ايک مرد درويش حافظ ابو الليث صاحب اعظمی كى وفات

عبید اللہ شمیم قاسمی
دنیا میں آنا درحقیقت جانے کی تمہید ہے۔ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔ اس دنیا کے اندر جو بھی سانسیں لے رہے ہیں ان کی سانسیں ایک نہ ایک دن بند ہونے والی ہیں۔ جو بھی چلنے والے ہیں ہیں ان کی چالوں پر ایک دل لگنے والی ھے۔ جو بھی جاندار ہیں وہ ایک دن بھی جاننے والے ہیں۔ ہمیشہ رہنے کے لئے یہاں کوئی نہیں آیا۔ یہ دنیا ایک سرائے کی سی ہے۔
زندگی کی بے ثباتی یہی وہ واحد سچ ہےجس سے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمیں بے ثباتی کے اسی احساس سے بھرتا ہے ۔ زندگی کی تمام چمک دمک فنا پذیری کی طرف رواں دواں ہے۔
وقت كس تيزی كے ساتھ گزرتا ہے اس كا احساس ہی نہيں ہوتا، دن ہفتہ مہينہ اور پھر سال كی شكل ميں گزر جاتا ہے، اور جب ہم ماضی ميں جھانک كر ديكھتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس واقعہ كو گزرے هوئے اتنے سال ہوگئے، اسی طرح ہوتے ہوتے انسان كی پوری زندگی گزر جاتی ہے اور اسے احساس ہی نہيں ہوتا۔
وہ لوگ بڑے ہی سعید بخت ہیں کہ جن پر اس دنیا کی بے ثباتی آشکارا ہو گئی اور انہوں نے معصیت کی زندگی سے انحراف کر لیا جس کا دل بھی اس دنیا کی عارضی حیات کی حقیقت جان گیا اس کے دل سے حرص و ہوس اور عناد و کینہ سب کچھ ہی نكل جاتا ہے۔
چنانچہ حضور ﷺ نے خود اپنے بارے میں یہ مثال دی: 《 مَا لِي وَمَا لِلدُّنْیَا 》 دیکھو لوگو! میرا دنیا سے کیا سروکار، آپ ﷺ نے تو دنیا سے کوئی سروکار رکھا ہی نہیں، جب آپؐ عرب کے بادشاہ بن گئے تب بھی آپؐ کے ہاں تو کئی کئی وقت کا فاقہ ہوتا تھا《 مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا 》(سنن الترمذي، أبواب الزهد: 2377)۔ میں تو دنیا میں اس طرح ہوں کہ جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سائے کی وجہ سے بیٹھ گیا، پھر وہاں سے روانہ ہوگیا اور درخت کو چھوڑ دیا، درخت اس کی منزل نہیں ہے، اس کا گھر نہیں ہے، یہ تو اس کا عارضی سا قیام تھا جسے وہ یاد بھی نہیں رکھتا کہ میری زندگی کے اندر کوئی درخت بھی آیا تھا، بس صرف اس حد تک دنیا کے اندر دلچسپی کی اجازت ہے ، اور اگر اس سے زیادہ ہے تو پھر یہ دھوکہ ہے۔
الله رب العزت نے جگہ جگہ قرآن كريم ميں ارشاد فرمايا: ﴿ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾ (آل عمران: 185)
آج ۱۹/ جنوری ۲۰۲۱ء کو مولانا محمد آصف قاسمی مقیم زامبیا کے والد محترم جناب حافظ ابو الليث صاحب كى وفات كى خبر نے دل كو مغموم كرديا، مرحوم نہايت ہی سيدھے اور بہت ہی عبادت گزار تھے، جب سے ميں نے ہوش سنبھالا مرحوم كو اپنے كام سے كام پايا۔
ان كے صاحب زادے مولانا عبد الرحمن قاسمى ميرے حفظ كے ساتھى تھے اور دوسرے مولانا آصف صاحب جنہيں الله تعالى نے بہت سى خوبيوں سے نوازا ہے اور درس وتدريس كى خدمت انجام دينے كے ليے اس وقت بيرون ملک مقيم ہيں، ان كے ليے يہ بہت بڑا سانحہ هے۔ الله ان حضرات كو صبر جميل عطا فرمائے۔
مرحوم حافظ ابو الليث صاحب ملک شاه پور كے رهنے والے تھے، انہوں نے ابتدائى تعليم كے بعد مدرسہ عربيہ اسلاميہ بيت العلوم سے حفظ كيا تھا اور جيد حافظ قرآن تھے، آپ دارالعلوم ديوبند كے سابق صدر القراء حضرت مولانا قارى أبو الحسن صاحب دامت برکاتہم كے رفيق درس تھے، قارى صاحب نے اپنى كتاب ” تو نے سيارے تراشے ہيں چراغ شام سے ” ميں مرحوم كا تذكره بہت ہی والہانہ انداز ميں كيا هے۔
مرحوم صوم و صلاۃ كے بہت ہی پابند تھے، كسب معاش كے ليے مختلف جگہوں پر رهے، آپ نے مدرسہ دينيہ رانى كى سرائے اور مدرسہ دينيہ اشاعت العلوم كوٹلہ ميں ايک لمبى مدت تك درس وتدريس كا فريضہ انجام ديا۔
الله تعالى مرحوم كى مغفرت فرمائے ان كے درجات بلند فرمائے اور ان كے پسماندگان خصوصاً مولانا عبد الرحمن قاسمى اور مولانا محمد آصف قاسمى اور ديگر برادران كو صبر جميل عطا فرمائے۔
دھوپ میں باہر جب میں نکلتا
مجھ پر میرے باپ کا سایہ پڑتا
اب میں سمجھا میرا باپ مرے آگے کیوں چلتا تھا
جب میں پیر اٹھاتا تو وہ اپنی ہتھیلی نیچے رکھ دیتا تھا
اب جو میرے سر سے اسکا سایہ اٹھا تو یہ معلوم پڑا
راہِ زیست کٹھن ہے کتنی
ریت ان صحراؤں کی گرم ہے کتنی