پروفیسر اختر الواسع
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے تقریباً ۴۴۱سال بعد اپنے بانی سرسید احمد خان کی اس روایت کو دوہرایا جس میں انہوں نے ۸جنوری ۷۷۸۱کو ایم اے او کالج کا سنگ بنیاد رکھتے وقت گورنر جنرل لارڈ لیٹن کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی اہم چیزوں اور بعض نوادرات کو ایک کیپسول میں بند کر کے اسٹریچی ہال کے قریب زمین میں محفوظ کر دیا تھا تاکہ جب کبھی آنے والی نسلیں علی گڑھ تحریک سے متعلق اپنے بانی اور ان کے رفقاءکے بارے میں جاننا چاہیں اور ادارے کی شروعات کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا چاہیں تو وہ اس کیپسول کو زمین کی تہوں سے نکال کر تمام جان کاری حاصل کر سکتے ہیں۔یہ بہت دل چسپ بات ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور نے اپنے رفقاءکے ساتھ مل کر ایک ایسے ہی تاریخی کیپسول کو سرسید،ان کے رفقاءکی تحریروں اور دیگر اہم دستاویزات کے ساتھ وکٹوریہ گیٹ کے سامنے ایک بار پھرزمین کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیاتاکہ جب دوسری صدی کا سفر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پورا کرے اوراس صدی کے لوگ جب اپنے ادارے کے تاریخی سفر ،اس سے متعلق حقائق ،اس کے بانی سے متعلق معلومات کو جاننا چاہیں تو وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔تاریخ کے عمل اور سفر دونوں کو محفوظ رکھنے کا یہ ایک انوکھا طریقہ ہے۔یہ وہ دفینہ ہے جو مردوں کی نہیںبلکہ زندوں کی کوششوں کا احاطہ کرنے والا ہے۔تاریخ بلاشبہ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے اور اس حافظے کو اس طرح کا کیپسول ایک دوام بخشتا ہے۔بقول پروفیسر طارق منصور تاریخ روایات کو منتقل کرنے کے عمل سے شروع ہوتی ہے اور روایت ماضی کی عادات و رواجوں کو مستقبل میں لے جانے کا ہی نام ہے۔انہوں نے جارج سنتاینا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ماضی کو یاد نہیں کرتے ہیں انہیں اسے دوہرانے کی تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ہم سب کے لیے بقول پروفیسر شافع قدوائی یہ امر اور بھی زیادہ خوش گوار اور خوش آئند ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کیپسول میں علی گڑھ کی تاریخ اور علمی اثاثے کومحفوظ کرنے کے علاوہ یونیورسٹی نے اپنے صاحب فراست وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی رہ نمائی میں ڈیجیٹل طریقے پر بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے اس کیپسول میں سر سید،محسن الملک ،تھیوڈور اور جی ایف گراہم کی کتابوں سمیت ۲۲ دسمبر ۰۲۰۲ کو صدی تقریب کے موقع پر وزیر اعظم شری نریندر مودی کی تقریر اور پوسٹر اسٹیمپ شامل ہیں۔
اسی بیچ ۱۱جنوری ۱۲۰۲ کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے پروفیسر طارق منصور کی صدارت میں پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی کی تجویز پر اتفاق رائے سے ایک اہم اور تاریخ ساز فیصلہ یہ کیا کہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں ایک سینٹر فار صوفی ازم اور اسلامک فلاسفی قائم کیا جائے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں اس کے قیام سے اب تک ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی ،ہندوستانی فلسفے،اسلامی فلسفے اور مغربی فلسفے پر غیر معمولی علمی اور تحقیقی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دے چکا ہے اور تقریبا نوے سے زائد ریسرچ اسکالرس کو جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں ،ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کام یاب رہ نمائی کر چکا ہے۔اس شعبے کا اسلامی فلسفے کا جریدہ ’علی گڑھ جنرل آف اسلامک فلاسفی‘قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنا چکا ہے۔اس شعبے کے بانی اساتذہ میں ایم اے او کالج کے زمانے سے علامہ شبلی نعمانی،پروفیسر آرنلڈ،پروفیسر ظفر الحسن،پروفیسر ایم ایم شریف،پروفیسرایم قمرالدین،پروفیسر ظفر احمد صدیقی،پروفیسر عشرت حسین انور ،پروفیسر جمال خواجہ،پروفیسر وحید اختر اور ڈاکٹر نور نبی صاحبان شامل ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے سو سال کے تعلیمی و تدریسی سفر کوپورا کرنے کے بعداگر صوفی ازم اور اسلامک فلاسفی کا ایک سینٹر قائم کرتی ہے تویہ ہر اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کا ایسا اقدام ہوگا جس کو بہت پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے تقابلی روحانی مطالعے کے دروازے کھلیں گے اور تاریخ ،عمرانیات ،فلسفے ،صوفی تصورات کے دائروں میں رہ کر ہم علمی و فکری افق پر نئی کامیابیاں حاصل کریں گے۔اس سے فکر اسلامی کے مطالعے کو نئی گہرائی اور گیرائی عطا ہوگی اور پرانی علمی تحقیقات پر از سر نو غور کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی گھیرا بندی ہو رہی ہے ،اسلام کی فلسفیانہ اساس اوراسلامی تصوف کی توحید پر مبنی خدا پرستی ،انسان دوستی اور فطرت سے ہم آہنگی اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر امکانات کودنیا میں پید اکرے گی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مذکورہ بالا اکیڈمک کونسل کی میٹنگ میں ایک اور تاریخی فیصلہ لیا گیا اور وہ یہ کہ یونیورسٹی میں واقع پروفیسر خلیق احمد نظامی سینٹر فار قرآنک اسٹڈیز میں ۲۲-۱۲۰۲ کے تعلیمی سال سے مطالعات قرآنی میں ایم اے کا ایک نیا کورس شروع ہوگا۔قرآن کریم سے متعلق یہ مرکزجسے مشہور مو¿رخ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے بانی کے عاشق صادق پروفیسر خلیق احمد نظامی کے اہل خانہ نے ان کی یاد میں ایک گراں قدر عطیہ کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریبا ۴۱ سال پہلے قائم کرایا تھا اور آج سرسید ہاو¿س کے پاس اس کی شاندار اورپرشکوہ عمارت قرآن پاک، علی گڑھ اور اس کے پیر دانا سر سید سے نظامی صاحب کے عشق کی جیتی جاگتی تعبیر ہے۔کافی عرصے تک اس کے ڈائریکٹر پروفیسر خلیق احمد نظامی کے بڑے بیٹے پروفیسر احتشام احمد نظامی اعزازی طور پر رہے۔بعد ازاں اس کے ڈائریکٹر مشہور عالم ودانش ور انگریزی کے پروفیسر اور قرآنیات، خاص طور پر قرآن کے انگریزی تراجم پر غیر معمولی نظر رکھنے والے، پروفیسر عبدالرحیم قدوائی اس کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اسے نئی بلندیوں تک لے جا رہے ہیں۔اس سینٹر میں ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹ کے کورسز کے علاوہ ایک غیر معمولی اہمیت کا جو کام ہوا وہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ و طالبات کو قرآن کی ناظرہ تعلیم دینا ہے اور اس طرح پروفیسر قدوائی اور ان کے ہم کار نہ صرف ثواب دارین حاصل کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل کا قرآن سے ایک زندہ ،متحرک اور فعال رشتہ بھی قائم کرا رہے ہیں۔اس کے علاوہ اس سینٹر میں ایک قرآنک اسٹڈیز فورم بھی ہے جس کے تحت اساتذہ طلبہ اور عام لوگ بلاشرط آتے ہیں اور قرآنی بصیرت اور زندگی سے قرآن سے جڑے ہوئے رشتوں کے بارے میں رہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور اس کے علاوہ مطبوعات کی ایک گراں قدر تعداد ہے جو اب تک منظر عام پر آچکی ہے اور اس کے علاوہ غیر ملکی فضلاءہر سال قرآن کریم پر پروفیسر نظامی یادگاری خطبہ بھی دیتے ہیں۔پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے مطالعات قرانی میں ایم اے کے کورس کی بھی منظوری لے لی ہے ،اس سے نئی نسل اور اس کورس کے شرکاءنہ صرف رازی وکشاف کی قرآن کے باب میں گرہ کشائی سے براہ راست متعارف ہوں گے بلکہ ساتھ میں جو دنیا کو درپیش عصری مسائل و مصائب ہیں وہ چاہے ماحولیات سے متعلق ہوں یا معیشت و معاشرت سے،روحانیت سے وابستہ ہوں یا اخلاقیات سے سب میں ایک فکری انقلاب اور مثبت عملی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ہم سب کو اس کے لیے پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کو مبارک باد دینا ہی چاہیے ویسے یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ان کے نانا مولانا عبدالماجد دریابادی خود قرآنی فکر کے غواص اور تفسیر ماجدی کے انگریزی اور اردو میں خالق کے طور پر ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی علی گڑھ کے موجودہ وائس چانسلرپروفیسر طارق منصور اور ان کی سربراہی میں مجلس ارکان کو بھی مبارک باد دینی چاہیے۔
علی گڑھ میں ایک صدی کا سفر پورا ہونے پر ایک نئے ٹائم کیپسول کے ذریعے تاریخ کو محفوظ کرنا اسلامی فلسفے اور تصور پر ایک مرکز کے قیام کا فیصلہ اور ان سب سے بڑھ کر مطالعات قرآنی میں ایم اے کے کورس کی شروعات ایسے مبارک اقدامات ہیں جن سے لگتا ہے کہ علی گڑھ نئی صدی کا سفر نئے نوٹ پر شروع کر رہا ہے اور ان شاء اللہ ان نئے کورسز کے ذریعے وہ کرنے جا رہا ہے جو علی گڑھ کا فرض بھی تھا اور ان پر قرض بھی۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)