سیاست کو نجاست سے پاک کرنا اہل علم کی ذمہ داری نہیں؟

 یہ صحیح وقت ہے جب آپ اپنی قوم ، مظلوم اور محروم طبقات کی آواز بن سکتے ہیں

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

گزشتہ دنوں جب مجھے کل ہندمجلس اتحاد المسلمین دہلی کی ذمہ داری دی گئی اورمیرے دوستوں کو معلوم ہوا تو الگ الگ تبصرے اور ری ایکشن موصول ہوئے۔جہاں بعض دوستوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے قدم کو درست کہا تو وہیں ایک بڑی تعداد نے اس قدم کو میری نادانی،بے حکمتی اور حماقت سے تعبیر کیا۔ان کی دلیل تھی کہ سیاست ایک گندہ کھیل ہے۔ یہاں رہ کر انسان منافقت کی روش اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اچھے اور تعلیم یافتہ کاروباری لوگوں کا کام ہرگز نہیں ہے۔ میرے ان محسنوں اور خیر خواہوں میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جو میرے سیاست میں آنے کو تو کسی قدر گوارا کررہا تھا لیکن اسے میری سیاسی جماعت پر اعتراض تھا۔اس کے نزدیک میں ایک کمیونل پارٹی میں شامل ہوگیا ہوں۔ ان کی رائے یہ بھی رہی کہ میرے اس قدم سے فرقہ پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے گا۔ بہر حال یہ سب میرے اپنے تھے اور میری ہی خیر خواہی میں مشورے دے رہے تھے، میں ان سب کا مشکور ہوں۔

سیاست کے تعلق سے نجس ہونے کی باتیں ہمارے دینی حلقوں میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ہمارے علماء کی اکثریت اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کرتی رہی ہے کہ یہ کام نیک لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔اس سے دور رہنا چاہیے۔کبھی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ چاروں خلفاءراشدین نے بھی حکومت و اقتدار کے فرائض انجام دیے ہیں،اس پر ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ زمانہ اور تھا،وہ پاکیزہ دور تھا،اب زمانہ خراب ہے۔اب سیاست اور حکومت و اقتدار کا میدان اس قابل نہیں رہا کہ اس میں قدم رکھا جائے۔میں سوچتا ہوں کہ یہ وہی سوچ اور فکر ہے جس نے ہمیں اقتدار سے بے دخل کیااور اسے ابلیس کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔غالباًیہ ہوا ہوگا کہ مسلم دور حکومت میں کوئی پارٹی سسٹم تو تھا نہیں،خاندانی حکومتیں تھیں،ان کے آپس میں ہی اقتدار کی جنگ تھی،رعایا کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔عوام کو اپنا بادشاہ منتخب کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔اس لیے مسلمانوں میں سیاست کا موجودہ جمہوری اور انتخابی تصور پیدا ہی نہیں ہوا۔ایک طویل زمانے تک علماءدرس و تدریس اور اصلاح و ارشاد میں ہی لگے رہے۔وہ اپنی خانقاہوں میں اپنے مریدین کی تربیت کرتے رہے،عوام ہو یا خواص حسب ضرورت ان سے استفادہ کرتے رہے،اس لیے آزادی کے بعد بھی وہ اس سے لا تعلق ہی رہے۔علماءنہ صرف لاتعلق رہے بلکہ انھوں نے مسلم عوام کو بھی اسے دنیا داری کا عمل کہہ کر اس سے لاتعلق کردیا،رفتہ رفتہ مسلمانوں کی نمائندگی اقتدار میں کم ہوتی گئی اور امت بے اثر ہوگئی۔۔جس کے انجام کے طور پر آج ہم اپنا سب کچھ لٹتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔دوسری بات یہ ہوئی کہ جو مسلمان امت کی نمائندگی کرنے اٹھے وہ امت کی فکر سے کوسوں دور تھے، انھیں صرف اور صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر تھی،ان کے نزدیک پارٹی کا مفاد امت کے مفاد سے زیادہ عزیز تھا،ان کے لب پارٹی وہپ کے پابند تھے۔اس کے نتیجے کے طور پر بھی ہم اپنی بے اثری اور تباہی دیکھ رہے ہیں۔

ان حالات میں مسلم دانشوروں کی ذمہ داری کیا صرف یہی ہے کہ وہ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر درد پر تبصرے کرتے رہیں،کالج کے پروفیسر، اسپتال کے ڈاکٹرس، عدالتوں کے جج اور وکیل، مسلم جماعتوں کے امراءو مشیر،اہل قلم اور اہل علم تماش بین بن کر رہ جائیں اور نتھو،جمن اورکلن اقتدار کے گلیاروں کو گندہ کرتے رہیں۔آخر ہمارا اہل علم اور اہل دانش طبقہ جو اپنے قلم کی سیاہی سے بھارت کے مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر کالم لکھ لکھ کر صفحات کے دفتر سیاہ کررہا ہے وہ خود میدان سیاست میں کیوں نہیں اتر جاتا۔کیا کبھی کسی گندے نالے کی گندگی اس میں اترے بغیر بھی صاف ہوئی ہے۔؟اگر اس کے لیے صفائی کارکن کو اس میں اترنا پڑتا ہے تو حکومت اور اقتدار کی نجاست کو صاف کرنے کے لیے آپ کیوں نہیں اترتے،براہ کرم یہ بھی فرما دیجیے کہ کب تک نہیں اتریں گے؟پرسنل لا ختم ہوا،سجدہ گاہیں چھن گئیں،اذانیں ناگوارلگنے لگیں،دستر خوان پر پابندیاں لگ گئیں،سر عام پیٹے جانے لگے،کھلے عام عزت و عصمت تار تار کرنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔پگڑیاں اچھالی جانے لگیں،کیا ابھی کچھ اور کھونا باقی رہ گیا ہے؟

رہی یہ بات کہ مسلمان اپنی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہو،بلکہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کا ہی حصہ بنا رہے۔یا خاموش رہے،کیوں کہ اس کے اس قدم سے بھی فرقہ پرستوں کو فائدہ ہوگا اور سیکولر جماعتیں کمزور ہوں گی،کیا ہمیں اپنے اس موقف کے تجزیہ کا وقت نہیں آگیا ہے؟کیا بی جے پی کو روکنے کی ہم نے تمام کوششیں کرکے نہیں دیکھ لی ہیں؟کیا وہ دن ہمیں یاد نہیں جب ہمارے ملی رہنماؤں نے حکم دیا کہ وہ بی جے پی کو ہرانے والی پارٹی کے امیداوار کو ووٹ دے کر کامیاب کرےں۔کیا حشر ہوا ہماری اس حکمت کا؟ سوائے اس کے کہ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی“۔آج بی جے پی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ فرما ہے۔اس کے بجائے جہاں مسلم سیاسی جماعتوں نے براہ راست اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا وہاں مسلمان بھی مضبوط ہوئے،ان کے حقوق بھی محفوظ رہے،فرقہ پرستوں کو اقتدار تک پہنچنے میں دشواری بھی ہوئی۔کیرالہ اور تلنگانہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔دوسری طرف اترپردیش ہے جہاں نام نہاد سیکولرسٹوں کی موجودگی بلکہ گٹھ بندھن کے باوجود مہاراج کا راج ہے۔اس لیے یہ سوچ مناسب نہیں ہے کہ ہماری اپنی قیادت سے کسی کا فائدہ اور کسی کا نقصان ہوجائے گا۔میرا مانناہے کہ مسلم سیاست سے خواہ کانگریس کمزور ہو یا بی جے پی مضبوط، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مجھے یہ سوچنا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کا بھلا کس میں ہے۔میرا ماننا ہے کہ اس گونگی امت کو اپنی زبان چاہئے،اس نے دوسروں کی خیر خواہی میں اپنا سب کچھ لٹادیا ہے،اس نے اپنے جوان بچوں کی لاشیں اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہیں،اس نے ملیانہ،ہاشم پورا،نیلی،بھاگلپور،گجرات،مظفر نگر اور حالیہ دہلی کے خون آلود منظر دیکھے ہیں۔اس نے دیکھا ہے کہ کس طرح مکانوں سے دھواں اٹھتا ہے؟اس نے سب کو آزما لیا ہے۔اب کوئی نہیں بچا ہے؟اس کو نہ لالو سے کچھ ملا ہے،نہ ملایم اور مایا سے۔اس لیے اسے راہل،ممتا اور کیجریوال سے بھی امید نہیں رکھنا چاہئے۔یہ نام نہاد سیکولرزم کے ٹھیکے داربھی آپ کو اسی وقت کچھ دے سکتے ہیں جب آپ ایک سیاسی قوت بن کر ان سے لینے کی پوزیشن میں ہوں۔

میں ملت کے تمام خیر خواہوں کو آواز دیتا ہوں کہ یہ صحیح وقت ہے جب آپ اپنی قوم کی،بھارت کے مظلوم اور محروم طبقات کی آواز بن سکتے ہیں،یہ ملک کو بچانے کا وقت ہے۔یہ آپ کا قانونی اور جمہوری حق ہے،آئین میںہر بھارت واسی کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا اختیار ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے چار ،پانچ فیصد آبادی والوں نے اپنی پارٹی بنا لی ہے۔آپ 15فیصد ہوکر بھی اس جانب متوجہ نہیں ہیں۔اس سے پہلے کہ یہ حق چھن جائے اس کا استعمال کیجیے۔اپنی سیاسی پارٹی بنانا قوم پرستی یا کمیونلزم نہیں ہے ۔کسی کا نقصان کیے بغیر اپنی قوم کی بات کرنا کمیونلزم نہیں ہے بلکہ کمیونلزم یہ ہے کہ باقی سب کا نقصان کرکے اپنی قوم کا بھلا چاہا جائے۔اپنے حصے کا کام کیجیے ،آئیے اپنی نسلوں کو محفوظ بھارت دینے کے لیے اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکلیے۔

(مضمون نگار دہلی ایم آئی ایم کے صدر ہیں )