محب اللہ قاسمی
ایک ضخیم مسودہ سامنے ٹیبل پر تھا، جسے برائے تبصرہ و نظر ثانی بھیجنا تھا۔اسے لفافے میں رکھا اور اس پر ’ بہ خدمت ڈاکٹر محمد رفعت‘ لکھا اور سوچنے لگا:یہ رفعت کون ہیں؟ جہاں بار بار الگ الگ مسودے بھیجے جاتے ہیں اور وہاں سے کچھ ہی دنوں میں لال قلم سے اصلاح و ترمیم کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔وہ اردو اور انگریزی دونوںمسودے بھی دیکھتے اور ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ یہ2008 کی بات ہے جب سید عبدالباسط انور صاحب تصنیفی اکیڈمی اور شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند دونوں کے مشترکہ مرکزی سکریٹری تھے اور میں ان کا معاون۔
میں ان کے بارے میں معلوم کرنے لگا اور بہت جلد بہت سی تفصیلات معلوم کرلی۔ پھر کیا تھا ؟میں ان کے دروس قرآن اور دیگر پروگراموں میں شریک ہونے لگا۔ آپ اجتماعی مطالعہ قرآن کا پروگرام بھی بہت اچھا کرتے تھے، جس میں دیگر تراجم و تفاسیر کے ساتھ شیخ الہندؒ کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ترجمہ اور معارف القرآن وغیرہ کی تشریح پیش کرتے ہوئے بھرپور گفتگو کرتے تو بڑا اچھا لگتا تھا، خاص طور سے رمضان المبارک کی طاق راتوں میں سے ایک رات ان کا بھی پروگرام ہوتا تھا۔ اس طرح میں نے ان سے اپنا تعلق استوار کیا اور ان پروگراموں میں شرکت کرنے لگا۔ بارہ سال طویل عرصہ جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں اس عظیم اسلامی مفکر کے ساتھ گزرا ، یہاں تک کہ مورخہ 8 جنوری 2021 کو ان کے انتقال پرملال کی خبر ملی تو ایک ایک کر کے وہ سارے لمحات فلیش بیک کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔ میں اپنے کمرے سےبھاگتا ہوا چند قدم کے فاصلے پر موجود الشفا اسپتال پہنچا ۔ان کے چہرے کو دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔میں ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ پھر ایک ایک کر کے وہ سارے لمحات فلیش بیک کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگے.
اس تکلیف دہ حادثےسے میں نڈھال تھاکہ میرےمخلص مربی، ہمدرد و بہی خواہ، جن سے میں نے جماعت اسلامی کو جانا سمجھا اور فکری شعور کو مضبوط کرنے میں مدد لی، اپنے ہزاروں چاہنے والوں میں مجھے بھی روتا بلکتا چھوڑ گئے.لیکن روتے ہوئے میں انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر دل کو تسلی دی کہ یہاں کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یہ دنیا تو درالعمل ہے، جہاں ہر شخص مہلتِ عمل لے کر آتا ہے اور داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس فانی جہاں کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور چلا جاتاہے۔ مگر عقل مند انسان جو اس بات کو سمجھتا ہے، اس کے سامنے زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے ، جس کے تحت وہ ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر رضائے الہی کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے، چنانچہ وہ کوئی نمایاں کارنامہ انجام دے کر چلا جاتا ہے، جو دوسروں لیے ایک اعلیٰ مثال ہو۔جس میں اخلاق کی بلندی، فکر کی پختگی ،زندگی میں سادگی، باتوں میں شگفتگی، ماتحتوں کے ساتھ نرمی ،طرز استدلال میں دل کشی ہوتی ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں، جن سے ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کو اللہ نے رفعت بخشا تھا۔
آپ 2011 تک چار میقات دہلی کے امیر ،طویل عرصے سے مرکزی مجلس شوری کے برابر رکن منتخب ہوتے رہے، زندگی نو کے ایڈیٹر، تصنیفی اکیڈمی کے چیئر مین، سینٹر فاراسٹڈی اینڈ ریسرچ (CSR) کے چیئر مین اور مرکزی شعبۂتربیت، جس سے میری وابستگی ہے، اس کے ایک میقات(2011 تا2015)سکریٹری رہے۔اس عرصےمیں آپ کے قریب رہ کر تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس لحاظ سے آپ میرے استاذ تھے۔ آپ سے میں نے لکھنا، جماعت کے پروگراموں کا نظم و انصرام سنبھالنا، ان پروگراموں میں اظہار خیال کرنا، بغرض اصلاح تنقید کرنا بھی سیکھا یہ جرآت تنقید آپ کی مرہون منت ہے، ورنہ زبان ہوتے ہوئے بھی انسان قوت گویا کھو دیتا ہے اور با شعور ہو کر بھی غیر شعوری زندگی جینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
آپ علمائے کرام سے بڑی محبت کرتے تھے۔ علمائے دیوبند سے آپ کو بڑا لگاؤ تھا، خاص طور پر مولانا قاسم نانوتویؒ، قاری محمدطیب صاحب،ؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ،مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ۔ کے اقتباسات کو اپنی تحریروں میں پیش کرتےتھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بھارت میں انگریز اپنے غلبے سے یہاں اپنا تسلط ہی نہیں جمانا چاہتے تھے، بلکہ ان کا مقصد تھا کہ اپنی تہذیب و تمدن کو یہاں کے لوگوں پر تھوپ کر فکری لحاظ سےبھی غلام بنا لیں تاکہ وہ اپنی تہذیب بھول جائیں۔ گویا تہذیبوں کا تصادم تھا، جس میں فتح یاب ہونے کے لیے انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھین لی۔ علمائے کرام نے ان کے اس منشا کو سمجھ لیا۔ اس لیے ان سے آزادی اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیےتحریک آزادی کی بغل بجادی اور قربانیاں پیش کیں، تاکہ مسلمانوں اپنے تشخص کے ساتھ رضائے الٰہی کی خاطر زندگی بسر کریں اپنے اقتدار کے حصول اور انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو کر زندگی گزاریں۔
ڈاکٹر محمد رفعت نے اقامت دین کی جد و جہد میں لگی ہوئی تحریکات اسلامی کو درپیش چیلنجز اور نئے قالب میں اسلامی نظریات پر یلغار کرنے والے خیالات کا بھرپور تعاقب کیا اور اپنی تحریروں و تقاریر سے عصر حاضر کے نوجوانوں کی فکری اصلاح، اسلام مخالف پروپگنڈا کے خلاف، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی وضاحت اور بھرپور تشریح کی اور مسلسل زندگی نومیں اپریل 2009 سے اگست2019 تک اشارات کے تحت ایک مومن کے مقصد حیات اوراس کے نصب العین پرروشنی ڈالتے رہے اور تحریکی کارکنان کو فکری غذا فراہم کرتے رہے۔ ان اشارات کو کتابی شکل دے دی گئی اور ان کی 10کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہو گئی ہیں،جن کے نام یہ ہیں :
’فرد معاشرہ اور ریاست‘’پر فریب نعرے‘’اسلامی تحریک سفر اور سمت سفر’امت مسلمہ کا نظام اجتماعی’غیر اسلامی ریاست اور مسلمان‘راہ اور راہی‘ جماعت اسلامی کی پانچ خصوصیات‘ جماعت اسلامی کی تشکیل’دعوت اور جہاد اورتعلیم و تحقیق کا اسلامی تناظر‘۔ اسی طرح آپ کی انگریزی میں بھی 4 کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
انسان کو اخلاقی رفعت و بلندی پر قائم رہنے کے لیے الفت و محبت اور نرمی و شفقت کا رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ رفعت صاحب بھی لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے، ان کے درد کو محسوس کرتے اور حتی الامکان ان کا مداوا بننے کی سعی کرتے تھے۔ بہت سے بچوں کی فیس کی ادائیگی میں مشکل ہوتی، انھیں راشن لینا ہوتا یا بیماری میں علاج معالجہ کے لیے پیسے کی پریشانی ہوتی تو آپ ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دل کی سختی جیسی بیماری سے کافی حد تک محفوظ رہے اور اتنے عظیم اسلامی اسکالر ،مفکر اور اہل نظر ہونے کے باوجود خودکو ہمیشہ عام انسان کی طرح رکھا، محسوس کیا اور سادہ زندگی گزاری کہ معمولی چپل میں بھی آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کےشعبہ انجینئر نگ میں بہ حیثیت صدر شعبہ چلے جاتے اور طلبہ کے درمیان اپنے موضوع فزکس پر ایسا لکچر دیتے کہ طلبہ آپ کے دیوانے ہو جاتے. وہ سب آپ کی علمی لیاقت اور قابلیت قائل تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی قوتِ حافظہ اس قدر مضبوط تھی کہ آپ نے تقریر کرتے وقت کبھی کسی پیپر کا سہارا نہیں لیا، نہ کوئی خاکہ سامنے رکھا، بلکہ اپنے موضوع سے متعلق جو کچھ کہنا ہوتا خوب کہتے۔ اپنی باتوں کو پیش کرنے کا ایسا مربوط اندازتھا گویا وہ اپنی کوئی تحریر سنا رہے ہوں۔دل کش اندازِ بیاں کے ساتھ ایسی مدلل، کانوں میں رس گھولتی اور جچی تلی گفتگو ہوتی کہ گھڑی کی سوئی انھیں کیا اشارہ کرتی آپ وہ پہلے ہی کہہ دیتے: و ماعلینا الا البلاغ۔ سامعین کو ذرا بھی تشنگی کا احساس ہوتا اور نہ اکتاہٹ کی شکایت، بلکہ بے ساختہ ان کی زبان سےسبحان اللہ نکلتا۔ آپ یہ کہنے کہ وقت بہت کم ہے، مجھے بہت ساری باتیں کہنی ہیں یا قلت وقت کے سبب میں تفصیل میں نہیں جا نا چاہتا وغیرہ وغیرہ کو وقت ضیاع تصور کرتے تھے۔ اس لیے اپنی تقریروں میں ایسے جملوں سے گریز کرتے تھے۔
آپ شعبۂ تربیت کے مرکزی سکریٹری تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اعزازی خدمات تو دیتے ہی تھے، مگراپنی ذات پر جماعت کے بیت المال سے کچھ بھی خرچ کرناپسند نہیں کرتے تھے۔ دورے پر جانا ہوا تو حتی الامکان کم سہولت والا سفر کرتے۔ اس میں بھی بیش تر مقامات پر اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے۔ جماعت نے ارکان کی علمی ، عملی فکری اور و روحانی ہمہ گیر تربیت کے لیے مرکزی تربیت گاہ کا آغازکیا تواس کا سب سے پہلا ماڈل پروگرام رفعت صاحب نے تیار کیا، جس کے تحت اور ایک کام یاب پروگرام منعقد ہوا ۔
ڈاکٹر صاحب مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اسی لیے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرنا آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔ یہ آپ کے کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کی بات تھی۔ایک موقع پر’علامہ اقبال کا پیغام‘کے عنوان سے آپ نے بہت شان دار گفتگو کی. اس میں آپ نے کہا کہ علامہ کا پیغام انسانی کی آزادی کا پیغام ہے کہ انسان خدا کا غلام ہو، کسی انسان کا غلام نہ ہو۔ان کی یہ تقریر اور اقامت دین سے متعلق تقریر یوٹیوب پر بھی دست یاب ہے۔ آپ ادب نواز، خوش مزاج اور خوش طبع انسان تھے۔ اکثر ادارۂ ادب اسلامی کی نشستوں میں شرکت کرتے اور عمدہ شاعری کو پسند فرماتے۔مجلس کیسی بھی ہو ، وہ اپنی حاضر جوابی اور بزلہ سنجی سے محفل کے سناٹے کو دور کردیتے تھے۔
سخت لاک ڈاؤن کا دور چل رہا تھا۔ جس کی وجہ سے کافی دنوں بعد آپ سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ چہرا کافی سوکھا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا، بہت کم زور ہو گئے ہوں۔ میں نے پہلے خیرت پوچھی ۔کہنے لگے الحمدللہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔پھر ایک خوش گوار ماحول میں گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے پوچھا : بتائیے سوشل ڈسٹینس کو اردو میں کیا کہیں گے؟ عرف عام کے مطابق میں نے کہہ دیا: سماجی دوری ۔ کہنے لگے نہیں،۔ اس کا مناسب ترجمہ ’کم آمیزی‘ ہونا چاہیے۔ پھر انھوں نے علامہ اقبال کا درج ذیل شعر سنایا ؎
کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن
حُوروں کو شکایت ہے، کم آمیز ہے مومن
پھر پوچھا : لاک ڈاؤن کا کیا ترجمہ ہوگا؟ میں نے کہا : عربی میں اسے الاغلاق الکامل کہتے ہیں۔ اردو میں اسےمکمل بندی کہہ سکتے ہیں۔
کہنے لگے نہیں،عربی کا تو نہیں، البتہ اردو میں مناسب ترجمہ’امتناع کامل‘ہوگا۔پھر اس کے بعد انھوں نے علامہؒ کا ہی ایک شعر اور سنایا :
پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں
وہ عقل جو پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے
رفعت صاحب واقعی اسم با مسمی تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اخلاقی بلندی کے ساتھ گزاری ،تقوی کی روش اختیار کی اور ہر اس چیز سے دامن کو بچانے کی کوشش کی جو پستی میں لے جانے والی تھی ۔چاہے باوقار اسلامی مفکر کے طور پر مختلف افکار و نظریات کا مقابلہ کرنا ہو،یا اپنوں کے درمیان فکری موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار ،عبادات کی بات ہو یا معاملات کا مسئلہ، ہر جگہ آپ نے اپنے مقام رفیع کو گرنے نہیں دیا۔
اے اللہ! تونے جس طرح رفعت صاحب کو دنیا میں مقام رفعت کی خصوصیات بخشی تھیں، اسی طرح آخرت میں بھی اپنے فضل و کرم سے انھیں جنت الفردوس میں مقام رفیع عطا کر اور جملہ پس ماندگان اہلیہ، دوبیٹیاں اور بیٹوں:برادرسعد،معاذ اور رشاد کے ساتھ ہم چاہنے والوں کو بھی صبر جمیل عطا کر۔ آمین ،یارب العالمین۔