ساجد حسن رحمانی ، ویشالوی
فاضل دارالعلوم دیوبند
یوں توہر روز ددنیا میں لاکھوں افراد اپنی آنکھیں کھولتے ہیں اور لاکھوں افراد اپنی حیات مستعار پوری کرکے دار فانی سے دار بقاء کی جانب کوچ کرجاتے ہیں ، گویا آمد و رفت کا یہ سلسلہ ایک ایسا عام اور روز مرہ کا معمولی سا واقعہ بن گیا ہے ، کہ نہ تو کسی کی آمد پر لوگوں کو بے حد خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی جانے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں شخص اب ایک ایسی دنیا میں چلا گیا ہے ، جہاں سے اس کی کبھی واپسی نہ ہوگی ؛ہاں البتہ جب کوئی ایسا شخص دنیاسے رخصت ہوتا ہے جو اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ جیتا تھا، اپنی ترقی کم اور دوسروں کی ترقی کا زیادہ خواہاں رہتا تھا، اپنی پریشانی کی پرواہ کم اور دوسروں کی پریشانی کی پرواہ زیادہ کرتا تھا اور ان کی پریشانی و مصیبت کے ازالہ کے لیے سعیٔ پیہم ،جہد مسلسل اور شبانہ روز تگ و دوکرتا رہتا تھا ، تو اس کے دنیا سے گذر جانے کے بعد بہ قدر افادیت لوگوں کو اس کے گذرجانے کا احسا س ہوتا ہے او رصرف ان کی آنکھیں ہی نہیں ؛ بلکہ ان کے دل بھی گریہ کناں ہوتے ہیں اور مدت ہائے دراز تک روتے اور سسکتے رہتے ہیں ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیامیں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
ان ہی اشخاص میں سے ایک قدآور عالم دین ، معروف مصلح ،مشہور سجادہ نشیں ،عظیم مفکر ،یگانۂ روز گار مصنف ، نابغہ ٔ زمن داعی ٔ الی اللہ ، ناموس رسالت کا محافظ ، علم و عمل کا جامع ، صبر و وفاء کا پیکر ، استقامت و عزیمت کا پہاڑ ، خود غرضی و خود نمائی سے حد درجہ بیزار ، خدا ترسی و نیک خوئی ،بلند حوصلگی ،جاں پرسوزی و سخن دلنوازی ، شان قلندری و نگاہ سکندری کی اعلی مثال ،فہم و شعور کا مرکز ، بصیرت و آگہی کا منبع ، مسلسل جد و جہد اور آہنی عزم کا حامل ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر شفقت اور غیروں سے الفت جیسے عظیم اوصاف کے مالک ، اخلاق کریمانہ ، اوصاف مؤمنانہ اور گفتار دلبرانہ کا حسین مرقع، تواضع و انکساری اور عفو ودرگذر کا مجسم نمونہ،مسلک و ذات اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر لوگوں کی ترقی کے تئیں شب و روز سر گرداں ، سیرت و کردار کی پاکیزگی ، ایمانی صلابت ، بیدار مغزی اور اولوالعزمی میں اپنی مثال آپ ، قرآنی آیت انک لعلی خلق عظیم کی حقیقی تفسیر ، اعتدال پسندی میں فر دفرید ، سالار قافلہ ٔ علمائے دین ، ہر محفل او رہر مجلس میں میر مجلس اور ان اوصاف کے علاوہ نہ جانے اور کتنے اوصاف وکمالات کے جامع ، امارت شرعیہ پٹنہ کے امیر شریعت ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری ، خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں، رحمانی ٣٠کے بانی اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ ۳ ؍ اپریل کو ڈھائی بجے دن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) جوں ہی ان کی وفات کی وحشت اثر خبر لوگوں کے کانوں میں پڑی ، پاؤں تلےسے زمین کھسک گئی ، دل غم سے کراہ اٹھا، آنکھیں اشکبار ہوگئیں ،ہر سو سوگواری اور مایوسی و غم کی فضاء چھا گئی اور ان سے ادنی درجہ کی مناسبت رکھنے والا شخص بھی خود کویتیم ، بے سہارا محسوس کرنے لگا اور حالات یہ ہو گئے کہ
بدلا ہوا ہے رنگ گلوں کا تیرے بغیر
کچھ خاک سی اڑی ہوئی سارے چمن میں ہے
بچپن کی بات ہے جب راقم الحروف مدرسہ فیض منت ہرشنکر پوربگھونی تاج پور ( ضلع سمستی پور) کے درجۂ حفظ میں زیر تعلیم تھا کہ اچانک ایک دن فجر کی نماز کے معاً بعد صدر مدرس مدرسہ کی جانب سے سارے طلباء کو حکم دیا گیا کہ سب کے سب اپنے کمرہ ،برآمدہ مسجد اور مدرسہ کے احاطہ کی صفائی و ستھرائی میں لگ جائیں، سارے طلبہ اساتذہ کی نگرانی میں صفائی میں مشغول ہوگئے اور اساتذۂ کرام بھی اس کام میں ان کی معاونت کرنے لگے ۔
یہ ماجرا دیکھ کرنا چیز کو بہت تعجب ہوا؛ کیوں کہ اس مدرسہ میں داخلہ لیے چار ماہ گذر گیا تھا اور اس درمیان کبھی نہیں دیکھا کہ کلاس کے دوران سارے طلباء کوبیک وقت پڑھائی یا قرآن خوانی کے علاوہ کوئی دیگر کام میں لگایا گیا ہو ،صفائی وستھرائی کی اس صورت حال کو دیکھ کرراقم نےاپنے بڑے ساتھیوں سے پوچھاکہ کیوں اس درجہ اہتمام کے ساتھ صفائی کی جارہی ہے ؟ ساتھیوں نے بتایا:آج مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب تشریف لارہے ہیں ،حضرت اس مدرسہ کے سرپرست ہیں اوراس مدرسہ کا نام ان کے والد بزرگوار کے نام پر ہے، صفائی سے فراغت کے بعد طلباء کو حکم دیا گیا وہ صاف ستھرےلباس میں ملبوس ہوکر حضرت کے استقبال کے لیے مدرسہ کے گیٹ پر آجائیں ، حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سارے طلباء و اساتذہ اور علاقہ کے کچھ لوگ مین گیٹ پر صف بستہ کھڑے ہوگئے ،سارے لوگ بے حد فرحاں و شاداں اور ان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بے تاب تھے ۔ تھوڑی دیر بعد بہ ذریعہ کار حضرت کی آمد ہوئی، سارے لوگ صفوں کو توڑ کر ان سے مصافحہ کے لیے اکٹھا ہوگئے، حضرت نے ہر ایک کو سلام و مصافحہ کا شرف بخشا، پھر حضرت کو مسجد لے جایا گیا ، جہاں پروگرام کا بند وبست تھا ، حضرت نے دیر تک خطاب فرمایا ؛لیکن خطاب میں کیا فرمایا؟ کچھ بھی یاد نہیں (کیوں کہ وہ زمانہ ناچیز کے کھیلنے وکودنے کا تھا اسے کیا پتہ تھا ؟ بزرگ کسے کہتے ہیں ؟ اور بزرگوں کی باتوں کو غور سے سننا، محفوظ کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے) ہاں البتہ اتنا یاد ہے کہ حضرت کے خطاب کے دوران محفل میں سکون و سناٹا چھایا ہوا تھا ، حاضرین خوب ذوق وشوق سے انہیں سن رہے تھےاور ان کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات عالیہ کے لفظ لفظ کو دل ودماغ میں محفوظ کرنے میں محو تھے ؛ لیکن ناچیز نظر جمائے ہوئے صرف اور صرف ان کا نورانی اور منور چہرہ دیکھنے میں مستغرق تھا ؛کیوں کہ اس نے اس سے پہلے کبھی کسی ایسے عمر رسیدہ شخص کو نہیں دیکھا تھاکہ جس کا چہرہ حضرت کے چہرہ کی مانند چمکتا اور دمکتا ہو۔ حضرت کے دیدار او ران سے ملاقات کا یہ پہلا اور آخر ی موقع رہا،اس کے بعد پھر کبھی روبرو ان ککے دیدار اور ان سے ملاقات کا موقع ہاتھ نہ آیا،لیکن گذرتے ہوئے زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے تابندہ کارناموں اور روشن خدمات سے جوں جوں واقفیت ہوتی گئی ، غائبانہ طور پران کی عقیدت و محبت اور عظمت و احترام میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تاآنکہ راقم حضرت کا سب سے بڑا معتقد بن گیا ۔
حضرت امیر شریعت بلاشبہ عظیم باپ کے بیٹے اور عظیم دادا کے پوتے تھے ،انہیں دین وملت ،مذہب و مسلک اور قوم وملک کی خدمت کا جذبہ باپ،دادا سے وراثت میں ملی تھی۔ ان کے عظیم جد امجد حضرت مولانا سیدمحمد علی مونگیری ؒ ( بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء و جامعہ رحمانی مونگیر) انتہائی بالغ نظر ،وسیع الفکر، کشادہ نفس ، باکمال ، جری ، حق گو ، بے باک ، نڈر ، متحر ک اور فعال مذہبی قائد تھے ،کتاب و سنت پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے تقاضوں ، چیلنجوں اور اسلام پر ہونے والے اندرونی و بیرونی حملوں سے واقفیت اور ان سے مقابلے کے اسالیب سے پوری طرح باخبر تھے ،تقریباً یہ سارے اوصاف و کمالات امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کو بطور وراثت ملے ،اور یہ ہی وراثت ان کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کو ملی ۔
یوں تو حضرت امیر شریعت بہت سی خوبیوں کے مالک اور نمایاں و ممتاز اوصاف کے حامل تھے ، لیکن ان کی دو صفت جو انہیں ان کے تمام معاصرین سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی جرأت و بے باکی اور صاف گوئی ہے ،وہ جس بات کو صحیح اور حق سمجھتے ،اسے گھبراہٹ و بےچینی ،خوف وہراس ،کسی بڑے یا چھوٹے کی ناراضگی وخفگی ،لومۃ لائم اور ناقدین کی تضحیک و تنقید کی پرواہ کیے بغیر دو ٹوک اور واضح انداز میں کہہ دیتے ،ان کا کہنا تھا ۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند
چناں چہ ۲۰۲۰ء میں بہار اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر حضرت نے لوگوں سے مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار اختر الایمان کو ووٹ دینے کی اپیل کی تو مولانا شمیم ریاض ندوی کشن گنجوی نے (جو اختر الایمان صاحب کے لیے کام کررہے تھے) انھیں یہ معلوم کرنے کے لیے فون کیا کہ کیا واقعتاً آپ نے عوام سے اختر الایمان کو ووٹ دینے کی اپیل کی ہے ؟ تو آپ نے کہا : بلاشبہ میں نے لوگوں سے انہیں ووٹ دینے کی اپیل کی ہے ، تاکہ اپنا بھی ایک دو آدمی پارلیمنٹ میں بولنے والا ہو ، پھر مزید کہا : ایک صاحب نے ہم سے فون کرکے کہا : آپ امیر شریعت اور مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں ؛ اس لیے آپ کو کسی پارٹی کے لیڈر کی حمایت میں نہیں بولنا چاہیئے ،تو ہم نے ان سے سوال کیا کہ پہلے یہ بتائیے کہ آپ کی عمر کیا ہے ؟ انہوں نے اپنی عمر بتائی ، تو معلوم ہوا کہ وہ ہم سے عمر میں بہت چھوٹے ہیں ، تو پھر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا میں آپ کے نزدیک عاقل ، بالغ ہو ں یا نابالغ ؟ تو وہ صاحب ساکت و صامت ہوگئے ، تو ہم نے ان سے کہا : جب میں عاقل و بالغ ہوں تو کیا اب بھی مجھے کوئی بتائے گا ، کہ کہاں بولنا چاہئے اور کہاں نہ بولنا چاہئے ؟ اگر آپ کو بولنے اور کرنے کا حق ہے ، تو مجھے بھی یہ دونوں حقوق حاصل ہیں اور یہ حق مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا ہے ، اگر آپ امیر شریعت ہونے کا مطلب گونگا رہنا سمجھتے ہیں ، تو میں گونگا امیر شریعت نہیں ہوں، جہاں اپنا بس چلے گا ، بولوں گا اور جہاں نہیں چلے گا ، خاموش رہوں گا ، سیدھی سی بات ہے ۔ جہاں بھی جرأت مندی و صاف گوئی کا معاملہ درکار رہا ،خواہ حکومت وقت کے ساتھ کیوں نہ ہو، سینہ سپر رہے اور اس کے سامنے سر نگوں ہونے کو گوارا نہیں کیا ؛ بلکہ ظالم و جابر ، بے انصاف و بے لگا م اور جارحیت شعار سچائی کے دشمن حکومت وقت اور اس کے تخت و سلطنت کی کوئی پرواہ نہیں کی دین و شریعت کے تحفظ اور مسلمانوں پر ہونے والے شب وروز مظالم کے ازالہ کے لیے امراء وقت سے لوہا لینے کا کام کیا اور ان سے مرعوب ہوئے بغیر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں ،تاآں کہ وہ مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
حضرت امیر شریعت ؒ کی جرأت و بے باکی کے بہت سے واقعے اور قصےہیں ،جن میں سے چند ہم ذیل میں ذکر کیے دیتےہیں :
۱۔ بہار کے قدیم مدرسہ ’’شمس الہدی‘‘ پٹنہ کے تاریخ ساز صد سالہ جلسہ میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کو اس کے منھ پر بہت کھڑی کھڑی سنائی ۔
۲۔دوسرا واقعہ جو راقم الحروف کے ہفتم عربی کے سال دارالعلوم کے ملنسار ، بااخلاق ، خوش مزاج ، ظریف طبع اور انتہائی فہیم و ذکی استاذ حضرت مولانا سید احمد خضر کشمیری مدظلہ العالی نے درس گاہ میں اکابرین کی جرأت و بے باکی کے قصوں کے ذیل میں امیر شریعت ؒ کا بھی ایک قصہ بیان کیا ،فرمایا: لالو پرساد یادو کی دور حکومت میں مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کسی مسئلہ کے حل کے لیے ان سے ملنے گئے ، جوں ہی حضرت ان کے آفس کے دروازے پر پہونچے اور ان کی حضرت پر نظر پڑی کہ انہوں نے کہا : مولانا ! اندر آئیے ، اور اس وقت لالو یادو کی کیفیت یہ تھی کہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے اور پاؤں ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے ، مولانا نے فورا ً کہا : لالوجی ! پاؤں زمین پر رکھیئے تب آؤں گا ، یہ سنتے ہی لالو جی نے فوراً پاؤں زمین پر رکھ لیا ۔
۳۔ حضرت کی جرأت کا تیسرا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نےحکومت ہند کے وزیر تعلیم کو اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہماری بات آسانی سے مان لیں ،تو ٹھیک ورنہ آپ کو یوں درست کرنا مجھے آتا ہے ۔
۴۔ حضرت کی جرأت کا چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ابھی دو ماہ قبل جب بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین ایک تقریب میں ان سے ملے، تو حضرت نے ان کے سامنے بلاجھجھک ، دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ’’ سب کا ساتھ ،سب کا وکاس اور سب کا ستیاناس ‘‘ حاضرین حضرت کی زبان سے یہ باتیں سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑے ، شاہنواز حسین نے اپنی اور اپنی پارٹی کی رسوائی دیکھ کر اور پارٹی کی ناکامی چھپاتے ہوئے کہا :کہ یہ تو گانگریس کے دور حکومت میں بھی ہوا ہے ، حضرت حاضر جواب تھے ،وہ کہا ں چوکنے والے تھے ،انہوں نے فوراً کہا : کانگریس کے زمانہ میں ہو یا نہ ہو اب تو پورا پورا ہورہا ہے ، پھر ایک چیئر مین صاحب (جو لمبی ٹوپی پہنےسامنےکھڑے تھے) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اب تو ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین صاحب کی ٹوپی بھی بک جائے گی ، شاہنواز حسین یہ باتیں سن کر لاجواب ہوگیا ۔
حضرت امیر شریعت کی جرأت و بے باکی اور صاف گوئی کے یہ چند اہم واقعات ہیں ،طوالت کے خوف سے ان ہی قصوں کے تذکرے پر اکتفاء کررہا ہوں ، ورنہ ان کی جرأت و ہمت کے ایسے کتنے واقعات ہیں. ۔
حضرت جس طرح خودجری و بے باک تھے ، اسی طرح وہ امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کو نڈر اور بے باک دیکھنا چاہتےتھے ، حضرت کا مندرجہ ذیل ملفوظ ( جو ان کی وفات کے بعد شوشل میڈیاپر خوب وائر ل ہوا،اور جسے بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے اسٹیٹس پر بھی لگایا) میرے مذکورہ بالا جملے کی بھر پورترجمانی کررہا ہے ۔’’ وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے ،وہ پرہیز جو حالات سے گریز سیکھائے ، وہ صبر جو ظلم مسلسل کی حسین تعبیر تلاش کرے اور وہ برداشت جو بے عملی تک پہونچادے ، زندہ افراد اور زندہ اداروں کے لیے ناقابل قبول ہے اورنہ گوارا‘‘
جہاں جرأت و بے خوفی کی ضرورت پڑی ،وہاں جرأت و بے باکی کا مظاہرہ کیا او رجہاں تواضع و عاجزی کی ضرورت پڑی ،وہاں اپنی بلند پایہ شخصیت کو قوم وملت کے مفادکے لیے سرنگوں کردیا۔وہ ان دونوں متـضاد صفتوں سے اپنے اپنے تقاضہ کے وقت کام لے کر سیاسی ،سماجی ،صحافتی ،تدریسی ، اصلاحی ، دعوتی ، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں جہدمسلسل ،سعی ٔ پیہم ،خاموش مزاجی اور مستقل مزاجی کے ذریعہ جو تاریخ ساز کارہا ئے نمایا ں انجام دیا اور نسل نو کو دینی شعبوں کے ساتھ دنیوی شعبو ں میں بھی ترقی اور کامیابی کی جو راہ دکھائی ہے ، وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے لفظوں سے لکھا جائے گا ۔
امت مسلمہ کی تئیں اس درجہ درمندی ، فکرمندی اور ہمدردی کی وجہ سے اللہ نے انہیں مسلمانان ہند ،بالخصوص مسلمانان بہار ، اڈیشہ وجھاڑکھنڈ میں جو مقبولیت و محبوبیت عطا کی تھی ،وہ اپنی نظیر آپ ہے ۔ مسلمانان بہار ، اڈیشہ وجھاڑکھنڈان کی ایک آواز پر لبیک کہتےہوئے یک جا ہوجاتے تھے او ران پر اپنی جان نچھا ور کرنے کو فخر محسوس کرتے تھے ، جس کی غماز’’ دین بچاؤ ،دیش بچاؤ ‘‘ تحریک کے موقع پر پٹنہ کے گاندھی میدان میں ۲۵؍لاکھ کے مجمع کا ان کی ایک آواز پر اکٹھا ہوجانا ہے ؛حالاں کہ اتنا بڑا مجمع گاندھی میدان میں آزادی ٔ ہند کے بعد اب تک نہ تو کوئی مذہبی قائد اکٹھا کرسکا اور نہ ہی سیاسی قائد ، نیز ان کی وفات کی الم انگیز اور روح فرسا خبر کو سن کر وبائی مرض ’’ کرونا وائرس ‘‘ کی پرواہ کیے بغیر ان کےآخری دیدار او رجنازہ میں شرکت کو باعث سعادت سمجھ کر ،تقریباً ۵؍لاکھ افراد کا جوق در جوق مونگیر حاضر ہونا اور ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونا بھی عند اللہ و عند الناس ان کی محبوبیت و مقبولیت کی روشن دلیل ہے ۔
گرچہ ۳؍ اپریل کو وہ غمخوار و غمگسار،حق گو وصاف گو اور بے نظیر و بے بدل قائد اپنے ملک و قوم اور اپنے قدر دانوں سے جدا ہوگیا ؛لیکن وہ اپنےپائندہ کارناموں ،تابندہ خدمات اورانمٹ نقوش کے ذریعہ لوگو ں کے دل و دماغ میں زندہ رہے گا او رانہیں اپنے ذکر خیرپر مجبور کرتا رہے گا ،بہ قول شاعر
کلیوں کو میں سینے کا لہو دےکر چلا ہو ں
صدیوں مجھے گلشن کی فضاء یاد کرے گی
آج ان کے چلے جانےکے بعد ان کے عقیدت مندوں ،قدر دانوں اور محبین و متوسلین کی جانب سے ان کے لیے سچی اور حقیقی خراج عقید ت یہ ہے کہ وہ ان کی مغفرت اور بلندی ٔ درجات کی دعا کریں ،ان کے چھوڑےہوئے کاموں او رچھیڑے ہوئے مشن کو پایہ ٔ تکمیل تک پہونچانے کی کوشش کریں ۔