی دہائی میں ایرانی شہر قم میں ایک عرب شیعہ خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ یہ ایرانی النسل تھا   ،لڑکپن ہی میں ان کے والد اس زمانے کے علمی گڑھ ‘رے’ چلے گئے۔ یہاں نوجوان حسن نے رائج علوم میں تیزی سے مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ اور اس نے اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے آپ کو ایک عرب الحمیری خاندان سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اسے یہ بات پسند نہیں تھی کہ لوگ اس کا نسب بیان کریں۔ وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتا تھا مجھے اپنے امام کا مخلص غلام کہلایا جانا زیادہ پسند ہے کہ بہ نسبت اس کے میں ان کا ناخلف لڑکا کہلاؤں ۔
اپنی آپ بیتی ‘سرگزشتِ سیدنا’ (جس کے صرف چند ٹکڑے ہی باقی بچے ہیں) میں وہ لکھتا ہے:
‘سات برس کی عمر سے مجھے علوم کی مختلف شاخوں سے گہرا لگاؤ تھا اور میں مذہبی رہنما بننا چاہتا تھا۔ 17 سال کی عمر تک میں نے خاصا علم حاصل کر لیا تھا۔علوم کی یہ شاخیں دینیات کے علاوہ فلکیات، علمِ ہندسہ (جیومیٹری)، منطق اور ریاضی تھیں۔
اسماعیلی دعوت کی بیعت
حسن الصباح  كي ملاقات  فاطمی داعیوں میں سے پہلے ناصر خسرو، حجت خراسان اور پھر امیر زراب  سے ہوئیں۔ اس نے ان کے اثرات قبول کیے۔ امیر زراب سے اس کے کئی طولانی مذہبی مباحثے ہوئے۔ اس سے حسن الصباح کے اعتقاد میں لغرش پیدا ہو گئی۔ گو اس کو اسمعیلی دعوت کی صحت کا پورا یقین نہ ہوا۔ لیکن ایک بیماری سے شفاء پانے کے بعد جس سے اس کو نجات پانے کی کوئی امید نہ تھی۔ وہ اسمعیلی مذہب کی طرف زیادہ مائل ہو گیا اور دو اسمعیلی داعیوں ابو نجم سراج اور مومن سے ملا۔ یہ داعی ایک بڑے رہبر شیخ احمد بن عبد المالک بن عطاش مالک حلقہ اصفہان کے حکم سے فارس میں اسمعیلی دعوت کی تبلغ کرتے تھے۔ ان میں سے مومن نے دیکھا کہ ابن صباح بڑا ہوشیار اور زبردست شخصیت والا ہے تو اس نے پس و پیش کرتے ہوئے مستنصر کی بیعت لی۔
مصر روانگی
ماہ رمضان 464 ہجری میں ابن عطاش جس کے بحر (یعنی حلقه تبلیغ) میں اصفہان اور آذر بائیجان تھے رے پہنچا اور اسمعیلی دعوت میں حسن  الصباح کی شرکت قبول کرتے ہوئے اسے مصر جانے کا حکم دیا۔ اس بنا ءپر 467 ہجری میں وہ اصفہان پہنچا۔ جہاں سے دو سال ابن عطاش کی نیابت کرنے کے بعد آذر بائیجان اور دمشق سے ہوتا ہوا 471 ہجری میں مصر پہنچا ۔
دوسرا سبب اس کے مصر جانے کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو مسلم جو شہر رے کا والی اور نظام المک کا داماد تھا۔ اس پر الزم لگایا کہ وہ مصر کے اسمعیلی داعیوں سے ملا کرتا ہے۔ بہر حال جب وہ مصر پہنچا تو مصر کے داعی الدعاۃ اور دوسرے مشہور لوگوں نے بہت ہی اعزاز سے اس کا استقبال کیا۔ خلیفہ المستنصر نے بھی اسے بہت کچھ انعام و اکرام دیا۔ مگر اسے بذات خود خلیفہ سے ملنے کی اجازت نہ تھی ۔
 اس زمانے میں مصر پر فاطمی خاندان کی حکومت تھی جو اسماعیلی تھے۔ قاہرہ کی جامعہ الازہر انھی نے قائم کی تھی۔ حسن 1078 میں مختلف ملکوں میں پھرتے پھراتے قاہرہ پہنچ گئے جہاں ان کے افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، چنانچہ فاطمی دربار میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔
حسن نے مصر میں تین سال گزارے لیکن اس دوران فاطمیوں کے سپہ سالار بدر الجمالی حسن کے مخالف ہو گئے اور انھیں زنداں میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق سے زنداں کا مینار گر پڑا۔ اس واقعے کو حسن کی کرامت سمجھا گیا اور انھیں باعزت رہا کر دیا گیا۔
اس کے بعد حسن نے مصر میں مزید قیام مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ایران لوٹ آئے اور اگلے نو برسوں تک مختلف علاقوں میں دعوت و تبلیغ میں مگن رہے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی توجہ رودبار صوبے کے علاقے دیلمان پر مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یہاں انھیں کوہ البرز کی برفانی چوٹیوں میں گھرا ہوا ایک قلعہ نظر آیا جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے نہایت سودمند ثابت ہو سکتا تھا۔ یہ قلعہ الموت تھا۔
مصر سے روانگی اور نزار کی دعوت
اگرچہ وہ اٹھارہ مہینے تک قاہرہ میں ٹھہرا رہا۔ اس مدت کے بعد اسے مجبوراً مصر چھوڑنا پڑا۔ کیوں کہ المستنصر کے وزیر بدر الجمالی اور اس کے بڑے بیٹے نزار کے درمیان، جس کی حسن الصباح حمایت کرتا تھا، ناخشگوار تعقات تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بدر الجمالی نے حسن کو مصر سے نکلوا دیا تاکہ نزار کی امامت کا کوئی حامی نہ ملے۔ غرض 472 ہجری میں حسن الصباح اسکندریہ سے روانہ ہوا اور 473 ہجری میں اصفہان پہنچا۔ اس وقت سے وہ بلادیز، کرمان طبرستان، دامغان اور فارس کے دوسرے شہروں میں نزار کے نام سے یہ دعوت کرنے لگا کہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا مالک ہے۔ نظام الملک کو اطلاع ملنے پر اپنے داماد ابومسلم کو اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مگر حسن الصباح ہاتھ نہیں آیا۔
اسی دوران ان کی ملاقات امیرہ زراب نامی اسماعیلی داعی سے ہوئی جنھوں نے نوجوان حسن کے زرخیز دماغ کے لیے بارش کا سا کام کیا۔ حسن ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ اسماعیلی  نزاره ہو گيا۔
پیش رفت
یہ وہ دور تھا کہ اس وقت قرامطہ کی قوت عراق و شام میں ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن ان کے ہم مذہب ایران وغیرہ میں پھیل چکے تھے اور انہوں نے اپنی تحریک کو خفیہ طور پر جاری رکھا ہوا تھا۔ اس طرح کا ماحول حسن الصباح کے لیے بہت ساز گار تھا۔ نزار کے نام نے ان کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اب یہ لوگ اس کے چھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ ابتدا میں حسن الصباح نے اپنی سرگرمیاں مازندران کی وادیوں میں جہاں بابک خرمی اور اس کے ہم مذہب رہتے تھے شروع کیں اور جلد ہی فارس کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر اصفہان کے قلعے شاہ در پر ان کا قبضہ ہو گیا۔
سلجوقیوں کی خانہ جنگی اصفہان
اس وقت بغداد میں خلیفہ عباسی مقتدی باللہ تھا۔ لیکن حکومت  شاہ سلجوقی کے ہاتھ میں تھی۔ حسن الصباح نے اس کے زمانے میں قوت حاصل کی اور ملک شاہ کے مشہور وزیر نظام الملک کو نزاریوں نے 484 ہجری میں قتل کر دیا۔ ان کی قوت توڑنے کے لیے ملک شاہ نے دو دفعہ لشکر بھیجا، مگر اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی۔ 485 ہجری میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد اس کے خاندان کے باہمی جھگڑوں سے نزاریوں کا زور بڑھ گیا۔ اس کی بیوی خاتون جلالیہ کی رائے سے خلیفہ نے اس کے چھوٹے بیٹے محمود کو سلطنت دے کر ناصر الدنیا والدین کے لقب سے سرفراز کیا۔ لیکن اس کے بڑے بیٹے برکیارق نے حکومت چھین لی اور رکن الدین کا لقب اختیار کیا۔ محمود اور اس کی ماں نے اصفہان میں پناہ لی۔ برکیارق نے نزاریوں کی مدد سے اصفہان کا محاصرہ کیا اور محمود کو بھگا دیا۔ لیکن اصفہان پر نزاریوں کا قبضہ ہو گیا۔ نزاریوں نے اپنی عادت کے مطابق لوٹ مار شروع کردی۔ شہر کے باشندے ان کے مظالم سے تنگ آ گئے۔ آخر کار اصفہانیوں نے نزاریوں سے خوب انتقام لیا اور ان کے کئی سرداروں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد حسن الصباح قزوین پہنچا۔
شامي نزاریوں کی سرگرمیاں
ملک شاہ کے بعد سلطان سنجر نے حسن الصباح کا مقابلہ کیا۔ مگر حسن الصباح نے نہایت چالاکی سے اسے صلح پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد یہ ایران کے شہروں کے بعد رفتہ رفتہ شام کے بعض مقاموں میں بھی حسن کے ماننے والے پھیل گئے۔
حسن الصباح  کے خودکش حملہ آور  
‎ حسن بن صباح کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اِس کے فدائيین تھے جو بعد میں حشیشین کے نام سے بھی مشہور ہوئے کیونکہ وہ حشیش (ایک قسم کی بھنگ) کا نشہ کرتے تھے۔ یہ فدائین تھے کیا؟ اس بات کا اندازہ آپ ان واقعات سے لگا سکتے ہیں۔
‎جب حسن الصباح کا فتنہ بہت بڑھ چکا تو سلجوقی سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ لشکرکشی سے پہلے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن الصباح خود کو سلطنت کے حوالے کردے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اُس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔ ایلچی نے یہ پیغام قلعہ المُوت میں جا کر حسن الصباح کو سُنایا۔ ” حسن الصباح نے کہا، “میں کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتا” اور نظام الملک سے کہنا کہ میں مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں کا رُخ مت کرنا ورنہ تمہاری فوج کا انجام بہت بُرا ہوگا”۔ ایلچی یہ پیغام لے کر جانے لگا تو حسن الصباح نے اُسے روک لیا۔ ”ٹھہرو شاید تم میری باتوں کا یقین نہ کرو میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں”۔ اس کے بعد حسن الصباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک فدائی کو بُلا کر خنجرپکڑایا اور کہا، ”اِسے اپنے سینے میں اُتار لو”۔اُس فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا ”یا شیخ الجبل تیرے نام پر ” اور خنجر اپنے دل میں اُتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دو ۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔‎ایسے ہی ایک فدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اُس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تُند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔ اس ایلچی نے جا کر یہ تمام واقعات سلطان اور نظام الملک کو گوش گزار کردیئے ۔ نظام الملک خواجہ حسن طوسی یہ سن کر جذبہء ایمانی کے غصے سے لبریز ہوگئے اور سلطان کو فوراً لشکر کشی کا مشورہ دیا جسے سلطان نے قبول کرتے ہوئے اپنے فوجوں کا رُخ قلعہ المُوت کی طرف کرلیا ۔ حسن الصباح نے یہ سُنا تو زیرِ لب مسکرایا اور کہا، ” حسن طوسی کو قتل کردو” بس اتنا ہی کہنا تھا اور خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا گیا، اور عظیم الشان لشکر راستے سے ہی واپس ہولیا۔ بعد میں سلطان ملک شاہ کو بھی قتل کر دیا گیا۔قتل کرنے کا طریقہ بڑا سادہ ہوتا تھا۔ فدائی مطلوبہ شخصیت تک کسی بھی طریقے سے پہنچتا تھا اور اس کو قتل کر کے ایک بلند نعرہ لگاتا تھا ”یا امام الجبل حسن الصباح! تیرے نام پر تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں ”اور اپنے دل میں خنجر اُتار لیتا تھا۔ایسے ہی حسن الصباح نے اعلیٰ شخصیات اور وقت کے بہترین علماے کرام کو قتل کروایا۔ حتیٰ کہ اپنے آخر دور میں یہ فدائی باقاعدہ کرائے کے قاتل بن گئے اور عیسائیوں کے کہنے پر انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی تین قاتلانہ حملے کیے مگر ایوبی سلامت رہا۔
‎فدائین کھلے عام دن دہاڑے لوگوں کے سامنے اپنی وارداتیں انجام دیتے تھے۔ اؐن کا ہتھیار ایک زہر آلود خنجر ہوتا تھا۔ کبھی کبھار فدائین قتل کی بجائے دھمکی آمیز خط کسی کے سرہانے چھوڑ دیتے تھے۔جس سے اُن کا مقصد بغیر قتل کے بھی حاصل ہو جاتا۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ قرب و جوار کے تمام بادشاہ فدائین کے نام سے تھرتھر کانپتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے، جن سے وہ ہر بار بچ گیا۔ قتل کی اِن وارداتوں سے بچنے کیلئے صلاح الدین ایوبی نے حسن بن صباح کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔

قلعہ الموت اپنے جغرافیے کی بنا پر ناقابلِ تسخیر تھا

عقابوں کا نشیمن  قلعۃ الموت
بظاہر تو لگتا ہے کہ اس قلعے کا نام موت یعنی مرنے سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الموت مقامی زبان کے الفاظ ‘الا’ اور ‘آموت’ سے نکلا ہے۔ دیلمانی زبان میں الا عقاب ہے اور آموت (فارسی میں آموخت) کا مطلب ہے سیکھنا۔ روایت مشہور ہے کہ اس علاقے کا حکمران وہاں شکار کھیل رہا تھا کہ اسے ایک پہاڑی پر عقاب اترتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس مقام کا جغرافیہ اس قسم کا ہے کہ اگر یہاں قلعہ بنایا جائے تو وہ ناقابلِ شکست ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہاں قلعہ تعمیر کروایا اور اس کا نام الموت پڑ گیا، یعنی ‘عقاب کا سکھایا ہوا۔’
ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ءملک جوینی نے، جن کا تفصیلی ذکر آگے چل کر آئے گا، اس قلعے کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب ‘تاریخِ جہاں گشا’ میں لکھتے ہیں: ‘الموت ایک ایسے پہاڑ پر واقع ہے جس کی شکل گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اونٹ کی مانند ہے۔ قلعہ جس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے اس کے چاروں طرف ڈھلوانیں ہیں، صرف ایک تنگ راستہ ہے جس کا بڑی آسانی سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔’
حسن نے قلعہ الموت کے آس پاس کے علاقے میں ڈیرے ڈال دیے۔ ان کا پیغام زور پکڑتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خود قلعے کے اندر ان کے حواریوں کی اتنی اکثریت ہو گئی کہ قلعہ دار حسین مہدی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ قلعے کا اختیار حسن کے حوالے کر کے وہاں سے رخصت ہو جائے۔ یہ واقعہ سنہ 1090 ءکا ہے۔
اب حسن الصباح نے قلعہ الموت کو اپنا مرکز بنا کر آس پاس کے وسیع علاقے میں اپنا پیغام پھیلانے کا کام شروع کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ آس پاس کے کئی قلعے ان کے قبضے میں آ گئے جن میں سے کچھ کو خریدا گیا، کچھ پر بزور قبضہ کیا گیا اور کچھ ایسے تھے جس کے لوگوں نے دعوت سے متاثر ہو کر خود اپنے دروازے کھول دیے۔
قصہ مختصر چند برسوں کے اندر تقریباً تمام رودبار اور پڑوسی علاقوں میں حسن کی عملداری قائم ہو گئی۔
ان کے انہماک و ارتکاز کا یہ عالم تھا کہ وہ الموت میں آ جانے کے بعد 35 برس تک قلعے سے باہر نہیں گئے، بلکہ اپنے گھر سے بھی صرف دو بار باہر نکلے۔ تاریخ دان رشید الدین ہمدانی ‘جامع التواریخ’ میں لکھتے ہیں کہ ‘وہ اپنی موت تک اپنے گھر ہی میں رہے جہاں وہ اپنا وقت مطالعے، دعوت تحریر کرنے، اپنی عملداری کا نظم و نسق چلانے میں گزارتے رہے۔ الموت کے کھنڈرات آج بھی ایران میں موجود ہیں۔
