یہودی انتہاپسندوں کا مارچ، اسرائیلی فورسز سے جھڑپ میں متعدد فلسطینی زخمی

 مقبوضہ بیت المقدس: مقبوضہ بیت المقدس میں انتہا پسند یہودی اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں پرچم بردار مارچ کررہے ہیں۔ وہ مشرقی القدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے نزدیک واقع علاقوں سے گذرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی فلسطینیوں سے دوبارہ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے جبکہ ان کا یہ پرچم بردار مارچ اسرائیل کی نئی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔

انتہاپسند یہود آبادکار اس سے پہلے 10 مئی کو مقبوضہ القدس میں یہ پرچم بردار جلوس نکالنا چاہتے تھے لیکن مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں فریقین میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور یہ اسرائیل اور غزہ کی حکمران حماس کے درمیان ایک نئی جنگ پر منتج ہوئی تھی۔اس گیارہ روزہ میں 260 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے تھے جبکہ بارہ اسرائیلی مارے گئے تھے۔
اسرائیلی پولیس نے منگل کے روز یہودی انتہا پسندوں کے مارچ سے قبل شہرقدیم میں واقع باب الدمشق کی طرف جانے والے علاقوں کا محاصرہ کر لیا تھا اور اس علاقے میں دائیں بازو کے مظاہرین کے اجتماع سے قبل فلسطینیوں کو پیچھے ہٹا دیا تھا۔
فلسطین ہلال احمر کی ایمبولینس سروس نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی پولیس نے باب الدمشق کے نزدیک اکٹھے ہونے والے فلسطینیوں کو منتشر کرنے کے لیے آواز پیدا کرنے والےگولے فائر کیے ہیں جس سے چھے فلسطینی زخمی ہو گئے جبکہ پولیس نے احتجاج کی پاداش میں 17 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
دوسری جانب فلسطینیوں نے اس مارچ کو’’اشتعال انگیزی‘‘ قرار دیتے ہوئے غزہ اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں یوم الغضب منانے کا اعلان کیا ہے۔غزہ میں حماس کے زیراہتمام اورغربِ اردن کے شہروں میں فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت فتح کے زیراہتمام اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی انتہاپسندوں کے مظاہرے سے قبل اس کے سنگین نتائج سے خبردارکیا تھا اورکہا تھا کہ قابض طاقت نے انتہاپسند اسرائیلی آباد کاروں کو مقبوضہ شہر کے قدیم حصے میں پرچم مارچ کی اجازت دے کرکشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔
حماس نے یہودی انتہاپسندوں کے مارچ کو اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی صلاحیتوں کے لیے ایک امتحان قراردیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے گذشتہ روزاس مارچ کی منظوری دی تھی اور اس کے لیے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ مارچ کے شرکاء اسرائیلی قوم پرستوں کی فلسطینیوں سے کوئی محاذآرائی نہ ہو۔
نفتالی بینیٹ خود انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ ہیں اور اس مارچ کا رُخ تبدیل کرنے سے ان کے مذہبی ووٹ بنک کے ارکان ناراض ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ1967ء کی مشرق اوسط جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا۔اس قبضے کی یاد میں ہرسال 10 مئی کو انتہاپسند یہودی مقبوضہ مشرقی القدس میں ریلی نکالتے ہیں اوروہ جان بوجھ کر فلسطینیوں کے علاقوں اور بالخصوص مسجداقصیٰ سے گذرنے کی کوشش کرتے ہیں،جس سے فریقین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اسرائیل نے بعد میں مقبوضہ القدس کو ریاست میں ضم کر لیا تھا لیکن امریکا کے سواعالمی برادری نے اس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ اب وہ پورے شہر کواپنا دائمی دارالحکومت قراردیتا ہےجبکہ فلسطینی مشرقی یروشلیم دارالحکومت کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں پر مشتمل اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مشرق اوسط کے لیے ایلچی تور وینسلینڈ نے یروشلیم میں کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شہر میں ایسے وقت میں کشیدگی میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے جب اقوام متحدہ اور مصر جنگ بندی کومستحکم بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں تمام فریقوں پر زوردیا کہ ’’وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسی کسی بھی اشتعال انگیزی سے گریز کریں جو ایک اور مسلح تصادم کا سبب بن سکتی ہو۔‘‘

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں