انوارالحق قاسمی
ہندوستان کی دوسری عظیم علمی، دینی درس گاہ، جامعہ مظاہر علوم/ سہارنپور کے ناظم اعلی، دارالعلوم ندوۃ العلماء/ لکھنؤ کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین، جامعہ مظاہرالعلوم /سہارنپور کے سابق صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحب کے لائق و فائق فرزند ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی _رحمہ اللہ _ کے چہیتے داماد، امیر جماعت حضرت مولانا محمد سعد صاحب کے خسر، تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اسلامی علوم کی منتہی کتابوں کے عدیم النظیر مدرس، بےانتہا متواضع انسان ، فقیدالمثال عالم دین حضرت سیدمولانا سلمان صاحب مظاہری 28/ذی قعدہ 1441ھ مطابق 20/جولائی 2020ء روز دوشنبہ پانچ بجے شام کو مختصر علالت کے بعد ، میرٹھ میں دوران علاج ، اچانک بلڈ پریشر ہائی ہوجانے کے سبب ، حرکت قلب بند ہوجانے کے بہانے اس دنیائے فانی سے اپنے مولائے حقیقی کےپاس یہ کہتے ہوئے تشریف لےگئے کہ شعر: ’ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کےنہیں نایاب ہیں ہم ‘ تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسوں ! وہ خواب ہیں ہم ۔
یقیناً حضرت سید مولانا سلمان صاحب مظاہری کی رحلت پوری ملت اسلامیہ کے لیے عموما اور مدارس اسلامیہ ،علماء کرام ،طلبہ عظام کے لیے خصوصا بڑے ہی غم کا سامان ہے، حضرت کے انتقال سے ملک اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے قلوب افسردہ اور پزمردہ ہو گئے اور دنیا کی دوسری عظیم دینی درس گاہ میں غم کی فضا اور ماتم کا ماحول بن گیا ،اور ہر بڑے ادارہ، تنظیم کے ارباب حل و عقد کی طرف سے کئی دنوں تک تعزیتی کلمات کا دور چلتا رہا ،گویا ہر ایک اپنی زبان سے محمد رفیع سودانی کایہ شعر گنگنا رہا تھا: وہ صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں اب دیکھنے کو جن کی آنکھیں ترستیاں ہیں۔
ناچیز کے لیے بڑےہی افسوس کی بات ہے کہ باوجود اس کہ راقم ایک مدت مدید اور لمبے عرصے تک دارالعلوم/ دیوبند میں متعلم رہا اور حسب موقع کئی دفع مظاہر علوم احقر کا جانا بھی ہوا، مگر افسوس کہ ایک بار بھی حضرت سے علیک سلیک کا موقع نہیں مل سکا ،یہ میرے لیے کچھ زیادہ ہی حرماں نصیبی کی بات ہے۔
آپ کا گھر علمی گھرانا تھا، ہر ایک کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اورہرایک شوق ذوق کے مطابق کو پڑھتے، لکھتے بھی تھے اور بچوں میں بھی عہد طفولیت ہی میں قراءت و کتابت کا ذوق پیدا ہو جاتا تھا، جس کا آپ پر یہ اثر مرتب ہوا کہ آپ بھی دور طفولیت میں اپنے گھر ہی میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کرلیا اور قرآن مجید حفظ کاآغاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی _رحمۃ اللہ علیہ_ کی مجلس میں ہوا۔
ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد متوسط اور اعلی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے جامعہ مظاہرعلوم /سہارنپور کا رخ کیا اور شوال المکرم 1381ھ مطابق اپریل 1962ء میں جامعہ مظاہر علوم میں داخلہ لیااور مختلف سالوں میں مختلف کتابیں پڑھتے ہوئے 1386ھ میں سند فضیلت حاصل کی ۔
دورہ حدیث شریف کے سال آپ نے جن عظیم ہستیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے، ان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں :(1) فخر المحدثین حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی _رحمہ اللہ _ (2) حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب_ رحمۃ اللہ علیہ _ (3) حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری_ رحمۃ اللہ علیہ_ (4) حضرت مولانا منور حسین صاحب _رحمۃ اللہ علیہ_ ۔
حضرت سید مولانا سلمان صاحب مظاہری کی علمی لیاقت وقابلیت کاچرچا،تو ان کے دور طالب علمی میں ہی ہو چکا تھا، اور ہر ایک ان کی اسعداد اور فطری صلاحیت کے معترف اور مقرر تھے، چناں جید الاستعداداور غضب کےذہین وفطین اور بااخلاق عالم دین ہونے کی وجہ سے حضرت _علیہ الرحمہ _کا تقرر جامعہ مظاہر علوم /سہارنپور میں جامعہ سے فراغت کےمتصلاہی سال یعنی 1387 ھ میں ہوا،اور 1392ھ میں حضرت نے پہلی مرتبہ علم تفسیر کی معتبر اور مشہور کتاب” جلالین شریف” کا درس دیا اور 1396ھ میں استاذ حدیث کےلیے منتخب کئے گئے اور آپ کےحوالے علم حدیث کی بےمثال کتاب “مشکوة شریف ” کادرس کیاگیا، جو ایک طویل عرصے تک آپ کے حوالے رہی ،جس کا آپ اپنے نرالے انداز میں درس دیا کرتے تھے۔
اور پھر چند عرصے کے بعد آپ سے دورہ حدیث شریف کی اہم کتابوں یعنی :(1)صحیح مسلم (2)سنن ابوداؤد (3)نسائی شریف کادرس متعلق ہوگیا،جن کادرس آپ بہت ہی عمدہ اسلوبی کےساتھ دیاکرتےتھے،جس کی بناآپ مظاہر علوم میں ایک بےمثال منتظم ہونے کےساتھ ایک باکمال مدرس کی حیثیت سے جانےجاتےتھے۔
انتظامی امور میں آپ کی سرگرمی کو دیکھتے ہوئے جامعہ مظاہرعلوم /سہارنپور کی باوقار شوری نے ماہ صفر 1413ھ مطابق اگست 1992ء میں آپ کو مظاہرعلوم کے لیے نائب ناظم منتخب کیااور پھر آپ کی عمدہ کارکردگی کوسراہتے ہوئے شوری نے 13/ربیع الاول 1417ھ مطابق 30/جولائی 1996ء میں آپ کو ایک نمایاں مقام یعنی ناظم اعلی کےعہدہ پرفائز کیااور آپ نے اس عہدہ کو تاحیات بحسن خوبی نبھایا۔
انتظامی امور میں حضرت ایک انفرادی حیثیت رکھتے تھے ،چناں چہ آپ ہی کے دورنظامت میں مظاہر علوم کو متنوع ترقیات ملی ہیں، نئے نئےشعبہ جات، تخصص کے درجات اور دیدہ زیب ،دلکش اور خوش نما عمارات کا سلسلہ شروع ہوا اور تمام عمارات مکمل ہوئیں ۔
مرحوم ایک اچھے مدرس، منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مصنف اور عمدہ قلم کار بھی تھے، حضرت کئی ایک کتابوں کے مصنف بھی ہیں ،مگر ان سب کتابوں میں، سب سے نمایاں مقام آپ کی تصنیف”درسی افادات” کو ملی ہے، جو اپنے عنوان پر بے نظیر اور ہےمثال کتاب ہے۔
حضرت کی قوت حافظہ اور ٹھوس علمی قابلیت کےسلسلے میں ملک ہندوستان کی مایہ ناز عالم دین اور عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب_زیدمجدہم_نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا:کہ 1966ء تا1968ء کی بات ہے، پورے مظاہر علوم /سہارنپور میں یہ شہرت تھی کہ حضرت سید مولانا سلمان صاحب سے زیادہ بہتر کوئی صاحب استعداد نہیں ہے ،دورہ حدیث کی کتابوں کے اسباق ، تو تمام ہی پڑھنے جاتے تھے، مگر عبارت کا پڑھنا انہیں کے حصہ میں آتا تھا، اور مجھے وہ منظر یاد ہے کہ ہر سال جب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب _رحمتہ اللہ علیہ _مسلسلات ختم کراتے تھے، تو پانچ پانچ گھنٹے مسلسل سید مولانا سلمان صاحب تنہا عبارت خوانی کرتے تھے اور مجال ہے کہ کوئی غلطی ہو جائے اور کہیں پر کوئی سکتہ ہو جائے۔
حضرت بڑے ہی نظیف اور صاف ستھرے انسان تھے اور نظافت و صاف ستھرائی کو پسند کرتے تھے، گندگی سے نفرت ان کی طبعی نفرت تھی؛ یہی وجہ تھی کہ حضرت مظاھرعلوم کے احاطہ میں بہت صاف ستھرائی کا خیال رکھتے تھے ،کہیں بھی کوئی داغ دھبہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔
مظاہر علوم میں آپ نے ایک نمایاں کار نامہ یہ انجام دیا ہے، کہ آپ وہاں کے مطبخ کے نظام کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ چلایا ہے؛ چوں کہ مظاھرعلوم ایک مستند ادارہ ہے، اس لیے وہاں ملک کے کونے کونے اور دیگر ممالک سے بھی بے شمار طلبہ داخلہ لیتے ہیں، جن میں سے اکثر طلبہ کھانے میں روٹی پر اکتفا نہیں کر پاتے ہیں ، بل کہ انہیں جیسے بھی چاول کی ضرورت پڑہی جاتی ہے یعنی روٹی سے انہیں شکم سیری نہیں ہوتی ہے،اس لیے حضرت ناظم سید مولانا سلمان صاحب مظاہری _رحمہ اللہ_ نے ان طلبہ کےلیے چاول کا انتظام کرکے ان پر بڑااحسان کیاہے ،اس سے طلبہ کو بہت راحت ملی ہے۔
حضرت بڑے ہی مہمان نواز تھے، جامعہ مظاہرعلوم میں ہر آنے والے مہمان کا حضرت بڑےہی عزت و احترام کرتے تھے ، ان کے لیے اچھے کھانوں کا انتظام کرتے تھے، مرحوم بڑے ہی اعلی طریقے سے مہمان نوازی کرنا جانتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ہر آنے والے مہمان آپ سے بے حد متاثر ہوکر جاتے تھے اور آپ کی خوب تعریف کرتے تھے۔
تواضع و خاکساری آپ کو ورثہ میں ملی تھی ،آپ بے حد متواضع انسان تھے ، آپ نے کبھی اپنے آپ کو اوروں سے اچھا سمجھا ہی نہیں ہے،اس لیے کہ آپ کے ذہن میں یہ تھا کہ ہر انسان ہم سے اچھاہے،الغرض آپ میں کبر و غرور تھا ہی نہیں ۔
حضرت سید مولانا سلمان صاحب مظاہری کا نکاح: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب_ رحمۃ اللہ علیہ _”آپ بیتی” میں لکھتے ہیں: کہ میری سب سے چھوٹی بچی کا نکاح،جو دوسری اہلیہ کی دوسری بچی ہے، میری ہمشیرہ مرحومہ کے نواسے عزیزم مولوی سلمان سلمہ سےہوا۔
حضرت کے چار صاحبزادگان ہیں:(1) مولانا محمد عثمان (2) مولانا محمد نعمان (3) مولانا مفتی محمد عمر (4)مولانا محمد ثوبان اور تین صاحبزادیاں ہیں۔
مولانا کےانتقال سےملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ہواہے، اللہ حضرت کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے، درجات بلند فرمائے اور اللہ ان کی جملہ خدمات کو قبول فرمائے۔