سلجوق سلطان ملک شاہ نے اپنے دورافتادہ سرحدی علاقے چھن جانے کی خبر سن کر حسن الصباح کی سرکوبی کے لیے 1092 ءمیں ایک لشکر بھیجا جس نے الموت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا، دوسری طرف آس پاس کے علاقوں سے حسن کے ماننے والوں نے کچوکے لگا لگا کر شاہی لشکر کو اس قدر زچ کیا کہ اسے چار ماہ کے بعد اپنا سا منھ لے کر لوٹتے ہی بنی۔ سلجوق سلطان ملک شاہ نے اپنے دورافتادہ سرحدی علاقے چھن جانے کی خبر سن کر حسن الصباح کی سرکوبی کے لیے 1092 ءمیں ایک لشکر بھیجا جس نے الموت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا، دوسری طرف آس پاس کے علاقوں سے حسن کے ماننے والوں نے کچوکے لگا لگا کر شاہی لشکر کو اس قدر زچ کیا کہ اسے چار ماہ کے بعد اپنا سا منھ لے کر لوٹتے ہی بنی۔
خودکش فدائی اور نظام الملک طوسی کا قتل
الموت کے محاصرے کے چند ماہ بعد 16 اکتوبر 1192 ءکو سلجوق سلطان کے وزیرِ اعظم اور حسن الصباح کے میبنہ ہم جماعت نظام الملک نہاوند ضلعے میں سفر کر رہے تھے کہ دیلمان کے علاقے کا ایک نوجوان، جس نے فقیروں کا بھیس بدلا ہوا تھا، ان کے قریب پہنچا اور اپنے چغے سے خنجر نکال کر ان پر وار کر دیا۔
رشید الدین ہمدانی کے مطابق حسن الصباح کو معلوم ہوا تھا کہ الموت پر سلجوقیوں کے حملے کے پیچھے دراصل نظام الملک کا ہاتھ تھا۔ انھوں نے ایک دن اپنے فدائیوں سے کہا: ‘تم میں سے کون ہے جو اس ملک کو نظام الملک طوسی کے فتنے سے پاک کر سکے؟’
ایک نوجوان بو طاہر آرانی نامی نے ہاتھ بلند کیا اور بعد میں جا کر شیخ الجبال کے فرمان پر عمل کر ڈالا اور اس دوران خود بھی نظام الملک کے محافظوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

یہ حسن الصباح کی مہم کا پہلا ‘خودکش’ حملہ تھا۔

ظاہر ہے کہ سیاسی قتل حسن کی ایجاد نہیں تھا کہ یہ عمل اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ لیکن جس منظم طریقے سے اور جس وسیع پیمانے پر حسن نے اسے بطور آلہ استعمال کیا، اس کی وجہ سے ان کا نام اس سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔
حسن کو معلوم تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ کبھی بھی سلجوقوں اور دوسرے طاقتور دشمن حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس صورتِ حال میں انھوں نے وہ تکینک استعمال کی کہ بجائے ہزاروں کی تعداد میں فوجوں کا میدانِ جنگ میں دوبدو مقابلہ کیا جائے، بہتر یہی ہے کہ اپنے کسی جانثار فدائی کی تربیت کر کے اس کے ہاتھوں کسی حکمران، خطرناک وزیر، سپہ سالار یا مخالف مذہبی عالم کو قتل کروا دیا جائے۔
یہ طریقہ حیرت انگیز طور پر کامیاب ثابت ہوا۔ طوسی کے بعد حسن کے فدائین کے نشانے پر کئی حکمران، شہزادے، گورنر، جرنیل، اور علما بنے، اور ان کی دہشت نزدیک و دور تک پھیل گئی۔ کئی اہم شخصیات کسی بھی اجنبی سے ملنے سے کترانے لگے اور دوسرے اپنے لباس کے نیچے احتیاطاً زرۂ بکتر پہننے لگے۔
حسن الصباح کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ہم آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں ہمیشہ سے ہی شیعوں کی تمام جماعتوں نے اسلام کے اصل کاز اور مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ڈالی ہے اور سنی مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیاہے۔ اسکی حالیہ مثال عراق و شام میں حالیہ سنیوں کی نسل کشی ہے جو تاحال جاری ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں