ڈاکٹر خالد انور
رکن قانون ساز کونسل (بہار)
حضرت مولانامحمد ولی رحمانی رحمہ اللہ علیہ ہم سب سے جدا ہو گئے، اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کا بلاوا آیا اور وہ راضی ہو گئے۔ ہمیں بھی کائنات کے رب کے اس فیصلہ پہ راضی ہونا ہے۔ جتنی زندگی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے چاہنے والوں اور ملت کے لئے دی تھیں ان کو ہمارے حضرت نے بڑے اعتماد ، بہت شجاعت اور بہادری کے ساتھ پورا کیا۔ اپنا ایک ایک کام ترتیب سے کر تے رہے یہاں تک کہ رب سے ملاقات کا وقت آن پہنچا۔ حضرت کی زندگی ایک کھلی کتاب اور سماجی و ملی کام کرنے والوں کےلئے آئیڈیل ہے۔
مجھے حضرت کے قریبی محفلوں و مجلسوں میں رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ میں نے کبھی انہیں ملت کے مسائل سے غافل نہیں پایا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ ملت اسلامیہ تھا۔ وہ زندگی کے تمام شعبوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کا ویزن ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے پورے ملک میں اپنی ایسی ٹیم تیا کر رکھی تھیں جس میں ہر شعبہ حیات کے نابغہ روزگار اشخاص موجود ہوتے تھے۔ حضرت جب وکلاء سے بات کرتے تو بسا اوقات وہ ایک بڑے قانون داں نظر آتے، اکیڈمک سے جڑے لوگوں سے میٹنگ کرتے تو وہ ماہر علم و فنون دکھائی دیتے ، شریعت پر بات کرتے تو فقہ کی ایک ایک نکات کو کھول کر رکھ دیتے، سیاست پر بات کر تے تو موجودہ سیاسی منظرنامہ کی خوبصورت تصویر کھینچ کر رکھ دیتے، سیاسی پارٹیوں کے نظریات اور چال ڈھال پر ان کی گہری گرفت تھی۔ حکمراں طبقہ سے بات کر تے تو حضرت کے انتظامی گرفت کی سب داد دیتے تھے، اور ملت کے مسائل کو حل کرنا مجبوری بن جایا کرتی تھی۔ حضرت کے ساتھ کئی مسائل میں شریک رہنے کا شرف حاصل رہا ہے، جس پر تفصیل سے بات کی جائے گی انشاء اللہ۔
فی الحال یہ سمجھنا ضروری ہے کہ محمد ولی رحمانی ؒ جیسی شخصیات کم پیدا ہو تی ہیں۔ میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے عقیدتمندوں میں سے ہوں۔ مولانا آزادؒ کی سوانح حیات پڑھئے اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کو سامنے رکھئے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت کس درجہ کے قائد تھے۔ مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی زبان میں بلا کی کشش تھی۔ ان کی خطابت کا جواب نہیں تھا۔ حضرت کی تحریروںمیں سادگی، زبان پر گرفت اور جملوں کی ساخت انہیں اعلیٰ ترین ادیب بناتی ہے۔ حضرت کی زندگی تصنع سے پاک تھی۔ وہ اپنے یا اپنی اولاد کےلئے کبھی فکر مند نہیں رہتے تھے، انہیں فکر تھی تو صرف ملت کی۔ یہی وہ اوصاف ہیں جس نے حضرت کو بے باک ممتاز اور ہندستانی مسلمانوں کے دلوں کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔ حضرت کی بے نیازی نے حکمراں طبقہ میں غضب کا رعب بٹھا دیا تھا۔
مفکر اسلام حضرت محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ بھی لکھنا میرے جیسے کوتاہ بیں کے بس کا روگ نہیں ، ویسے بھی ان سے میرا رشتہ اس قدر گہرا اور جذباتی تھا کہ بڑی ہمت جٹانے کے بعد بھی قلم رک جاتا ہے۔ حضرت کی شخصیت بین الاقوامی تھی، لیکن ذرہ ناچیز کو مثل گوہر بنانا انہیں خوب آتا تھا۔ میرے جیسے ان کے بے شمار خوشہ چیں ہوں گے جنہوں نے ان سے کسب فیض کیا ہوگا، میں نے اپنے ایام طالب علمی میں ان کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا اس زمانے میں ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی بقاء و ارتقاء کے لئے کوشاں معدودے چند ملت اسلامیہ کے مخلص و بے باک قائد ین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مولانا زندگی بھر ملت اسلامیہ ہند کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں وسرگرداں رہے، تعلیمی میدان سے لے کر سیاست کی وادیوں تک وہ مسلمانوں کو اگلی صف میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے قائم کردہ رحمانی 30کے لئے ملت ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی۔
ان کے دینی، ملی و سیاسی افکار و خدمات کی وجہ سے میں ان کے لئے اپنے دل و دماغ میں یک گونہ قربت محسوس کرتا تھا، اس لئے جب کبھی ان کے دہلی آنے کی خبر ملتی میں کوشش کرتا کہ ان سے استفادہ کا کوئی موقع و دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ حضرت کو میں نے ہمیشہ ملت کے غم وفکر میں مبتلا پایا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ چاہتے ہوں کہ پسماندگی کی شکار ملت اسلامیہ ہند کس طرح اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرلے۔ تعمیر ملت کی فکر انہیں ورثے میں ملی تھی ان کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ندوة العلماء کے بانیوں میں سے تھے اور والد ماجد مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تھے، لیکن افسوس کہ ہم نے ان کی اتنی قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔
میں نے اپنی بساط بھر ان سے کسب فیض کیا اور آج ملت اسلامیہ ہند کی جو کچھ بھی خدمت مجھ ناچیز سے بن پارہی ہے یہ سب اسی عظیم شخصیت کا فیض ہے۔ حضرت جب امیر شریعت بنے تو میں نے پٹنہ میں ان کے لئے ایک استقبالیہ پروگرام رکھا ،جس میں قدآور سیاسی شخصیات شریک محفل ہوئیں مثلاً جناب لالو پرساد یادو اور جناب نتیش کمار بھی اس تقریب میں شریک تھے، کچھ لوگوں کو حیرت بھی ہوئی کہ حضرت تو ایک دینی عہدہ پر فائز ہوئے ہیں اس قسم کی محفل میں بھلا ان سیاسی لوگوں کی کیا ضرورت ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی کوتاہ بینی تھی وہ حضرت کی زندگی کا محض ایک رخ دیکھ رہے تھے، حضرت اس سے قبل بہار قانون ساز کونسل کے معزز رکن رہ چکے تھے۔ ان کی شخصیت دین اور سیاست کا ایک حسین امتزاج تھی۔
حضرت سے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے ملت اسلامیہ کی خدمت اور اس کے طریقہ کار پر قیمتی نصیحتیں گوش گزار کیے۔ میں ان نصیحتوں کو اپنے لئے سرمایہ حیات سمجھ کر ذہن دماغ میں محفوظ کرلیتا۔ آج ان کی دی گئی ہدایتیں میرے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت سے میری بے شمار یادیں اور باتیں جڑیں ہیں اور ان دونوں کا لامتناہی سلسلہ ہے بقول
آئی جوان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
حضرت آج ہمارے بیچ نہیں ہیں لیکن ملت اسلامیہ جب بھی کسی گرداب میں پھنسے گی حضرت کا کارنامے ان کے لئے سفینۂ حیات کا کام کریں گے۔
حضرت نے اپنے پیچھے کارناموں کا انبار چھوڑا ہے۔ مستقبل کا مؤرخ جب ان کے کارناموں کے بارے میں لکھے گا تو یقیناً اسے لکھنا پڑے گا کہ مسلمان کے دورِ انحطاط و اضمحلال کا وہ ایک چمکتا آفتاب ستارہ تھے جس کی روشنی سے امت صدیوں روشنی حاصل کرتی رہے گی۔
ہرگز نمیرد آن کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
حضرت نے ملت کے لئے جن تحریکوں کا آغاز کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