مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ)
بڑے عالم دین، نامور خطیب، بہترین منتظم، اچھے ادیب، مشہور صحافی و شاعر، مدرسہ امداد الاسلام صدر بازار میرٹھ کے ناظم و شیخ الحدیث ، امارت شرعیہ کی مجلس ارباب و حل و عقد کے رکن، اکابر امارت سے گہرا تعلق رکھنے والے اور مختلف انداز میں امارت کے معاون، گنگا جمنی تہذیب کے داعی، ہندو مسلم اتحاد اور قومی یک جہتی کے علم بردار مولانا محفوظ الرحمن شاہین جمالی کا آنند اسپتال میرٹھ میں ٢/جون ٢٠٢١ء مطابق ٢٠/شوال ١٤٤٢ھ بروز بدھ دن کے ایک بج کر سینتالیس منٹ پر انتقال ہوگیا، ان کی عمرچوہترسال تھی، انہیں سانس لینے میں تکلیف تھی ، بلڈ پریشر ہائ تھا، وہ شوگر کے پرانے مریض تھے، ٤مئی کو انہیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا، دوبار وینٹی لیٹر پر جا چکے تھے، بالآخر وقت موعود آگیا اور ملک الموت نے اپنا کام کردکھایا، اور ملک الموت کی کیا مجال، مولانا کی دنیا سے رخصتی کا یہی وقت اللہ نے مقرر کیا تھا، بقیہ سب تو بہانہ ہے، اِنَّ اَجَلَ اللہ اِذَا جَا لَایُوَخَّر جب اللہ کا مقررکیا وقت آجائے تو وہ مؤخر نہیں ہوتا، پس ماندگان میں دولڑکے محمود الرحمٰن، مشہود الرحمٰن ایک لڑکی اور اہلیہ محترمہ ہیں، مولانا کی تدفین ان کے پانچ سال پہلےقائم کردہ مدرسہ معھد المجید گھوسی پور ہاپور روڈمیرٹھ کے احاطہ میں ہوئی۔جنازہ کی ایک نماز امدادالاسلام میں بعد نماز مغرب اور دوسری نماز بعد نماز عشامعھدالمجید میں انکے صاحب زادہ مشہودالرحما ن نے پڑھا ئ
مولانا محفوظ الرحمن شاہین جمالی کی ولادت موجودہ ضلع مشرقی چمپارن کے کھروہی گاؤں میں ہوئی، انہوں نےابتدائی عربی تعلیم جوکھا نیپال کے ایک مدرسہ میں پائ، عربی دوم سوم کی تعلیم مدرسہ نورالاسلام شاہ پیر گیٹ میرٹھ میں ہوئی؛ پھر دارالعلوم دیوبند چلے آئے، چار سال میں دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد تخصص کے لئے مطالعہ علومِ قرانی کے شعبہ میں داخل ہوئے اور مولانا احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ قرآن کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا (جو کتابی شکل میں مطبوعہ ہے)اوراول پوزیشن حاصل کی، میرٹھ اور دیوبند سے انہیں خاص تعلق تھا، اتفاق سے دونوں جگہ ان کی مادر علمی تھی؛چنانچہ تدریس کے لیے انہوں نے میرٹھ اور صحافت کے لیے دیوبند کی سرزمین کا انتخاب کیا وہ مولانا محمد عثمان صاحب سابق چئیرمین دیوبند اور نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے اخبار دیوبند ٹائمز کے٤٥ سال تک ایڈیٹر رہے، ان کے تعلقات دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ سے مضبوط تھے، دیوبند ٹائمز میں مستقل لکھتے رہنے کی وجہ سے ان کی ادبی صلاحیت انشاء پردازی اور شاعری کو فروغ ملا، ادھر میرٹھ میں رہ کر انہوں نے تدریس اور خطابت کے میدان میں لوگوں سے اپنا لوہا منوایا اور وہ بڑے خطیب، اچھے مدرس، محدث اور فقیہ کی حیثیت سے سامنے آۓ، انہوں نے اس درمیان تقابل ادیان پر مطالعہ شروع کیا، اس کے لئے سنسکرت کا جاننا ضروری تھا، چنانچہ انہوں نے سنسکرت سیکھنے کےلیےپنڈت بشیر الدین کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سنسکرت میں ایم اے کیا، ویدوں اور ہندؤں کی مذہبی چار کتابیں،رگ وید سام وید، یجروید، اتھروید اور پران کا تفصیلی مطالعہ کیا ان کتابوں کے گہرے علم اور ہندو میتھالو جی پر گہری بصیرت کی وجہ سے وہ چترویدی کے نام سے مشہور ہوئے، اس میدان میں ان کی مقبولیت غیر مسلم مذہبی رہنماؤں میں بھی تھی، ملک و بیرون ملک میں ان کی قدر و قیمت بڑھتی گئی، زندگی کے آخری دور میں بلانے والے خود ہی کہتے تھے کہ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز”
مولانا نے عرصہ دراز سے میرٹھ کو وطن ثانی بنا لیا تھا، بہار میں ان کی آمدورفت عام طور سے جلسوں میں شرکت کے لیے ہی ہوا کرتی تھی، اس موقع سے وقت نکال کر وہ اپنے عزیزو اقرباء سے مل آتے تھے اور گاؤں میں حاضری ہوجاتی تھی، آخری بار وہ حال ہی میں امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی رح کے وصال کے بعد دفتر امارت شرعیہ بغرض تعزیت تشریف لائے تھے، ان کے غیر ملکی اسفار بھی ہوا کرتے تھے، رمضان المبارک میں برطانیہ کی بعض مسجدوں میں دس دس دن ان کا خطاب ہوتا تھا اور لوگ انتہائی شوق سے ان بیانوں میں حاضر ہوا کرتے تھے، مولانا کی یہ ترقیات کسی بڑے خاندان اور بینرکے طفیل نہیں تھی؛انہوں نے اللہ کے فضل اور اپنی محنت اور ذاتی لگن سے یہ مقام حاصل کیا تھا، انگریزی میں ایسے لوگوں کو سلف میڈ(SELF MADE) کہا کرتے ہیں، ان کے انتقال پر استاذ محترم مولانا بدر الحسن قاسمی نے بجا فرمایا کہ
“ایک کامیاب اور مثالی آدمی رخصت ہوگیا، عوام و خواص میں مقبول شخصیت ہم سے جدا ہوگئ جو یقیناً علمی و دینی حلقوں کا زبردست نقصان ہے، ان کی موت سے صحافت، ادب، تدریس اور خطابت کے میدان میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے، اور غیر مسلموں پر اثر انداز ہونے والی ایک اہم شخصیت ہم سے جدا ہوگئ ہے”
مولانا مرحوم نے وید کے حوالے سے مسلمانوں کے معتقدات کو ثابت کرنے کے لئے کئی اہم کتابیں لکھیں، ان کی پچیس کتا بیں ہیں جن میں کیا اسلام پر اعتراض، دارالعلوم دیوبند کی تاریخ سیاست، دارالعلوم دیوبند کے چندا کابراور ہمعصر، انقلاب توحید، گھر واپسی خاصطور پر قابل ذکر ہیں ، ان کی تقریر کے موقع سے ان کتابوں کی اچھی خاصی مارکٹنگ ہوتی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتابیں لوگوں کو پسند تھیں اور لوگ اپنا مطالعہ وسیع کرنے کے لیے انہیں خرید کر پڑھا کرتے تھے، مولانا نے ترمذی شریف کی بھی ایک شرح لکھی ہے۔جس کا نام المسک الذکی ہے۔
مولانا شاہین جمالی کا اصل نام محفوظ الرحمن تھامولانا جمال الدین خستہ مکیاوی انکے استاد تھے وہ انہیں شاہین جمالی کہا کرتے تھے، مولانا نے اسے اپنے نام کا جز بنالیااور یہ نام ان کے اصل نام پر غالب آ ٓگیا
مولانا سے سے میرے تعلقات دور طالب علمی سے تھے، وہ دیوبند ٹائمز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس کے کاموں کو دیکھنے کے لئے دیوبند آیا کرتے تو دارالعلوم اپنے اساتذہ کی ملاقات کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوتے میں ان دنوں سجاد لائبریری کا صدر تھا، اس لیے سجاد لائبریری کی ترقی اور اس کے تحفظ کے لیے ان سے تبادلہ خیال ہوا کرتا تھا؛لیکن معاملہ خورد و کلاں کے مابین جو تعلقات ہوتے ہیں، ویسا ہی رہا، پھر جب میں فراغت کے بعد اپنے وطن لوٹا اور مختلف میدانوں میں میری شرکت ہونے لگی تو ہم لوگ کئی جگہ پروگرام میں ایک ساتھ رہے، بتیا کے امارت شرعیہ کانفرنس میں ان کی کئی تقریریں ہوئیں، ان کے صاحبزادہ بھی ساتھ تھے ، اس موقع سے انہوں نے بھی تقریریں کیں، بسیہا شیخ ضلع شیوہرکے ایک جلسہ میں بھی ہم لوگ ساتھ رہے، سخت بارش اور آندھی کا زور تھما تو ہم لوگوں کی تقریریں ہوئیں، پنڈال کے اڑ جانے اور میدان میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے جلسہ بے جان ہوگیا تھا؛لیکن مولانا کی سوچ تھی کہ آگئے ہیں تو مصرف ہونا چاہیے، لاک ڈاؤن سے قبل کئی سالوں تک برطانیہ میں مولانا سے ملاقات ہوتی رہی؛بلکہ لسٹروغیرہ میں تو ہم لوگ گھوم پھر بھی ایک ساتھ کرتے تھے، ہمارے میزبان بھائی فاروق برمی ہوتے تھے اور ان کے احمد بھائی گجراتی، دونوں کے مکان قریب قریب تھے، اس لیے ملاقات آسان تھی، برطانیہ میں کئی جگہ مولانا نے مجھے متعارف کرایا اور اس آن بان شان سے کرایا کہ ان کی تقریر کا سلسلہ ختم ہوتا تو کبھی کبھی مساجد والےمجھےبھی مدعوکرتے، اس معاملہ میں مولانا وسیع الظرف اور کشادہ قلب تھے، وضع قطع رکھ رکھاؤ سلیقہ کا تھا، اس معاملہ میں ہمارے جیسا لا ابالی پن ان کے اندر نہیں تھا، صافہ اور عمامہ لپیٹنے کے بعد ان کی شخصیت اور وجیہ ہوجاتی تھی، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمیناروں میں ان کی شرکت پابندی سے ہوتی تھی، ان کے مقالے وقیع ہوتے اور مفتیان کرام ان کی بحثوں سے مستفید ہواکرتے تھے، گویا فقہ، حدیث،ادب، صحافت، شاعری، تقابل ادیان اور انتظام و انصرام سب میں انہوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا، ایسی بافیض شخصیت کا ہم سے جدا ہوجانا انتہائی افسوسناک ہے، اللہ ربّ العزت ان کی خدمات کا انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اعلیٰ علین ان کا ٹھکانہ ہو آمین یا رب العالمین۔