ہندوستان میں 22 سے 29 سال کے قریب 82 فیصد شہری نوجوان اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں، جائیداد سے متعلق مشورہ دینے والے سی بی آر ای انٹرنیشنل ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین میں یہ اعداد و شمار 60 فیصد اور آسٹریلیا میں محض 35 فیصد ہے، سی بی آر ای نے ہندوستان سمیت 13 ملکوں میں کئے گئے سروے کی بنیاد پر یہ رپورٹ جاری کی ہے، اس میں بھارت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ ملک کی مستند تصویر بھلے نہ ہو، پر اس میں کچھ حد تک ہمارے سماجی و اقتصادی زندگی کی جھلک ضرور ملتی ہے۔
بھارت میں مشترکہ خاندان کمزور پڑرہے ہیں، لیکن قیمت کے طور پر ان کی دھمک آج بھی قائم ہے، ہر شخص کا خاص طور پر مردوں کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا ہی یہاں مثالی حالات سمجھا جاتا ہے، ویسے عملی طور پر والدین کے ساتھ رہنے نہ رہنے کا تعلق روزگار اور شادی سے منسلک ہے، آج بھی بھارت میں 22 سے 29 کے درمیان کام ملنے کی شرح انتہائی کم ہے، مل بھی گئی تو سمجھا جاتا ہے کہ سروس میں جمنے میں وقت لگے گا، اگر کسی کی دوسرے شہر میں نوکری لگ گئی تو تو وہ اپنے سرپرست کو گھر چھوڑ دیتا ہے، ورنہ نہیں، اسی طرح شادی کی عمر بھی اب شہروں میں 30 سے 35 سال کے درمیان ہو گئی ہے، شادی کرنے کے فورا بعد لوگ گھر نہیں چھوڑتے، اسے سماجی طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا، اسی شہر میں باپ اور بیٹے جدا رہیں، اسے غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تاہم ایک وقت کے بعد بچے الگ رہنا شروع کر ہی دیتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ رہنے والے 25 فیصد بھارتی نوجوان اپنا خاندانی گھر چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے، وہیں 23 فیصد اگلے دو ،چار، پانچ سال میں خاندانی مکان چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کچھ وقت پہلے تک نوجوانوں میں اپنا مکان لینے کی فکرمندی نہیں تھی، لوگ اپنے آبائی مکان میں یا کرایہ کے مکان میں رہتے تھے اور ریٹائر ہونے سے ٹھیک پہلے مکان بنایا کرتے تھے، لیکن لبرلائزیشن کے بعد کم عمر میں ہی گھر لینے کا چلن شروع ہو گیا ہے۔
یہ خیال بھی بدل گیا ہے کہ مکان صرف رہنے کے لئے لیا جاتا ہے، نیا فیشن یہ ہے کہ مکان سرمایہ کاری کے لئے لیا جاتا ہے، اس رپورٹ میں 35 فیصد بھارتی نوجوانوں نے کہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کے لئے گھر خریدنا چاہتے ہیں،مغربی ممالک کے بچوں میں شروع سے ہی خود کفیل ہونے کا احساس بھردیاجاتا ہے، ان کے رول ماڈل بھی آزاد طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں، اس لئے 18 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ کچھ نہ کچھ کمانے میں لگ جاتے ہیں، ان کے ملک کا اقتصادی نظام انہیں اس میں مدد کرتا ہے اور 29 کے ہوتے ہوتے وہ اپنے والدین کے سائے سے مکمل طور پرآزاد ہو جاتے ہیں، ہمارے یہاں ایسا کبھی کبھی ہی دیکھا جاتا ہے۔
(بشکریہ نوبھارت ٹائمز،26 نومبر/2016)