فضل المبین
(سب ایڈیٹر ملت ٹائمز دہلی)
ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ خاندانوں کے کئی ایک بزرگ خاموش سے رہتے ہیں ، انکی آواز بہت کم سنائی دیتی ہے لیکن جب وہ دنیا سے اٹھ جاتے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی قیامت برپا ہوگئی ہو ، ہر سمت تاریکی نظر آتی ہے ، یہ زمین اپنی ہزار وسعتوں کے باوجود تنگ داماں ہو گئی ہے ۔۔۔ اور دور تک خلا محسوس ہونے لگتا ہے ۔۔۔ ایسی شخصیتوں کی وفات کی خبر جسے ملتی ہے وہ دل پکڑ کر رہ جاتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ لمحہ کے لئے دھڑکن بند ہو جاتی ہے ۔ آنکھوں سے اشک اُبل پڑتے ہیں اور چہرہ پر مایوسی چھا جاتی ہے ۔
ایسے ہی کوچ کرنے والوں میں ہم سب کے قاضی صاحب ، قاضی شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ مولانا عبد الجلیل قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔
جمعرات کا دن بڑا ہی شاندار اور کامیاب گزرا تھا اور ہم بعد نماز مغرب جمعہ کی تیاری میں لگے تھے ۔۔۔ اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں غور و فکر میں مبتلا تھے ۔۔۔۔ تبھی والد محترم کے موبائل پر فون آیا ۔۔۔ اور نہایت ہی کربناک خبر موصول ہوئی وہ یہ کے بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کے قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی عبد الجلیل قاسمی اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ رجعون زبان سے جاری ہو گیا ۔۔۔۔۔ طبیعت غمگین ہوگئی ۔۔۔۔ اور حضرت قاضی صاحب کے ساتھ بیتے ہوئے اُن لمحات کو سوچنے لگا ۔۔۔۔
حضرت قاضی صاحب کا میں تو براہ راست حضرت کا شاگرد نہیں تھا ۔۔۔ لیکن حضرت کی دست شفقت میرے سروں پر درجنوں بار پڑی تھی ۔۔۔ اور متعدد بار دعائیں ملی تھی ( الحمدللہ )
آہ ! مجھے کیا ہی خوب یاد ہے وہ زمانہ جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے ۔۔۔ حضرت قاضی صاحب نانا محترم کے مہمان خانہ میں تشریف لاتے ہم سب بچے دوڑ کر مصافحہ کرتے ۔۔۔۔ حضرت قاضی صاحب ہم لوگوں سے نام پوچھتے اور بے شمار دعاؤں سے نوازتے ۔۔۔۔۔
حضرت قاضی صاحب کا ڈھاکہ علاقہ اور میرے گھرانہ سے کافی گہرا اور مضبوط رشتہ تھا ۔۔۔۔ کیونکہ میرے والد محترم مولانا نذر المبین صاحب ندوی کے ایک لمبے عرصے سے امارت سے وابستہ ہیں ۔۔۔۔ وہیں دوسری طرف جب ڈھاکہ میں دار القضاء کا قیام عمل میں آیا تو حضرت قاضی صاحب ہی قاضی شریعت ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔ اسکی وجہ سے ڈھاکہ سے کافی قربت حاصل تھی ۔۔۔۔ حضرت قاضی صاحب جب بھی علاقہ کا دورہ کرتے تو میرے یہاں تشریف لاتے ۔۔۔ اس سے ظاہر ہے کہ : حضرت قاضی صاحب کا تعلق گہرا اور مضبوط تھا ۔
میں جب دار العلوم الاسلامیہ رضا نگر میں زیر تعلیم تھا اس وقت جب بھی حضرت سے ملاقات ہوتی حضرت بڑے خوش ہوتے گھر والوں کی خبر دریافت کرتے اور بے شمار دعاؤں سے نوازتے ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت قاضی صاحب کا وہ سفر بھی یاد ہے جب اس علاقہ کے مشہور لیڈر ایم پی مطیع الرحمن صاحب کی وفات ہوئی تھی تو انکی نماز جنازہ حضرت مولانا قاضی عبد الجلیل قاسمی نے ہی پڑھائی تھی ۔۔۔
قاضی عبدالجلیل قاسمی 1942ٔ میں دھوبنی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم سرکاری لور پرائمری اسکول میں ہوئی۔ چچا مولانا محمد یعقوب مرحوم سے فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ مولانا 1959 میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے – دورۂ حدیث کی تعلیم کے بعد مزید ایک برس فن ہیت اور عربی ادب کی بھی پڑھائی کی ۔ اس بعد آپ 24 دسمبر 1964 کو مدرسہ اسلامیہ آورپور مشرقی چمپارن میں صدر مدرس بنے ۔ اس کے بعد 1966 میں گھر آکر روزی روٹی کے لئے تجارت کی ، آپ نے تقریباً 2 سال تک تجارت کا مشغلہ جاری رکھا پھر 1968 میں مدرسہ اسلامیہ بیتیا میں درس و تدریس کا کام شروع کیا اور وہاں چودہ سالوں تک خدمات انجام دیں۔
اس کے بعد آپ نے چمپا رن کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ میں درس و تدریس کے فرائض کو انجام دیا
جب بیتیا اور ڈھاکہ میں دارالقضاء قائم ہوا تو قضاء کی ذمہ داری بھی حضرت قاضی شریعت کو ملی ۔۔۔ اس کے بعد سے لیکر انتقال کے دن تک قاضی صاحب مرکزی دار القضاء کے دفتر میں کام کو انجام دیتے رہے ۔
مولانا قاضی جسیم الدین رحمانی کے انتقال کے بعد قاضی شریعت ہوئے ۔۔۔ اور آخر دن تک کام کرکے ہی اس دار فانی کو الوداع کہا ۔۔۔۔
حضرت قاضی صاحب کافی عرصے سے مختلف امراض میں مبتلا تھے اس کے باوجود حضرت پوری پابندی کے ساتھ دفتر آتے اور سارا کام کرتے ۔۔۔ اور معاملات میں شریعت کے اعتبار سے فیصلے کرتے اور اس میں کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔
حضرت قاضی صاحب کم گو صفت انسان تھے ۔۔۔ سنت و شریعت کے پیکر اور سادگی کی مثال تھے ۔۔نمازوں کے اتنے پابند تھے کہ نہ صرف فرائض بلکہ نوافل کی بھی پابندی کرتے ، یہاں تک کے سفر میں بھی اشراق اور تہجدکی نماز قضا نہیں ہوتی تھی ، معاملات کی صفائی میں بھی ممتاز تھے، امانت داری ، دیانت داری،سب کے ساتھ خیر خواہی ان کی نمایاں خوبی تھی ، فقہ و قضا میں ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کامیاب مدرس بھی تھے ۔
حضرت قاضی صاحب کسی کے خواہش کے مطابق فیصلے نہیں فرماتے تھے اور اسکے مصداق تھے کہ : بازار میں خریدے جانے والا سامان نہیں ہوں ۔۔۔۔
حضرت ہمیشہ حق گوئی اور دیانتداری کے ساتھ فیصلہ کرتے تھے ۔
حضرت قاضی صاحب کئی امراض سے دو چار تھے ۔ سابقہ 30/ سالوں سے شوگر کے مریض تھے ۔۔۔۔ کئی بار طبیعت انتہائی علیل بھی ہوئی ۔۔۔۔ اسپتال میں داخل کرایا بھی گیا ۔ ایک ہفتہ قبل بھی دل کے عارضہ کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا ، اسکے بعد ٹھیک ہو گئے اور دفتر بھی آنا شروع کر دیا تھا۔
انتقال کے دن حضرت قاضی صاحب معمول کے مطابق دفتر آئے ۔۔۔۔ سارا کام کیا ۔۔ کچھ فائلوں کو اپنے معاونین کے سپرد کیں ۔۔۔۔ اگلے دن گھر آنے کا پروگرام تھا ۔۔۔ ٹکٹ بھی جیب میں ہی تھا ۔۔۔ اور اگلے جمعہ کو واپسی تھی ۔۔۔۔ قاضی صاحب کی خواہش تھی کہ : ایک بار گھر آجائیں اور بھائی بہن سے بار مل لیں ۔ قاضی صاحب نے اپنے ایک عزیز سے فرمایا تھا کہ : بھائی اور بہن کا فون آرہا ہے کہ ایک بار گھر آجائیں، ہم لوگ ایک بار مل لیں، وہ دونوں بھی اپنی طبعی عمر کو پہنچ گئے ہیں اور بیمار رہتے ہیں اور میری طبیعت بھی اچھی نہیں رہتی ہے ۔
حضرت قاضی صاحب نے جمرات کے دن عصر کی نماز امارت شرعیہ کے جماعت خانے میں باجماعت ادا کی ۔
عصر کے بعد گھر کے لیے تشریف لے گئے ۔۔۔۔ اور مغرب کی نماز کے لیے گھر کے قریب مسجد کے لیے گھر سے نکلے ۔۔۔ ایک طرف 18 فروری بروز جمرات کو سورج غروب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ پٹنہ کی مسجدوں میں حی الصلاہ حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو رہی تھی ۔ وہیں اللہ کا ایک بنده ولی صفت انسان اپنے رب حضور حاضر ہو گیا ۔۔۔۔ (یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مر ضیہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی) کا مصداق بن گیا ۔
چاند مفلس ہو گیا سورج سوالی ہو گیا
بس ایک ترے جانے سے شہر خالی ہو گیا
حضرت قاضی شریعت کی وفات ایک گھر اور خاندان کی وفات نہیں بلکہ امارت شرعیہ کی ایک دیوار حیات گر گئی ہے جن پر قضاء کی ایک عمارت قائم تھی ۔ظاہری طور پر ایک آدمی کی کوچ ہے لیکن در حقیقت ایک قوم ایک فکر ایک امت کی کوچ ہے ۔
حضرت قاضی صاحب اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ داعی اجل کو لبیک کہ گئے ، لیکن ہمارے لئے ایسے نمونے چھوڑ گئے جن کو اپنا کر ہم اخرت کو سنوار سکتے ہیں ۔ اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ہم اخلاف کو بھی حضرت کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین