سوامی اگنویش : شہد مکھی کا گھونسلا

مشرف عالم ذوقی

بات ۱۹۸۶ کی ہے ، اس زمانے میں سوامی اگنویش کا نام مسلسل سرخیوں میں تھا .یہ ان کے عروج کا زمانہ تھا . میں نے ان سے وقت لیا اور ان سے ملنے کے لئے ان کے دفتر پہچا . اس زمانے میں وہ ایک ہندی نیوز میگزین کے مالک تھے . پہلی ملاقات میں ہی دو بڑی بڑی آنکھیں میرے وجود میں پیوست ہو گین .ان میں غضب کی ذہانت اور چمک تھی . مجھے یاد ہے ، حکومت کی بات آئی تو انہوں نے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا . مسکرائے ، بولے . عربی میں شہد کی مکھی کو ”نحل“ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورۃ نازل فرمائی .اس مکھی کے گھروں یعنی چھتوں کا نظم وضبط اور نظامِ کسی سلطنت سے کم نہیں . آپ شہد کی مکھیوں کو للکاریں تو وہ ایک ساتھ آپ پر حملہ کر دیتی ہیں . سلطنت غلط ہاتھوں میں ہو ، تو یہی طریقہ عوام کو بھی اختیار کرنا چاہیے .سوامی نے بادشاہ التمش کا قصّہ سنایا ..شہنشاہ التمش کے حوالہ سے ایک قصہ سنو — قطب صاحب کی وصیت تھی کہ ان کے انتقال پر ان کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے، جس سے کبھی چاشت اور تہجد کی نماز بھی قضا نہ ہوئی ہو۔ جنازہ رکھا ہوا تھا — اچانک لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑے پر ایک نقاب پوش چلا آ رہا ہے — نقاب پوش قریب آیا۔ نقاب الٹ دی۔ چہرہ زرد — آنکھوں میں آنسو — فرمایا، حضرت پیر نے راز فاش کر دیا۔ یہ خود بادشاہ التمش تھے— پہلی ملاقات تھی .. میں درویش کو سن رہا تھا .وہ دنیا بھر کے قصّے سنا رہا تھا . پھر اس نے کہا ، حکومت تو مسلم بادشاہ کیا کرتے تھے . اب ایسی حکومتوں کا ذکر ہی کیا کرنا .

حضرت ابراہم بن ادھم سے ایک روایت مشہور ہے کہ ایک رات بالاخانے پر آواز سنی۔ دیکھا کوئی ہے، جو اپنا اونٹ تلاش کر رہا ہے۔ بلخ کے سلطان کو اس ادا پر ہنسی آئی کہ بالا خانے پر اونٹ کہاں؟ جواب ملا۔ سچ کہا— بالاخانے پر اونٹ کہاں…. لیکن تو بھی تو زندگیِ عیش میں خدا کو تلاش رہا ہے —؟

اس نے سنیاس لیا .جوگ کا وستر دھارن کیا . اور اسی وستر میں حکومتوں کو للکارنے کے لئے آگے بڑھا . وہ شہد کی مکھی کا گھونسلہ تھا . کاغذ کی تلوار سے لڑتا تھا اور حق بات کے لئے فسطائی طاقتوں سے مار بھی کھاتا تھا ۔

 ان سے بہت سی ملاقاتیں رہیں . جب میں روزنامہ سہارا کا حصّہ تھا ، اس زمانے میں بھی ان سے تین چار ملاقاتیں رہیں .سوامی نے نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرے کیے .حکومت کے خلاف آواز بلند کی .۔ اگنیویش شاہین باغ پہنچے اور مسلم مظاہرین کی حمایت کی ، سوامی اگنیویش نے کہا ، “میں شاہین باغ آیا ہوں اور مسلمانوں کی روح کو سلام کرنے آیا ہوں ، یہاں کسی کی مخالفت نہیں ہو رہی. وہ ہر قدم مسلمانوں کے ساتھ تھے ، اور زعفرانی تنظیمیں مسلسل ان پر حملہ کر رہی تھیں، وہ مسلمانوں کا عاشق تھا ، دلتوں کا عاشق تھا . بیباک بے خوف تھا .

جب آوازیں خاموش تھیں ، ظلم کا پہرہ چہار سو تھا ، ندیوں کا پانی زہریلا ، اور سمندر سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے ، جب جمہوریت کو دو گز زمین میں دفن کیا جا رہا تھا ، جب کچھ لوگ ہندو مسلمانوں کے مابین چین سے بھی بڑی دیوار اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے ، جب مسلمان اور دلت مارے جا رہے تھے ، جب چھ برسوں کے ہندوستان سے چیخ اور کراہ کی آوازیں گونج رہی تھیں ، وہ آیا ، وہ آیا اور اسی گیروا لباس میں آیا ، مگر جو لباس اس کے بدن پر تھا ، وہ زعفرانی ہرگز نہ تھا ، وہ سرخ تھا ، انقلاب کی طرح سرخ ، اور ایک سرخ پگڑی اس کے سر پر تھی .جسم سے وہ کمزور تھا .اسی برس کا تھا . مگر اس کی آنکھیں بولتی تھیں . دو بڑی بڑی زندہ آنکھیں ، اور جب یہ آنکھیں بولتیں تو ایوان سیاست میں زلزلہ آ جاتا .نا فرمانی کا حکم جاری ہوتا .اس پر حملے ہوتے . لباس تار تار کر دیے جاتے . دنگاہیوں فسادیوں کے درمیان بھی وہ لاچار اور بے بس نظر نہیں آتا . شیر بزرگ ہو چکا تھا ، مرنے کا غم کیوں ہوتا .مگر دنگا کرنے والے اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے خوفزدہ ہو جاتے تھے . وہ شان سے جیا اور جب اس کی ضرورت تھی ، وہ گمنام جزیروں کا باسی بن گیا .. میرے خدا ، میرے پیارے خدا ، ضرورت تو ان لوگوں کی ہے .. پرشانت ، یوگندر یادو ، سوامی ،یہ سلطنت غلط ہاتھوں میں چلی گیی ہے خدا .زندہ تو انہیں ہونا تھا .مرنا تو اس قبیل کو تھا ، جو چنگیز اور ہلاکو سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں .. ان چنگیزوں کو اپنے پاس بلا اور جہنم کی آگ کے حوالے کر — مجھے سب کچھ یاد آ رہا ہے . ایک بستی ہے .. غریب لوگوں کی .سوامی وہاں بھی ہے ..شہر سے دور کوڑھیوں کا اڈا ہے .سوامی وہاں بھی چلے گئے . مسلمانوں کی موب لنچنگ ہوئی .سوامی پہنچ گئے . حکومت نے مسلمانوں کو نکلنے کی غرض سے ترمیمی بل کا قانون لایا ، سوامی کے بیان نے آگ لگا دی . شاہین باغ پھچ گئے .کبھی جھارکھنڈ ، کبھی اترا کھنڈ ..رقص میں لیلیٰ رہی لیلیٰ کے دیوانے رہے .

ایک لوک کہانی پڑھی تھی۔ناگوں کا ایک راجہ دکھی تھا کہ جنگل کے جانور اس کے علاقے سے نہیں گزرتے۔ایک سانپ وزیر کو ذمہ داری سونپی گئی۔سانپ وزیر نے واپس لوٹ کر بتایا کہ پیارے ناگ راج،ہمارے علاقے سے جانور گزرتے ہیں۔ لیکن ہماری جیبھ سے نکلے زہر کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ جانور راستے میں ہی غش کھا کر بھگوان کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔

ملک میں یہیمنظر سامنے تھا ، سانپ ، زہر اور زہریلی سلطنت . آر ایس ایس نے مسلمانوں کو جوڑنے کی تیاری کر لی ۔مسلم مورچہ بھی بن گیا .ٹوپی لگائے کچھ مسلمانوں کا ساتھ بھی مل گیا۔لیکن اس لوک کہانی کا سچ اپنی جگہ ہے۔ دلوں کو جوڑنے والے ، ہاتھوں میں لٹھ لئے کھڑے ہیں۔ان میں کویی اجمیر دھماکے کا مجرم ہے ، کوئی سمجھوتا ایکسپریس کا مجرم ہے یہ سارے سفید کالر والے ہیں اور ان پر ہی مسلمانوں کو قریب لانے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ سوامی سرخ لباس میں ہنستا ہے ..یہ تمہارے نہیں .مگر یہ آ گئے ہیں تمہارے درمیان ان سے بچو سوامی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ وہ ہیں ،جن کی نفرت اسلام سے ہے ۔مسلمانوں سے نہیں ہے ۔ کیونکہ مشن یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کی گھر واپسی کرایی جا سکتی ہے ۔ٹی وی چنیلس کے پاس مخالف رویہ اپنانے والوں کی کویی جگہ نہیں ۔ ایک حقیقت اور بھی ہے۔ مخالفت کرنے والوں کو یہ کہ کر بلایا جاتا ہے کہ آپ اپنے دل کی بات رکھیے–تاکہ اپنی گائیڈ لائن کے حساب سے مسلمانوں کی اکثریت کو جواب دیا جا سکے ۔ سوامی ہنستا ہے ، ایک برس قبل کا قصّہ سنو پیارے . آر ایس ایس کیمپ سے ایک اور فتویٰ آ گیا ۔مسلمان گائے پالیں۔ایک بادشاہ نے خوش ہو کر ایک غریب شخص کو ہاتھی انعام میں دیا ۔غریب شخص نے ہاتھ جوڑ لیا ۔ رحم کیجئے۔وہاتھی کو کھلانے پلانے میں مر جاونگا جہاں پناہ .. جہاں افلاس کا عالم یہ ہو کہ مسلمان غریبی کی سطح سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہوں وہاں گائے کون پالے گا ؟ جہاں بھینس کے نام پر بھی قتل ہو رہے ہوں ،کیا خبر ،گائے رکھنے کے نام پر اور بڑی مصیبت کھڑی ہو جائے ۔ ان فتووں کو دیکھئے تو ایسا لگتا ہے ،جیسے میڈیا ،ٹی وی چنیلس اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے ..وہ شاہین باغ کے مجمع کے درمیان گیا تو گھپ اندھیرے میں احتجاج کرنے والوں کو سوامی کا سہارا مل گیا ۔

۲۰۱۹ ، مولانا مدنی کے عید ملن پروگرام میں ، سوامی سے گفتگو ہوئی . وہی مسکراہٹ چہرے پر سجی تھی . بولے ..

اب دلتوں اور مسلمانوں کو ساتھ مل کر چلنا ہوگا

مسلمان تو دلت کے ساتھ ہیں ،مگر دلت ..؟

وہ بھی ساتھ ہونگے . جنگ آسان نہیں .

يہ سحر جو کبھي فردا ہے کبھي ہے امروز

نہيں معلوم کہ ہوتي ہے کہاں سے پيدا

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود

ہوتي ہے بندہ مومن کي اذاں سے پيدا

سوامی نے آنکھوں میں خواب رکھے تھے . وہ دلتوں کے مجمع میں مسلمانوں سے قریب ہونے کی بات کرتے .دراصل وہ پورے نظام کو سمجھ رہے تھے .

سوامی اگنویش چھتیس گڑھ میں 21 ستمبر 1939 کو پیدا ہوئے ، کولکاتہ میں قانون اور کاروباری انتظام کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آریہ سماج میں شامل ہوئے اور سنیاسی بنے. یہ سچا سنیاسی تھا ، جو ملک کے ٹکرے ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا .۔ 1968 میں انہوں نے آریہ سماج ممبر کی حیثیت سے کام کیا اور ایک سیاسی جماعت تشکیل دی گئی- آریہ سبھا۔ بعد میں 1981 میں ، دہلی میں بندھو مکتی مورچہ قائم کیا۔ سوامی اگنیویش نے ہریانہ سے انتخاب لڑا اور وزیر بن گئے لیکن انہوں نے مزدوروں پر لاٹھی چارج کے واقعے کے بعد سیاست سے استعفیٰ دے دیا۔ انا ہزارے کی ٹیم میں سوامی اگنیویش کا بھی اہم کردار رہا ہے . لوک پال بل کے لئے احتجاج کیا ، اگنویش جنتر منتر میں انا کی بھوک ہڑتال کے دوران مسلسل انا کے ساتھ رہے۔ سول سوسائٹی اور اگنیویش کے مابین بہت سے امور پر اختلافات تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ وزیر اعظم اور عدلیہ کو لوک پال کے دائرے میں رکھنا ہے یا نہیں۔ اگنیویش نے اس بارے میں متنازعہ بیان دے کر سول سوسائٹی کو ناراض کر دیا . اگنیویش نے کہا کہ اگر حکومت سول سوسائٹی کے باقی مطالبات کو قبول کرتی ہے تو سول سوسائٹی وزیر اعظم اور عدلیہ کے معاملے پر نرمی کے لئے تیار ہے۔ لیکن سول سوسائٹی نے اس بیان کو غلط قرار دیا .۔ جولائی 2018 میں ، سوامی اگنیویش جھارکھنڈ گئے جہاں بی جے وائی ایم کے مبینہ کارکنوں نے انہیں پیٹا۔ سوامی نے انتظامیہ پر سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔

 سوامی اگنیویش ماؤنوازوں سے بات چیت کر کے راستہ نکالنے کے حق میں تھے ۔ ماؤنوازوں اور حکومت ہند کے مابین گفت و شنید کرنے کی کوشش کرنے والے سوامی اگنیویش کا مانناتھا کہ ہندوستانی حکومت اور ماؤنواز مجبوری کے تحت امن مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ ہندو یووا واہینی کارکن سوامی اگنیویش کے خلاف رہے اور لگاتار انکا مجسمہ جلاتے رہے ۔ ان کارکنوں کا غصہ سوامی کے دیئے گئے ایک بیان پر تھا ، جس میں سوامی نے امر ناتھ شیو لنگ کو محض برف کا ٹکڑا کہا تھا۔

وارانسی میں ، ہندو یووا واہینی کارکنوں نے سوامی اگنیویش کے خلاف علامتی مظاہرہ کیا اور احتجاج کیا۔ مشتعل کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگنیویش کی جانب سے اس طرح کے بیانات مستقل طور پر دیئے جاتے ہیں جس سے ہندو عوام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وہ سب اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ متنازعہ بیان سے ناراض ، ہندو یووا واہینی کے کارکنوں نے اگنیویش کو بھی کاشی نہ آنے کے لئے متنبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ مستقبل میں کاشی کی سرزمین پر آتے ہیں تو وہ لوگ اسے داخل ہونے نہیں دیں گے ، سوامی اگنیویش نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے امرناتھ غار میں ہر سال قدرتی طور پر بنائے جانے والے شیولنگا کی شکل محض ایک برفانی کہانی ہے۔ قدرتی انداز میں ، ہزاروں فٹ اونچے پہاڑ پر ، برف جمع ہوتی ہے ، جسے ہندو دھرماچاریہ خدا کہتے ہیں اور ان کی دکانیں چمکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امر ناتھ غار میں جس طرح سے برف جمع ہوتا ہے اسے جغرافیہ کی زبان میں “اسٹالکٹائٹ” کہا جاتا ہے۔ یہ توہم پرستی ہے اور کچھ نہیں۔

سوامی کے توہم پرستی کے خلاف بھی ہزاروں بیانات ہیں . وہ آزادی کی اس صبح کو دیکھنے کا خواشمند تھا ، جہاں دلت مسلمان سب ایک ہوں . جہاں ملک فسطائی طاقتوں کا غلام نہ ہو . وہ مسلسل بغیر تلوار کے لڑ رہا تھا اور میڈیا اس کے خلاف زہر افشانی میں مصروف تھی ..

لیکن وہ کب تک لڑتا .. وہ سرخ مناظر اور لہو لہو ہندوستان کے وجود سے رنجیدہ تھا . کی صبح نمودار ہوئی۔ اس صبح کے آنے تک منظر صاف ہوچکا تھا۔ خانہ بدوش حکومت میں تھے۔ خانہ بدوش سڑکوں پرآزادانہ گھوم رہے تھے۔ قتل کررہے تھے اور ایک بڑی آباد ی کو شہریت سے محروم کرنے کے میپ بنائے جاچکے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت کی مہر تھی اور تمام ایجنسیاں حکومت کی نگرانی میں کام کررہی تھیں۔ میڈیا بھونپو بن کر رہ گیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ چوراہے پر نفرت کی قندیلیں روشن تھیں۔ پرانی عمارت کا فیصلہ آچکا تھا۔ اور آیندہ کے انتخابات کے لیے اس فیصلے نے تمام راستے صاف کردیے تھے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے .۔ کوئی ایجنڈا ہے تو بس ایک۔ ڈیوائیڈ اینڈ رول۔ جو غلامی کے وقت ہوا تھا جب دو قومی نظریے نے اس ملک کو تقسیم کردیا تھا۔ مگر آزادی کے وقت کی صورتحال مختلف تھی۔ ہندوستان کی پیدائش میں جمہوریت کو دخل تھا .. اور یہ آدم خور ایک باطل نظریہ ایک باطل تہذیب کی پرورش کررہے تھے اور اس لیے پہلے دن سے انھوں نے پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور ملک کو وہاں لے گئے، جہاں دھوپ نہیں تھی، تعلیم نہیں، بیداری نہیں… اور جب انھیں احساس ہوا کہ ان کے مہروں نے کام کرنا بند کردیا ہے اور تعلیمی سطح پر بیداری شروع ہوچکی ہے تو وہ ایک قانون لے کر آئے اور وہ مسلسل بیانات دیتے رہے تھے کہ گھس پیٹھیوں کو …. گھس پیٹھیے … پہلے انھوں نے گھس پیٹھیے کا لفظ استعمال کیا۔ پھر وہ کھل کر قانون بنانے پر آگئے۔

سوامی نے کہا تھا .. ہم گھس پیٹھئے نہیں ، اصل گھس پیٹھئے یہ لوگ ہیں . ان کو ملک سے جانا ہوگا .

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگيري

ترے دين و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہباني

يہي ہے مرنے والي امتوں کا عالم پيري

میں کھاں رکتا ھوں عرش و فرش کی آواز سے

مجھ کو جانا ھے بھت اونچا حد پرواز سے

وہ آشرم ، یا خانقاہوں سے نکلا ، اور فرش کی آواز بن گیا .. وہ حد پرواز سے دور نکل گیا .. نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري .. یہ خلا ہے .. اس خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے .سوامی کی آواز کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ..

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں