مولانا عبدالرحمن فرید ندوی مختصر زندگی میں مختلف میدانوں کے کامیاب ترین شہسوار کا نام ہے
“ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا”
مولانا کا ہمارے والد گرامی قدر حفظہ اللہ سے تعلق تقریباً 24 سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ مولانا جب 1997 میں قطر اوقاف کی ملازمت پر تشریف لائے اسی وقت سے ہمارے گھر ان کا مسلسل آنا جانا تھا۔ مولانا اس وقت بالکل جوان تھے اور انتہائی متحرک اور فعال تھے۔ ہم لوگ بچپن سے مولانا کو انکل کہتے تھے اور مولانا بھی ہم تمام بھائی بہنوں سے بہت محبت کرتے تھے بلکہ حقیقی بھتیجوں والا معاملہ رہتا تھا اور جب سے مولانا کا حادثہ فاجعہ ہوا ہے تو سب ہی لوگوں پر بہت اثر ہے اور ماضی کی تمام تر یادیں نظروں میں گھوم رہی ہیں۔ سکتہ کا عالم ہے اور اسی لیے اب تک ہمت نہیں ہو سکی تھی کہ کچھ لکھ سکیں کیونکہ ابھی تک یقین نہیں ہو پا رہا ہے کہ مولانا اتنی جلدی چلے گئے۔۔۔ بہرحال جانا تو سب کو ہے اور سب کو اللہ وہاں جنت میں اکٹھا فرمائے۔
مولانا نے مختلف میدانوں میں جو خدمات انجام دیں اور جس طرح محنت کی (اپنی معلومات کی حد تک) اسکی تفصیلات پیش خدمت ہیں۔
ابنائے ندوہ قطر کا قیام
ہم لوگ چھوٹے چھوٹے تھے غالباً 1998 کا سال رہا ہوگا مولانا کو قطر پہنچے ایک سال گزرا تھا۔ ہمارے گھر اُس دن ایک عظیم الشان عشائیہ کا انعقاد ہوا تھا جس میں قطر کے کونے کونے سے ندوی حضرات جمع ہوئے تھے اور اسی مجلس میں ابنائے ندوہ قطر کا قیام عمل میں آیا (یوں تو ابناء ندوہ پہلے سے یہاں کام کر رہے تھے لیکن اس وقت کو از سر نو منظم کیا گیا سینیر ندوی فضلاء کی سرپرستی میں ) اور چند ایک متحرک لوگوں کو ذمہ داریاں تقسیم ہوئیں اور ابنائے ندوہ قطر کو مرتب و متحرک کیا گیا اور مولانا نے اس کو منظم کرنے میں اور اس کی فعالیت میں بنیادی کردار ادا کیا اور وہ کچھ اس طرح دیوانہ وار اس کام میں لگے کہ چند مہینوں میں تنظیم متحرک اور فعال ہو گئی اور پھر مولانا نے دیگر ذمہ داروں کے ساتھ مل کر عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے مواقع پر مختلف تقریبات منعقد کیں جس میں تمام ندوی حضرات مع اہل و عیال یہاں کے دور دراز علاقوں کی طرف جایا کرتے تھے اور اس دیار ہجر میں عید و بقرعید کی خوشیاں بانٹا کرتے تھے۔ بچوں کے لیے کھیل کود کے علاوہ مختلف تربیتی پروگرام منعقد ہوتے تھے۔ گویا کہ ابنائے ندوہ کے متحرک ہونے کے بعد سے ندوی برادری کے آپسی تعلقات ایک خاندان کی طرح ہوگئے تھے۔ کوئی کہیں کا بھی ہو، کسی علاقے کا ہو سب لوگوں کے آپسی تعلقات دیگر ملکوں میں مقیم ابنائے ندوہ کے لیے ضرب المثل بن گئے تھے۔ ہر مہینہ کے آخری جمعرات یا جمعہ کو ابنائے ندوہ کی نشست ہوتی تھی جس کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ مولانا اس نشست کے لیے انتہائی فکر مند رہتے تھے۔ دور دراز کے علاقوں میں جو ندوی ائمہ مختلف مساجد میں تھے اور ان کے پاس سواری کا نظم نہیں تھا ان کو نشست میں لانے اور واپس پہنچانے کا نظم کرتے تھے اور کئی بار خود ایک کونے سے دوسرے کونے میں اسی طرح کے ندوی حضرات کو لینے جاتے تھے پھر نشست کے بعد چھوڑ کر بھی آتے تھے۔ نشست کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ دو تین لوگ ہی آ سکے لیکن نشست باقاعدہ منعقد ہوئی۔ کئی بار مولانا انتہائی اہم ترین کاموں کو چھوڑ کر نشست میں شریک ہوتے تھے اور اسی بے لوث محبت اور تعلق کا نتیجہ تھا کہ ماشاء اللہ سے ندوہ کے جو بھی پروجیکٹ (مشروعات) سامنے آئے اس میں یہاں کے تمام ندوی حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے مادر علمی سے حقیقت میں محبت اور تعلق کا حق ادا کیا اور اپنے لیے صدقہ جاریہ سمجھ کر اس کو پورا کیا اور حقیقی معنوں میں خراج عقیدت پیش کیا۔ جب سوشل میڈیا کا دور آیا تو مولانا نے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ابنائے ندوہ کو سوشل میڈیا پر منظم کیا اور متحرک کیا جس کے ذریعے سے کام مزید آسان بھی ہوا، مستحکم بھی ہوا اور ماشاء اللہ آج تک اسی انداز میں کام جاری وساری ہے۔ اور اب یقیناً یہ تمام تر کام مولانا کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہونگے ان شاء اللہ۔
سب سے اہم پہلو مولانا کی زندگی کا جو دیکھا وہ یہ کہ وہ انتہائی محنتی اور متواضع انسان تھے اور جس کام کو شروع کرتے تھے اس کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی ان کو سکون ملتا تھا
مولانا جب قطر 1997 میں آئے تو اس وقت ان کو مسجدیں ملتی رہیں۔ مولانا کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اس وقت جب مواصلات کا ایسا نظام نہیں تھا جو اب موجود ہے کافی مشقتوں کے ساتھ کمپیوٹر سیکھا۔ مولانا کی مسجد دوحہ سے تقریبا 40 کلومیٹر دور سمیسمہ میں تھی۔ وہاں سے مولانا فجر بعد سواری کی تلاش میں شاہراہ تک آتے تھے۔ وہاں سے ٹیکسی یا جو بھی سواری میسر ہو اس سے دوحہ منطقہ اسیری تک آکر کمپیوٹر سیکھتے اور پھر اسی طرح ظہر تک اپنی مسجد سمیسمہ واپس جاتے تھے۔ یوں مکمل یکسوئی اور کافی مشقتوں کے ساتھ انہوں نے اس ہنر کو مکمل سیکھا اور پھر وہ اس فن میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ والد صاحب حفظہ اللہ بتاتے ہیں کہ ان کی ٹکر کا کمپیوٹر کا ماہر آدمی اس وقت کوئی نہیں تھا۔ مولانا کمپیوٹر کے میدان میں اب خود ایک تمام تر جدید سہولیات سے آراستہ سراپا کمپیوٹر بن گئے تھے۔
آج اچھی خاصی تعداد یہاں ان لوگوں کی موجود ہے جو مولانا سے کمپیوٹر سیکھ کر ملازمت سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی ان شاء اللہ انکے لیے صدقہ جاریہ ہوگا
مولانا پر اللہ کا کرم تھا کہ وہ مختلف کام بیک وقت کرتے تھے اور ہر کام مکمل یکسوئی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
مولانا کا اردو ادب سے شغف
مولانا کو شعر و شاعری کا فن من جانب اللہ عطا ہوا تھا۔ وہ اس قدر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے کہ لوگ ششدر رہ جاتے۔ مثلاً کسی نے مولانا سے کوئی بات کہی اور اس کا جواب شعر میں چاہا تو مولانا برجستہ ان کو شعر میں جواب دیتے تھے۔ ایک بار والد صاحب نے ان سے واٹس ایپ پر کچھ گفتگو کی جس کا جواب انہوں نے مکمل ایک غزل کی صورت میں دیا۔ وہ انتہائی قادر الکلام شاعر تھے اور اسی خداداد صلاحیت کی بناء پر مولانا ایک کہنہ مشق شاعر، ایک بہترین ادیب اور ایک عمدہ نثر نگار بن گئے تھے۔
مولانا نے اسی ادبی ذوق کی وجہ سے قطر کی اردو ادبی دنیا میں قدم رکھا اور پھر یہاں کی ہر ادبی محفل کی جان بن گئے۔ کمپیوٹر میں انتہائی درجہ کے ماہر تو تھے ہی اس لیے مختلف ادبی تنظیموں کے تمام تر کمپیوٹر سے متعلق کام وہی انجام دیتے تھے۔ آج بھی قطر کی سب سے قدیم ادبی تنظیم تمام ادبی تنظیموں کی ماں کا درجہ رکھنے والی “بزم اردو قطر” کا بینر انہی کا ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ہی اس کو انتہائی خوبصورت اور جاذب نظر بنایا تھا۔
اسی طرح بزم کی تمام نشستوں میں مولانا کی شرکت واجب کا درجہ رکھتی تھی۔ دسیوں شعراء کی کتابیں ٹائپ کرکے ان کو دیں۔ کتنے نئے شعراء کے کلام کی نوک پلک درست کی اور ان کو اس فن میں ماہر بنایا۔
اسی طرح حلقہ ادب اسلامی قطر کے بھی مرکزی ذمہ داروں میں رہے۔ رکن رکین رہے اور قطر کی ادبی فضا میں ادباء اور شعراء کو ادب اسلامی کی طرف راغب کرنے اور اسے ہم آہنگ کرنے کے لیے فعال کردار ادا کیا بلکہ اس کو دعوتی نقطہ نظر سے سرانجام دیا۔
اسی طرح اور بھی کئی چھوٹی بڑی ادبی تنظیموں کے لیے کئی اہم کام کیے۔
اسی طرح یہاں پر موجود بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم
عالمی مجلس فروغ اردو ادب
جو ہر سال عالمی سطح کا مشاعرہ منعقد کرتی ہے اور اردو دنیا کے نامور ادباء و شعراء کو ان کی خدمات کے اعتراف میں عالمی ایوارڈ سے نوازتی ہے۔
اس تنظیم میں مختلف ممالک کے بین الاقوامی شعراء، ادباء اور نثر نگار شامل ہیں۔
مولانا اس عالمی تنظیم کے نائب صدر منتخب ہوئے اور تقریباً 15 سال تک اس تنظیم کے لیے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں۔
بطور مثال
عالمی ایوارڈ یافتگان کو جو یاد گار ٹرافی یا شیلڈ پیش کی جاتی تھی اس کی تزئین و ترتیب بھی وہی کرتے تھے اور اس کو فائنل بھی وہی کرتے تھے، اسی طرح مجلس کا ضخیم ادبی مجلہ نکلتا ہے جو اپنی مثال آپ تھا وہ بھی وہی ڈیزائن کرکے طباعت کے لیے بھیجتے تھے۔
اور اسی طرح جو خطوط ایوارڈ یافتگان کو لکھے جاتے تھے وہ خطوط بھی وہی لکھتے تھے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ مولانا کی ادبی صلاحیت کس اعلیٰ سطح کی تھی۔ اور نثر میں انکا پایہ کس قدر بلند تھا۔ اسی طرح مجلس کے تمام خط و کتابت کے کام بھی مولانا کے ذمہ تھے۔
مشاعرہ کے انعقاد میں یہاں کی مقامی رسمی کاروائیوں میں بھی عربی زبان کی مہارت کی وجہ سے مولانا کا بنیادی کردار رہتا تھا۔ الغرض یہ کہ حقیقی معنوں میں مجلس فروغ اردو ادب کو مکمل طور پر سنبھال رکھا تھا اور عالمی سطح پر اس کو اردو ادب کی خدمات کے حوالہ سے نیک نام بنا دیا تھا۔ انہوں نے تنظیمی ڈھانچے کا ایک الگ معیار قائم کیا جو حقیقت میں ضرب المثل تھا۔
عالمی مشاعرہ کے وقت مولانا کی مصروفیات اس قدر بڑھ جاتی تھیں کہ بیان سے باہر ہے۔ الغرض مولانا کی شاعری اپنے عروج کی طرف گامزن تھی اور مولانا کو ہر طرف سے پذیرائی مل رہی تھی اور یوں دیکھتے دیکھتے سال 2012 آ گیا۔
مولانا نے اپنے مزاج، مذاق اور اپنی شرعی وضع قطع میں کسی قسم کی کبھی تبدیلی نہیں کی خواہ وہ عالمی سطح کے شعراء ادباء کے ساتھ ہوں یا ائمہ وخطباء کے درمیان ہوں۔
ان تمام خدمات کے ساتھ ساتھ مولانا اپنا اصل فرض منصبی انتہائی پابندی کے ساتھ ادا کررہے تھے یعنی کہ انہوں نے اوقاف میں امامت اور خطابت کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی تھی اور ان کی انتہائی قابلیت کی وجہ سے ان کو ادارة الدعوة میں بھی خدمات پر مامور کیا گیا تھا جہاں انہوں نے عربی میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور ان کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں بعد میں وزارة الاوقاف قطر کی مرکزی عمارت میں طلب کر لیا گیا۔ وہاں بھی انہوں نے بہت سے اہم کام سرانجام دیئے اور اسی اثناء میں انہوں نے جامعہ قطر اور دیگر جامعات کے کئی عرب طلبہ کو ان کے مضامین کے مطابق مقالات لکھنے میں بھرپور مدد کی اور اسی کے ساتھ ساتھ کئی ادبی اور علمی دوستوں کی کتابوں کی کمپوزنگ اور ایڈیٹنگ کی اور ان کو طباعت کے تمام تر جدید اسلوب سے مزین کیا۔
مولانا اپنے خاندان کے لیے
مولانا ندوہ سے فراغت کے بعد اگلے ہی سال قطر پہنچے اور یہاں آنے کے بعد صرف اپنی ہی ملازمت کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ انڈیا میں موجود اپنے تمام بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ کئی رشتہ داروں کو قطر بلایا اور روزگار سے جوڑا۔ اپنے بھائیوں کو بلایا اور ان کو بھی برسر روزگار کیا۔ اپنے گاؤں کے غرباء کی مالی مدد کا سلسلہ قائم فرمایا۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکا ضرورت مندوں کی خفیہ مدد کی۔ “ان میں سے بہت سے امدادی کاموں کا ان کے اپنے بھائیوں کو بھی مولانا کے انتقال کے بعد علم ہوا”
سال 2012 مولانا کی زندگی کا انقلابی سال
مولانا کئی سال سے مرشد الملت جانشین مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ ورعاہ سے بیعت تھے پھر اسی کے ساتھ ساتھ وہ حضرت شاہ فیروز میمن حفظہ اللہ ورعاہ سے بیعت ہوئے۔
ماشاء اللہ مولانا بے شمار خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے جس کا اندازہ ان کے صاحب بصیرت پیر ومرشد کو ہوگیا تھا چنانچہ چند ہی مہینوں میں ان کو خلافت سے سرفراز کردیا۔
اور پھر اسی سال 2012 میں ہی مولانا نے اپنا میدان عمل تبدیل کیا اور اس طرح انہوں نے تمام تر ادبی تنظیموں سے علیحدگی اختیار کرکے خود کو دعوت الی اللہ، تزکیہ نفس، صفائے باطن اور خدمت خلق نیز اصلاح المنکرات کے لیے خاص کر لیا۔ یوں تو مولانا ہمیشہ سے نیک سیرت، متقی اور پرہیزگار، متواضع انسان تھے، انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار تھے، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے، سال 2012 سے اس میں ایک نیا نکھار پیدا ہوا بلکہ اب ان کی پہچان ہی خالص ایک داعی الی اللہ کی بن گئی۔
اور اس کے بعد وہ وعظ و نصیحت کے لیے وقف ہوگئے۔ انہوں نے دنیا کی تمام چکاچوند سے خود کو الگ کیا اور ادبی ذوق کو حمد باری تعالیٰ اور نعت نبی پاک اور اصلاحی نظموں کے لیے خاص کر لیا۔ پہلے بھی وہ بہترین نعت کہتے تھے اور پھر بعد میں تو اس میں طاق ہوگئے تھے۔
ہر دینی مجالس و محافل کی روح ہوگئے۔ مختلف دینی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور دینی پروگرام منعقد کیے۔
مولانا اس اہم ذمہ داری ملنے کے بعد ایک خالص خانقاہی شخصیت نہیں ہوگئے بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے دسیوں علمی کام کیے۔ بہت سے نوادرات کو عام فہم انداز میں مرتب کیا اور کئی اصلاحی کتابوں کی ٹائپنگ کی۔ اس کو منظر عام پر لانے کے قابل بنایا۔ مولانا کے تقویٰ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سال 2012 کے بعد سے مولانا نے کبھی روڈ پر گاڑی متعینہ رفتار سے زیادہ رفتار میں نہیں چلائی یعنی کہ اگر روڈ 80 کا ہے تو مولانا کبھی 100 پر نہیں چلے یہ ان کی انتہائی درجہ کی احتیاط کو سمجھانے کے لیے بطور مثال ایک آدھ بات لکھ دی ہے
کیونکہ مولانا اس کو دھوکہ خیال کرتے تھے۔
مولانا پر آزمائشوں کا دور
قدرت کا نظام ہے کہ جو جتنا مقرب ہو اس پر اتنے حالات آتے ہیں یا پھر کسی کا کوئی مقام عند اللہ متعین ہوتا ہے اور وہ اس تک اپنی نیکیوں کے ذریعے نہیں پہنچ پاتا تو اس کو دنیا میں تھوڑے بہت حالات سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر صبر کرکے اپنے لیے پہلے سے متعین مقام کو حاصل کر لے۔
مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ بھی اسی طرح کے حالات آئے۔ زندگی کے مکمل مرتب نظام میں اتھل پتھل مچ گئی لیکن مولانا نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ کیا اور عزیمت کی راہ اختیار کرنے کو رخصت پر ترجیح دی اور اپنے ہونٹوں کو سی لیا۔ تمام تر زیادتیاں بخوشی جھیل گئے۔ زبان پر ایک لفظ بھی شکایت کا نہیں آنے دیا۔ قریب سے قریب تر آدمی نے بھی اگر کچھ معلوم کرنا چاہا تو اس کو خاموش کردیا اور تمام معاملات اللہ پر چھوڑ دیئے۔ کبھی شکایت کا ایک ادنیٰ سا لفظ بھی کسی نے مولانا کی زبان سے نہیں سنا۔
انہی حالات کے درمیان مولانا 2016 میں اپنے بھائی اور بھانجی کی شادی کے لیے انڈیا گئے۔ انتہائی سادگی کے ساتھ مکمل شرعی ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے شادی کی ذمہ داریاں ادا کیں اور 31 دسمبر کو واپس قطر آ گئے۔ یہاں آنے پر ایک اور امتحان ان کا منتظر تھا وہ یہ کہ مولانا کو واپس آتے ہی 35 دن کے اندر واپس جانے کا حکم ملا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ بیس سال سے مکمل مرتب زندگی گزار رہا ہے اور سیکڑوں علمی کاموں کا سلسلہ جاری ہے اور اچانک اس قسم کا معاملہ سامنے آجائے تو کیا حالت ہوتی ہے۔ الامان و الحفیظ۔ مولانا نے اسباب کے درجہ میں سنت کے مطابق کچھ کوششیں کیں لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آیا تو مولانا نے اس فیصلہ کو بخوشی قبول کیا۔ 6 فروری کو ہمارے گھر عشائیہ پر تشریف لائے اور بالآخر 7 فروری 2017 کو یہ بیس سالہ تاریخی عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور مولانا مع اپنے اہل و عیال سیکڑوں متعلقین کو غمگین چھوڑ کر انڈیا واپس چلے گئے۔ چند دن وہاں جا کر فیملی کے معاملات کو مرتب کیا اور پھر چند مہینوں بعد افریقہ گئے لیکن افریقہ مولانا کو راس نہیں آیا اور وہاں سے وہ ملک فیجی (Fiji) بھی گئے جو آسٹریلیا سے کافی آگے سمندر کے درمیان واقع ایک جزیرہ ہے۔ لیکن وہاں بھی بات نہیں بنی لہذا وہاں سے واپس انڈیا آ گئے اور مع اہل و عیال دیوبند میں سکونت اختیار کر لی۔ تقریبا ساڑھے تین سال وہاں مقیم رہے۔ بچوں کا داخلہ وہیں دارالعلوم وقف میں کروادیا۔ ماشاءاللہ دونوں بیٹے حافظ قرآن ہوگئے۔ مولانا نے پھر اصلاح معاشرہ کے لیے جنگی پیمانے پر کام شروع کیا۔ مسلسل اسفار شروع ہوگئے۔ مختلف جگہوں پر اصلاحی مجالس شروع ہوئیں اور مختلف جگہوں پر مواعظ حسنہ ہونے لگے اور ایک اچھا خاصا حلقہ بن گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ مولانا اپنے علمی کاموں میں بھی مکمل یکسوئی کے ساتھ لگ گئے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کئی مفید کتابیں لکھیں۔ اور بہت سے انتہائی علمی اور تاریخی کام مولانا کر رہے تھے اور وہ تکمیل کے قریب تھے کہ وقت اجل آگیا۔
انہی تاریخی کاموں میں سے ایک اہم کام بانی تبلیغ حضرت مولانا الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے پرانے خطوط جو انتہائی ثقیل اردو میں لکھے ہوئے ہیں ان کو عام فہم عربی میں منتقل کرنے کا تھا، جس کے لیے مولانا نے انتھک کوششیں کیں اور ماشاء اللہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ترتیب باقی ہے اس کام کی تکمیل اور اس کی طباعت کے لیے وقت کے بڑے بڑے علماء منتظر ہیں مثلاً شیخ الاسلام سید المسلمین حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ اور مرشد الملت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ جیسے عظیم علماء منتظر ہیں کہ یہ کام جلدی طباعت کے مراحل سے گزر کر منظر عام پر آجائے۔ اللہ کرے ایسا جلد از جلد ہو جائے۔ آمین
مولانا اپنی آخر سفر کی طرف
مولانا انتقال سے ایک دن قبل دینی پروگرام کے سلسلے میں دہرہ دون گئے وہاں سے رات کو دیوبند واپس آئے۔ اگلے دن دیوبند سے قریب ایک قصبہ ہے بڈھانا وہاں ایک دینی پروگرام میں شرکت کے لیے گئے اور یہی سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ مولانا نے عشاء بعد بیان فرمایا اور مولانا فرید الدین صاحب حفظہ اللہ کے ساتھ دیوبند واپس آرہے تھے کہ راستے میں مولانا کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوگئی اور یہ علم و عمل کا پیکر، سراپا زہد و تقویٰ، مختلف میدانوں کا ماہر، بے حساب خداداد صلاحیتوں کا مالک، ہر فن مولیٰ، عظیم المرتبت عالم دین، عہد ساز شخصیت مختصر سی زندگی گزار کر 15 مارچ 2021 بمطابق یکم شعبان المعظم 1442 ہجری جام شہادت نوش کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی آخری وصیت
مولانا کے بعض رشتہ داروں نے بتایا کہ حادثہ کے بعد جب گاڑی پلٹ گئی تو مشکل سے مولانا کے پاس ڈیڑھ منٹ رہا ہوگا اسی میں مولانا نے نیم بیہوشی کے عالم میں رفیق سفر مولانا فرید الدین صاحب سے کہا کہ
1 ۔ میرے مرنے کے بعد کسی قسم کی ویڈیو یا تصویر نہ بنائی جائے اور کوئی نامحرم رشتہ دار میرا چہرہ نہ دیکھے
2 ۔ قرضوں کی تفصیلات موبائل اور لیپ ٹاپ میں درج ہیں ۔
3 ۔ گھر والوں کو نماز کی تلقین کی اور بیہوش ہو گئے، اور اسی بیہوشی کے عالم میں جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا نے اپنے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی چھوڑے ہیں۔
دو بیٹے حافظ قرآن ہیں ماشاءاللہ۔
اللہ مولانا کے گھر والوں کو ان کے نقش قدم پر چلائے اور انکے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین۔
مولانا کے حادثہ کے بعد ان کا جسد خاکی بذریعہ ایمبولنس ان کے آبائی وطن دربھنگہ بہار روانہ کیا گیا جہاں پر اگلے دن ان کے والد محترم کے ساتھ ایک بڑے جم غفیر نے مولانا کا جنازہ ادا کیا اور اپنے اس پیارے شہید کو نم ناک آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا۔
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی،
نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
ایک ستارہ تھا میں
کہکشاں ہو گیا
حُبِّ یزداں کا اِک استعارہ تھا میں
داستاں ہوگیا
میں نے سوچا تھا یہ
گر نہ دینِ مبیں پر یہ ہوتی فِدا
اور کس کام آنی تھی یہ زندگی؟
اور پھر یہ ہوا
قیدِ دنیا سے جب میں گزرنے لگا
بندگی کا سفر جب میں طے کر چکا
میں نے دِھیرے سے یہ ساتھیوں سے کہا
’’ میں شہید اب ہوا ‘‘
پھر گواہی کا کلمہ زباں پر میری
لمحۂِ واپسیں خود رواں ہو گیا
ایک ستارہ تھا میں
کہکشاں ہو گیا
مولانا کی زندگی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے
مذکورہ بالا تمام اوصاف حمیدہ اور تمام تر فعالیت کو پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا نے کس طرح ان تمام کاموں کو انجام دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی متوجہ رہے۔
اپنے بچوں کو مکمل وقت دیتے تھے۔ ان کی ضروریات کا مکمل خیال رکھتے تھے۔
ہم لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ تمام مسائل ان کے ساتھ بھی تھے جو ہم لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن ہم لوگ کیا کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے وقت میں موجودہ دور کے حساب سے کافی کم اسباب وسائل کے باوجود وہ تمام کام مکمل کیے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
آدمی کے سامنے اگر ایک ہدف متعین ہو، نظریہ، کاز، مشن واضح ہو اور وہ اپنے نظریہ، کاز، مشن کے لیے سو فیصد مخلص ہو تو اسباب وسائل کی کمی اور فیملی کی مشغولیات، تنخواہوں کی کمی زیادتی اس کے سامنے سد راہ نہیں بن سکتی اور وہ اپنے مشن کو حتی الامکان پایہ تکمیل تک پہنچا کرہی دم لیتا ہے
آج جو نوجوان ملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں ان کو مولانا کی زندگی کے متعلق پڑھنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ محض 45 سال کی عمر میں دنیا جہان کے مختلف جہتوں کے کاموں کو مکمل معاشرتی، اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کیسے مکمل کرنا ہے اور کس طرح اپنے ایک ایک لمحہ کو قیمتی سمجھتے ہوئے اسے کسی عملی کام میں گزارنا چاہیے اور اپنی ترجیحات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا نے بسا اوقات پوری پوری رات جاگ کر اپنے کاموں کو مکمل کیا۔ ان کے اعلیٰ درجہ کا اخلاص دیکھیں کہ انہوں نے متعدد لوگوں کی کتابوں کی کمپوزنگ اور ایڈیٹنگ کی جو آج ان کے کسی قسم کے نام و نمود کے بغیر منظر عام پر آچکی ہیں۔
ان کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ اپنے دوستوں اور حلقہ یاراں پر فدا رہے۔ اپنا حق محنت بھی کبھی مکمل نہیں لیا بلکہ اکثر ہی فی سبیل اللہ کام کرکے حوالے کر دیا کرتے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ یہ ہنر جو ان کو اللہ کے فضل سے عطا ہوا ہے اس کو اللہ کے بندوں پر لٹایا جائے اور انہوں نے یہ کرکے دکھایا۔
جزاہ اللہ خیر الجزاء فی الدارین۔
کچھ اہم واقعات مزید یاد آرہے ہیں جو ذاتی نوعیت کے ہیں لیکن چونکہ یہ مختصر سوانحی خاکہ طویل ہوگیا ہے اس لیے اس کو ترک کر رہے ہیں۔ ان کے بندہ پر کئی احسانات ہیں جو پھر کسی موقع پر ۔۔ ان شاء اللہ
آخر میں ہم مولانا کے تمام اعزاء و اقارب، محبین و متوسلین اور اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے دست بدعا ہیں کہ
اللہ مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، لواحقین سمیت ہم سب کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور ان کے دیگر اہم مشروعات کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اور ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے۔
آمین ثم آمین۔
ایک اہم نوٹ
بعض مصالح اور نزاکتوں کے پیش نظر کئی اہم نام جو مختلف مواقع پر مولانا کے شریک کار رہے شدید خواہش کے باوجود قصداً نہیں لکھے گئے ہیں۔ وضاحت مطلوب ہو تو پرسنل نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں
شریک غم ابو شھامہ شمس الرحمٰن بن عطاء الرحمٰن صدیقی ندوی۔
دوحہ قطر
جمعہ، 26 مارچ 2021