بلند پایہ ادیب و مفکر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی: دور جدید کی عظیم شخصیت

محمد طلحہ برنی

ریسرچ اسکالر آف دہلی یونیورسٹی
سارا جہان علم و ادب سوگوار اور تعزیت کا مستحق ہے کہ علم و ادب کا ایک درخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ عربی اور اردو کے بلند پایہ ادیب، دارالعلوم دیوبند کے موقر استاد و ماہ نامہ الداعی کے ایڈیٹر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی کی وفات وحشت اثر سن کر دل بیٹھ گیا۔ پچھلے کچھ مہینوں سے آئے دن کسی نا کسی رشتے دار یا متعلق کی وفات کی غم انگیز خبریں ملنے سے دل پہلے ہی بہت رنجیدہ و مضطرب تھا کہ حضرت الاستاذ کے چھوڑ جانے کی اطلاع نے دل و دماغ کی وہ حالت کردی ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں میری طالب علمی کے زمانے کی ان کی مختلف یادیں خانۂ خیال میں گردش کر رہی ہیں، ان کی ممتاز شخصیت اور منفرد شبیہ کی انمول تصویر دماغ کی اسکرین پر ابھر کر دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ حضرت الاستاذ گندمی رنگ، چھریرا اور متوسط القامت بدن، پر وقار و بارعب چہرہ، قدرے کشادہ پیشانی، مناسب ناک، شستہ و شایستہ و شگفتہ طرز گفتگو کے حامل، اپنے خد و خال و پرسنالٹی کے اعتبار سے دل کش و جاذب نظر تھے۔
مہذب و منظم انسان کا وہ اعلی نمونہ تھے ان کی سیرت و سلوک سے اندازہ ہوتا تھا کہ زندگی جینے کے فن کے ماہر ہیں۔ ان کے رہن سہن بود و باش یا زندگی میں برتی جانے والی کسی بھی چیز میں بدنمائی و بے ڈھنگا پن نہیں ہوتا تھا۔ ان کے روز و شب کے سرگرمیاں انتہائی منظم و مرتب ہوتی تھیں ہر چیز میں سلیقہ مندی و ڈسپلن کا اعلی معیار قائم رکھتے تھے ۔
حضرت اصول پسند انسان تھے اور یہ اصول پسندی ان کی طبیعت سلیمہ کا ہی فیضان تھی کہ اس کی جلوہ کاری تمام کارہائے حیات میں نمایاں تھی۔
سردی ہو یا گرمی بنا شیروانی زیب تن کیے گھر سے باہر نہیں جاتے تھے خوب صورت و جاذب نظر رنگ کی شیروانی اور اسی رنگ کی نہرو ٹوپی، ہاتھ میں عصا اور عمدہ قسم کے جوتے پہنتے تھے۔ شوگر کے مرض کے باوجود زندگی میں ڈسپلن اور اس کی خوبی و رعنائی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند میں تکمیل ادب کے سال حضرت کی خدمت میں رہنے اور حضرت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ ان کے پاس جانے کا بار بار جی چاہتا اور جب بھی ان کے پاس سے اٹھتے جی برا ہوتا۔
خوردونوش کی اشیاء میں کوالٹی سے کبھی کمپرومائز نہیں کرتے کبھی دعوت کرتے تو برابر میں بیٹھ کر کھانے کے آداب سکھاتے۔ صفائی ستھرائی کا، پودوں میں پانی ڈالنے کا طریقہ دروازہ کھولنے و بند کرنے کا طریقہ بتاتے۔ نستعلیقیت و خوش وضعی کا ہر چیز میں خیال کرتے۔ غلطی پر کبھی نرمی اور کبھی ڈانٹ کر متنبہ کرتے لیکن کچھ لمحوں سے زیادہ ناراض نہیں ہوتے اور پھر دل جوئی کی بھی کوشش کرتے۔ حضرت کی شخصیت بلا شبہ منفرد اور بہت دلچسپ تھی۔
حضرت بے حد مقبول مدرس اور طلباء میں غایت درجہ محبوب تھے زبان و لہجہ پاکیزہ، آواز صاف وواضح،اور ہر لفظ سے ادبی چاشنی ٹپکتی تھی۔ حضرت کے درس کی مقبولیت کا راز ایک طرف ان کے ادب میں غایت درجہ کمال میں پنہاں تھا تو دوسری طرف ان کے حسن بیان اور دل ربا طریقہ تدریس میں. وہ درس کی رونق میں اضافے کے لیے کبھی طنز و مزاح کا سہارا لیتے اور کبھی انتہائی معنی خیز، اشارہ ریز اور بے ساختہ فقروں سے مجلس درس و مجلس گفتگو کو زعفران زار بنادیتے
