پروفیسر اختر الواسع
ہم جب اپنے زمانۂ طالبِ علمی (1967-77) کے علی گڑھ کا تصوّر کرتے ہیں تو وہ پروفیسر خلیق احمد نظامی کے نام کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ وہ شعبۂ تاریخ کے پروفیسر، سرسیّد ہال کے پرووسٹ، ڈین اسٹوڈنٹ ویلفیئر، پرووائس چانسلر اور ایک نہایت قابلِ ذکر اور مؤثر قائم مقام وائس چانسلر رہے۔ ملکِ شام میں وہ ہندستان کے سفیر بھی مامور ہوئے مگر وہاں سے اپنی مدتِ کار پوری کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ¿ تاریخ ہی کو ترجیح دی :
مجھے نمازِ شام گھر پڑھنے کی عادت ہے
پروفیسر خلیق احمد نظامی کا تعارف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عاشقِ صادق کی حیثیت سے ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ عہدِ وسطیٰ کے عظیم مورّخ کی سرسیّد سے والہانہ عقیدت ہم لوگوں کے لےے مثالی تھی۔ سرسیّد کے مکان کی اصل طرز پر جدید تعمیر کا معاملہ ہو یا پھر اس میں سرسیّد اکیڈمی کے قیام کی تجویز کا عملی شکل اختیار کرنا، ان سب میں پروفیسر نظامی کا رول فیصلہ کُن تھا۔ اسی طرح جب وہ ایس ایس ہال کے پرووسٹ تھے تو طلبہ کی اعانت سے ایس ایس بھٹناگر کی ہسٹری آف ایم اے او کالج (History of MAO College) نامی کتاب کی اشاعت جو علی گڑھ کالج کی پہلی تاریخ بھی ہے، صرف نظامی صاحب کی کوششوں سے ہی شائع ہوسکی۔ اسی طرح سرسیّد اسپیکس ٹویو (Sir Syed Speaks to You) نامی مجموعۂ اقوال کی طباعت اور اسی طرح سرسیّد ہال میں سرسیّد پر ایک انتہائی موثر اور دلچسپ شیڈو ڈرامہ (Shadow Drama) کی پیش کش جس کا اختتام اقبال کی نظم ’سیّد کی لوحِ تربت‘ پر ہوتا تھا اور جسے پسِ پردہ اپنی مترنم اور سحرانگیز آواز میں راشد روح اللہ (جامعہ اسکول والے خالد سیف اللہ صاحب کے چھوٹے بھائی) نے لازوال بنادیا تھا، بھی نظامی صاحب کے قلم اور ان کی اس فنِ لطیف میں دلچسپی کی وجہ سے ہی کھیلا جاسکا۔ اسد یار خاں صاحب کے ایجوکیشنل بک ہاؤس نے سرسیّد پر نظامی صاحب کی کچھ کتابیں تو چھاپی تھیں اور میں نے ان کی کچھ کتابیں دہلی سے چھپی ہوئی بھی دیکھیں۔ ان کے انتقال کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے ’تاریخ مشائخِ چشت‘ کی پہلی اور پانچویں جلد کو نہایت اہتمام سے شائع کیا مگر انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہونے والی زیرِ مطالعہ کتاب نے معیار میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کی اس اشاعت کو بھی فیل کردیا ہے مگر حق بات یہ ہے کہ پروفیسر نظامی کی زندگی میں ان کی کتابیں اس تزک و احتشام سے کبھی شائع نہ ہوسکیں جس کی وہ مستحق تھیں۔ دراصل پروفیسر نظامی اساتذہ کی جس نسل سے تعلق رکھتے تھے، اس کا تمام زور اپنے طلبہ کی تربیت پر ہوتا تھا۔ پروفیسر نظامی نے تو خاص طور پر اپنی کتابوں کی اشاعت میں اپنی زندگی میں قطعی دلچسپی نہ لی مگر اب جب ان کی اشاعتِ جدید کا سلسلہ شروع ہوا ہے، تو امید کی جانی چاہےے کہ کم سے کم اردو میں ان کی تمام کتابیں اسی اہتمام سے شائع ہوں گی جو ’ارمغانِ علی گڑھ‘ کا معیار ہے۔ یہی نہیں بلکہ ’تاریخِ مشائخِ چشت‘ کا خوبصورت ہندوستانی اڈیشن بھی اس اہم ترین موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لےے شائع کیا جائے گا۔
اب جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس کے قیام کی صدسالہ سال گرہ کا جشن منعقد کیا جارہا ہے، تو انجمن ترقی اردو (ہند) نے اس عظیم دانش گاہ سے اپنے قدیم ترین رشتے کا احترام کرتے ہوئے پروفیسر خلیق احمد نظامی کی مرتّبہ کتاب ”ارمغانِ علی گڑھ“ کو اسی اہتمام سے دوبارہ شائع کیا ہے جس کی وہ بجاطور پر مستحق تھی۔ میں پھر عرض کروں گا کہ نظامی صاحب کی کتابوں میں اس کتاب کی اشاعت لاجواب ہی نہیں ہے، مثالی بھی ہے۔ یہ اس لےے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اردو میں اس معیار کی کتابیں چھپتی ہی نہیں ہیں۔ انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہونے والی کتابوں میں بھی شاید یہ سب سے خوب صورت کتاب ہے۔ یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ انجمن کے پیش رو ادارے کا قیام ایم اے او کالج کے ایک اےسے علمی ادارے کے طور پر خود سرسیّد نے کیا تھا جسے کالج کے باقاعدہ تحقیقی شعبے کے طور پر کام کرنا تھا۔ 1903 میں علامہ شبلی نعمانی کے سکریٹری بننے کے بعد اسے نیا نام ہی نہیں دیا گیا بلکہ نئی نظریاتی بنیادیں بھی فراہم کی گئیں جن کی تفصیل کسی اور وقت کے لےے اٹھا رکھتا ہوں۔
نظامی صاحب کے فرزندِ ارجمند اور آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے بانی ڈائرکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کے بقول: ”ارمغانِ علی گڑھ کا مطالعہ نئی نسل کو علی گڑھ کی عظیم دانش گاہ کے ہمہ گیر اور تونگر ثقافتی و تہذیبی ورثے سے روشناس کرائے گا“۔
اس ارمغان میں 1875 میں مدرسۃ العلوم کی تقریبِ افتتاح سے لے کر مجاز کے نذرِ علی گڑھ (جو اَب علی گڑھ والوں کا سرمایۂ افتخار اور یونیورسٹی کا ترانہ ہے) تک ان تمام شعری کاوشوں کو جمع کردیا گیا ہے جو مولوی صفدر حسین، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ظفر علی خاں، شمس العلما مولوی نذیر احمد، اکبر الٰہ آبادی، نواب محسن الملک، مولوی اسماعیل میرٹھی، چودھری خوشی محمد ناظر، علامہ اقبال، حامد حسن قادری، مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بڑے بھائی منشی ذوالفقار علی گوہر، سجاد حیدر یلدرم، مولانا محمد اسلم جے راج پوری، ہاشمی فریدآبادی، عزیز لکھنوی، جلیل قدوائی، اقبال سہیل، حفیظ جالندھری اور جوش ملیح آبادی وغیرہ کی تقریباً 75 سال کے عرصے کو محےط اور ایک طویل المدت زمانے میں علی گڑھ اور علی گڑھ کے پیرِ دانا سرسیّد، ان کے بیٹے سیّد محمود اور دیگر رفقا کی تخلیقی فتوحات شامل ہیں۔ اس ذیل میں سرسیّد اور ان کے صاحبزادے سیّد محمود کا کلام یقینا ایک نادر تحفہ ہے۔
اس انتخاب میں نظامی صاحب کا مقدمہ ایک مورّخ اور محقق کی دادِ تحقیق اور علی گڑھ کے تاریخی سفر کی غیر معمولی روداد ہے جسے انھوں نے وسیع تر اسلامی تاریخ کے پس منظر میں اس طرح پیش کیا ہے کہ تاریخ کے جیّد عالم سے لے کر عام طالبِ علم تک سب اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
’ارمغانِ علی گڑھ‘ میں شامل نظموں کے متعلق پروفیسر خلیق احمد نظامی رقم طراز ہیں:
”اس ’ارمغان‘ میں جو نظمیں پیش کی جارہی ہیں وہ علی گڑھ اور اس کے مردانِ کار کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ نظموں کے انتخاب میں ذاتی پسند اور مذاق کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے، لیکن یہاں پسند سے زیادہ تاریخی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
شروع کے 20 صفحات میں ”تبرکات“ کے عنوان سے سرسیّد اور سیّد محمود کے فارسی اور اُردو اشعار کا گلدستہ پیش کیا گیا ہے۔ سیّد محمود کو اللہ تعالیٰ نے موزوں طبیعت اور ذوقِ سخن سے نوازا تھا۔ غیرمعمولی حافظے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور اس میدان میں بھی انھوں نے اپنی قابلیت کا سکّہ منوالیا۔ حد یہ ہے کہ مرزا غالب تک نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی داد دی
نظموں کا یہ انتخاب نہ کسی ادبی نقطۂ نظر سے کیا گیا ہے اور نہ اس سے تاریخ کا کوئی تسلسل قائم کرنا مقصود ہے۔ یہ یادوں کے چند چراغ ہیں جن کی روشنی میں کاروانِ رفتہ کے کچھ نقشِ پا دیکھنے ہیں۔ علی گڑھ کی زندگی کی ایک جھلک، ہلکی ہی سی سہی، سرسیّد کے عزمِ کوہ کن کی، اُن کی شخصیت کے جادو کی، ان کی سحرانگیز صدا کی، کالج کے بام و دَر سے اس کے فرزندوں کی شیفتگی کی، اس کے مردانِ کار کی جدوجہد کی، اس کے علمی جلسوں کی، اس کی تقریبوں کی، اس کی شادی اور غم کے ہنگاموں کی، غرض زندگی کے اس متنوع اور ہمہ گیر میدان میں علی گڑھ کے کام کی اور اس کی اہمیت کی“۔
اس کتاب کی اشاعت کے لیے انجمن ترقی اردو (ہند) ہم سب کے شکریے کی مستحق تو ہے ہی لیکن پروفیسر خلیق احمد نظامی کی ’ارمغانِ علی گڑھ‘ کی اُردو میں اشاعت کے بعد علی گڑھ والوں پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اسے فوری طور پر کم سے کم دیوناگری رسمِ خط میں ضرور زیورِطبع سے آراستہ کرکے نئی نسل اور ہندی والوں کے استفادے کے لیے شائع کریں۔
اس کتاب کی اشاعت کے لیے یقیناً پرانے علیگ اور نظامی صاحب کے شاگرد پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، جے این یو کے پروردہ ڈاکٹر اطہر فاروقی کا شکریہ اور چراغِ علی گڑھ سے آکسفورڈ میں علم کی شمع فروزاں کرنے والے ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کو ہدیۂ تہنیت پیش کرنا اظہارِ سپاس گزاری کی اسی روایت کا تسلسل ہے جسے میں اس تحریر کے اختتام تک قائم رکھنا چاہتا ہوں۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)