محمد اللہ قیصر قاسمی
مولانا ابوبکر صاحب، استاذ مدرسہ حسینہ رانچی، و قاضی شریعت شہر رانچی، یعنی سنجیدگی، متانت، حلم و بردباری، تدبر و دانائی، خوش انتظامی اور معاملہ فہمی کی مجسم شکل، آج حضرت مولانا بھی اپنے رب کے حضور جا پہونچے، آپ کی وفات کو کیا کہیں، رانچی والوں کا نقصان کہا جائے، یا مدرسہ حسینہ کا نا قابل تلافی نقصان تصور کیا جائے، وہ دونوں کیلئے یکساں طور پر مفید ترین انسان تھے، انسان جتنا مفید ہوتا ہے اس کے بچھڑنے کا غم اتناہی گہرا، ایک طرف سیاست کے گلیاروں سے لیکر، سرکاری محکموں تک میں وہ مدرسہ حسینیہ کا چمچماتا چہرہ تھے، حضرت مہتمم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست و بازو، مشیر اور معتمد خاص نیز جمعیت علمائے ہند جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری تھے، تو دوسری طرف اہل شہر کیلئے، مشکلات کی گھڑی میں حوصلہ مند قائد، بگڑتے حالات میں ناصح و غم خوار رہبر، دینی امور میں خیرخواہ مرشد، اور اپنے ناصحانہ خطبات سے دلوں پر بیٹھی کائی کھرچنے والے مربی تھے، اسلئے تو ہرکوئی غم سے نڈھال، ان کے بچھڑنے پر رنجیدہ، ان کی وفات پر دل شکستہ ہے، ہر کسی کو لگتا ہے جیسے اس کا سہارا چھن گیا ہے، اچانک حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سب کو روتا بلکتا چھوڑگئے، موجودہ صورت حال میں جب معاملہ فہم اور حکمت و دانائی سے لبریز مدبر قائدین کی سخت ضرورت ہے، بالخصوص مسلمانان جھار کھنڈ، ایسے دگرگوں صورت حال میں، فراست سے بھرپور قیادت سے محروم ہو گئے،
حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ کا تصور آتا ہے، تو ان کا سراپا نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے، میانہ قد، گول مٹول چہرہ، گھنی ڈاڑھی، کھلتا رنگ، مسکراتا چہرہ، چمکتی پیشانی، خوش پوشاک، کندھے پر عربی رومال رکھے، مدرسہ حسینہ کے صدر دروازہ سے داخل ہو رہے ہیں، طلبہ سلام پیش کرتے، وہ ہونٹوں پر مسکان بکھیرے آہستگی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے چلتے رہتے، مجھے یاد ہے 2001 میں استاذ محترم قاری عابد صاحب حفظہ اللہ کی درسگاہ میں جو دروازہ سے بالکل متصل تھی، میں دوپہر تک آموختہ یاد کرنے میں مشغول رہتا، عموما دوپہر میں ہی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی درس گاہ سے، گھر کیلئے نکلتے، اور چونکہ والد صاحب سے انتہائی قریبی تعلق کی بنا ہر، میرے ذمہ دار وہی تھے، اسلئے جب ضرورت پڑتی، ذاتی اخراجات کیلئے،میں پہونچ جاتا،سلام کرتا، حضرت مسکراکر دیکھتے، مقصد آمد سمجھ جاتے، کچھ کہے بغیر، جیب سے پیسہ نکالکر تھمادیتے، پھر خوب محنت کرنے کی تلقین کے ساتھ ہی کہتے”ٹھیک ہے جاؤ پڑھو” سال بھر رہنا ہوا، قریب رہ کر دیکھا، کبھی ناراضگی میں آپے سے باہر نہیں ہوتے نظر آئے، طلبہ کی سرزنش کرتے تو ہلکی ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفا کرتے، مار دھاڑ، شور ہنگامہ آپ کے یہاں نا مناسب انداز تربیت میں شمار ہوتے تھے،
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی وطن مدھوبنی کا ایک گاؤں “بھیروا” ہے، انہوں نے گاؤں کے ایک بااثر خاندان میں آنکھیں کھولیں، آپ کے والد، حاجی ہاشم صاحب رحمۃ اللہ علیہ، کا شمار علاقہ کے ذمہ دار لوگوں میں ہوتا تھا، تو فطری طور پر وہاں آنے جانے والے مقتدر علماء سے بھی خوب ربط رہا، اپنے نونہال کو پڑھانے کا شوق ہوا تو قریبی گاؤں “رتھوس ” سے تعلق رکھنے والے، حضرتِ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے خلیفہ، حضرت مولانا ازہر صاحب رحمۃ اللہ علیہ، بانی و مہتمم اول مدرسہ حسینہ، کے حوالہ کردیا، تکمیل حفظ کے بعد مدرسہ حسینیہ میں ہی عربی درجات میں داخل ہوئے، ششم تک کی تعلیم کے بعد تکمیل فضیلت کیلئے علوم دینیہ کے ہر متلاشی کی آخری تلاش، دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، وہاں حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے، بخاری شریف پڑھی، فراغت کے بعد دوبارہ مدرسہ حسینیہ چلے آئے، اور شہر رانچی میں ہی میٹرک، گیارہوی، بارہوںی، اور گریجویشن کی تکمیل کی، گریجویشن کے بعد آپ نے “آئی اے ایس” کی تیاری کی، مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک ہوئے، بد قسمتی سے کامیابی ہاتھ نہیں لگی، اس کے بعد مدرسہ کے ہوکر رہ گئے، اسی کی خدمت میں زندگی گذاردی، نیز تا حیات، شہر رانچی میں ہند پیڑھی، کی جامع مسجد کے امام و خطیب جمعہ بھی رہے، ایک طرف مدرسہ میں مسند درس کو رونق بخشتے رہے، تو دوسری طرف منبر و محراب سے، دینی افکار و علوم سے لوگوں کے قلوب روشن کرتے رہے، خطاب کا انداز اتنا علمی اور دلنشیں تھا کہ سامعین پلک جھپکائے بغیر، بڑے غور سے سنتے رہتے، بارعب آواز، دھیما لہجہ، علمی اسلوب، غیر ضروری باتوں سے مکمل اجتناب، دوران خطاب دقیق مسائل بھی سہل انداز میں اس طرح سمجھاتے کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ سیکھ کر واپس ہوتا۔
قدیم درسگاہ کے روشن خیال اور بیدار مغز فاضل تھے،
اگر آج سے 40 سال قبل، گاؤں کے ایک نوجوان فاضل کی فکر، اسے “آئی اے ایس” کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بٹھا دیتی ہے، تو اس کی فکری بالیدگی، اور اس کے شاہینی مزاج کی پرواز کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جب اہل مدارس کی نظر میں جدید تعلیم معیوب تھی، اور معدودے چند، فکری پرواز کے خواہاں، عصری درسگاہوں کے چشموں سے سیرابی کی تاک میں تھے، تبھی وہ علم کی دنیا میں نئی راہیں، اور نئے امکانات کی تلاش میں جٹ گئے تھے، قدیم درس گاہ کی چہار دیواری میں رہ کر وہ یہ نغمہ سنا رہے تھے کہ۔
“قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر۔
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں”
زندگی کے تمام شعبہ حیات پر حضرت مولانا کی گہری نظر تھی، ذکاوت و ذہانت میں بے نظیر تھے،، اولوالعزمی اور حوصلہ مندی ان کا شعار تھا، دھن کے پکے تھے، جو ٹھان لیتے پورا کرکے دم لیتے، اور کمال ہے کہ صورت حال چاہے جتنی عجلت کی متقاضی ہو، وہ سنجیدگی کا دامن نہیں چھوڑتے ، چہرے پر بے چینی، گھبراہٹ، اور عجلت کے آثار تک نہیں آنے دیتے، کارگہ حیات میں صبر و ضبط ان کے ہتھیار تھے، وہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود، ملکی سطح پر مشہور نہیں ہو سکے، لیکن جھارکھنڈ کے اہل علم ہوں یا اہل سیاست سب ان کی صلابت رائے کے قائل تھے، نیز عوامی طور پر بھی وہ ایک صالح فکر کے حامل، سنجیدہ اولوالعزم اور با تدبیر قائد کی حیثیت سے مشہور تھے، علماء کی مجلس ہو یا جدید درسگاہوں کے فیض یافتگان کی محفل، وہ ہر جگہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے، ان کی شخصیت ہر محفل میں مثل خورشید چمکتی رہی ہے، گویا جہاں پہونچ جاتے میر مجلس وہی ہوتے۔
ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی مادر علمی کی خدمت کے لئے وقف کردیا، شہر رانچی میں علوم دینیہ کی نشرو اشاعت، اور مدرسہ کی خدمت میں ایسے لگے کہ وہیں کے ہوکر رہ گئے، گھربار، اپنا دیار سب کچھ چھوڑ دیا، مدرسہ حسینیہ رانچی آپ کی مادر علمی تھی، دارالعلوم سے فراغت کے بعد جب درس و تدریس کےلئے مدرسہ حسینیہ تشریف لے گئے، تو آپ کی مقناطیسی شخصیت نے بہت جلد ذمہ داران مدرسہ کے علاؤہ ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیا، آپ کو رب قدیر نے علمی لیاقت کے ساتھ، انتظامی صلاحیت سے بھی خوب نوازا تھا، معاملہ فہمی بلا کی تھی، حالات کو بھانپ کر، مسائل کی تہ تک پہونچ کر، ان کا حل ایسے نکالتے جیسے وہ پہلے سے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں، بدترین صورتحال میں بھی وہ سنجیدگی اور حوصلہ مندی کی علامت تھے، صورت حال چاہے جتنی دگرگوں ہوجائے، وہ مسکراتے ہوئے اس پر غور کرتے، بالآخر قابو پاکر ہی دم لیتے، مسائل و مشکلات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے نہیں تھے، اخیر تک ڈٹے رہنا ان کی فطرت تھی۔
انسان کی افادیت کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا ہے، اس کی وفات پر نقصان کے اثرات اتنے گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں،
اس کے رخصت ہوجانے پر خلا پر ہوتے ہوتے عرصہ بیت جاتا ہے، قدم قدم پر ہر شخص کو اس کی کمی محسوس ہوتی یے، رانچی شہر، بالخصوص مدرسہ حسینہ میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی جگہ لینے والا بظاہر کوئی نہیں ہے، ان کی کمی بہت دنوں تک محسوس کی جائیگی، جب تک ان کا فیض جاری رہے گا وہ یاد آتے رہیں گے، ان کے اچانک بچھڑنے پر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اللہ ان کو دینی خدمات کا بہترین صلہ دے،ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، نیز مدرسہ حسینیہ کے ساتھ مسلمانان “رانچی” شہر، کو ان کا نعم البدل عنایت کرے۔