انصاف کا دوہرا معیار:مسلمانوں پر پابندی ،سکھوں کو اجازت

خبر درخبر(495)

شمس تبریز قاسمی
آفتا ب احمد ہندوستانی فضائیہ میں ملازم تھے ،شریعت اسلامیہ کے پابند ہونے کے ساتھ چہرے پر ڈاڑھی بھی رکھتے تھے ،2008 میں انہیں فضائیہ سے باہر نکال دیاگیا یہ کہتے ہوئے کہ فضائیہ کے قانون میں ڈاڑھی رکھنی ممنوع اور غیر قانونی ہے ،آفتا ب احمد نے ڈاڑھی رکھ کر قانون شکنی کی ہے جس کی بنیاد پر انہیں مزید فضائیہ میں رکھے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے ، آفتا ب احمدنے فضائیہ کے اس اقدم کو چیلینج کرتے ہوئے ملک کی عدلیہ کا درواز کھٹکھٹایا اور انصاف کی دہائی لگائی؛ لیکن افسوس کہ یہاں بھی مایوسی ہاتھ لگی ، چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایل ناگیشور راپر مشتمل بنچ نے فیصلے سناتے ہوئے یہ کہ دیاکہ فضائیہ کے قوانین مذھب میں مداخلت کے لئے نہیں ہیں یہاں نظم وضبط برقراررکھنے کیلئے قوانین تشکیل دیئے جاتے ہیں ،ڈاڑھی رکھنے کی اجازت کا نہ ملنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی نہیں ہے۔آفتاب احمد کی یہ دلیل سرے سے خارج کردی گئی کہ آئین ہند ہر شہری کو مذہبی آزادی کا مکمل حق دیتاہے ،جب آفتا ب احمدنے اپنے دعوی کو مدلل کرنے کیلئے سکھوں کو مثال میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب سکھوں کو فوج میں ڈاڑھی رکھنے اور پگڑی پہننے کی اجازت ہے تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں جبکہ معاملہ دونوں جگہ یکساں ہے ،دونوں مذاہب کے نزدیک ڈارھی کا تعلق مذہب سے ہے ۔ عدلیہ نے یہاں بھی آفتا ب احمد کی دلیل پر کوئی توجہ دیئے بغیرجواب میںصراحت کے ساتھ یہ کہہ دیا کہ تمام مسلمان داڑھی نہیں رکھتے ہیں، داڑھی ان کا مذہبی معاملہ نہیں ہے ۔ ایسے میں داڑھی کے لئے اسلام کی دہائی نہیں دی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ مذہبی آزادی کی مخالفت ہے۔
ملک کی عدلیہ کا یہ فیصلہ نہ صرف افسوسناک بلکہ باعث تشویش ہے،عدلیہ کو قانون کی تشریح کرنے کا حق ہے قانون سازی کا نہیں لیکن اب عدلیہ قانون سازی کے ساتھ مذہبی امور کی تشریح بھی کرنے لگی ہے ،کس مذہب میں کیا ہے ،کس مذہب کی تعلیمات کیا ہیں اس کی وضاحت بھی اب مذہبی رہنما اور مذہبی کتابوں کے بجائے ملک کی عدلیہ میں بیٹھے ججز حضرات خودکرنے لگے ہیں ،اپنی مرضی سے جسے چاہتے ہیں اسلامی شعار اور مذہب کا حصہ بناتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں اسے نکال دیتے ہیں ،جیساکہ ڈاڑھی رکھنے کے سلسلے میں عدلیہ نے ایک موقف اپنا تے ہوئے یہ کہ دیا کہ ڈاڑھی کا تعلق مسلمانوں کے مذہب سے نہیں ہے ،ڈاڑھی رکھنے پر پابندی عائد کرنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی نہیں ہے لیکن وہی عدلیہ سکھوں کے بارے میں یہ کہ رہی ہے کہ ان کے نزدیک ڈاڑھی اور پگڑی مذہبی معاملہ ہے ،انہیں اس سے روکنا مذہبی آزاد ی میں مداخلت ہے ۔
عدلیہ کا یہ جملہ اور یہ فیصلہ یقینا دوہرے معیار پر مشتمل ہے اگر عدلیہ کے نزدیک مسلمانوں کیلئے ڈاڑھی کا تعلق مذہب سے نہیں ہے محض اس بنیاد پر کہ بہت سے مسلمان ڈاڑھی نہیں رکھتے ہیں تو پھر سکھوں کی بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو نہ ڈاڑھی رکھتی ہے اور نہ ہی پگڑی پہنتی ہے ،1984 کے سکھ فسادا ت کے دوران بہت سے سکھوں نے اپنے آپ کو بدل لیا تھا اور اپنی شناخت ختم کرلی تھی۔
ملک کی عدالت عظمی سے یہ سوال ہے اگر بعض مسلمانوں کے ڈاڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے ڈاڑھی مذہبی معاملہ نہیں ہے تو پھر بعض سکھوں کے ڈاڑھی نہ رکھنے اور پگڑی نہ باندھنے کے باوجود یہ ان کیلئے مذہبی معاملہ کیوں ہے ؟انہیں فضائیہ میں فوج اور دیگر تمام جگہوں پر ڈاڑھی رکھنے کی اجازت کیوں ہے ؟اگر ڈاڑھی کا تعلق سکھ مت کی شناخت سے ہے تو پھر باربار یہ لوگ کیوں اپنی یہ شناخت ختم کرکے دیگر قوموں کی شباہت اختیا رکرلیتے ہیں؟ مسلمانوں کیلئے بھی یہ مقام غور ہے جن کے طرزعمل کی بنیاد پر آج عدالت یہ کہ رہی ہے کہ تمام مسلمان ڈاڑھی نہیں رکھتے ہیں اس لئے اسے مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھاجاسکتاہے ۔عدلیہ کی اس دلیل کو دیکھ کر ایسالگ رہاہے کہ کل ہوکر نماز پڑھنے ،روزہ رکھنے اور دیگر مذہبی احکامات کی ادئیگی پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے اس امر کو بنیاد بناتے ہوئے کہ بہت سے مسلمان نماز نہیں پڑھتے ہیں،روزہ نہیں رکھتے ہیں،دیگر مذہبی احکامات کی ادئیگی نہیں کرتے ہیں ،کیوں کہ جب بہت سے مسلمان ان اعمال کے پابند نہیں ہیں تو اس کامطلب ہے کہ یہ مذہب کا حصہ نہیں ہے۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com

 

SHARE