پروفیسر اختر الواسع
سابق نائب صدرِ جمہوریہ جناب حامد انصاری کی خود نوشت سوانح ابھی منظرِ عام پر آئی بھی نہیں کہ اس کو لے کر ایک واویلا مچا دیا گیا ہے اور یہ کا م ایک ٹی وی چینل کے نمائندے کے ذریعہ ہوا جس نے ہمیشہ تنازعات سے اپنے کو دور رکھنے والے اور ملک کی سالمیت، عزت و آبرو اور وقار کی سربلندی کے لیے اپنے کو وقف کر دینے والے نامور سفارتکار اور مدبر جناب حامد انصاری کو اپنی دانست میں متنازعہ بنا دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ حامد انصاری جو ہمیشہ اپنے صبر و تحمل اور شائستگی کے لیے ساری دنیا میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ انہیں بیچ میں ہی اس کے ذریعہ لینے والے انٹرویو چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
جناب محمد حامد انصاری جو موضع یوسف پور ، ضلع غازی پور کے ایک ایسے نامور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ملک کی آزادی میں اپنی حصہ داری، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے لیے ہمیشہ سے جانا جاتا ہے۔ اور خود حامد انصاری صاحب کی شخصیت نے جس طرح مختلف حیثیتوں اور دشوارترین مراحل میں دنیا میں ملک کی نمائندگی کی ہے اس پر مادرِ وطن کو ان پر سچ مچ فخر ہے۔ چیف آف پروٹوکول کے طور پر نان الائنڈ اور کامن ویلتھ ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنسوں کی پروقار میزبانی ہو، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ،ایران اور افغانستان میں سفیر کا عہدہ ہو یا آسٹریلیا میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کا منصب رہا ہو یا پھر UNOمیں ہندوستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے مو¿ثر اور نمایاں کارکردگی ، ہر موقع پر ہندوستان کا سر اونچا ہی رہا اور یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ انہوں نے پاکستان کی ہند مخالف سازشوں کو ناکام بنا کریہ سب کامیابیاں حاصل کیں۔ وزارتِ خارجہ سے سبکدوشی کے بعدانہوں نے اپنی مادرِ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جس شان سے سربراہی کی اس پر ہر علی گڑھ والے کو ناز ہے۔ پھر نیشنل مائنارٹیز کمیشن کے چیرمین کے طور پر جس طرح انہوں نے کمیشن کو ایک پہچان دی وہ بھی ناقابل فراموش ہے۔ 2007 سے 2017 تک وہ ملک کے دو مرتبہ نائب صدرِ جمہوریہ اور اس حیثیت سے راجیہ سبھا کے چیر مین رہے۔ یہ اعزاز ڈاکٹرایس رادھا کرشنن کے بعد صرف انہیں کے حصے میں آیا۔ ۲۱۰۲ میں ان کا پہلا ’ٹرم‘ پوراہونے کے بعد بجا طور پر یہ اُمید کی جا رہی تھی کہ وہ ملک کے صدرِ جمہوریہ بنائے جائیں گے لیکن سیاست کے کھیل انوکھے ہوتے ہیں اور انہیں ایک دفعہ پھر نائب صدرِ جمہوریہ بنا دیا گیا۔ اپنے دس سال کے نائب صدارت کے دور میں انہوں نے جس دیانت، متانت اوراور فراست سے اس منصب کو سرفرازی عطا کی اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا انہوںنے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی قدر و قیمت میں اپنے غیر جانبدارانہ موقف سے اس کے وقار میں اضافہ تو کیا لیکن اس کی عزت اور شان سے کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیا، ان کے فیصلوں کی ایوان میں حزب اختلاف کے قائدین نے بھی ہمیشہ ستائش تو کی اوران پر مَن مانے طریقے سے ایوان کو چلانے کا الزام عائد نہ کیا ۔
حامد انصاری صاحب نے زندگی بھر جس شعار کو اپنایا وہ سچ بولنے کا رہا ہے اس لیے وہ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو انتہائی نرمی اور شائستگی کے ساتھ بغیر لفظوں کو گھمائے پھرائے کہہ دینے میں کبھی تکلف نہیں کیا ۔ وہ چاہے آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کا جشن ہو ، بنگلور میں نیشنل لا اسکول کا پروگرام ہو یا کرن تھاپر کے ساتھ ٹی وی انٹرویویا اس کے علاوہ بھی جہا ں بھی ان سے کچھ بھی پوچھا گیا انہوں نے ہمیشہ سچ بولا۔
یہ بہت ہی تکلیف دہ امر ہے کہ حامد انصاری کو سچ بولنے پر طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، ان کی حق گوئی کی قدر کرنے کے بجائے ان پر تنقید کی جائے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ ان سے ہر بات پر اتفاق کریں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان کی گرانقدر قومی خدمات کا لحاظ کرے بغیرمحض ان کے مذہبی تشخص کی آڑ میں بلا وجہ کا محاذ کھول دیا جائے ۔ ایک جمہوری معاشرے میں سچ بات کہنا اور صحیح موقع پر کہنا یہ ہر ذمہ دار شہری کا فرض بھی ہے اور دستوری حق بھی ۔ پھر مہاتما گاندھی کے دیش میں یہ اور بھی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے ۔ جناب حامد انصاری کا تو زندگی کا بہت بڑا حصہ مادرِ وطن ہندوستان اور اس کے فرزندوں کے حوالے سے ہمیشہ سچ بولنے میں گزرا ہے اب ان کے اظہارِ خیال پر قدغن لگانے کی کوشش کس طرح مناسب کہی جا سکتی ہے؟ یہ جناب حامد انصاری کے ساتھ سراسر نا انصافی ہوگی اور ساتھ میں ملک میں اظہارِ خیال کی آزادی کو پامال کرنا۔ سرکار و سرکاری ایجنسیوں کو حامد انصاری کے خیالات کی روشنی میں اپنی پالیسیوں اور ملک میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر توجہ دینی چاہئے اور یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ اگر حامد انصاری کے یہاں عوامی دکھ درد اس طرح چھلک اٹھتا ہے تو عام ہندوستانی کے یہاں کیسی چبھن، کیسی گھٹن اور کیسی تڑپ پائی جاتی ہوگی۔
اسے طرفہ تماشہ ہی کہیے کہ ایک ایسی شخصیت جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہندوستان سے متعلق ہر طرح کے جھوٹ اور فریب کو ناکام بنانے میں گزار دیا جس نے ہندوستان کے خلاف پاکستان دشمنی کو ساری دنیا میں شکست دی۔ ۵۶۹۱ ، ۱۷۹۱ ہویا کوئی بھی دوسرا مرحلہ ہو جس شخصیت نے ملک کا ہر مرحلے پر کامیاب دفاع کیا ہوآج اس کی راست گفتاری اور حق پرستی پر انگلی اٹھائی جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ حامد انصاری صاحب نے انتہائی نازک حالات میں ہندوستان کے نام اور نشان کو کبھی نیچا نہ ہونے دیا اور یہ وہ سچ ہے کہ جس کا اعتراف ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم شری نریندر مودی جی نے بھی راجیہ سبھا سے ان کی وداعی تقریب میں کیا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے فرض شناس ،وطن دوست، سچ بولنے والے انسان کو آپ ایک دم کٹہرے میں کھڑا کردیں جس نے اگر کچھ ایسی سچائی کا اظہار کیا ہو جس کا مقصد ملک کی تصویر ،سرکار کے رویوں اور سماجی ہم آہنگی کو بہتر بنانا، جس کا مقصد اکثریت میں خوف کی نفسیات اوراقلیت میں جارحانہ مدافعت یا اس کے بالکل برعکس رویوں کو پروان چڑھنے سے روکنا ہو۔ ہمیں تعجب ہے کہ جب وزیرِ اعظم شری نریندر مودی ، حامد انصاری صاحب کی خوبیوں کے معترف ہیں اور خود حامد انصاری صاحب بھی ان سے بہتر تعلقات کے منکر نہیں تو وہ کون لوگ ہیں جو ان دونوں کو موضوع بنا کر بغض و عناد کی فضا بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
حامد انصاری صاحب کے نکتہ چینوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ محض حکومت کی مشین کا ایک کل پرزہ نہیں ہیں بلکہ اپنی علمی لیاقت، دانشورانہ صلاحیت اورحالات کی سمجھ کے لیے پہچانے جاتے ہیں اس لئے انہیں اس طرح نشانہ بنانا ، ان سے زیادہ ملک کے لئے اچھا نہیں ہے ان کے خلاف کسی طرح کی بلا وجہ کوئی بھی مہم خود ہمارے قومی وقار کے نہ صرف منافی ہے بلکہ ہندوستان اور ہندوستانی قوم کی جو خدمات جناب حامد انصاری نے اب تک انجام دی ہیںان کے پیش نظر یہ ایک طرح کی احسان نا شناسی ہوگی۔
جناب حامد انصاری صاحب نے اور موقع بموقع اس ملک کے اکثرکارگزار منصب داروں ،دانشوروں اور عوامی خدمت گزاروں نے اگر کچھ چیزوں پر توجہ دلائی ہے ، سرکاری پالیسیوں پر تنقید کی ہے تو سرکار کو ان تمام دکھ بھرے احساسات کو جاننے کے لئے کوئی میکینزم تیار کرنا چاہئے تاکہ افہام و تفہیم کے دروازے ’وا ‘ ہو سکیں اور سب کا ساتھ، سب کا وِکاس اور سب کا وشواس کی بات سچ ہو سکے۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)