مولانا محمد ولی رحمانی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے: مفتی عتیق بستوی

النور فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقدہ تعزیتی اجلاس میں علماء و دانشوران نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایصال ثواب کیا۔

لکھنؤ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت شریعہ بہار کے امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رح کے سانحۂ وفات سے ملت اسلامیہ ہندیہ ایک ایسے ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک قائد و رہنما سے محروم ہوگئی۔ جو پوری جرأت کے ساتھ حق بات کہتے اور کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ 1972ء میں جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کا مرحلہ چلرہا تھا اسوقت سے وہ اپنے والد مولانا منت اللہ رحمانی صاحب جو بورڈ کے بانیوں میں ہیں کے ساتھ ملکر بورڈ کے کاموں کو انجام دے رہے تھے ، اور جب سے بورڈ کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اس کے بعد سے  بورڈ کے اندر گویا نئی روح پھونک دی۔ ان خیالات کا اظہار ندوۃ العلماء کے سینئر استاد اور دارالقضا کمیٹی کے کنوینر مفتی عتیق بستوی نے النور سوشل کیئر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ممتاز پی جی کالج لکھنؤ میں منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ انکے دور میں دارالقضا کا کام بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا۔ بورڈ کے سکریٹری معروف سینیئر وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا: مولانا محمد ولی رحمانی نہایت بے باک اور دور رس عالم دین ہونے کے ساتھ ہی سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔انکے جیسا باشعور ۔ مختلف میدانوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا عالم دین اب نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک موقعہ پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس کاٹجو کو بھی مولانا کے مضبوط اسٹینڈ کے سامنے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سب سے اہم بات جو ہمیں ان سے سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ ہمیں نوجوانوں سے کونسی بات کس وقت اور کس طرح کہنی ہے۔

پروگرام کے کنوینر النور فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری مولانا نجیب الرحمٰن ململی ندوی نے کہا کہ مولانا کی ایک بہت بڑی خوبی خورد نوازی تھی ۔ ملت کا کام کرنے والا ادنی درجہ کا شخص انسے ملتا تو وہ بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور ہمیشہ اسے یاد رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کے اندر جہاں ایک طرف ملی قیادت کا ملکہ تھا وہیں آپکو علوم شرعیہ پر بھی دسترس حاصل تھا اور ساتھ ہی آپ بہترین قلم کار بھی تھے۔ مسلم لیگ کے ریاستی صدر ڈاکٹر عبد المتین نے کہا کہ مولانا کی سیاسی بصیرت کو اجاگر کرکے اس سے خصوصی طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم لوگوں نے کسی مسئلہ پر تنہائی میں انہیں متوجہ کیا اسکو انہوں نے اہمیت دیتے ہوئے بورڈ کی میٹنگوں میں اٹھایا۔ آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش کے معاون جنرل سکریٹری امیر خالد خان نے کہا کہ مولانا کا حافظہ نہایت مضبوط تھا۔ بورڈ کی میٹنگوں کے موقعہ پر ان سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

جماعت اسلامی ہند مشرقی اترپردیش کے سکریٹری جناب صابر خان کہا کہ مولانا کی شخصیت پوری ایک انجمن تھی انکے رخصت ہوجانے سے ایک ناقابل تلافی خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ قاری شاہ فیصل نے منظوم خراج عقیدت پیش کرکے شرکاء کو آبدیدہ کردیا۔ آخر میں حاضرین نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھ کر مرحوم کیلئے ایصال ثواب اور مغفرت و رفع درجات کی دعائیں کیں۔ اس موقعہ پر موجود لوگوں میں ممتاز پی جی کالج کے پرنسپل جناب عبدالرحیم صاحب،اسلامیہ کالج کے پرنسپل جناب جمال محمد خاں، مولانا علاءالدین ندوی، ایڈوکیٹ محمد اسلم، مفتی جنید احمد ندوی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