سیمانچل میں مولانا کبیر الدین فاران نے علماءکرام کی میٹنگ منعقد کی، سماجی اصلاح کی مہم چلانے کا فیصلہ

ارریہ: (پریس ریلیز) ضلع ارریہ میں سیمانچل علاقہ کے علمی اور روحانی علماءکرام کی ایک خصوصی مجلس تنظیم فلاح ملت پورنیہ کے بینر تلے حضرت مولانا کبیر الدین فاران مظاہری صدر تنظیم فلاح ملت پورنیہ کمشنر ی کی سر کر دگی میں منقعدہوئی۔
حضرت مولانا فاران نے حضرات علماءکرام کی اس خطہ میں مجاہدانہ کار کردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ”کسم پرسی میں گاو¿ں گاو¿ں مکاتب و مدارس کے جال پھیلانے والے علمائ کا شکریہ ادا کیا اوراپنے بیان میں کہا کہ حضرات علماء کی خصوصی توجہ اور بے پناہ قربانیوں سے مدارس اور مکاتب قائم ہوئے جس کے نتیجے میں یہاں کے مدارس کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی ان کی محنت کا ثمرہ نظر آرہاہے۔
اسی کیساتھ مساجدکا ہمہ جہت پیغام بھی آپ کی توجہ کا مستحق ہے،اسلئے کہ مساجد خدا کا گھر اور شعائر اللہ ہے یہاں سر جھکاکر عمل کی بلندی حاصل ہوتی ہے،یہاں سے زندگی اور معاشرے کو حیات بخش پیغام ملتا ہے اور مساجد کو مسلمانوں کی آبادی کا بڑا شعار قرار دیا گیا ہے۔ روئے زمین پر چھوٹی اور بڑی مسجدیں اور اس کے مینارے سے اللہ کی کبریائی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتاہے،ماضی میں مساجد صرف نماز کیلئے نہیں بلکہ درس و تدریس وعظ و تلقین، تذکیہ و تصفیہ،باہمی صلح و صفائی، مقدمات کے فیصلے اور قال اللہ اور قال الرسول کیلئے ہوتی چلی آرہی ہیں۔
حضرت مولانا فاران نے کہا کہ حضرات!علمائ کی مکمل توجہات اس کی بنیا دوتعمیر میں تھی یہ سب امور انجام دئے جاتے رہے لیکن فی زمانہ ان کی توجہات کا محور زیادہ تر مدارس و مکاتب رہے وہ پھولتے پھلتے رہے اور مساجد اب سمٹ کر صرف نماز کیلئے رہ گئی۔جس کا بڑا نقصان ہوا اب ضرورت ہے کہ حضرات علمائ کرام اس پر بھی توجہ مبذول فرمائیں۔اس کو ان خدمات کیلئے استعمال کریں جس کو ماضی میں ہمارے اسلاف نے کیا اور اس کی وسعت وہ ہمہ گیر پہلو¿ ں کو عوام کے سامنے رکھیں اس کی عظمت و حقائق سے ان کو آگاہ فرمائیں جس سے مساجد محروم ہیں،افسوس کہ ہمارے علاقہ میں اکثر دیہات کی مساجد میں نہ وقت پر اذان ہوتی ہے اور نہ ہی ائمہ کا تقرر ہوتاہے،دیگر خدمات کو تو سوچاہی نہیں جا سکتا۔
آج نئے نئے ادارے اور دار العلوم کے قیام کی خبریں آتی ہیں جس پر ذی استعداد علمائ کی توانائیاں صرف ہور ہی ہیں۔جوہری عمر اینٹ اور گارے کی محنت پر صرف ہورہی ہیں۔
حضرات! امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ? فرماتے تھے”ایک تو میں علمائ سے کہتا ہوں کہ وہ ایسا کریں کہ وہ اب دار العلوم کے نام پر ہر گز کوئی عمارت نہ بنائیں البتہ ایک ضروری کام یہ کریں جہاں حکومت کوئی یونیورسٹی یا کالج بنائے وہیں تم لوگ طلبہ کی رہائش کیلئے ہاسٹل بناؤ مدرسہ نہ ہو دار العلوم نہ ہو ہاسٹل ہو اور اس میں بس مسجد ہو اس ہاسٹل میں طلبہ کو مفت رہائش دی جائے شرط طے کی جائے بیٹا! جب تم اس ہاسٹل میں رہوگے تو نماز با جماعت پڑھو گے، صبح کی نماز کے بعد تین آیات درس قرآن اور عشائ کے بعد ۳/ احادیث کا درس دیا جائے پھر یہی لوگ کل کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر پہونچیں گے تویہ مولوی تو نہیں بنیں گے لیکن مولوی سے بیذار نہیں ہونگے، مولیوں سے نفرت نہیں ہوگی،یہ تمہارے قریب رہ چکے ہونگے،انہوں نے تم سے استفادہ کیا ہوگا۔
مزید حضرت مولانا مناظرا حسن گیلانی کی جو اپنے وقت کے بڑے عالم محقق اور مصنف تھے جن کی وسعت نظر اور وسعت مطالعہ کی نذیر اور مثال آسانی سے نہیں ملے گی رسوخ فی العلم ان کا امتیاز تھا خدا نے ان کو ملت کا در دوغم دیا تھا ان کا خیال تھا کہ مسلم بچوں کیلئے کالج اور تعلیم گاہوں کے قیام کر نے سے زیادہ ضروری اسلامی ہاسٹل یا اسلامی اقامت خانے قائم کرنا ہے جہاں ان کی پوری علمی،دینی، اخلاقی، اور فکر ی تربیت کی جاسکے جہاں ان کی نقل و حرکت پر نظر ہو اور ان کی صحیح نگرانی ہو اور ان کی زندگی کو ملت کیلئے مفید اور آئیڈیل بنایا جاسکے۔
مقدمہ”مکاتب گیلانی“ میں مولانا عبد الباری ندوی نے اس کی پوری تفصیل تحریر فرمائی ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید علی میاں ندوی نے سر کردہ علمائ کیساتھ اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مولانا گیلانی کی یہ تجویذ بڑی دینی بصیرت کا حامل ہے کہ انہوں نے اسلامی اقامت خانے کی تجویز پیش کی،جو کم ازکم ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس مسئلہ کا ایک علمی اور معقول حل ہے۔
مولانا فاران نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان دو اکابر کے اس قیمتی مشورے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی،تعلیمی ادارے بہت قائم ہوئے اور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی تمام تر تنظیمیں اور مالی صلاحیتیں اور فکری صلاحیتیں اس پر صرف ہو رہی ہیں یہ کام بھی بہت ضروری ہے۔ لیکن اسلامی ہاسٹل اور اقامت خانوں کے بغیر ان کی افادیت بہت کم ہے۔
کاش! امام انقلاب اور مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا اسلامی ہاسٹل کا خواب شرمندہ ءتعبیر ہوجاتا اورخلف وسلف کے اس قیمتی مشورے کو قبول کر لیتے تو آج امت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ بقیہ السلف اس عمل پر کمر باندھ لیں تو امت کا مستقبل راہ راست پر آجائے۔
قابل ذکر علماءجنہوں نے اس مجلس کو خطاب کیا(۱) حضرت مولانا اطہر قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت العلماءارریہ (۲)حضرت مولانا محمد قربان قاسمی (۳)حضرت مولانا محمد ذاکر حسین قاسمی (۴)حضرت مولانا شمس الزماں مظاہری (۵)حضرت مولانا محمد شاکر قاسمی (۶)حضرت مولانا محمد جابر حسین قاسمی (۷)حضرت مفتی ولی اللہ قاسمی (۸)حضرت مفتی اعجاز احمد قاسمی (۹)حضرت مفتی شمس توحید مظاہری (۰۱)حضرت مفتی انعام الباری (۱۱) حضرت مفتی غفران حیدار(۲۱) حضرت مولانا ارشد کبیر (۳۱) حضرت مولانا ابو صالح قاسمی

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں