لال مسجد معاملہ: 29اپریل تک کسی طرح کا ایکشن نہ لینے کی مرکز نے کرائی یقین دہانی

مسجد کو شہید کرنے کی ہورہی ہے سازش، وقف بورڈ نے دکھائی مستعدی، پولیس انتظامیہ کے ذریعہ مسجد شہید کرنے کی منصوبہ بندی کی خبروں کے بعددہلی وقف بورڈ نے کیا ہائی کورٹ سے رجوع، وقف ٹربیونل کی جلد سے جلد تشکیل کی بھی درخواست کی، اوقاف کی حفاظت میں کسی طرح کا تساہل نہیں برتا جائیگا: امانت اللہ خان

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) لودھی روڈ کے قریب واقع مشہور تاریخی لال مسجد کے معاملہ میں ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہاکہ آئندہ 29اپریل تک کسی طرح کا ایکشن نہیں لیا جائیگا۔مرکزی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل چیتن شرما نے عدالت کو بتایا کہ دہلی وقف بورڈ کی پیٹیشن کا جواب دینے کے لیئے ہمیں وقت چاہئے اور 29اپریل تک کسی طرح کا ایکشن نہیں لیا جائے گا۔دراصل دہلی وقف بورڈ کی جانب سے ہائی کورٹ میں لال مسجد کے تعلق سے عدالت عالیہ میں ایک پیٹیشن داخل کی گئی ہے جس پر منگل کو ہائی کورٹ نے سی آر پی ایف سے جواب مانگا تھا کہ آیا وہ مسجد کو شہید کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں؟دہلی وقف بورڈ کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے گھوش نے بحث کے دوران عدالت کو بتایا کہ زمین سے متعلق معاملہ وقف ٹربیونل میں زیر سماعت ہے اور وقف ٹربیونل میں دو ممبروں کی جگہ خالی ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ فی الحال غیر فعال ہے۔پیٹیشن میں وقف ٹربیونل کووقف ایکٹ کے تحت ازسر نو تشکیل کیئے جانے سے متعلق ہدایت دینے کی بھی معزز عدالت سے درخواست کی گئی ہے۔اس کے جواب میں دہلی حکومت نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ وقف ٹربیونل میں ممبران کی نامزدگی کا معاملہ متعلقہ وزارت میں زیر التوا ہے جسے چار ہفتوں کے درمیان مکمل کرلیا جائے گا۔دہلی وقف بورڈ کی نمائندگی کر رہے سینئر وکیل سنجے گھوش نے عدالت عالیہ سے درخواست کی ٹربیونل کی تشکیل جلد سے جلد کی جائے اور چار ہفتوں کا وقت بہت زیادہ ہے۔غورطلب ہیکہ دہلی وقف بورڈ کی جانب سے اسٹینڈنگ کونسل وجیہ شفیق نے دہلی ہائی کورٹ میں لال مسجد کے تعلق سے پیٹیشن داخل کرکے بتایا کہ 1970کے گزٹ میں قبرستان اور اس کے ساتھ مسجد بطور وقف درج ہے مگر سی آر پی ایف نے قبرستان کی زمین کو اپنے قبضہ میں لے لیاہے اور وہاں مسجد اپنی حالت میں ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ زمین کے تعلق سے تنازعہ وقف ٹربیونل میں زیر سماعت ہے۔یہ معاملہ 31مارچ کا ہے جب مسجد کو شہید کرنے کی دھمکی موصول ہوئی جس کے بعد وقف بورڈ نے مستعدی دکھاتے ہوئے فوراکارروائی کی۔معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے وقف بورڈ کسی طرح کی تساہلی نہیں برتنا چاہتا کیونکہ مسجد کو شہید کرنے کی سازش کی جڑیں کافی گہری ہیں،معاملہ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے مسجد کو شہید کرنے کی دھمکی اس وقت دی گئی جب عدالت عالیہ کی چھٹی تھی۔ہائی کورٹ 5تاریخ کو کھلا اور اسی دن وقف بورڈ نے اپنی پٹیشن داخل کردی جس کے بعد 6اپریل کو معاملہ کی سماعت ہوئی۔ غور طلب ہیکہ گزشتہ دنوں لودھی روڈ کے قریب واقع لال مسجد کو پولیس انتظامیہ کے ذریعہ شہید کیئے جانے کی منصوبہ بندی کی خبروں کے درمیان دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے موقع پر پہونچ کر حالات کا جائزہ لیا تھا اورمسجد کے امام صاحب سے تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ بتایا تھا کہ نظام الدین واقع یہ لال مسجد اور اس سے ملحقہ اراضی حکومت کی جانب سے شائع گزٹ میں دہلی وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔انہوں نے بتایا تھا کہ زمین کے اکثر حصہ پر سی آر پی ایف نے قبضہ کرلیا ہے اور محکمہ ایل این ڈی او نے یہ زمین سی آر پی ایف کو الاٹ کردی ہے جس کے خلاف دہلی وقف بورڈ نے وقف ٹربیونل سے رجوع کیا ہوا ہے اور معاملہ زیر سماعت ہے۔امانت للہ خان نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ کیسے پولیس انتظامیہ بنا کسی جواز کے مسجد کے امام صاحب سے مسجد خالی کرنے اور اسے شہید کرنے کی بات کرسکتی ہے جبکہ یہ ایک تاریخی اور قدیم مسجد ہے۔