حضرت کی سرگرمئ حیات کا خلاصہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے سوا کچھ نا تھا۔ وہ عربی و اردو کے بلند پایہ ادیب اور منفرد و مستقل منہج و اسلوب رکھنے والے انشاء پرداز و قلم کار تھے دونوں زبانوں میں ان کے قلم کے ضوء افشانی ایسی ہوتی کہ دقیقہ رس ناقد کو بھی زبان کی ساختیات، اسلوبیات و ترکیبات میں کوئی کمی تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکتی تھی. ادباء و نقاد کے درمیان حضرت ایک سند کا درجہ اور ہزاروں ادباء و قلم کاروں کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔
نسل نو کے شعراء و ادباء اور اہل قلم کی زبان و محاورات کے تعلق سے غلطیوں پر بہت آزردہ ہوتے۔
عربی و اردو دونوں زبانوں کی تعبیرات و محاورات، الفاظ کی اصل و ان کے استعمالی سفر، صحت تلفظ اور قواعد نحو و صرف پر ایسی غائرانہ نظر تھی کہ ان کے ہم عصروں میں کم ہی لوگوں کو رہے ہوگی چناں چہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ بہت سی ایسی غلطیوں کی تصحیح کی جن کو حقائق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا۔ ان کی تحریر نیی نیی ترکیبوں و خوش نما ساختیات سے بھری ہوئی ہوتی بل کہ خود بھی ایسی ایسی تعبیرات تراشتے جو جدت و جمال کا پیکر ہوتیں۔
علم و تحقیق کے باب میں عرق ریزی ان کا لذت انگیز مشغلہ تھا اس راہ میں وہ جتنا پریشان ہوتے اتنا ان کو مزا آتا۔ عالم اسلامی کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان کا اسلامی حل پیش کرتے، قضیہ فلسطین و بیت المقدس سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔
بیشک حضرت دور جدید کی ایک عظیم شخصیت تھے حضرت کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں لگتی۔ اللہ حضرت کی مغفرت فرمائے اور اس امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی سوانحی خاکہ:
مکمل نام :نور عالم خلیل امینی۔
والد کا نام: حافظ خلیل احمدبن رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی۔
کنیت :ابو اسامہ نور۔
تاریخ پیدائش:18 دسمبر 1952ء مطابق یکم ربیع الآخر 1382ھ۔
وطن اصلی: (ددھیال) رائےپور (RAIPUR)حال ضلع سیتامڑھی، سابق ضلع مظفر پور، بہار۔
جائے پیدائش :ننھیال ہرپور بیشی (HARPUR BESHI)ضلع مظفر پور، بہار۔
بچپن: جب آپ تین ماہ کے تھے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس وقت مولانا کی ماں صرف انیس سال کی تھیں، والدہ محترمہ کی دوسری شادی محی الدین بن محمد نتھو سے ہوئی جو مولانا کے چچیرے ماموں بھی تھے ۔مئی 1967 میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔گویا آپ کی والدہ کم عمری ہی میں غالباً چونتیس سال کی عمر میں دو مرتبہ بیوہ ہوگئیں۔
دادی مقیمہ خاتون نے والد کے انتقال اور شیرخوارگی کے بعد ابتدائی پرورش و پرداخت کی، دادی کے انتقال کے بعد بقیہ پرورش والدہ محترمہ نے کی۔
تعلیم و تربیت :قاعدہ بغدادی کی شروعات نانا جان سے کی، اس کے بعد رائے پور میں مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ نور الہدی پوکھریرا، اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں کچھ مدت تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم مئو میں 1964ء مطابق 1383ھ میں درجہ عربی اول داخلہ لیا۔
اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں 16/ شوال/ 1387ھ مطابق 20 /دسمبر/1967ء میں داخلہ ہوا
دارالعلوم دیوبند کے بعد مدرسہ امینیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اور اسی مدرسے کی طرف امینی نسبت ہے۔

مشہور اساتذہ:مولانا عبدالحق اعظمی سابق شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان صاحب، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، مولانا شریف الحسن صاحب ، مولانا قمرالدین گورکھپوری مدظلہ، مولانا خورشید احمد دیوبندی، مولانا حامد میاں صاحب، مولانا بہاءالحسن مرادآبادی، میں مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی۔

تدریسی خدمات : دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تقریباً دس سال جون 1972ءسے 1982ء تک، دارالعلوم دیوبند میں تقریباً انتالیس سال 1982 سے تاوفات۔

اردو تصنیفات :(1)” وہ کوہ کن کی بات”. (2)پس مرگ زندہ. (3)رفتگان نارفتہ( زیر طبع).(4) فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں.(5) صحابہ رسول اسلام کی نظر میں.(6)کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟.(7) عالم اسلام کے خلاف صلیبی صہیونی جنگ.(8) حقائق اور دلائل.(9) حرف شیریں. (10)خط رقعہ کیسے لکھیں.
عربی تصنیفات: (1)مجتمعاتناالمعاصرة والطریق إلی الإسلام.(2)المسلمون في الہند.(3) الدعوة الاسلامیہ بین الأمس والیوم.(4) مفتاح العربیة،( دوجلدیں).(5) العالم الھندي الفرید :الشیخ المقري محمد طیب.(6) فلسطین في انتظار صلاح الدین.(7) الصحابۃ ومکانتہم في الإسلام. (8)من وحي الخاطر (پانچ جلدوں میں إشراقة کا مجوعہ)۔
تراجم اردو سے عربی :تقریباً پچیس کتابوں کا اردو سے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے جس میں سے مشہور یہ کتابیں ہیں
1 عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح (مولانا سید ابوالحسن الندوی) التفسیر السیاسی للاسلام فی مرآۃ کتابات الاستاد ابی الاعلی المودودی والشھید سید قطب
2 پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں (مولانا سید ابو الحسن علی ندوی) احادیث صریحۃ فی باکستان
3 مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت (مولانا سید ابو الحسن علی ندوی) الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد الیاس الکاندھلوی

4 حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق (مفتی تقی عثمانی) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فی ضوء الوثائق الاسلامیہ
5 عیسائیت کیا ہے؟ ماھی النصرانیہ (مفتی تقی عثمانی)
6 علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج (حکیم الاسلام قاری محمد طیب) علماء دیوبند واتجاھم الدینی و مزاجھم المذہبی۔
7 من الظلمات الی النور (کرشن لال) مأساۃ شاب ھندوسي اعتنق الإسلام ۔
8 ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد (مولانا حسین احمد مدنی) الحالۃ التعلیمیہ في الھند فیما قبل عھد الاستعمار الإنجلیزي وفیما بعدہ۔
9 ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت (مولانا منظور احمد نعمانی) الثورۃ الإیرانیة في ضوء الإسلام۔

10 بر صغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے خلاف پروپیگنڈے کے علمائے حق پر اثرات (مولانا منظور احمد نعمانی) دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمد بن عبد الوھاب النجدي ۔
11 دعوت اسلامی مسائل و مشکلات (مولانا امین احسن اصلاحی) الدعوۃ الإسلامیة قضا یا و مشکلات
12 مقالات حکمت، ومجادلات معدلت (حکیم الاسلام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) لآلی منثورۃ في التعبيرات الحکیمة عن قضایا الدین و الأخلاق والاجتماع۔
13 اشتراکیت اور اسلام (ڈاکٹر خورشید احمد) الاشتراکیۃ والإسلام( مولانا سعید الرحمن ندوی کے ساتھ)۔
14حضرت مدنی کے مختلف مضامین کا ترجمہ. بحوث في الدعوۃ والفکر الإسلامي۔
مضامین و مقالات :ہندوستان و پاکستان و مختلف عربی ممالک سے شائع ہونے والے اردو عربی رسائل میں تقریباً پانچ سو مضامین و مقالات شائع کیے جاچکے ہیں۔
ایڈیٹر: آپ اکتوبر 1983ء سے تا وفات دارالعلوم دیوبند کے مشہور ماہ نامہ “الداعی” کے ایڈیٹر رہے۔
اعزاز :عربی زبان کی خدمات کے صلے میں آپ کو صدرِ جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے حکومت ہند کی طرف سے 4/4/2019 کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔

تاریخ وفات: 3/مئی/2021ء مطابق 20 رمضان 1442ھ۔
پسماندگان :اہلیہ کے علاوہ چار لڑکیاں اور تین لڑکے۔

(سوانحی خاکہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ جناب مولانا عمر فاروق قاسمی کی تحریر سے ماخوذ ہے، چوں کہ حضرت الاستاذ نے یہ تفصیلات تواریخ کے ساتھ ان کو لکھوائیں ہیں اس لیے میں اس کو معتبر سمجھتا ہوں)