آہ! صدیق حسن صاحب؛ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

میں مسجد اشاعت اسلام کے لان میں تیز تیز قدموں سے ان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی بستوی صاحب آج عصر بعد کی چائے ہمارے ساتھ پیئیں ۔ چنانچہ حکم کی تعمیل میں ساتھ ہو لیا۔

اشرف علی بستوی
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں  یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
علامہ اقبال
علامہ اقبال نے جس مرد کا خاکہ اپنے اس شعر میں پیش کیا تھا پروفیسر کے اے صدیق حسن صاحب اس کا چلتا پھرتا نمونہ تھے ۔

آج دوپہر کیرالا میں انتقال کر گئے ، اللہ آپ کے درجارت بلند کرے ۔ آمین جس وقت مجھے یہ خبر فیس بک سے ملی دلی رنج ہوا ۔ نظروں کے سامنے  مرحوم سے جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں بعد نماز عصر 15  جولائی  2009 کی وہ پہلی بالمشافہ ملاقات کا منظر تیرنے لگا ۔

میں مسجد اشاعت اسلام کے لان میں تیز تیز قدموں سے ان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی بستوی صاحب آج عصر بعد کی چائے ہمارے ساتھ  پیئیں ۔ چنانچہ حکم کی تعمیل میں ساتھ ہو لیا۔

صدیق صاحب نائب امیر جماعت تھے اور مرکز میں نائب امیر جماعت  کا دفتر ہی وہی وژن 2016  کا بھی دفتر ہوا کرتا تھا ۔  دفتر میں  کل تین چار لوگ  تھے یہی ہیومن ویلفیر فاونڈیشن کا مرکزی اسٹاف تھا ۔ ابھی وژن 2016 کی توسیع کا  پہلا مرحلہ شروع ہی ہوا تھا بعض سرگرمیاں شروع ہوگئیں تھیں ۔

وژن 2016  کا قیام جن حالات میں ہوا وہ بہت چیلنجوں والا تھا یہ وہی دور تھا جس وقت ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور معاشی پسماندگی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس راجیندر سچر کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی سچر کمیٹی سرگرم عمل تھی اور یہ رپورٹ ابھی منظر عام پر آئی بھی نہیں تھی، اسی دوران ملت اسلامیہ ہند کے چند درد مند سنجیدہ  افراد پروفیسر کے۔ اے۔ صدیق حسن ہندوستانی مسلمانوں کی ہمہ گیر ترقی کا ایک طویل مدتی منصوبہ ’’وژن 2016‘‘ کے نام سے ترتیب  دے رہے تھے ۔  خاص طور سے شمالی ہند کی تعلیمی پسماندگی پر توجہ مرکوز کی اور ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن نئی دہلی کا قیام عمل میں آیا جس کے بینر تلے تعلیمی سرگرمیاں شروع کی گئیں جو،  اب  ایک دہائی کو عبور کر گئیں  ہیں  اب اسے مزید وسعت دیتے ہوئے  وزن 2026 نام دیا گیا ہے۔

 خیر چائے پر چرچا شروع ہوئی کہنے لگے ہم چاہتے ہیں  آپ وژن 2016 کی  سرگرمیوں کو خبر بنائیں اخبارات میں بھیجیں یہ ذمہ داری لیں ،اس وقت  امت کو حوصلہ دینا بڑا ضروری ہے ۔ میرے  ہاں کرتے ہی انہوں نے مجھ سے میڈیا کو آرڈینیٹر کا ‘وژن ڈاکومینٹ’ تیار کرنے کو کہا ۔

میں نے بھی کوئی دیر نہیں کی اگلے تین دن میں میڈیا کو آرڈینٹر کا وژن ڈاکومینٹ ان کے سامنے پیش کر دیا ، دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، یہ دو حصوں پر مشتمل تھا ایک  حصہ فوری ایکشن پر مبنی تھا اور دوسرا طویل مدتی منصوبہ پر، کہنے لگے فوری ایکشن پر کام شروع کیجیے ہمیں طویل مدتی منصوبے پر بھی کام کرنا ہے خاص طور سے شمالی ہند میں ایک اچھا موثرکن ثابت ہونے والا  ہندی روزنامہ  نکالنے کی بات کی اور کہا کہ اس کام پربھی  آپ کی نظر رہے ، ایسے باصلاحیت صالح فکر صحافیوں کو قریب لائیں ، مزید بتایا کہ یہ روزنامہ  ہمارے ملیالی اخبار مادھیمم کا ہندی ایڈیشن بھی ہو سکتا ہے  ۔ ابھی دو روز قبل  ہی مادھیمم کے بیورو چیف برادر حسن البنا سے صدیق صاحب کے اسی پروجیکٹ پر تفصیلی بات ہوئی ۔

 بعد کے دنوں میں اس پر کئی بار بات ہوئی اور اس پر وہ کافی سنجیدگی سے کام کر رہے تھے ۔ لیکن 2012 کے بعد  اچانک ان کی صحت بگڑتی چلی گئی انہیں کافی علاج سے گزرنا پڑا لیکن صحت بحال نہ ہوسکی ۔ مرحوم کی مردم شناسی ، مشن کے تئیں لگن ، تحمل اور محبت کا جذبہ ہر اس شخص کو بے حد متاثر کیا جو ان کے قریب آیا ۔ چار سال کی رفاقت میں  میں نے ان سے درگزر کرنا سیکھا ،پروفیشل تعلقات سے آگے ذاتی تعلقات بنانے کا ہنر سیکھا ، اپنی کوشش کو نتیجہ خیزبنانا اور اپنے طے شدہ وژن کے لیے ہمیشہ مشن کے اندازمیں جینا سیکھا ۔

ایک بار کا واقعہ ہے صدیق صاحب سفر سے واپس آئے معمول کے مطابق میں اپنی ہفتہ بھر کی کار گزاری لیکر حاضرہوا علیک سلیک کے بعد میں  نے جھٹ اپنی فائل سامنے کی ، بریف کرنا شروع کیا بات مکمل ہوئی اور میں  سیٹ چھوڑ کر اٹھنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا بیٹھیں ، یہ بتائیں کہ کیا ہمارے اورآپ کے درمیان صرف اتنی سی ہی  بات ہے کہ ہم رپورٹ پر ہی بات کریں گے ، ارے بھائی  ہم روبوٹ نہیں ہیں ہماری فیملی بھی ہےآپ کی بھی فیملی ہے کبھی ہم لوگ  اپنے گھر بال بچوں کی بھی تو حال چال پوچھ لیا کریں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے یہ کہتے ہوئے ان کا گلا بھر آیا اور میں بھی جذباتی ہوگیا  پھر انہوں نے ایک اور چائے پلائی کافی دیرتلک اسی موضوع بر بات کرتے رہے ۔

وہ ایک مکمل لیڈر تھے ان میں سبھی صلاحیت تھی جو ایک لیڈر میں ہونی چاہیے وہ راستہ جانتے تھے ، راستہ دکھاتے تھے اور راستے پر چل کر دکھاتے تھے ، لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی غضب کی صلاحیت تھی  ۔ معاف کردینا اور معافی مانگ لینا ان کا امتیاز تھا ۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔  آمین !