رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

محمد عزیز الرحمان قاسمی
آہ ! میرے مشفق میرے راہبر میرے آیڈیل ” تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں كوئی ” اور ” بچھڑے کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ” ڈاكٹر مفتی اعجاز ارشد قاسمی صاحب مرحوم كی وصال سے یقینا پوری ملت اسلامیہ ہندیہ افسردہ اور غمگین ہے ، لیكن میرے لئے ذاتی طور پر ایك عظیم خسارہ اس لئے بھی ہے كہ وہ میرے چچا زاد بھائی بھی تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے كہ جب میں 2004 دارالعلوم داخلہ كے لئے گیا تو اس وقت مفتی صاحب دار العلوم كے میڈیا انچارج اور انٹرنیٹ شعبہ كے ذمہ دار تھے ، اس وقت مفتی صاحب كا قیام احاطہ دارجدید میں مطبخ كے پاس بالائی منزل پر بالكل سیڑھی كے سامنے تھا، مفتی صاحب نے میرے رہنے كےلئے اپنے روم میں ہی جگہ دی، اور میں وہیں امتحان كی تیاری كرتا رہا، الحمدللہ امدادی داخلہ ہوگیا ، لیكن خصوصی رہائش كے لئے مطلوبہ نمبر حاصل نہیں كرسكا ، مجھے یاد آرہا ہے كہ جب میں نے مفتی صاحب ؒ سے خصوصی رہائش كے لئے شفارش كی درخواست كی تو انہوں نے یہ كہہ كر شفارش كرنے سے انكار كردیا كہ آپ كو جہاں جگہ مل رہی ہے وہیں ششماہی تك قیام كریں ، اور اچھے نمبرات حاصل كرنے كی كوشس كریں ، چنانچہ ایساہی ہوا ، ششماہی امتحان میں محنت كركے خصوصی رہائش كے لئے مطلوبہ نمبرات حاصل كیا اور پھر رواق خالد میں جگہ ملی ، یہ تھا مفتی صاحب كا تربیتی انداز۔
مفتی صاحب ہر سال عید الفطر اور عید الاضحیٰ كے موقع پر آبائی وطن چندرسین پور تشریف لاتے ، اور اپنے تمام رشتہ داروں كے ساتھ خوشیوں میں شریك ہوتے ، عید كی نماز كے بعد اپنے تمام رشتہ داروں كے گھر تشریف لے جاتے اور جو میسر ہوتا نوش فرماتے ، خاندان كے تمام افراد خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ہر ایك سے خند ہ پیشانی سے ملتے ، آج تك خاندان والوں نے كبھی كسی خاندان كے فرد سے الجھتے تو دركنار كسی سے بآواز بلند بات كرتے نہیں دیكھا، ہر ایك كے محبوب اور منظور نظر تھے ، بہت كم لوگوں كو یہ مقام حاصل ہوتا ہےكسی نے سچ كہا ہے
” ایسا بھی کو ئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے”
آپ كی زندگی مشہور حدیث ( خيركم خيركم لأهله) كی كھلی تفسیر تھی، اللہ تعالے نے مفتی صاحب ؒ كو ملت كے لئے كام كرنے ، اس كے لئے ہر طرح كی قربانی دینے كا جذبہ خصوصی طور پر ودیعت كیا تھا جو بچپن سے لے كر زندگی كی آخر ی سانس تك نمایاں نظر آتا ہے۔ ان كی یہ خوبی ان كے ساتھ كام كرنے والے مفتی مجتبیٰ صاحب استاذ حدیث ماٹلی والا بھروچ اور غفران ساجد صاحب چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن اور دیگر حضرات اچھی طرح جانتے ہیں۔ مچھے اچھی طرح یاد ہے كہ جب مفتی صاحب مدرسہ بشارت العلوم میں زیر تعلیم تھے عنفوان شباب كا زمانہ تھا اس زمانہ میں بھی جب رمضان كی چھٹی ہوتی تو جہاں دوسرے طلباء اپنے اوقات دوستوں كے ساتھ اور گھر والوں كے ساتھ كذارنا پسند كرتے وہیں مفتی صاحب محلے كے بچوں كی تعلیم كے لئے فكرمند ہوتے اور ان كو دروازہ پر تعلیم كے لئے جمع كرتے، یقیناً ایسا ملی جذبہ ہر كسی كو حاصل نہیں ہوتا ۔
غالبؔ كا یہ مصرع آج بار بار دل پردستك دے رہا :
“ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے”
یہ ایك سچی حقیقت ہے كہ مفتی صاحب ؒ ہمہ جہت شخصیت كے مالك تھے ، بہت كم وقت میں اپنی شخصیت كو متعارف كرانے میں كامیاب ہوئے۔ شعبہ ہائے زندگی كے مختلف میدانوں میں انہوں نے جو كام كیا ہے ان كاموں كو اور ان كی گوناگوں خوبیوں كو كسی ایك مضمون میں شمار كرنا بہت مشكل ہے۔
مفتی صاحب ؒ شكل و شباہت كے اعتبار سے نہایت حسین وجمیل خوبرو ، خوش مزاج ، طبیعت كے اعتبار سے نفیس جن كی نفاست ان كے لباس سے واضح جھلكتی تھی، چھوٹے بڑوں كے ساتھ گھلنے ملنے كا مزاج تھا ۔
مفتی صاحبؒ کا آبائی وطن بہار کے مدھوبنی ضلع کی زرخیز بستی چندرسین پور تھا ، ابتدائی تعلیم انہوں نے مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا سے حاصل کی اور پھر علیا كی تعلیم كے لئےدارالعلوم میں داخلہ لیاجہاں سے انہوں نے فضیلت کی سندحاصل کی ،افتاء بھی دارالعلوم دیوبندسے ہی کیا۔ افتاء کے بعد ایک سال انہوں نے دارالعلوم دیوبندکے شعبہ صحافت شیخ الہند اکیڈمی میں رہ کرصحافت کی تربیت حاصل کی ۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ مولانا بدر الدین اجمل قاسمی صاحب کی ایماء پر تقریباً ایک سال ہندوستان کے مشہور زمانہ ہفت روزہ نئی دنیا میں عملی صحافت کی تربیت حاصل کی۔اس کے بعدسن ۲۰۰۱ میں باضابطہ دارالعلوم کے شعبہ انٹرنیٹ میں ویب ایڈیٹرکی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا۔ آپ نے دارالعلوم دیوبندکےمیڈیاترجمان کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں، آپ دارالعلوم دیوبندکے طلبہ کے لئے صحافت میں آئیڈیل تھے، آپ کودیکھ کرسینکڑوں طلبہ نے صحافت کی جانب رخ کیا۔ دارالعلوم دیوبندکے زمانے میں جب آپ نے صحافت کے موضوع پر شاہکار کتاب ’’من شاہ جہانم‘‘ تصنیف کی تواس کتاب نے آپ کوراتوں رات صحافت کی دنیامیں مشہورکردیا۔ من شاہ جہانم علماء برادری کی جانب سے صحافت کے موضوع پرباضابطہ پہلی تصنیف تھی ۔یہ کتاب آج بھی صحافت کے طلبہ کے لئے رہنماکی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ بہت ہی ذہین تھے غضب كی فطانت اللہ نے عطا كی تھی، اللہ نے آپ کوگوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا ، ملی و سماجی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ كر حصہ لیا كرتے تھے۔
دارالعلوم آپ نے مستقل طور پر دہلی میں سکونت اختیار کی اور پھر وہاں فتویٰ سنٹر ، اور اسلامک پیس فاؤنڈیشن آف انڈیا کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ آپ نے دہلی میں قیام کے دوران جامعہ ملیہ سے گریجویشن کیا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے زمانے میں ہی مدھوبنی کے طلبہ کی ایک جماعت کو لے کراسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن آف مدھوبنی کے نام سے طلبہ کی ایک تنظیم بنائی جس کے آپ صدر بنائے گئے اور مولاناغفران ساجدقاسمی کو جنرل سکریٹری بنایا گیا ۔ اس تنظیم نے مدھوبنی میں تعلیمی بیداری کے لئے بڑا کام کیا، ۔آپ مثبت سوچتے تھے اورمثبت فکرکی دعوت دیتے تھے۔ مشہور ہے كہ آپ کی ڈکشنری میں ’’نا‘‘ لفظ کاوجود ہی نہیں تھا۔ آپ نے سیاسی میدان میں بھی بہت کام کیا۔ ۲۰۱۲میں آپ کوملک کی سب سے بڑی تنظیم آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کارکن بنایا گیا، آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت آپ نے ہمیشہ ملت کی خدمت انجام دی اور دہلی واطراف دہلی میں پرسنل لاء بورڈ کے لئے ہمیشہ سرگرم اورمتحرک رہتے تھے۔
گذشتہ کئی دنوں سے طبیعت خراب چل رہی تھی ، انہیں فریدآباد کے ایشین ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا ، حالت نازک ہونے پر فریدآباد کے ہی پون ہسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں 17 تاریخ دوپہرکے تقریباً ڈھائی بجے اپنی آخری سانس لی۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگرانی کرے

رابطہ: 0096894263966