لہو رنگ مناظر کے کولاز

مشرف عالم ذوقی
میں نے یہ بھی دیکھا کہ وحشی درندے اندور کی مسجد توڑ رہے تھے اور پولیس مسلمانوں کو گھر میں جانے کے لئے کہہ رہی تھی ، کسانوں کے خیمے پر سردی کی ٹھٹھرتی لہر میں پانی پھیکے جا رہے تھے اور خاموشی سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی جرأتیں دیش بھکتی میں تبدیل ہو چکی تھیں ، میں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے والوں کو تمغوں اور منصب سے سرفراز کیا جا رہا تھا ۔

میں دیر تک لکھتا رہا ۔ صبح کے نزول تک ۔ میں تھک چکا تھار نیند میں محسوس ہوا کہ ہزاروں گھوڑوں کی فوج ہے جو میرے گھر تک آگئی ہے۔ گھوڑوں کی ٹاپوں کی گونج سے آسمان بھی تھرّا رہا ہے۔
مجھے احساس ہے کہ ایک بھنور ہے اور میں الجھتا جارہا ہوں۔ لیکن الجھنے کا فیصلہ میرا ہے ۔ ڈوبنے کا بھی۔مرنے کا بھی۔ جھیلیں سوکھ گئیں۔ مچھلیاں مرگئیں۔ مجھے بتانا تھا کہ مچھلیوں کی موت کیوں ہوئی اور ہر عہد میں مچھلیوں کی موت کیوں ہوتی ہے اور فاختائیں کیوں اڑ جاتی ہیں۔مظفر نگر ، ملی تنظیموں، حوالہ، نوٹ بندی، مذہب کی سیاست کی طرف بڑھتے ہاتھ، عام آدمیوں کی ہلاکت، یگیہ، ، میں کسی بھی پہلو کو چھوڑنا نہیں چاہتا ۔ میں گواہ ہوں کہ ہم ہلاک کیے جارہے ہیں لیکن ہمیں کون ہلاک کررہا ہے۔ کیا مخصوص پارٹیاں یا ہمارے لوگ بھی۔؟
میں جذباتی ہورہا ہوں اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے ۔ ایسے موقع پر انسان جذباتی ہوہی جاتا ہے۔ میں نے برسوں ٹی وی چینلز میں گزارے ہیں ۔ مجھے وہ دور یاد ہے، اب مجھے احساس ہے کہ میری گردن پر رسّیاں تنگ ہوگئی ہیں۔ایک پھندہ ہے جو میرے چہرے کے آس پاس جھول رہا ہے اور کسی لمحے بھی نئے حالات مجھے زخمی کر سکتے ہیں۔لیکن کیا میں ان سوالوں کے لیے تیار ہوں ؟ فاختائیں اُڑ گئیں، مچھلیاں مرگئیں۔ کبوتروں سے آسمان خالی ہوگیا۔ مجھے سب یاد ہے ۔
’ ملک نوٹ بندی کا شکار تھا۔ اس وقت تمام بڑے لوگ نوٹ بندی میں مصروف تھے۔ پھر ہم تاریخ کی سرنگوں میں گئے اور یہاں جوبھی دریافت ہوا، وہ ہمیں حیران کرنے والا تھا۔ ملک میں آزادی کے بعد کئی اہم پڑاؤ آئے۔ پہلا پڑاؤ آزادی، دوسرا اندرا گاندھی کا قتل، تیسرا پڑاؤ بابری مسجد سانحہ، چوتھا گودھرا اور پانچواں پڑاؤ ٢٠١٤ سے پہلے کا حادثہ۔ ٢٠١٣ کا مظفر نگر فساد، جس نے ٢٠١٤ کی پیش گوئی کردی۔ اس فساد نے اتر پردیش کی٨٠ سیٹوں کو متاثر کیا۔ اس کی گونج پورے ملک میں ہوئی۔ اس حادثے نے ملک کی ثقافت، سماجیات، معاشرہ، اقتصادیات یہاں تک کہ ہندوستانی تہذیب کو بھی متاثر کیا۔ یہ وہی جنون تھا جو آزادی سے قبل دیکھنے میں آیا تھا۔ ٢٠١٣ سے قبل تاریخ بدلی جاچکی تھی ایک لہر تھی۔ جس کو لہر کانام بھی میڈیا نے دیا تھا۔ اس لہر کا مطلب کیا تھا؟ اس لہر کا مطلب تھا کہ ہندوستان اب نئی تاریخ لکھنے جارہا ہے۔ہندوستان اب پہلے والا ہندوستان نہیں ہے۔ میڈیا اب پہلے والا میڈیا نہیں ہے۔ اخبارات پہلے والے اخبارات اور نیوز چینل پہلے والے نیوز چینل نہیں رہے۔ وہ نیوز چینل جنھیں ہم نے ١٩٩٢ اور٢٠٠٣ میں دیکھا تھا اور ہندوستانی عوام جو اقلیت میں تھی، اس کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ نفرت کی گھیرا بندی کرلی گئی ہے اور اس میں زیرو فیصد کردار ہمارا بھی ہے۔ مظفر نگر کا فیصلہ اسی طرح غلط ہوا جیسے پہلے کچھ فیصلے غلط ہوئے۔ ثبوت غائب۔ ریکارڈ غائب ۔ جب ہم مظفر نگر، سیواڑہ اور جیٹھواڑہ گئے تو ایک نئی بات معلوم ہوئی۔ یعنی ٢٠١٣ میں جو کچھ ہوا اس میں ہمارا بھی زیرو فیصد کردار مشکوک ہے اور اس لیے مشکوک ہے کہ بڑی بڑی مچھلیوں کے ساتھ سیاست میں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی بھی بولی لگتی ہے۔‘ ’علما کو نہ ماننے والے ہمارے یہاں بڑی تعداد میں ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنھوں نے علما پر بھی کفر کا فتویٰ صادر کیا۔ جنید بغدادی، امام شافعی، امام احمدبن حنبل، جلال الدین رومی، منصور حلاج، عبد القادر جیلانی، شیخ احمد سرہندی، سر سید احمد خاں، اقبال، مولانا مودودی، علامہ طاہر القادری ۔ اسلا م ایک نظر یہ ہوتا تو مسلمان اتنے حصوں میں تقسیم نہیں ہوتے۔ علما ہمارے لیے حکومت کے ساتھ مل کر آواز اٹھاتے ہیں مگر …. مسجدیں شہید ہو رہی ہیں ، سی اے اے نافذ کیا جا رہا ہے اور تنظیمیں خاموش ہیں ، ایک حکومت منتخب ہوکر آتی ہے۔ دوسری فوج کی۔ تیسری علما کی۔ آزادی کے بہتّر برسوں میں ہندوستان پر بھی علما کی حکومت رہی۔ مگر عام مسلمان کہاں رہا؟ کیا کسی کو تمام مسلمانوں نے اپنا نمائندہ قبول کیا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ یہ سیاست پہلے سے چلی آرہی ہے۔ سیاست نے ہر بار اپنے مشن کے لیے علما کو آگے کیا۔ مگر پھر کہتا ہوں۔ ٢٠١٣ ایک اہم پڑا ؤ تھا اور ہماری شمولیت زیرو فیصد تھی۔ یہ زیروفیصد کم نہیں ہے۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں ہم مہرے بن جاتے ہیں اور ہم خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ٢٠١٣ کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کی حمایت لے کر مسلم آبادی کو اس قدر توڑ دو کہ وہ ملک کے نقشے پر نظر نہ آئے اور یہ کھیل بڑے پیمانے پر اب شروع ہوچکا ہے۔‘
لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے اور سامنے کشمیر بھی ہے .کشمیر ، جسکو ہم دیکھنا یا لکھنا نہیں چاہتے . کشمیر سے اردو ختم کر دی گئی ، اردو جسے اقوام متحدہ نے ساتویں انٹرنیشنل زبان قرار دیا ہے .. آہ ، مجھے لکھنا ہے .. بے چینی کا مدادا کرنے کے لیے میں کچھ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں .۔ کھڑکی کے باہر چنار کے درخت پر کبوتر بیٹھے نظر آئے تو میں نے شروعات یہیں سے کی۔ میں نے لکھنا شروع کیا۔ ایک خلا یہاں بھی ہے۔ آسمان صاف ہے مگر دھوئیں کی لکیریں مجھے نظر آرہی ہیں۔ سامنے چنار کا درخت ہے مگر ان درختوں پر ویرانی کا سایہ ہے۔ کبوتر طواف کررہے ہیں مگر یہ زخمی کبوتر ہیں اور اڑان کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ میں ان کبوتروں کو چنار کے پتوں سے الجھ کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں یہاں سے بکتر بند گاڑیوں کی آواز سن سکتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ بکتر بند گاڑیوں کی آوازسن کر کوئی سرپٹ بھاگ رہا ہے۔ میں دو ہاتھوں کو دیکھتا ہوں جو ایک غلیل سے نشانہ باندھ رہے ہیں۔ غلیل کے چمڑے کی پٹی میں ایک نوکیلا پتھرہے۔ یہاں ہر شخص خود پر غلیل چلا رہا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ غلیل سے پرندوں کا شکار نہیں کیا جاتا۔ پتھر چلانے کے جرم میں کبھی کبھی کوئی جوان فوجی گاڑیوں کے آگے باندھ دیا جاتا ہے۔ ان جوانوں کی تلاش میں آدھی بیواؤں کا جلوس ہوتا ہے۔ آدھی بیوائیں جنہوں نے شادی نہیں کی اور ایک عمر گولیوں کی چھاؤں میں گزار دی۔ برسوں پہلے قبائلیوں سے جو کہانی شروع ہوئی، وہ کہانی ابھی بھی اسی مقام پر ہے۔ فرق یہ کہ پہلے چنار سرخ تھے اب چنار زرد ہیں۔ پہلے پرندے آزاد تھے، اب پرندے اجنبی۔ پہلے آسمان نیلا تھا، اب دھوئیں سے بھرا ہوا۔جب کسی بستی کا محاصرہ کیا جاتا تو چنار کے درخت بھی اپنی جڑوں سے نکل کر خوفزدہ لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ محاصرہ کسی بستی کا نہیں، کشمیر کا ہوا ہے اور محاصرے نے کشمیر کے پرانے لمس کو غائب کردیا ہے۔
یہاں اب بھی خاموشی سے بہت کچھ ہو رہا ہے ، جس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، اس سے قبل کہ ہم زبانوں سے محروم کر دئیے جائیں ، ہمیں لکھنا ہوگا ، بولنا ہوگا ، سوچنا ہوگا ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں