ذاکر اعظمی ندوی
انڈیا اسلامی کلچرل سنٹر اور سیز چیپٹر اور تنظیم بسواس کی جانب سے کل شام شہر ریاض کے ایک مقامی ریستوران میں عظیم الشان علمی مذاکرہ منعقد کیا گیا۔ شہر ریاض کے اپنی نوعیت کے اس پہلے پروگرام کے مقرر خصوصی ماہر قانون، عالمی پیمانے پر دستوری قوانین پر مرجع کی حیثیت رکھنے والے مایہ ناز فرزند علی گڈھ، نالسر یونیورسٹی حیدر آباد کے وائش چانسلر جناب پروفیسر فیضان مصطفی صاحب تھے۔ یہ پروفیسر فیضان مصطفی ہی تھے جنہوں نے NDTV کے معروف اینکر روش کمار کے پرائم ٹائم کے دو روزہ پروگرام میں اپنی فاضلانہ، محققانہ، اور مدلل گفتگو سے یکساں سول کوڈ کے پورے قضیے کو ایک نیا موڈ دے دیا اور حکومت کو دفاعی پوزیشن میں ڈھکیل دیا۔
پروفیسر موصوف ڈھائی گھنٹے تک مسلسل اپنے اچھوتے عالمانہ انداز میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کےاقلیتی کردار ویکساں سول کوڈ کے مسائل پر پر مغز اور معلومات افزا گفتگو اس انداز سے کی کہ پورا مجمع پروفیسر صاحب کی فنی دقیقہ سنجی کے سحر میں گرفتار رہا اور ہل من مزید کی صدا لگتی رہی۔
قانون اور شریعت کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے پر پروفیسر فیضان مصطفی نے کہا “قرآن قانون کی کوئی کتاب نہیں بلکہ ایسا دستور حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے ان رہنما اصولوں پر گفتگو کی گئی ہے جو انسانی سماج کا جزء لا ینفک ہیں۔ قرآن وسنت اسلامی شریعت کے ماخذ ضرور ہیں مگر اسے Code of Law نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ شریعت کا مآخذ وحی الہی ہوتا ہے جبکہ قوانین انسان کی ضروریات اور معاشرہ کے اقتضاء کو مد نظر رکھتے ہوئے بذریعہ انسان وضع کئے جاتے ہیں۔ قوانین کی حیثیت آراء (Opinions) کی ہوتی ہے اور وہ وقتا فوقتا تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اسکے برعکس شریعت کے اندر انسان کو تبدیلی کا کوئی اختار نہیں”
وہ بات جس کا فسانہ میں ذکر نہ تھا
وہ بات انکو بہت نا گوار گذری
کے مصداق ایک کور چشم وانگریزی سے نا بلد (یاد رہے پروفیسر صاحب کی تقریر کا بیشتر حصہ انگریزی میں تھا) حضرت مولوی نے پروفیسر فیضان مصطفی صاحب نے جس سیاق وسباق میں یہ بات کہی تھی اس سے ہٹ کر یہ مفہوم کشید کیا:
“قرآن پاک قانون کی کوئی کتاب نہیں۔ مسلم پرسنل لاء کوئی خدائی قانون نہیں۔ علماء کرام وقت سے پہلے مسلم پرسنل لاء پر نظر ثانی کرلیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ حکومت ان پر اپنے قوانین تھوپ دے گی”
مولوی صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ فیضان مصطفی ہی نہیں بلکہ ہمارے متقدمین فقہاء میں سے کسی نے بھی قرآن کو قانون کی کتاب نہیں کہا بلکہ دستور حیات کا درجہ دیا ہے۔
بقول مشہور عالم واسلامی شریعت کے قانونی پہلو پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر عبد القادر عودہ، اسلامی شریعت اور انسان کے وضع کردہ قوانین میں بیادی فرق ہے:
“قانون انسان وضع کرتا ہے جب کہ شریعت اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعہ نازل کی جاتی ہے۔ انسانی قانون کے اندر بشری خطا کا مکمل امکان ہے اور اسے وقتا فوقتا تبدیل کیا جاسکتا ہے جب کہ (لا تبدیل لکلمات اللہ)کے اصول کے تحت شریعت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔
قانون سازی کے وقت حالات، ماحول، تاریخ اور عادات واطوار کو مد نظر رکھا جاتا ہے جن کے بدلنے سے قوانین بھی تبدل ہوجاتے ہیں، اس کے برعکس شریعت اس خالق کائنات کی نازل کردہ ہے جس کی تخلیق تمام انسانی اخطاء سے منزہ وپاک ہوتی ہے (اتقن کل شییء)۔ اس اصول کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ شریعت انسانی معاشرہ کی پیداوار نہیں بلکہ انسانی معاشرہ شریعت کا تخلیق کردہ ہے”۔
اتفاق سے ناچیز بھی مذکورہ پروگرام میں حاضر تھا، جس سیاق وسباق میں معزز مقرر نے کہا تھا کہ قرآن قانون کی کتاب نہیں بلکہ کتاب ہدایت ہے (َQur’an is the book of inspiration not book of law) اسے سمجھے بغیر بات کو صحیح انداز میں سمجھنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا تھا “قرآن ہمیں اصول دیتا ہے اسکی تشریح سنت رسول، صحابہ کرام، علمائے عظام کے اقول وافعال سے ہوتی ہے۔ فقہ اور قانون میں بنیادی فرق ہے. قانون کے اندر وقت اور حالات کے مد نظر تبدلی ہوتی رہتی اور پورے کا پورا قانوں یکسر تبدیل بھی کر دیا جاتا ہے لیکن احکام فقہ میں جوہری تبدیلی محض عقل انسانی کی روشنی میں نہیں کی جاسکتی”۔
اس پر طرہ یہ کہ ایک اردو صحافی نے نقل در نقل کی بنیاد پر اپنے نیوز پورٹل میں یہ سرخی لگائی:
“ڈاکٹر فیضان مصطفے کا قرآن کو قانونی کتاب ماننے سے انکار ، مسلمانوں میں شدید بے چینی ، علمی حلقوں کا سخت ردعمل”
میری جواں سوال ابھرتے ہوئے صحافی صاحب سے مودبانہ التماس ہے کہ سنسی خیز صحافت ضرور کیجئے مگر ذرا سنبھل کے، پہلے حقائق جاننے کی کوشش کیجئے، پھر سچائی کی بنیاد پر جتنی چاہئے سنسنی پیدا کیجئے مگر خدا را دروغ گوئی پر مبنی صحافت کے ذریعہ سستی شہرت کے طلبگار نہ بنئے۔
http://millattimes.com/7100.php
★★★★★
نوٹ : جناب ذاکر ندوی صاحب کی وضاحت اور ملت ٹائمز کی خبر میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ذاکر صاحب نے بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے قرآن بک آف لاء نہیں ہے جیسا کہ خبر میں ہے اس لئے ملت ٹائمز پر غلط خبر شائع کرنے کا الزام بے بنیاد ہے ۔خبر پر ردعمل قارئین کا ذاتی عمل ہے ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔(ادارہ)
ویڈیو دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کی کیا کہا گیا تھا۔آیا ملت ٹائم کا لگایا ہوا الزام درست ہے یا غلط؟
https://youtu.be/rV_p2yT71a4