جوہر یونیورسٹی خطرے میں

معصوم مرادآبادی
رامپور کی جوہر یونیورسٹی پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔اس کی تقریباً آدھی زمین یوپی سرکار نے اپنے نام کرلی ہے۔ الزام ہے کہ جن مقاصد کے تحت یہ زمین حاصل کی گئی تھی، انھیں پورا نہیں کیا جارہا ہے۔جوہر ٹرسٹ کے نام الاٹ کی گئی 173 ایکڑ زمین کا الاٹمنٹ منسوخ کردیاگیا ہے ۔ یہ کارروائی یک طرفہ عدالتی عمل کے بعد کی گئی ہے اور مخالف فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا ہے ۔جوہر یونیورسٹی کو 2006 میں حکومت نے ایک نجی ادارے کے طور پر منظوری دی تھی۔ عظیم مجاہدآزادی مولانا محمدعلی جوہر کی یاد میں قائم کی گئی یہ یونیورسٹی شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے۔ پہلا تنازعہ یونیورسٹی کے بانی محمداعظم خاں کے تاحیات چانسلر بننے کا تھا جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو منظوری نہیں مل پارہی تھی۔ بعد کو اسمبلی میں ایک خصوصی بل پیش کرکے اس اڑچن کو دور کیا گیا۔ اس کے بعد اعظم خاں پرمسلسل یہ الزامات لگتے رہے کہ وہ یونیورسٹی کی توسیع کے لیے ان لوگوں کی زمین بھی زورزبردستی حاصل کررہے ہیں، جو اسے فروخت نہیں کرنا چاہتے۔ فی الحال سرکار کی طرف سے یونیورسٹی کی آدھی زمین پرقبضہ کرنے کے بعد ان لوگوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طرزپر ایک اور یونیورسٹی کے وجود میں آنے سے خوش تھے۔
جوہر یونیورسٹی کے بانی چانسلر اعظم خاں اور ان کے جواں سال فرزند عبداللہ اعظم پچھلے ایک سال سے سیتاپور جیل میں قید ہیں۔ ان کی اہلیہ اور رامپورشہر کی ممبر اسمبلی تزئین فاطمہ کو حال ہی میں ہائی کورٹ سے ضمانت ملی ہے، جسے رد کرانے کے لیے یوپی سرکار سپریم کورٹ تک گئی ، لیکن وہاں اسے کامیابی نہیں ملی۔ اعظم خاں کے خلاف دائر 100سے زیادہ مقدمات میں زمینوں پر قبضہ کرنے کے مقدمات بھی شامل ہیں اور انھیں یوپی سرکار کی ویب سائٹ میں ’’بھومافیا‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق رامپور انتظامیہ نے سرکاری ریکارڈ میں جوہر یونیورسٹی کی 173؍ ایکڑ زمین سے جوہر ٹرسٹ کا نام کاٹ کر سرکار کا نام چڑھا دیاہے۔ واضح رہے کہ یہ اراضی اس وقت خریدی گئی تھی جب یوپی میں سماجوادی پارٹی کی سرکار تھی اور اعظم خاں اس حکومت کے سب سے طاقتور وزیر کہلاتے تھے۔ وہ کئی مرتبہ رامپور سے یوپی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں ۔ ایک بار جب وہ اپنے روایتی حلقہ سے چناؤ ہار گئے تھے تو ملائم سنگھ نے راجیہ سبھا کا ممبر بناکر ان کا جلوہ برقرار رکھا تھا۔ اعظم خاں پچھلے لوک سبھا الیکشن میں رامپور سے بھاری ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد انھیں اور ان کی بیوی و بیٹے کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ سب سے سنگین الزام یہ تھا کہ عبداللہ اعظم کو اسمبلی الیکشن لڑانے کے لیے اس کے پیدائش سرٹیفیکٹ میں ہیر پھیر کی گئی تھی تاکہ الیکشن لڑنے کی 25 برس کی عمر کی لازمیت پوری کی جاسکے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اعظم خاں ایک زمانے میں رامپور کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے اور انھوں نے نوابوں کے اس شہر میں اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے سو جتن کیے۔ سبھی جانتے ہیں کہ رامپور اترپردیش کی مشہور ریاست رہی ہے اور یہاں برسہا برس نوابوں کا جلوہ رہا ہے۔ اس ریاست کے بانی نواب فیض اللہ خاں کی پیدائش بریلی ضلع کی آنولہ تحصیل میں 1733 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے بعد میں رامپور کو اپنی ریاست کی راجدھانی بنایا۔ اس کے بعد رامپور پر دس نوابین نے راج کیا۔ نوابین رامپور کی سب سے اہم یادگار رضا لائبریری ہے جسے رامپور کے آخری حکمراں نواب رضاعلی خاں (متوفی1966) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس لائبریری میں تیس ہزار کتابوں کے علاوہ نوابین رامپور کے جمع کیے ہوئے نایاب قلمی نسخے، مخطوطات اور نادر دستاویزات موجود ہیں ۔ رامپور کی پارلیمانی نشست بھی برسوں نواب خاندان کے پاس رہی اور یہاں سے پہلے ذوالفقارعلی خاں عرف مکی میاں اور بعدمیں ان کی اہلیہ بیگم نوربانو لوک سبھا کی ممبر منتخب ہوئیں۔
اعظم خاں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وہاں طلباء یونین کے سیکریٹری بھی رہے۔ 1975میں ایمرجنسی کے دوران انھیں یونیورسٹی سے ہی گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ڈیڑھ برس بنارس کی جیل میں قید رہے ۔ جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور رامپور شہر سے اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ ان کی پہلی شناخت ایک شعلہ بیان مقرر کی تھی ، جس کی مشق انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء سیاست کے دوران کی تھی۔ اسی شعلہ بیانی نے انھیں جذباتی مسلمانوں میں مقبول بنایا۔ اعظم خاں کے ووٹر رامپور کے غریب عوام تھے، جنھیں انھوں نے یہ باور کرایا کہ رامپور کے نوابوں نے ان کا بدترین استحصال کیا ہے اور آج بھی وہ اسی استحصال کا شکار ہیں۔ رامپور والوں پر اعظم خاں کا جادو چل گیا اور وہ لگا تار شہر سے اسمبلی کا چناؤ جیتتے رہے۔ ان کی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ جب بھی یوپی میں سماجوادی پارٹی کی سرکار قائم ہوئی تو انھیں دیگر وزارتوں کے ساتھ مسلم بہبود ، امور حج اور وقف کا وزیر بنایا گیا۔ اس طرح وہ یوپی میں مسلمانوں کے واحد لیڈر کہلائے جانے لگے۔ لیکن جیسے جیسے ان کی سیاسی طاقت بڑھی ، ویسے ویسے ان کے طرزعمل میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی۔ ان پر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بدسلوکی اور بدکلامی کے الزامات لگنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک طرف جہاں انھوں نے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال رامپور جیسے پسماندہ شہرکو چار چاند لگانے میں کیا تو وہیں دوسری طرف انھوں نے اپنی اچھی خاصی توانائی ان لوگوں کو ستانے میں ضائع کی جو ان سے کسی بھی قسم کا اختلاف رکھتے تھے۔ حالانکہ دوراندیشی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ درگزر سے کام لیتے اور اپنی نگاہ بلند رکھتے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج انھیں جن مقدمات کا سامنا ہے، ان میں سے بیشتر ان ہی لوگوں نے قائم کروائے ہیں جنھیں انھوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں ستایا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوہر یونیورسٹی کی صورت گری میں اعظم خاں نے خاصی محنت ومشقت کی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے یونیورسٹی کی توسیع و تعمیر کے لیے کچھ ایسے لوگوں کی آراضیاں بھی طاقت کے زور پر اپنی تحویل میں لیں جو انھیں فروخت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ کسٹوڈین اور وقف کی زمینیں بھی اس میں شامل کی گئیں۔ ان بے ضابطگیوں کے سبب ہی جوہر ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے۔ نیا تنازعہ اس 173؍ایکڑ زمین کا ہے جو سرکار سے رعایتی قیمت اور رعائتی اسٹامپ پر حاصل کی گئی تھی۔ بی جے پی کے مقامی لیڈر آکاش سکسینہ کی شکایت پر اے ڈی ایم کی عدالت نے اس زمین کی ملکیت تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا اور اس فیصلے کے تیسرے روز ہی تحصیل صدر کے ریکارڈ میں اسے سرکاری زمین کے طور پر درج کرلیا گیا ۔مقدمہ ہارنے والے کو نظر ثانی اور اپیل کی مہلت بھی نہیں دی گئی ۔رامپور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کاؤنسل (مالیات) اجے تیواری نے انگریزی روزنامہ’ انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ جوہر یونیورسٹی کو الاٹ کی گئی زمین واپس لینے کا حکم اے ڈی ایم (انتظامیہ) جگدمبا پرساد گپتا نے عدالت کی اس رولنگ کے بعد صادر کیا ہے کہ جوہر ٹرسٹ ان شرطوں کی پابندی نہیں کررہا ہے جو حکومت نے 2005 میں زمین کی فروخت کے وقت طے کی تھیں۔ ان میں ایک اہم شرط زمین کو فلاحی کاموں کے لیے استعمال کرنے کی ہے۔ اس کے علاوہ ایس سی، ایس ٹی اور گرام سماج سے بھی زمین کی خریداری کی گئی ہے جو سرکار کی اجازت کے بغیر ممنوع ہے۔ جوہر ٹرسٹ پر یوپی ریونیو ایکٹ کی خلاف ورزی کا بھی الزام ہے۔ اعظم خاں پر عوامی شاہراہوں کی بھی کچھ زمین یونیورسٹی میں شامل کرنے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ کسٹوڈین جائیداد کا کچھ حصہ بھی غیرقانونی طور پر یونیورسٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش کی یوگی سرکار نے یونیورسٹی کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے جال بچھا دیا ہے۔ اس سے اترپردیش کے مسلمانوں میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے ۔ یوپی کے کئی شہروں میں جوہر یونیورسٹی پر سرکاری قبضہ کی کوششوں کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں، کیونکہ یوگی سرکار اعظم خاں کے خلاف جو کارروائیاں انجام دے رہی ہے ، ان سے سیاسی انتقام کی بو آتی ہے ۔ اعظم خاں سے تمام تر اختلافات کے باوجود یونیورسٹی کے حق میں آواز بلند کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اقلیتی تعلیمی ادارے کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک نہ کرے ۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان طلباء کا ہے جو یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یونیورسٹی میں حکومت کی دخل اندازی نے ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ تعلیمی و سماجی طور پر سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت کو سر اٹھاکر جینے کا موقع فراہم کرنا حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے۔ ’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘ کا اصل مفہوم بھی شاید یہی ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں