خبر درخبر(485)
شمس تبریز قاسمی
ایک بچی بھوک سے تڑپ رہی ہے ،باپ دودھ لینے کیلئے باہر مارکیٹ میں جاتاہے ،لیکن اسے کوئی بھی دوکانداردودھ نہیں دیتاہے ،کیوں کہ اس کے پاس پانچ سو کے دو پرانے نوٹ ہیں جسے کوئی بھی دوکاندار لینے کو تیار نہیں ہے ،ان نوٹوں کے تبادلہ کیلئے مسلسل دودنوں تک وہ نوجوان بینک کا چکر لگاتاہے لیکن وہاں بھی اس کا پیسہ ایکسچینج نہیں کیاجاتاہے ،اس کے پاس بینک اکاؤنٹ نہیں ہے جہاں وہ جمع کرکے بینک سے پیسہ نکال سکے ،ایک طرف بچی کی بھوک تڑپ اور پیاس اس کی پریشانی میں اضافہ کررہی ہے تو دوسرے طرف بینکوں میں دھکے کھانے کے باوجود اس کے روپیہ کا تبادلہ نہیں ہورہاہے ،صورت حال کا سامنا کرنے اور بچی کو بھوک سے تڑپنے کا منظر اس کیلئے دیکھنا مشکل ہوجاتاہے اور زندگی سے مایوس ہوکر وہ شخص پھانسی کے پھندے پر لٹک کر خودکشی کرلیتاہے ،داستان بلند شہر کے خورجہ سے تعلق رکھنے والے اکبر نامی ایک نوجوان کی ہے جس کی تفصیل ملت ٹائمز میں شائع ہوچکی ہے ۔
ایک لڑکی کی شادی کی تاریخ طے ہے ،دورورز بعد دولہابارات لیکر آنے والے ہیں،اس کے ہاتھوں پر مہندی لگ چکی ہے ،شادی کی تیاریاں چل رہی ہے ،مہمان اور رشتے دار گھروں پر تشریف لارہے ہیں،مسرت وشادمانے کے نغمے گائے جارہے ہیں اسی دوران 500 اور 1000 کے نوٹوں پر پابندی عائد کیئے جانے کا فیصلہ صادرکیاجاتاہے اور تمام خوشیاں یکایک غم میں تبدیل ہوجاتی ہیں ،تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور دو دن بعد دولہن بننے والی لڑکی مکان کے چھت سے کود کر خودکشی کرلیتی ہے۔
ایک ستر سالہ ضعیف مرد اپنی ضروریات کیلئے روپیہ تبدیل کرانے بینک کی لائن میں جاکر کھڑا ہوتاہے ،دھوپ کی شدت ،کمزوری اور نقاہت اس پر غالب آجاتی ہے اور یوں کئی گھنٹہ بینک کی لائن میں کھڑے ہونے کے بعد اسے وہیں پر غشی طاری ہوجاتی ہے اور اس کی زندگی کی سانس رک جاتی ہے ،ایک نوجوان کئی دنوں تک بھوک سے پریشان ہوکر اپنا روپیہ تبدیل کرانے بینک کی قطار میں لگتاہے ،گھنٹوں لائن میں لگنے کے باوجود پیسہ نہیں مل پاتاہے ،وہ دوسرے دن جاکر بینک کی لائن میں لگتاہے ،امید ہوتی ہے کہ آج پیسہ مل جائے گا لیکن تین بجے بینک منیجر بینک بند کرکے یہ اعلان کرتاہے کہ پیسہ ختم ہوگیا اب کل ملے گا تیسرے دن وہ لائن میں لگتاہے اور لیکن زندگی مزید ساتھ دینے سے انکا رکردیتی ہے اور بینک کی قطار میں ہی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
بینکوں کی قطار میں موت کے اب تک 80 سے زائد واقعات رونما ہوچکے ہیں ،یہ تمام اموات وہ ہیں جسے میڈیا نے کوریج کیا ہے اور وہ ریکاڈ کے حصہ ہیں ،دیہاتوں اور دوردراز کے علاقوں میں ہونے والی اموات کی کوئی خبر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا شمار ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ان اموات کیلئے ذمہ دار کون ہے؟،پرانے نوٹوں کے عوض سامان نہ دینے والے دوکاندار؟،بینک کے منیجر؟،آربی آئی کے گورنر؟ ،ارباب اقتدار یا پھر نریندر مودی جن کے ایک آمرانہ فرمان کے سبب سو کے قریب لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں اور نہ جانے اور کتنی جانیں جائیں گے ،معروف شاعرہ لتا حیا کا ایک خط ملت ٹائمز میں شائع ہواہے انہوں نے اس میں ایک معنی خیز جملہ لکھاہے کہ وزیر اعظم صاحب !آپ نے دیش کیلئے اپنا خاندان چھوڑدیا اور آپ کی وجہ سے کتنے لوگوں نے اپنی زندگی چھوڑدی ۔یا پھر ہم مان لیں کہ اکبر سمیت موت کی آغوش میں جانے والے ان تمام 80 ہندوستانیوں کی موت جائز ہے ،انہیں کالادھن رکھنے ،ٹیکس ادانہ کرنے ،بینک میں اکاؤنٹ نہ کھلوانے اور پے ٹی ایم استعمال نہ کی سزا ملی ہے ،یہ سب کے سب ملک کے مجرم تھے؟ ،چورتھے؟ بے ایمان تھے؟بلیک منی رکھنے کے مجرم تھے؟غداروطن اور قانون مخالف تھے ؟ آخر کیوں اور کس جرم کی سزا انہیں ملی ہے ؟کیوں ان کی موت پر کوئی اظہار تعزیت نہیں کررہاہے ؟ کیوں قطار میں لگ کر جان دینے والوں کی موت پر ایوان میں خراج عقیدت پیش نہیں کیا جارہاہے؟ کیوں ان کے اہل خانہ اور لواحقین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جارہاہے؟ اگر یہ مان لیا جائے نوٹ بندی کے فیصلہ کو تسلم کرنے اور اس پر عمل کرتے ہوئے بینک کی قطاروں میں لگنے کا تعلق وطن پرستی اور حب الوطنی سے ہے تو پھر ان محبین وطن کی موت پر اظہار تعزیت اور خراج عقید ت کیوں نہیں ؟۔
وزیر اعظم نریندر مودی صاحب ! نوٹ بندی کا فیصلہ غلط ہے یا صحیح اس سے کرپشن کے خاتمہ ،جعلی نوٹوں پر قابو پانے اور بلیک منی کا سراغ لگانے میں کامیابی ملے گی یا نہیں یہ ایک مستقل بحث ہے ،ماہرین اقتصادیا ت کیلئے تفصیل طلب بحث ہے تاہم ایک عام شہری یہ کیلئے یہ فیصلہ رحمت کے بجائے زحمت اور سکون کے بجائے مصیبت میں تبدیل ہوگیا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل 80 سے زائد اموات ہے اور ان سب کیلئے براہ راست آپ ذمہ دار ہیں ،آپ کے اس فیصلہ سے بہت سی خواتین بیوہ ہوگئی ہیں،بہت سے بچے یتیم ہوگئے ہیں،بہت سی ماؤں سے ان کا بیٹا چھن گیا ہے ،بہت سے لڑکے اپنی ماں سے محروم ہوگئے ہیں،بہت سے بوڑھے بے سہارا اوربے آسرا ہوگئے ہیں ۔یتیمی کا درد کیسا ہوتاہے ،بیوہ کے احساسات کیا ہوتے ہیں ،کسی خونی رشتہ کے فوت ہوجانے پر کیا غم ہوتاہے اس کا احساس ان رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے والے ہی کرسکتے ہیں ،آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہوسکتاہے کیوں کہ آپ نے رشتوں کو نبھانا نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ نبھانے کی صلاحیت آپ کی ذات میں پائی جاتی ہے۔
ہندوستان میں صرف 53 فیصد لوگوں کے پاس بینک اکاؤنٹ ہے ،آن لائن ٹرانزکشن کا استعمال مشکل سے دوفیصد لوگ کرتے ہیں،انٹر نیٹ کا استعمال کرنے والے صرف 34 فیصد عوام ہے ،ایسے ملک میں کرنسی کو بند کرکے کیش لیس استعما ل کرنے کا فروغ دینا، انٹرنیٹ کے ذریعہ ٹرانزکشن کرنے کا فرمان جاری کرنااور نقدروپے کے استعمال پر پابندی عائد کرنا ،نوٹوں کو کاغذکا ٹکرا قراردینا عوام پر سراسر ظلم ہے ،ناانصافی ہے ،قہر اور ستم ہے اس سے ملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی نہیں ہوسکتی ہے بلکہ جی ڈی پی کی شرح میں کمی ہوگی ،کرنسی کی حیثیت مزید کم ہوگی جس کا آغاز ہوچکا ہے اور ڈالر کے مقابلہ میں کرنسی کی قیمت سب سے نچلی سطح پر پہونچ چکی ہے۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com