عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

معصوم مرادآبادی

کیا آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی کسی عید کا تصور کیا تھا ، جس میں آپ نہ تو عیدگاہ جاکر دوگانہ ادا کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے چہیتوں سے بغل گیر ہوسکیں گے اور نہ ہی آپ کو اپنے عزیز واقارب کے گھر جاکر عید کے لذیذ پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت ہوگی۔ شاید نہیں ،لیکن یہ ایسی دوسری عید ہے جس میں لاک ڈاؤن کی بندشوں تحت نہ توآپ کو عیدگاہ میں نماز عیدالفطر ادا کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اپنے چہیتوں کو گلے لگا نے کی۔ یہاں تک کہ ان سے ہاتھ ملانے پر بھی پابندی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے حکومت کی گائیڈ لائن پر عمل کرنے کے لیے عید پرجو ہدایت نامہ جاری کیا ہے ، اس میں ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔یعنی ہر عید پر سب سے زیادہ دوہرائے جانے والے اس شعر کی معنویت بھی اب ختم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگاکر ملئے
رسم دنیا بھی ہے، موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے
جی ہاں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے ہم سب کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔قربتیں فاصلوں میں بدل گئی ہیں۔ ہروقت ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں کہ گویا کبھی کوئی راہ ورسم ہی نہیں تھی۔ ماحول میں بڑی بے کیفی ہے ۔وباکی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ایسی خبر مل رہی ہے جس کو سن کر دل بیٹھتا چلا جارہا ہے۔جیسے جیسے کورونا کی مہلک وبا کا دائرہ بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے لوگ اپنے دائروں میں سمٹتے چلے جارہے ہیں۔
اب موبائل فون ہی واحد وسیلہ ہے جس کے ذریعہ ہم ایک دوسرے کی خیریت دریافت کررہے ہیں۔
نہ تو عید کے پکوانوں کا کوئی لطف ہے اور نہ ہی شیرینی میں وہ مٹھاس۔ نہ نئے کپڑوں کا چمک دمک باقی رہی ہے اور نہ ہی عید کے میلے ٹھیلوں کی رونقیں۔عید سے پہلے سارے بازار بند ہیں۔ وہ بازار جہاں عید کی خریداری کرنے والوں کے کھوے سے کھوا چھلتا تھا، اب وہاں سناٹا چھایا ہواہے۔ہمارے ارد گرد نہ جانے کتنے ایسے گھر ہیں جہاں کورونا اموات کے سبب ماتم چھایا ہوا ہے۔ کتنے ہی لوگ اس مہلک وبا کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ ان میں ہر عمر کے لوگ ہیں۔ کورونا کے پچھلے دور میں صرف عمررسیدہ اور بزرگ لوگ ہی ہم سے بچھڑے تھے، لیکن اس بار تو نہ جانے کتنے جوان اور ہنستے مسکراتے چہرے ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں۔نہ جانے کتنے دوست احباب ایسے ہیں جن سے برسوں کی شناسائی تھی ، لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ان کی جدائی کاغم اتنا گہرا ہے کہ انھیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ہم نے واقعی زندگی میں ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسے ماحول میں بھی کوئی عید آئے گی کہ اس کے آنے اور جانے کا کوئی احساس ہی باقی نہیں رہے گا۔شاید ظفراقبال نے ان ہی حالات کے لیے یہ شعر کہا تھا۔
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
عید کا تہوار تو خوشی اور مسرت کا تہوار ہے، جسے ہم اپنے بچپن سے مناتے چلے آرہے ہیں۔آج سے پچاس سال پہلے کی عید کو یاد کرتا ہوں تو ذہن پر کیسی خوشگوار یادوں کے نقوش ابھرتے ہیں۔ یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا، جب ہم واقعی معصوم ہوا کرتے تھے۔حالانکہ زندگی کے تھپیڑوں نے اس معصومیت کو اب کہیں گم کردیا ہے، لیکن اس سہانے دور کی یادیں تو ابھی باقی ہیں۔کیسے نرالے دن تھے کہ جب ہم رمضان شروع ہوتے ہی شدت کے ساتھ عید کا انتظار شروع کردیتے تھے۔ایک ایک روزہ اس انتظار میں گزرتا تھا کہ جلدی سے عید آجائے۔ مگر عید تو اپنے وقت پر ہی آتی تھی۔ یوں تو رمضان کے تیس روزے فرض ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوا کہ پورے تیس روزے رکھے گئے ہوں۔ اکثر 29 ویں شب میں عید کا چاند دیکھنے کی ہی جلدی ہوتی تھی اور عید کے شوقین کہیں نہ کہیں سے اس کی خوش خبری لے آتے تھے۔ اکثر یوں بھی ہوا کہ سحری کرتے وقت چاند کی رویت کا اعلان ہوا اور عید کے شادیانے بجنے لگے۔
کتنی مشکل سے فلک پہ یہ نظرآتا ہے
عید کے چاند نے بھی انداز تمہارے سیکھے
ہمیں یاد ہے کہ جب ہم عید کی صبح نئے کپڑے ، نئے جوتے پہنے ہوئے اپنے والد کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے تھے تو وہاں فرزندان توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا تھا۔نماز کے بعد سڑکوں پر بچوں کی دلچسپی کاہر سامان دستیاب ہوتا جسے ہم ضد کرکے خریدتے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اس کا قصہ بھی تمام کردیتے۔ عیدی اتنی ملتی تھی کہ چھوٹی سی جیب بھر جایا کرتی تھی، مگر وہ نوٹوں کا زمانہ نہیں تھا۔ ہمیں چارآنے، آٹھ آنے ہی عیدی کے طورپر ملتے تھے، مگر ان میں جو برکت تھی وہ آج سینکڑوں روپوں میں بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا تھا کہ ہماری جیب اشرفیوں سے بھری ہو اور ہم ہی شہر میں سب سے امیر ہوں۔ مرادآباد کی عیدگاہ میں نمازدوگانہ کی ادائیگی کے بعد ہم اپنے ابو کی انگلی پکڑ کر سب سے پہلے دادا اور دادی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے قبرستان جاتے تھے۔ اس کے بعد قریب ہی ایک عزیز کے گھر جاتے جہاں عید کے پکوان ہمارے منتظر ہوتے تھے۔ سوئیّاں ، دہی بڑے، پلاؤ، شامی کباب اور شیر کھاکر طبیعت سیر ہوجاتی تھی۔یہ تمام اشیاء ہمارے گھروں کی خواتین پوری پوری رات جاگ کر تیار کرتی تھیں۔پتھروں کی سلوں پر اڑد کی دال پیسی جاتی اور اس کے دہی بڑے بنائے جاتے ۔رات ہی کو پلاؤ کی یخنی بھی تیار ہوجاتی۔ شامی کبابوں کا قیمہ بھی پتھر کی سلوں پر اتناباریک پیسا جاتا کہ آپ اسے ہونٹوں سے کھالیں۔جب سے ہمارے باورچی خانوں میں مکسی آئی ہے تب سے دہی بڑوں ، کوفتوں اور شامی کبابوں کا لطف ہی جاتا رہا ۔آج میں سوچتا ہوں کہ ہماری ماں، بہنیں کھانے کی تیاری پر کیسی کیسی محنتیں کرتی تھیں۔عید کی صبح جب ہم بیدار ہوتے تو کرتا، پائجامہ ، نیا بنیان ہمارے منتظر ہوتے۔ہمارے کپڑے گھر میں ہماری والدہ یا بڑی بہنیں سیتی تھیں۔ اب تو ریڈی میڈ کا کپڑوں کا ز مانہ ہے۔کسی کاکرتا چھوٹا تو پائجامہ بڑا اور کسی کا پائجامہ چھوٹا تو کرتا بے ڈھب۔ اسی کانام فیشن پڑ گیا ہے۔
عید کی بیشترخریداری اب بازاروں سے ہوتی ہے۔ عید کے تہوارسے کتنوں کی روزی روٹی وابستہ ہے ، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے سال صرف دہلی کے تاجروں نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن میں عید کی خریداری نہ ہونے کے سبب انھیں 300 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔عید اور دیوالی ہی تو ایسے دو تہوار ہیں جن میں خریداری خوب ہوتی ہے اور دکاندار پورے سال ان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔پچھلے سال کی طرح اس سال بھی عید کے موقع پر تمام بازار بند ہیں۔بڑی مارکیٹوں کا تو کہنا ہی کیا وہ ہفتہ واری بازار جو غریبوں کے سرچھپانے کے کام آتے ہیں ، وہاں بھی ہفتوں سے سناٹا چھایا ہوا ہے۔غریب ریڑھی پٹری والے دکاندار بھی پیسے پیسے کو محتاج ہوگئے ہیں۔کتنے ہی غریبوں کے گھروں میں اس بار عید پر اداسیوں کا ڈیرا ہوگا۔ ایک عید سے کتنے گھروں میں چراغ جلتے ہیں ، اس کا آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے ۔ جب عید کی خوشیاں ماند پڑجائیں اور ان چراغوں میں جلنے والا تیل ہی میسر نہ ہو تو تاریکیوں کا مہیب ہوجانا لازمی ہے۔آئیے اس موقع پر ان نادار اور غریب انسانوں کی کچھ دادرسی کریں جنھوں نے اس وبائی دور میں اپنا سب کچھ کھودیا ہے اور وہ اس شعر کی تعبیر بنے ہوئے ہیں۔
لبوں پہ رنگ تبسم ، نہ دل میں موج سرور
میرے وطن کے غریبوں کی عید کیا ہوگی

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں